آئی ایم ایف کا سحر اچھا یا برا

آئی ایم ایف کی تاریخ ہمارے ملک سے جڑی ہے۔

خبریں ہیں کہ آیندہ آنے والے چند مہینوں میں مہنگائی میں پچاس فیصد کے قریب اضافہ ہوجائے گا، اس طرح کی خبروں کے علاوہ بھی مہنگائی میں اضافہ رواں مہینے میں ہی ہوچکا ہے پھر پچاس فیصد کے قریب کا تصور کس حد تک پرسکون ثابت ہوسکتا ہے یہ آنے والے وقت پر ہی منحصر ہے۔

انتخابات میں کامیابی کے بعد نئی آنے والی حکومت کے بارے میں لوگوں کا کہنا تھا کہ اسے پہلے حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے لہٰذا اس سے زیادہ توقعات نہ رکھی جائیں لیکن پچھلی حکومتوں نے اپنے بھرپور تجربات سے ایسے ایسے گراں قدر کارنامے انجام دیے ہیں کہ جس کی بنیاد پر آج ہمارے ملک کا بچہ بچہ قرض کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے پھر اس نئی نا تجربہ کار حکومت کا آئی ایم ایف سے سات اعشاریہ چھ بلین ڈالرز کا قرضہ لینا بھی تجربات حاصل کرنے کی فہرست میں ایک عظیم کارنامہ ثابت ہوسکتا ہے۔

آئی ایم ایف کی تاریخ ہمارے ملک سے جڑی ہے۔ قرضے کا چکر آج سے نہیں ہے بلکہ پاکستان بننے کے محض سترہ اٹھارہ برس بعد ہی قرضے لینے کا عمل شروع ہوچکا تھا، جب پہلی بار جنرل ایوب خان نے 1965 میں 27.5 ملین ڈالرزکا قرضہ حاصل کیا تھا اور ڈھائی تین برس بعد ہی یعنی 1968 میں پاکستان کو پچھتر ملین ڈالرزکے قرضے کی ضرورت پھر پڑگئی، اگر اس مفروضے کو مان بھی لیا جائے کہ پاکستان سترہ اٹھارہ برس تک اپنے پیروں پرکھڑا ہونے کے قابل نہ تھا لہٰذا ضرورت پڑگئی پھر اسی دور میں پہلی بار پاکستان میں ڈیمز اور بیراجوں پر کام ہوا ۔ ایوب خان کے دور میں جب غالباً پندرہ پیسے شکرکی قیمت میں اضافہ کیا گیا تو عوام نے اپنے بھرپور غم و غصے کا مظاہرہ کیا اور حکومت نے عوام کے احتجاج پر یہ اضافہ واپس لے لیا تھا، اس دورکی ترقی کی باقیات آج بھی دیکھنے میں نظر آتی ہیں۔

قرضوں کا دوسرا دور پیپلز پارٹی کی حکومت سے شروع ہوا ، جو پہلی بار 1973 میں حاصل کیا گیا۔ پی پی پی کے آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنے کی داستان 1973 سے 2008 تک جڑی رہی جو ملین سے شروع ہوکر بلین تک جا پہنچی تھی اور ترقیاتی کام بھی اسی طرح جاری ہی رہے ہوں گے، گویا 80, 75, 73 اور پھر 2008 تک یہ دور جاری رہا۔

قرضوں کا تیسرا دور مسلم لیگ (ن) سے جڑا ہے جنھوں نے 1997 سے لے کر 2017 تک اپنے ادوار میں آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنے کا سلسلہ برقرار رکھا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان آگے اور پیچھے ضیا الحق اور پرویز مشرف کے دور بھی آئی ایم ایف کے جادوئی قرضوں سے اپنا پیچھا نہ چھڑا سکے۔ ضیا الحق نے سن اسی سے اکیاسی تک پہلے 1.2 بلین پھر 919 ملین ڈالرز کے قرضے حاصل کیے جب کہ پرویز مشرف بھی اس سلسلے میں پیچھے نہ رہے۔ انھوں نے سن 2000 سے 2001 تک 465 ملین ڈالرز اور ایک بلین ڈالرزکے قرضے حاصل کیے، اگر توجہ سے دیکھیں قلیل مدت میں طویل قرضے حاصل کرنے سے ہمیں کیا ملا اور ہمارا کیا کھویا ؟

پاکستان نے حالیہ حکومت کے قرضوں سے پہلے آئی ایم ایف کے 53.3778بلین ڈالرز کے قرضے حاصل کرلیے تھے۔آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنے سے کیا ہماری معیشت میں استحکام پیدا ہوسکتا ہے؟ کیا ہمارے ملک کی ترقی کے لیے آئی ایم ایف یا اسی طرح کے اداروں سے قرضے لینا ناگزیر ہے؟ بظاہر یہ پیچیدہ سوال ہیں لیکن درحقیقت یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہمارے پاس نہیں ہیں، لیکن نظر سب آتا ہے۔


60 کے عشرے سے لے کر اب تک بہت سے اداروں نے ترقی کی، نئے نئے ادارے وجود میں آئے، بیرون ملک کاروبار کیے گئے، رقومات منتقل ہوتی رہیں، بڑے قومی ادارے خسارے کی لپیٹ میں آتے گئے، یہاں تک کہ ان میں بہت سے اب چند دھکوں کے منتظر ہیں اور زمین بوس۔

ہم انفرادی طور پر بہت مضبوط ہیں، ہمارے اثاثے ہیں، جائیدادیں ہیں، کاروبار ہیں، اولاد بیرون ملک بادشاہوں کے بچوں کی مانند زندگی گزار رہی ہے، مہنگی تعلیم جاری ہے، مہنگی پرتعیش گاڑیاں کہ جن کی قیمتوں میں ایک بے گھر شخص کو اپنا گھر میسر ہوسکے، سب کچھ ہے لیکن ہمارا ملک معاشی طور پر بہت کمزور ہے، ہمیں اپنے ملک کو چلانے کے لیے پیسوں کی اشد ضرورت ہے، اس کے لیے ہمیں ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو پرانے زمانوں کے بنیوں کی مانند ہمیں قرضے فراہم کریں کیونکہ ہم مجبور ہیں،کیا ہم اپنی تمام مجبوریوں، پریشانیوں اور مسائل کا ٹوکرا نئی حکومت پر ڈال دیں اور خود اپنے ہاتھ جھاڑتے الگ ہوجائیں؟

پاکستان کے سابقہ آئی ایم ایف کے اکنامسٹ اور سابقہ ڈپٹی چیئرمین آف پاکستان پلاننگ کمیشن ندیم الحق نے حالیہ حکومت کے نئے قرضوں کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال خاصی گمبھیر ہے اور ہمیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی، ندیم الحق کا کہنا درست ہی ہے کہ آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضے 1960 سے ہمارے وجود سے کینسر کی مانند لپٹے ہیں اور ہم مسائل کے حل کی جانب توجہ نہیں دے رہے، یقیناً ایسی صورتحال کے لیے بہادری سے اٹھائے قدم ہی نجات کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

آئی ایم ایف ایک ایسا سونے چاندی کے جواہرات سے جڑا ادارہ ہے جو اپنے قرضوں کی کشش سے ترقی پذیر ممالک کو اپنی جانب کھینچتا ہے، جن سے وہ ممالک معاشی مسائل میں الجھتے چلے جاتے ہیں، یہ سود کا ایک ایسا نظام بن دیتا ہے جس سے مہنگائی میں اضافے اور عوام میں اضطراب پیدا ہوتا ہے، عام استعمال کی چیزیں بھی عوام کی پہنچ سے دور ہونے لگتی ہیں، اندرونی طور پر ایک خلفشارکی سی صورت پیدا ہوتی ہے جو بے روزگاری اور جرائم کے علاوہ معاشی بے راہ روی کو آگے بڑھاتی ہے، ملکی کرنسی کی قیمت کم ہوتی جاتی ہے۔

بہت سے ممالک نے آئی ایم ایف کے قرضوں سے نجات کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں اور وہ کامیابی سے آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ملکی معاشی صورتحال وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب سے 6 ارب ڈالر مالیاتی امداد اور اقتصادی پیکیج کے بعد کچھ بدلی ہے، مزید دو ملکوں سے امداد ملنے کی امید ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ قرضوں کو حاصل کرنے کے بعد انھیں اسی مد میں لگایا جائے جس کے لیے پلاننگ کی گئی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آئی ایم ایف ترقی پذیر ممالک کو مشورے دینے کے سلسلے میں بری کارکردگی کا مظاہرہ کرچکا ہے جس کی وجہ سے وہ ممالک اپنے معاشی مسائل کو سلجھانے کے بجائے الجھتے گئے۔ ہمیں ہمیشہ مثبت انداز میں سوچنا چاہیے لیکن اس کے لیے مثبت عمل کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو ملکوں کی ترقی میں بہت اہم ہے۔
Load Next Story