وجود شیطان انسانی زندگی پر تباہ کن اثرات
قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے تو تقریباً سارا جہاں کم و زیادہ شیطان کا جنم کدہ بنا ہوا ہے۔
ERBIL:
ابلیس اور شیطان ایک ہی شخصیت کی پہچان ہے۔ ابلیس کے اصل معنی نا امید اور دھوکا دینے والا ہیں۔ انتہائی مایوس، اصطلاحاً اس جن کا نام ہے جس نے جسدِ ناری ہونا برتر سمجھا اور آدمؑ کا جسدِ خاکی ہونا کمتر سمجھ کر، آدمؑ کو ساری مخلوق سے بزرگ تر ماننے سے منکر ہوگیا اور اطاعت الٰہی کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکا ۔ ابلیس کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ فرشتوں میں سے نہیں، جنات میں سے ہے۔ ارشاد ربانی ہے '' آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے۔ (ص 76) ''یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا وہ جنات میں سے تھا۔ اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا۔'' (الکہف 50)
فرشتہ تو پابند تقدیر ہے۔ اس کی فطرت میں اطاعت لکھی ہے۔ وہ بغاوت کر ہی نہیں سکتا (وہ ذی اختیار مخلوق نہیں، فرمان الٰہی ہے ''اللہ جو حکم بھی ان کو دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیاجاتا ہے۔'' (التحریم 6) اس کی فطری جبلت اطاعت الٰہی سے عبارت ہے۔ ہاں جن وانس صاحبِ اختیار مخلوق ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے آزادی سے نوازا ہے۔آزادی میں شیطان اور انسان کا امتحان ہے کہ وہ شمع اطاعت کی طرف آتا ہے یا شعلۂ بغاوت کی طرف مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں اس بات کی نفی ہوجاتی ہے جو عوام الناس کی وردِ زبان ہوگئی ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا۔ اور ایسا ویسا بھی نہیں بلکہ انتہائی قریب تر، مقرب معلم الملکوت کے منصب پر فائز بزرگ و برتر۔ سب سے اعلیٰ سب سے بہتر، اللہ کا منظورِ نظر۔ فرمانِ الٰہی ہے ''تم دیکھوگے کہ اس حالت میں یہ ہر خیر سے مایوس ہیں'' (المومنون 77)
اصل میں لفظ مبلسون مستعمل ہوا ہے۔ جس کا ترجمہ محض مایوس کرنے سے لفظ خود مایوس ہوکر تنگیٔ داماں کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ حقِ لفظ ادا نہیں ہوتا۔ بلس اور ابلاس کے الفاظ معانی کے اعتبار سے بڑی وسعت کے حامل ہیں۔ حیرت سے عقل کا محوِ تماشا ہوجانا، خوف و دہشت سے ہکا بکا رہ جانا، رنج و غم، درد و الم کی تصویر مجسم بن جانا۔ چار سو سے نا امید ہوکر اٹھنے، کمر باندھنے کی سکت کھو بیٹھنا مایوسی کے عالم میں جنونِ انتقام پر اتر آنا) ان وجوہ کی بنا پر شیطان کا نام ابلیس رکھا گیا ہے۔ اس نام میں یہ معنی مضمر ہیں کہ کلی طور پر مایوس اور نامراد پاکر اس کا زخموں سے چور چور سر پر غرور اس حد تک مشتعل ہوگیا ہے کہ اب وہ جان پرکھیل کر ہر جرم وگناہ کرنے اور انسانوں سے کروانے، ہست وبود کو نیست و نابود کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔
(شیطان کی وجہ تسمیہ سے متعلق دو رائے) شطی اس کا ماخذ ہے جس کے معنی دور ہونے کے ہیں چونکہ وہ خیر سے دور ہوتا ہے، اس لیے اسے شیطان کہتے ہیں یا یہ شیط سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی جلنے کے ہیں۔ چونکہ اس کا تخلیقی مادہ آگ ہے اورکاتب تقدیر نے اس کی قسمت میں آگ لکھی ہے اس لیے اس کو شیطان کہا گیا۔امام احمدؒ اور نسائیؒ حضرت ابوذرؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ فرمایا ابو ذر! تم نے نماز پڑھی ؟ میں نے عرض کیا نہیں، فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ چنانچہ میں نے نماز پڑھی اور پھر آکر بیٹھ گیا۔ حضورؐ نے فرمایا ''اے ابوذر شیاطین جن اور شیاطین انس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو میں نے عرض کیا۔ یارسول اللہ کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ فرمایا ہاں۔ باہر کے شیطاطین ہی نہیں انسان کے اندر اس کے اپنے نفس (امارہ) کا شیطان بھی اس کو بہکاتا ہے۔ یہی بات ہے جو قرآن میں فرمائی گئی ہے کہ ''اور ہم اس کے اپنے نفس سے ابھرنے والے وسوسوں کو جانتے ہیں۔ (ق 16)
(وسوسہ اندازی کا کام ہر دو شیاطین کرتے ہیں جن کے اصل معنی پوشیدہ مخلوق کے ہیں اور جن کو جن اسی بنا پر کہاجاتا ہے کہ وہ انسان کی آنکھ سے مخفی ہے۔ فرمان الٰہی ہے''وہ اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نھیں دیکھ سکتے'' (الاعراف 27) وسوسہ اس حرکت یا پوشیدہ آواز کو کہتے ہیں جو محسوس نہ ہوسکے۔ شرعی اصطلاح میں وسوسہ شیطان کے انسان کو ورغلانے، بہکانے، نیکی سے ہٹانے اور بدی پر ابھارنے سے عبارت ہے۔ انسان کے عمال نیت و ارادہ کے تابع ہوتے ہیں۔ دل جرم و گناہ سے خالی ہوتا ہے) شیطان غیر محسوس طور پر انسان کے دل کو اپنا گھر بنالیتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے ''بے شک شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔''
انسان کے دل میں وسوسہ اندازی کے ذریعے اس میں کسی گناہ کا خیال پیدا کرتا ہے اور بتدریج اس خیال کی آبیاری کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خیال، خواہش یا ارادہ (نیت) بن جاتی ہے۔ پھر اس گناہ کی حسین اور دلفریب منظر کشی کرتا ہے۔ اس کے منفی اثرات کو انسان کی آنکھوں سے اوجھل رکھتا ہے اور اس گناہ کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ ہر پہلوسے نفع، لذت، راحت ہی نظر آئے اور انسان شیطان کے ڈالے ہوئے پردۂ غفلت اور جہالت کی بنا پر عملی اقدام اٹھانے پر اتر آتا ہے۔ (شیطان اسے اغوا کرلیتا ہے۔ اب وہ شیطان ہوتا ہے اس لیے تمام برائیوں کی جڑ کے طور پر سورۃ الناس میں شیطانی وسوسے کے شر سے ہی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشہور خطبہ مسنونہ میں فرمایا ''ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اپنے نفس کی شرارتوں سے۔''
قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے تو تقریباً سارا جہاں کم و زیادہ شیطان کا جنم کدہ بنا ہوا ہے۔ شیطانی نظریات اور تحریکات، زمانے کے چلن بن گئے ہیں ۔ ایک طاغوت شیطان ہے جو انسان کے سامنے نئی نئی جھوٹی ترغیبات کا سدا بہار سبز باغ پیش کرتا ہے۔ دوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفسِ امارہ ہے جو اسے شہوت، جذبات، خواہشات، تعیشات اور ان گنت ضروریات کے چکر میں گھن چکر بنائے رکھتا ہے اور بے شمار طاغوت باہر کی دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بیوی، بچے، عزیزواقارب، دوست و احباب، عوام حکومت، حکام ہر ایک کی اپنی اپنی دلربا ادائیں ہیں۔ معاملاتِ زندگی پر شیطان کی گہری چھاپ لگی ہوئی ہے۔ ہمیں خود احتساب کرنا چاہیے کہ ہم رحمان کی اطاعت کر رہے ہیں یا شیطان کی۔ معاملاتِ زندگی کی ڈور ہم نے کس کے ہاتھ میں دے رکھی ہے، اگر دل گواہی دے کہ رحمان ، تو یہ بڑے نصیب کی بات ہے اور جواب نفی میں ہو تو احساسِ ندامت کے آنسوؤں کے ساتھ بندۂ رحمان بننے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ شیطان کے شر اور فریب سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے اور دعا کرنی چاہیے۔ اے ہمارے رب! ہم شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں اور اس سے بھی تیری پناہ مانگتے ہیں کہ وہ ہمارے پاس آئیں۔ ہم اپنے نفس کی شرارتوں سے بھی تیری پناہ مانگتے ہیں ۔(آمین)