تجربہ کاروں سے اللہ بچائے

وزیر اعظم ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ کسی کرپٹ اور عوام کے خون پسینے کی کمائی سے گھر بھرنے والوں کو نہیں بخشا جائے گا۔

najmalam.jafri@gmail.com

ہم بھی عجیب قوم ہیں اتنے عجیب ہیں کہ بس

خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں

جون ایلیا کے شعر میں تصرف کرنے کی جسارت اس خیال کی کہ شاید خود شاعر کا ''میں بھی بہت عجیب ہوں'' سے اصل مراد دراصل قوم ہی ہو۔ مگر یہ بھی تو ہے کہ ہم اول تو قوم ہیں ہی کہاں؟ بقول ایک معتبرکالم نگار اور دانشور ریوڑ ہیں وہ بھی ایسا ریوڑ جس کا کوئی دیکھ بھال کرنے اور یکجا رکھنے والا بھی نہ ہو ۔

خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی مطلب براری کے لیے ہمیں ایک قوم ہونے سے دانستہ دور رکھا، کبھی صوبائی،کبھی لسانی اور کبھی عقائد کو بنیاد بناکر تقسیم در تقسیم کرتے رہے اور اپنے آقاؤں کے ''لڑاؤ اور حکومت کرو'' کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اپنی آنے والی سات نسلوں کے مستقبل کو بنا دیا اور عوام کی موجودہ نسل بھی ہر جگہ دھکے اور ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہے۔

والدین نے محنت مزدوری کرکے اپنے نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ بھی کیا اپنی ہر خواہش کا گلا دبا کر فاقے کرکے اس امید پر بچوں کو پڑھایا کہ کم ازکم بڑھاپا تو چین سے بسر ہوگا، مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان کے تعلیم یافتہ، محنت کش اور باصلاحیت بچوں پر اشرافیہ کی خود سر، خود پرست اور نااہل اولاد غالب آجائے گی، کیونکہ انھوں نے تو اپنا سب کچھ تج کر بچوں کو کسی نہ کسی طرح پڑھا دیا تھا ،انھیں کیا معلوم تھا کہ ان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں انھوں نے اتنی رقم تو پس انداز ہی نہ کی تھی بلکہ کر بھی نہیں سکتے تھے کہ اعلیٰ ملازمت رشوت دے کر اپنے بچوں کو دلوا سکتے۔

یہ صورتحال برسوں سے چلی آرہی ہے اب اگر کسی نے محض دعوؤں کی ہی حد تک اس نظام کے خلاف آواز اٹھائی، اشرافیہ گردی، بدعنوانی اور لوٹ مار کو ختم کرنے کا ارادہ کیا تو اب تک ہر حکومت کے پشت پناہوں میں ہلچل اور افراتفری مچ گئی۔ اپنے اپنے دور حکومت میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والے،اپنے کرتوت بے نقاب ہوجانے کے ڈر سے متحد ہوکر نئی حکومت کو جلد ازجلد گرانے اور ناکام بنانے کے لیے ماضی کی تمام رنجشوں کو بھلاکر اکٹھے ہو رہے ہیں۔


وزیر اعظم ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ کسی کرپٹ اور عوام کے خون پسینے کی کمائی سے گھر بھرنے والوں کو نہیں بخشا جائے گا کیونکہ میری 22 سالہ تمام جدوجہد کرپشن کے خاتمے کے لیے ہی تھی ۔ باری باری کھیلنے والوں کا اپنے اپنے دور اقتدار میں رویہ یہ تھا کہ بغل میں چھری منہ پر رام رام ۔ مگر اب جب کہ لوٹ مارکی تحقیق جو صرف عدالتی و قانونی تسلی کے لیے ہے کہ قانون ثبوت مانگتا ہے، ورنہ سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہے، سرے محل، لانچوں کے ذریعے ملکی دولت منتقل کرنے اور غیر ممالک میں جائیدادیں، مل اورکارخانے لگانے کے واقعات کیا وقتاً فوقتاً عوام کے سامنے آتے نہیں رہے۔

اب جعلی اکاؤنٹس کے روز انکشافات ہو رہے ہیں جن کے ذریعے اربوں خرد برد کیے گئے، ایسے لوگ جنھوں نے کبھی بینک کو اندر سے دیکھا تک نہیں، ان کے اکاؤنٹ سے لاکھوں اربوں کا لین دین ہوا، اس پر ڈھٹائی یہ کہ خود کو بچانے کے لیے سب یکجا ہوکر دوبارہ وہی نظام لانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ماضی کے حکمران جن کے ادوار میں ملک کو اس بے دردی سے لوٹا گیا کہ جس کی مثال شاید دنیا کے اور کسی ملک میں نہ ملے، دل میں ایک دوسرے کے لیے لاکھ بغض رکھیں مگر خود کو بچانے کے لیے ایک دوسرے کو اپنا دوست، بھائی اور ہمدم قرار دے کر موجودہ حکومت کو ناکام بنانے کے درپے ہیں۔

اس مضبوط اشرافیہ نے بھٹو جیسے زیرک کو اپنے گھیرے میں لے کر خود انھیں ان کے اپنے منشور پر عمل نہ کرنے دیا بلکہ خود ان کی پالیسی کے خلاف اقدامات کرنے پر مجبور کردیا اور پھر بھی چین نہ ملا جب تک کہ انھیں تختہ دار تک نہ پہنچادیا۔ اب پھر وہی سازشیں، اندیشے، شکوک و شبہات پیدا کرکے بدلی رت کو واپس لانے کی کوشش زوروں پر ہے، بڑی بے باکی سے کہا جا رہا ہے کہ ناتجربہ کار لوگ ملک کی باگ ڈور سنبھال ہی نہیں سکتے۔ دوسروں کی محنت کی کمائی ہڑپ کر دولت مند بن جانے والے، متوسط اور محنت کش افراد کو ''ذہنی طور پر چھوٹے لوگ'' قرار دے کر انتہائی تضحیک آمیز انداز میں فرماتے ہیں کہ ذہنی طور پر چھوٹے لوگوں کو تھوڑی سی طاقت مل جائے تو سنبھالی نہیں جاتی۔

موجودہ حکومت میں ہزار خامیاں ہم بھی سامنے لاسکتے ہیں، مگر یہ ضرور ہے کہ دولت اور وہ بھی مفت ہاتھ آئی ہوئی سے جو انسان حواس باختہ ہوتا ہے کہ غریب اور محنت کش کو انسان کے بجائے اپنے پالتو جانور سمجھنے لگتے ہیں وہ کم ازکم ''تھوڑی سی طاقت والے'' نہیں کرسکتے۔

رہ گئی ناتجربہ کاری کی بات تو تجربہ توکام کرنے ہی سے آتا ہے صد فی صد کامیابی کی امید ہی سب سے بڑی حماقت ہے اور ایسے تجربہ کاروں سے اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے کہ ہر بار ملک کو پہلے سے زیادہ برباد کردیا جائے۔ کسی بھی ادارے کو بلا مداخلت کام نہ کرنے دیا جائے۔ عمران خان سے لاکھ اختلافات رکھنے والے بھی یہ ضرور کہیں گے کہ ماضی کے حکمران اگر دوبارہ پھر اقتدار میں آ بھی جائیں تو اب وہ عوام کو پہلے کی طرح بے وقوف بنا نہیں سکتے انھیں بھی کچھ نہ کچھ عوام دوست اقدامات کرنے پڑیں گے کہ اب زبانی ہی سہی مگر ایسے کلچر کا تصور تو سامنے آگیا۔

حکومت سندھ گزشتہ دس برس میں کچھ نہ کرسکی مگر اب بڑی پھرتیاں دکھائی جا رہی ہیں۔ اگرچہ یہ بھی ابھی صرف زبانی یا کاغذی کارروائیاں ہیں جب عمل ہوجائے گا تو کچھ کہا جاسکتا ہے ورنہ تو '' وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔''
Load Next Story