مظلوم کی مدد
اللہ کی طرف رجوع، صبر و استقلال اور ہمت و عزیمت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں کی تنزلی، پستی، مظلومیت اور محکومیت کے اسباب کو قرآن و سنت اور زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو اجمالی طور پر بنیادی وجوہات یہی نظر آتی ہیں کہ مجموعی طور پر اہل اسلام، اسلام سے دُور ہوگئے ہیں۔
احکامات اسلامی پر عمل کرنا چھوڑ چکے ہیں، تعلیمات نبوی کو عملاً نظر انداز کرچکے ہیں۔ اپنی ساکھ کو مضبوط رکھنے اور اپنی حفاظت کے لیے جو خدائی امر تھا اس سے روگردانی کر رہے ہیں۔ اللہ کی طرف سے قوموں پر آزمائشیں آتی رہتی ہیں ایسے وقت میں اللہ کی طرف رجوع، صبر و استقلال اور ہمت و عزیمت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ابتلاء، آزمائش، مصیبت اور پریشانی کے وقت ایک مسلمان کا اسلامی، انسانی، اخلاقی اور معاشرتی فرض یہ بنتا ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کی ہر ممکن مدد اور نصرت کرے، اظہار ہم دردی اور اظہار یک جہتی کا مظاہرہ کرے۔ ان سے بھرپور تعاون کے لیے میسر اور مؤثر حکمت عملی اپنائے۔ دنیا کے مختلف علاقوں اور ملکوں میں مسلمان جس ظلم و ستم اور اذیت سے دوچار ہیں ان پر جو قیامت گزر ر ہی ہے اسے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ذرائع ابلاغ کی وساطت سے تقریباً ہر شخص کو اس کا علم ہے۔
اس صورت حال میں ہر مسلمان کو ان کی تکلیف کا احساس ہونا چاہیے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایسے کڑے حالات میں شریعت یہ تعلیم دیتی ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کریں، انفرادی اور اجتماعی طور پر کبیرہ گناہوں سے توبہ و استغفار کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے بڑے الم ناک اور دردناک سانحات اکثر ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
قرآن کریم کی سورۃ الشوری میں ہے، مفہوم : '' تمہیں جو مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے گناہوں کا بدلہ ہیں اور اللہ بہت سارے گناہ کی باتوں سے درگزر بھی فرماتا ہے۔'' قرآن کریم میں سابقہ امتوں کی تباہی اور ان پر آنے والی سزاؤں کی وجہ بھی ان کے گناہوں کو بتایا گیا ہے۔ چناں چہ قرآن کریم میں ہے، مفہوم : '' پھر ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے سزا دی، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی اور ان میں سے بعض کو زوردار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے (پانی میں) غرق کیا، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بل کہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم (یعنی گناہ) کرتے تھے۔'' (سورۃ العنکبوت ) نوٹ: یہاں یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ بعض مرتبہ گناہوں کی سزا مجموعی طور پر نہیں آتی بل کہ اس کا کچھ حصہ کسی خاص قوم یا علاقے کے لوگوں پر آتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ اسی علاقے کے لوگوں کے گناہوں کا ہی وبال ہو۔ یہ تنبیہ ہوتی ہے کہ باقی لوگ گناہوں سے باز آجائیں۔
باہمی لڑائی جھگڑے اور تنازعات سے ہماری طاقت کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ اپنی بکھری ہوئی طاقت کو جمع کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ باہمی تنازعات سے خود کو بچائیں۔ قرآن کریم میں ہے، مفہوم : '' اور باہمی لڑائی جھگڑا نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہارا رعب ختم ہو جائے گا۔'' (سورۃ الانفال )
آپس میں بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں۔ قرآن کریم میں ہے، مفہوم : '' اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔'' ( سورۃ الحجرات ) اور ظاہر ہے کہ مصیبت کے وقت ایک بھائی ہی اپنے دوسرے بھائی کی مدد کرتا ہے۔ تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند ہونا چاہیے۔ جیسے جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا بدن اسے محسوس کرتا ہے اور بے چین رہتا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی آپس میں ایسے ہی رہنا چاہیے۔ حدیث پاک میں ہے: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' باہمی محبت اور رحم و شفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاء بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔''
گویا یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہمیں دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کو پہنچنے والی تکلیف کا احساس ہو، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا ہمارے ایمان کی علامت ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے دشمنوں (کے ظلم و ستم) سے تمہیں نجات دے اور تمہیں بھرپور روزی دلائے، وہ عمل یہ ہے کہ اپنے اللہ سے دن رات دعا کیا کرو، کیوں کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔''
( مسند ابی یعلی، مسند جابر)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' دعا ان حوادثات اور مصائب سے بھی چھٹکارا دلاتی ہے جو حوادثات اور مصائب نازل ہوچکے ہیں اور ان سے بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، لہذا اللہ کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو۔'' ( مستدرک حاکم، کتاب الدعاء )
پھر وہ دعا جو اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودی میں کی جائے وہ تو جلد قبول ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بے شک جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو غائب کی غائب کے لیے ہو۔ یعنی کسی کی غیر موجودی میں اس کے حق میں دعا کی جائے۔''
(سنن ابی داؤد) اس کے بعد دوسرا حق یہ ہے کہ ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اس کو اوروں کے سپرد کرتا ہے جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگتا ہے اللہ پاک اس کی ضرورتیں پوری فرماتے ہیں اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت دور کرتا ہے اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبتیں دور فرمائیں گے اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ پاک قیامت کے روز اْس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔'' (صحیح بخاری، باب لایظلم المسلم المسلم و لایسلمہ)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو بندہ اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے یہ اس شخص سے بہتر ہے جو دس سال اعتکاف میں گزارے اور ایک دن کا ایسا اعتکاف جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو، وہ انسان کو جہنم سے تین خندق دور کر دیتا ہے جب کہ ایک خندق میں مشرق و مغرب جتنا فاصلہ ہے۔'' (یعنی بندے کو جہنم سے اتنا دور فرما دیں گے جتنا کہ مشرق اور مغرب کے درمیان طویل فاصلہ ہے۔) (المعجم الاوسط للطبرانی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' جو شخص میرے کسی اْمتی کی کوئی حاجت اس ارادے سے پوری کرے کہ وہ امتی خوش ہوجائے، تو اس آدمی نے مجھے خوش کردیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ تعالی کو خوش کیا اور جس نے اللہ جل شانہ کو خوش کیا تو اللہ پاک اْسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔'' (شعب الایمان للبیہقی، باب التعاون علی البر و التقویٰ )
احکامات اسلامی پر عمل کرنا چھوڑ چکے ہیں، تعلیمات نبوی کو عملاً نظر انداز کرچکے ہیں۔ اپنی ساکھ کو مضبوط رکھنے اور اپنی حفاظت کے لیے جو خدائی امر تھا اس سے روگردانی کر رہے ہیں۔ اللہ کی طرف سے قوموں پر آزمائشیں آتی رہتی ہیں ایسے وقت میں اللہ کی طرف رجوع، صبر و استقلال اور ہمت و عزیمت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ابتلاء، آزمائش، مصیبت اور پریشانی کے وقت ایک مسلمان کا اسلامی، انسانی، اخلاقی اور معاشرتی فرض یہ بنتا ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کی ہر ممکن مدد اور نصرت کرے، اظہار ہم دردی اور اظہار یک جہتی کا مظاہرہ کرے۔ ان سے بھرپور تعاون کے لیے میسر اور مؤثر حکمت عملی اپنائے۔ دنیا کے مختلف علاقوں اور ملکوں میں مسلمان جس ظلم و ستم اور اذیت سے دوچار ہیں ان پر جو قیامت گزر ر ہی ہے اسے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ذرائع ابلاغ کی وساطت سے تقریباً ہر شخص کو اس کا علم ہے۔
اس صورت حال میں ہر مسلمان کو ان کی تکلیف کا احساس ہونا چاہیے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایسے کڑے حالات میں شریعت یہ تعلیم دیتی ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کریں، انفرادی اور اجتماعی طور پر کبیرہ گناہوں سے توبہ و استغفار کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے بڑے الم ناک اور دردناک سانحات اکثر ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
قرآن کریم کی سورۃ الشوری میں ہے، مفہوم : '' تمہیں جو مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے گناہوں کا بدلہ ہیں اور اللہ بہت سارے گناہ کی باتوں سے درگزر بھی فرماتا ہے۔'' قرآن کریم میں سابقہ امتوں کی تباہی اور ان پر آنے والی سزاؤں کی وجہ بھی ان کے گناہوں کو بتایا گیا ہے۔ چناں چہ قرآن کریم میں ہے، مفہوم : '' پھر ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے سزا دی، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی اور ان میں سے بعض کو زوردار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے (پانی میں) غرق کیا، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بل کہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم (یعنی گناہ) کرتے تھے۔'' (سورۃ العنکبوت ) نوٹ: یہاں یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ بعض مرتبہ گناہوں کی سزا مجموعی طور پر نہیں آتی بل کہ اس کا کچھ حصہ کسی خاص قوم یا علاقے کے لوگوں پر آتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ اسی علاقے کے لوگوں کے گناہوں کا ہی وبال ہو۔ یہ تنبیہ ہوتی ہے کہ باقی لوگ گناہوں سے باز آجائیں۔
باہمی لڑائی جھگڑے اور تنازعات سے ہماری طاقت کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ اپنی بکھری ہوئی طاقت کو جمع کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ باہمی تنازعات سے خود کو بچائیں۔ قرآن کریم میں ہے، مفہوم : '' اور باہمی لڑائی جھگڑا نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہارا رعب ختم ہو جائے گا۔'' (سورۃ الانفال )
آپس میں بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں۔ قرآن کریم میں ہے، مفہوم : '' اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔'' ( سورۃ الحجرات ) اور ظاہر ہے کہ مصیبت کے وقت ایک بھائی ہی اپنے دوسرے بھائی کی مدد کرتا ہے۔ تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند ہونا چاہیے۔ جیسے جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا بدن اسے محسوس کرتا ہے اور بے چین رہتا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی آپس میں ایسے ہی رہنا چاہیے۔ حدیث پاک میں ہے: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' باہمی محبت اور رحم و شفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاء بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔''
گویا یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہمیں دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کو پہنچنے والی تکلیف کا احساس ہو، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا ہمارے ایمان کی علامت ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے دشمنوں (کے ظلم و ستم) سے تمہیں نجات دے اور تمہیں بھرپور روزی دلائے، وہ عمل یہ ہے کہ اپنے اللہ سے دن رات دعا کیا کرو، کیوں کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔''
( مسند ابی یعلی، مسند جابر)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' دعا ان حوادثات اور مصائب سے بھی چھٹکارا دلاتی ہے جو حوادثات اور مصائب نازل ہوچکے ہیں اور ان سے بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، لہذا اللہ کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو۔'' ( مستدرک حاکم، کتاب الدعاء )
پھر وہ دعا جو اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودی میں کی جائے وہ تو جلد قبول ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بے شک جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو غائب کی غائب کے لیے ہو۔ یعنی کسی کی غیر موجودی میں اس کے حق میں دعا کی جائے۔''
(سنن ابی داؤد) اس کے بعد دوسرا حق یہ ہے کہ ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اس کو اوروں کے سپرد کرتا ہے جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگتا ہے اللہ پاک اس کی ضرورتیں پوری فرماتے ہیں اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت دور کرتا ہے اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبتیں دور فرمائیں گے اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ پاک قیامت کے روز اْس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔'' (صحیح بخاری، باب لایظلم المسلم المسلم و لایسلمہ)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو بندہ اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے یہ اس شخص سے بہتر ہے جو دس سال اعتکاف میں گزارے اور ایک دن کا ایسا اعتکاف جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو، وہ انسان کو جہنم سے تین خندق دور کر دیتا ہے جب کہ ایک خندق میں مشرق و مغرب جتنا فاصلہ ہے۔'' (یعنی بندے کو جہنم سے اتنا دور فرما دیں گے جتنا کہ مشرق اور مغرب کے درمیان طویل فاصلہ ہے۔) (المعجم الاوسط للطبرانی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' جو شخص میرے کسی اْمتی کی کوئی حاجت اس ارادے سے پوری کرے کہ وہ امتی خوش ہوجائے، تو اس آدمی نے مجھے خوش کردیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ تعالی کو خوش کیا اور جس نے اللہ جل شانہ کو خوش کیا تو اللہ پاک اْسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔'' (شعب الایمان للبیہقی، باب التعاون علی البر و التقویٰ )