اسلام اور تحفظِ ماحولیات

زمین قدرت کا بے مثال تحفہ ہے، اگر ہم اس کی قدر نہ کریں اور اس کی صورت۔

زمین قدرت کا بے مثال تحفہ ہے، اگر ہم اس کی قدر نہ کریں اور اس کی صورت۔ فوٹو؛ فائل

ماحولیات کا لفظ بڑا وسیع ہے، اس کا تعلق ہمارے ارد گرد کے ماحول سے نہیں ہے بل کہ اس پوری کائنات سے ہے جسے ہم دنیا کہتے ہیں۔

ایک صحت مند اور آرام دہ زندگی کے لیے دنیا کے ماحول کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ دنیا جس تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کررہی ہے اس سے اگرچہ انسان کی آسائش و آرام کی بے شمار چیزیں وجود میں آرہی ہیں مگر ان کے پہلو سے انسان کی زندگی اور اس کی صحت کو نقصان پہنچانے والے بے شمار مسائل بھی جنم لے رہے ہیں، اگر ہم ان مسائل کو کسی ایک لفظ میں سمیٹنا چاہیں تو وہ کثافت اور آلودگی ہے، گویا ہمارے دور کا سب سے اہم مسئلہ اس آلودگی اور کثافت پر قابو پانا ہے، اسی کے بعد ہم انسانی زندگی کو مادی راحت و آرام کے ساتھ جسمانی صحت اور روحانی سکون کی نعمتوں سے بھی مالا مال کرسکتے ہیں۔

کثافت اور آلودگی بھی مختلف طریقوں سے پھیل رہی ہے، پانی کی آلودگی، ہوا کی آلودگی، شعاعی آلودگی، صوتی آلودگی، ان تمام آلودگیوں نے مل کر انسان کا جینا حرام کررکھا ہے۔ اس کے لیے کسی کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے، خود انسان اپنے لیے گڑھا کھود رہا ہے، خود ہی اس میں اوندھے منھ گررہا ہے اور خود ہی اٹھنے کے لیے ہاتھ پاؤں بھی مار رہا ہے۔

مغربی اقوام اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ماحولیات کے تحفظ کا تصور ان کے ذہن کا اختراع ہے، یہ بڑی غلط فہمی ہے، آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم نے ہمیں بتلا دیا تھا کہ دنیا کو ہر اعتبار سے محفوظ بنانے کے لیے انسان کو کیا اقدامات کرنے چاہییں، مغرب تو صرف مادّی نقطۂ نظر کی بات کرتا ہے جب کہ قرآن کی نظر دنیا کی روحانی اور معنوی آلودگی پر بھی ہے، بل کہ ثانی الذکر آلودگی زیادہ اہم ہے کیوں کہ وہ زیادہ تباہ کن ہے۔ دنیا کو اس آلودگی سے بچانے کی فکر و اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔

قرآن کریم میں غور کرنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کم و بیش دو سو آیات ماحولیات سے متعلق ہیں، ان میں زمین، پانی، ہوا، زندہ اور مردہ مخلوقات، شجر، حجر، پہاڑ، سمندر اور وہ سب عجائبات عالم زیر بحث آئے ہیں جن کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کا ملہ کی گواہی دیتی ہے اور زبان حال سے پکار پکار کر یہ اعلان کرتے ہیں، مفہوم: ''اللہ کی کاری گر ی ہے جس نے ہر چیز کو مضبوطی کے ساتھ بنایا ہے۔'' (نمل: 88)

اللہ نے ان چیزوں کو پیدا ہی نہیں کیا بل کہ انسانوں کو یہ دعوت بھی دی کہ وہ ان کو دیکھے، ان پر غور کرے اور ان کے ذریعے خالق کی عظمت اور قدرت کا ادراک کرے۔ سورۃ النمل کی آیت پانچ سے آیت چودہ تک مسلسل ان نعمتوں کو شمار کرایا گیا ہے جو اللہ نے انسانوں کو عطا کی ہیں اور جن پر غور و فکر کر نے کی ضرورت ہے، تاکہ ان نعمتوں کے حوالے سے ہم اس ہستی کو پہچانیں، اس کی عظمت کے گُن گائیں اور اس کا شُکر ادا کریں جس نے یہ نعمتیں پیدا کیں اور جن سے ہمیں مستفید ہونے کا موقع بخشا۔ اس کائنات کا محور انسان ہے، کیو ں کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار مخلوقات میں سے یہ واحد مخلوق ہے جسے دنیا کی خلافت عطا کی گئی ہے، یعنی اسے یہ صلاحیت بخشی گئی ہے کہ وہ دنیا میں آکر اس کو آباد کرے، اس کا نظام چلائے، اس کی نعمتوں سے مستفید ہو اور دوسری مخلوقات میں مخفی خدا کی قدرت کے اسرار کی حقیقت تک پہنچے۔ اللہ تعالیٰ یہ کام کسی اور مخلوق کے بھی سپرد کرسکتا تھا، لیکن اس نے انسان کو ترجیح دی جو اس کے لیے اعزاز بھی ہے، ابتلاء اور آزمائش بھی۔ قرآن کریم میں خلافت ارضی کے حوالہ سے فرمایا گیا، مفہوم : '' اور یاد کرو جب اللہ نے ارشاد فرمایا فرشتوں سے کہ میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں۔'' (البقرۃ)

'' وہی ہے جس نے تم کو زمین میں صاحب اختیار بنایا۔'' ( الانعام)

اللہ نے انسان کو زمین میں بھیج کر اس کے حقوق و فرائض بھی متعین کردیے۔ فرض تو صرف ایک ہے، باقی تمام فرائض کا تعلق اسی ایک فرض کی تکمیل سے ہے۔

رب تعالٰی نے فرمایا: ''اور میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔''

یہی حال حقوق کا ہے، اگر ہم ایک جملے میں ان حقوق کی وضاحت کرنا چاہیں تو اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اللہ نے پوری کائنات کو انسان کے لیے مسخر کر کے اس کے تابع بنادیا ہے، وہ جائز حدود میں رہ کر جس طرح چاہے اس سے فائدہ اٹھائے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں تسخیر کائنات کے حوالے سے گفت گُو کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا : '' اور اللہ نے تمہارے لیے رات دن کو ا ور سورج چاند کو مسخر کیا ہے۔'' ( النحل:12)

پھر فرمایا : '' کیا تُو یہ نہیں دیکھتا کہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے۔'' (الحج :65)

خلافت ارضی اور تسخیر کائنات گویا اللہ کی وہ عظیم نعمتیں ہیں جو انسان کو بن مانگے عطا کی گئی ہیں، اب یہ خود انسان کا فرض ہے کہ وہ ان نعمتوں کی قدر کرے اور ان کا حق ادا کرے۔ ان نعمتوں کی قدر اور حق کی ادائی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس کائنات کے حسن نظام کی حفاظت کی جائے، انسان کی جہالت، نادانی یا سرکشی یہ ہے کہ وہ اس کائنات کو جسے اللہ نے اس کے لیے مسخر کیا ہے خود اپنے ہاتھوں تباہ و برباد کررہا ہے۔


آئیے دیکھیں یہ کائنات انسان کے ذریعے کس طرح برباد ہورہی ہے ۔۔۔۔ ؟

کائنات کی تباہی کی بنیادی وجہ کثافت ہے، اس میں شک نہیں کہ بعض کثافتیں تو قدرت نے خود ہی پیدا کی ہیں اور بعض انسان کی اپنی پیدا کردہ ہیں، حالاں کہ جو کثافتیں قدرت کی پیدا کردہ ہیں ان پر قدرت کے بتلائے طریقہ پر عمل کر کے قابو پایا جاسکتا ہے اور جو کثافتیں خود پیدا کی جارہی ہیں ان پر قابو پانے کے لیے بھی مؤثر تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں، لیکن فطرت سے بغاوت کا جو عنصر انسان کی طبیعت میں ہے اس نے مشکلات پیدا کردی ہیں، اس لیے کثافت پر قابو پانے کا مسئلہ انتہائی اہمیت حاصل کرچکا ہے۔

اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ماہرین ارضیات اور اَربابِ بست و کشاد وقتاً فوقتاً سر جوڑ کر بیٹھتے رہتے ہیں، تدبیریں سوچتے ہیں، تجویزیں پاس کرتے ہیں، مگر عمل نہیں کرا پاتے۔ بلاشبہ ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ عالمی سطح کا مسئلہ ہے، تنہا کسی علاقے، کسی ملک، کسی قوم یا کسی مذہب کا مسئلہ نہیں ہے، سب کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔

اس سلسلے میں سب سے زیادہ مؤثر مذہبی تعلیمات ہوسکتی ہیں بہ شرطے کہ ان پر کان دھرا جائے اور ان سے استفادہ کیا جائے۔ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے اس مسئلے کی اہمیت کو اس وقت سمجھا جب دنیا ماحولیاتی آلودگی کے نام سے بھی واقف نہیں تھی، چہ جائے کہ اس کے تباہ کن اثرات سے واقف ہوتی، اس وقت قرآن کریم نے نسل انسانی کی صحت مند بقا کے لیے بہت سی چیزوں کی نشان دہی کی، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاداتِ مبارکہ کے ذریعے انسان کو محفوظ زندگی گزارنے کے طریقے سکھلائے، یہ انسان کی بدقسمتی ہے کہ اس نے ان ارشادات کو دل کے کانوں سے نہیں سنا، آج اس کا نتیجہ سامنے ہے، قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے اور انہیں اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی انسانی ہوس نے دنیا کے چھے ارب باشندوں کو ہلاکت کی کگار پر لا کھڑا کردیا ہے، اب خدا ہی انہیں تباہ ہونے سے بچا سکتا ہے، کم از کم انسان کے بس میں تو نہیں کہ وہ اس بحران سے نکلنے کی کوئی راہ تلاش کرسکے۔

اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی، اس میں انسان کے لیے بے شمار فائدے رکھے، مثال کے طور پر یہ کہ اسے انسانی رہائش کے قابل بنایا، اس کے سینے میں معدنیات کی دولت رکھی، اس کے اندر پھل، پھول، غلے اور میوے پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا فرمائی، کہیں اس کو ٹھوس بنایا اور کہیں نرم رکھا تاکہ انسان اس کے نرم حصے پر کھیتیاں اگا سکے، درخت لگا سکے، پانی نکال سکے، اسے اس قابل بنایا کہ آسمان سے جو بارش برسے وہ اس پر ٹھہر سکے، اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھی، نہریں، دریا، چشمے اور پانی کے دوسرے ذخیرے پیدا کیے، اس میں مختلف شکل و صورت کے جانور پیدا کیے، جن میں سے بعض کا گوشت کھایا جاتا ہے، بعض سواری اور باربرداری کے کام آتے ہیں، بعض جانوروں کے اون سے پوشاکیں تیار کی جاتی ہیں، بعض جانوروں کو دیکھنے اور ان کی آوازیں سننے سے دل و دماغ کو سکون ملتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار فوائد کی حامل یہ زمین قدرت کا بے مثال تحفہ ہے، اب اگر ہم اس تحفہ کی قدر نہ کریں اور اس کی صورت مسخ کر کے اسے تمام صلاحیتوں سے محروم کرکے خود بھی اس کے فوائد سے محروم ہوجائیں تو اس سے بڑھ کر ہماری بد قسمتی اور کیا ہوگی!

ماحولیاتی آلودگی ایک خطرناک مسئلہ اور ہمارے خطے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کا تعلق پوری دنیائے انسانیت سے ہے، آج دنیا کے تمام ممالک کسی نہ کسی نوعیت کی فضائی آلودگی کا شکار ہیں، لیکن اس میں برصغیر ہند و پاک کا خطہ سرفہرست ہے جہاں فضائی اور صوتی آلودگی نے طرح طرح کے مسائل پیدا کررکھے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے یہ خطہ بین الاقوامی سطح پر بحث و گفت گو کا موضوع بن چکا ہے، پہلے فضائی آلودگی صرف شہری اور صنعتی علاقوں کے لیے ایک مسئلہ تھا، پچھلی دو تین دہائیوں سے دیہی علاقے بھی اس آلودگی کی زد میں آگئے ہیں، تیز رفتار صنعتی ترقی کے نتیجے میں گھریلو پیداوار میں اضافہ تو ہوا ہے، مگر اس سے انسانی صحت کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوگئے ہیں، پھر ہمارے ہاں ترقی اور خوش حالی صرف شہروں تک محدود ہے اس لیے دیہات سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرکے خوش حالی کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں، اس کے نتیجے میں سڑکوں پر بھیڑ بڑھ گئی ہے، اور شہری علاقوں کی فضائی کیفیت دھماکا خیز ہوتی جارہی ہے۔

صحت سے متعلق زیادہ تر مسائل ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں، آج اس خطے کو دنیا کی سب سے زیادہ خراب ماحولیات کا حامل خطہ کہا جارہا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر صنعتیں ماحولیات کے تعلق سے راہ نما اُصول اور ضوابط کی پابندی نہیں کرتیں، حکومتیں داخلی کرپشن کی وجہ سے ان صنعتوں کو ضوابط کا پابند کرنے میں ناکام ہیں، ماحولیات کے سدھار کے متعلق جو اقدامات بھی کرنے ہیں ان کا تعلق حکومتوں سے ہے، لیکن عوام کی ذمے داری بھی کچھ کم نہیں ہے۔

ماحولیات کے مسئلے پر دوسرے معاملات اور مسائل کی طرح اس معاملے میں بھی اسلامی تعلیمات موجود ہیں اور عوام اور حکومت دونوں ان تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، بل کہ دونوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ان تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر ماحول کی کثافت اور آلودگی پر قابو پانے کی کوشش کریں اور نسل انسانی کو خالق کائنات کی رضا اور منشاء کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع فراہم کریں۔

ماحولیاتی کثافت کی بنیادی وجہ ماحول کے قدرتی توازن میں مداخلت ہے، اللہ رب العزت نے اس کائنات کی ہر چیز کو نپی تُلی مقدار میں اور باہم توازن کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، یہ حقیقت قرآن کریم کی متعدد آیات میں واضح طور پر بیان کی گئی ہے، یہ حقیقت اگرچہ چودہ سو برسوں سے قرآن کریم کی آیات میں پوشیدہ تھی مگر انسان کے ہاتھوں قدرت کے پیدا کردہ توازن سے چھیڑ چھاڑ نے خود اس کے لیے بے شمار مشکلات پیدا کردی ہیں اور ان مشکلات کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس چھیڑ چھاڑ سے باز آئے اور جو توازن اس نے بگاڑا ہے اس کو اپنی اصل حالت پر واپس لانے کی کوشش کرے، اس کی ذمے داری اگرچہ حکومتوں کی ہے، لیکن عوام بھی اس میں اپنا بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں بل کہ انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

کھلے عام رفع حاجت کرنا، سڑکوں، پارکوں اور عام گزرگاہوں پر پان اور گٹکے کھاکر تھوکنا، پیشاب کرنا، گھروں کا آلودہ پانی گلیوں میں بہانا، گھروں کی گندگی اور کوڑا کرکٹ عام جگہوں پر ڈالنا، تعمیراتی کاموں کے وقت گرد و غبار روکنے کی تدابیر اختیار نہ کرنا، یہ سب وہ امور ہیں جن میں عام شہری پوری طرح ملوث ہیں۔ اَوّل تو حکومت اس طرح کے مسائل پر قابو پانے کے لیے مؤثر قوانین نہیں بناتی اور اگر قوانین بناتی بھی ہے تو ان کا صحیح طور پر نفاذ نہیں ہوپاتا۔ ضروری ہے کہ اس طرح کے قوانین بنیں، صحیح طور پر نافذ ہوں اور ملک کا ہر شہری اپنی ذمے داری محسوس کرے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو آلودگی سے پاک بنانے کی کوشش کرے۔

صوتی آلودگی بھی ہمارا بڑا مسئلہ ہے، ایک سروے کے مطابق ہمارے ہاں کا ہر بارہواں شخص بڑھتے ہوئے شور کے باعث سماعت سے محروم ہوتا جارہا ہے، برین ہیمبرج، ہارٹ اٹیک، بلڈپریشر اور شوگر وغیرہ جیسی کئی خطرناک بیماریاں صوتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہر مسلمان شہری کے لیے ضروری ہے کہ ماحول کو گندگی اور آلودگی سے بچائے اور یہ مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے، اس کے لیے کم آلودگی پھیلانے والے ایندھن کا استعمال ہونا چاہیے، تمباکو نوشی نہ کی جائے، ایسی جگہوں پر تھوکنے سے احتراز کیا جائے، کھلی نالیوں میں گندگی نہ ڈالی جائے، بلا ضرورت اور بغیر اجازت درخت نہ کاٹے جائیں، ڈیگ وغیرہ نہ بجائے جائیں، مذہبی جلسوں اور مشاعروں وغیرہ میں تیز آواز کے ساتھ اور دیر رات تک لاؤڈ اسپیکر استعمال نہ کیے جائیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومتوں نے ماحولیاتی آلودگی کے سلسلے میں جو قوانین بنائے ہیں مسلمان پوری دیانت داری کے ساتھ ان قوانین پر عمل پیرا ہوں۔
Load Next Story