صدر مملکت کا او آئی سی کے اجلاس سے خطاب

دنیا بھر کے علمائے کرام خود کش حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کریں, صدر زرداری


Editorial August 17, 2012
شدت پسندی کے خلاف مل کر لڑنا ہو گا، صدر آصف علی زرداری۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

صدر آصف زرداری نے او آئی سی کے غیرمعمولی سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات بالکل درست کہی ہے کہ مسلم امہ کو درپیش چیلنجوں سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے اتحاد و یکجہتی ناگزیر ہے، شدت پسندی کے خلاف مل کر لڑنا ہو گا، دنیا بھر کے علمائے کرام خود کش حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کریں۔ حقیقت یہ کہ ان مسائل کے خلاف سبھی مسلم ممالک ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں گے تو ہی ان عفریتوں سے نجات حاصل کی جا سکے گی جو مسلم اُمہ کی بدنامی اور زوال کا سبب بن رہے ہیں۔ ان کا یہ کہنا بھی صائب ہے کہ مسئلہ کشمیر و فلسطین اسلامی دنیا کے لیے سوہان روح بن چکے ہیں' ان دونوں مسائل کے حل کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں موجود ہیں جن پر عمل کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔


ان کا یہ امید ظاہر کرنا بھی خوش آیند ہے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات نتیجہ خیز اور بامقصد ہوں گے تاہم ضروری ہے کہ بھارتی قیادت بھی اس سلسلے میں خلوص کا مظاہرہ کرے کیونکہ اس کے بغیر تنازع کشمیر کا حل ہونا ممکن نہ ہو گا۔ اسی طرح اسرائیل فلسطین تنازع کا بھی کوئی قابل عمل حل تلاش کیا جانا چاہیے تاکہ اس خطے کے مسلمان امن اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔ صدر نے کہا کہ پاکستان ایک آزاد اور قابل عمل فلسطینی ریاست کی تشکیل کا حامی ہے۔ صدر نے کہا کہ پاکستان افغان قیادت میں اور افغان عوام کے حمایت یافتہ مفاہمتی عمل کا حامی ہے۔ صدر نے بالکل صحیح نشاندہی کی کہ ہم خلفشار کے دور سے گزر رہے ہیں۔

صدر نے مسلم دنیا کے رہنمائوں پر زور دیا کہ وہ مسلم امہ کو درپیش چیلنجوں سے مل کر نبرد آزما ہونے کے لیے طریقہ کار وضع کریں، اس ضمن میں انھوں نے او آئی سی کو تجویز کیا کہ وہ سربراہان مملکت و حکومت پر مشتمل خصوصی مشنز کو مسلمانوں کو متاثر کرنے والے تنازعات کا شکار علاقوں میں بھجوائے۔ یہ ایک اچھی تجویز ہے او آئی سی کو جس کے قابل عمل ہونے کا جائزہ لینا چاہیے کیونکہ ایک بات بالکل واضح اور طے ہے کہ جب تک مسلم ممالک کی جانب سے زبانی دعووں سے آگے بڑھ کر عملی طور پر کچھ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک دل خواہ تبدیلی ان کا مقدر نہیں بن سکتی۔

علاوہ ازیں او آئی سی کے ہنگامی اجلاس کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ شرکاء شام میں پُرتشدد کارروائیوں کو فوری طور پر روکے جانے کی ضرورت اور او آئی سی میں شام کی رکنیت معطل کرنے پر متفق ہیں۔ اعلامیے میں مسلمان ملکوں کے اندر پائی جانے والی منافرت اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے رویے کی شدید مذمت کی گئی اور تمام ممالک اور حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فروعی اختلافات سے بالا تر ہو کر دین حنیف کی طرف لوٹیں اور دہشت گردی اور گمراہ نظریات کے خلاف جنگ میں اپنی توانائیاں صرف کریں۔ ہمارے خیال میں حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے شام کی قیادت کو راہ راست پر آنے کے لیے ایک موقع دیا جانا چاہیے تھا۔

مسلم ممالک اگر اپنی اس سب سے بڑی تنظیم کے اعلامیے پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب رہے تو یہ ایک بڑی پیش رفت ہو گی جس کے دور رس اثرات و نتائج سامنے آ سکتے ہیں تاہم اس کے لیے سبھی ممالک کو اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا پڑے گا تبھی کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو سکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں