ہم حالت عذاب میں ہیں
ہماری نفرت، تعصب اور خود غرضی کا عالم یہ ہے کہ ہم اپنے مخالف کا...
کیا کبھی اس مملکت خدا داد پاکستان کے شہریوں نے اس بات پر ایک لمحے کے لیے بھی سوچا ہے کہ ہماری آنکھیں صرف اپنے گھر میں آنے والی میت پر نمناک ہوتی ہیں۔ ہم صرف اپنوں کا سوگ مناتے ہیں۔ ہمیں صرف اپنے مرنے والے ہی بے گناہ نظر آتے ہیں۔ روز صبح ہوتے ہی انسانوں کے لاشے گرنے شروع ہوتے ہیں اور شام تک بے حس اٹھارہ کروڑ لوگ ٹیلی ویژن اسکرینوں پر یہ مناظر ایسے دیکھتے ہیں جیسے ہالی وڈ کی کوئی دہشت زدہ کرنے والی فلم دیکھ رہے ہوں جس کے بارے میں یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ سب اداکار ہیں جو صرف فلم میں مرتے ہیں، ہم ان کی موت کے مناظر دیکھتے ہیں، فلم کی بھول بھلیوں میں گم ہوتے ہیں اور پھر ان اداکاروں کو عام زندگی میں چلتے پھرتے دیکھتے ہیں۔
ان سے آٹو گراف بھی لیتے ہیں۔ ہمارا رویہ روز مرنے والے انسانوں کے بارے میں ایسا ہی ہو چکا ہے۔ البتہ جن کے احباب موت کی آغوش میں جاتے ہیں، وہی قیامت کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کے لیے احتجاج بھی وہی لوگ کرتے ہیں جو ان کے عقیدے، نسل، زبان یا سیاسی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ بابوسر میں 25 انسان اپنے ساتھیوں سے علیحدہ کیے گئے اور لائن میں کھڑے کر کے گولیوں سے بھون دیے گئے۔ باقی بچ جانے والے اسی طرح یہ منظر دیکھنے پر مجبور تھے جیسے مرغیوں کے ڈربے سے قصاب ایک مرغی ذبح کرنے کے لیے نکالتا ہے تو باقی مرغیاں اس بات پر شکر ادا کرتی ہیں کہ ان کی جان بچ گئی۔
سڑکوں پر احتجاج کرنے والے وہی لوگ تھے جو ان کے عقیدے سے تعلق رکھتے تھے۔ باقی اٹھارہ کروڑ لوگوں کے لیے یہ ہالی ووڈ کی فلم کا ایک منظر تھا جو کچھ دیر کے لیے ٹیلی ویژن کی اسکرین پر چلا اور تھوڑی دیر تک داد وصول کر کے غائب ہو گیا کہ اس کی جگہ لینے کے لیے اب دوسرے مناظر آ گئے تھے۔ نہ کوئی آنکھ آنسوئوں سے تر ہوئی اور نہ کسی کی نیند حرام۔ ایسا نہ پہلی بار ہوا اور نہ بحیثیت قوم ہمارے رویے کی یہ پہلی جھلک ہے۔ روز موت ہمارے شہروں میں رقص کرتی ہے اور روز ہمارے غصے اور نفرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے یہ یزیدی ٹولہ ہے، دوسرا کہتا ہے یہ دہشت گرد ہیں، تیسرا کہتا ہے یہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں، چوتھا کہتا ہے امریکا، بھارت اور افغانستان مل کر سب کروا رہے ہیں۔
ہر گروہ کا مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ ان کو سختی سے کچل دو، ان کی نسل تک ختم کر دو، ان کے خلاف پوری طاقت استعمال کرو۔ ہر ایک کا مطالبہ یہی ہے کہ اگر دوسرے گروہ کو نہ کچلا گیا تو یہ ملک تباہ ہو جائے گا۔ یہ نفرت کا عالم صرف مذہبی گروہوں تک محدود نہیں، نسل، رنگ اور زبان کی بنیاد پر جتنے لوگ اس ملک میں ہر روز مارے جاتے ہیں ان کا بھی حساب نہیں۔ انسانوں کے درمیان میں سے چن کر، شناختی کارڈ دیکھ کر، علیحدہ لائن میں کھڑا کر کے مارنے کا پہلا واقعہ بلوچستان کی وادیٔ بولان کے تفریحی مقام پیر غائب میں ہوا جہاں پکنک منانے کے لیے آئے ہوئے لوگوں میں سے شناختی کارڈ دیکھ کر پنجابیوں کو علیحدہ کیا گیا اور پھر انھیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔
پھر اس سے چند میل دور، چند ماہ بعد بس روکی گئی، شناختی کارڈ دیکھے گئے اور پنجابیوں کو مارا گیا۔ میرے ملک کے ''عظیم دانشور'' اسے فوج کی کاروائیوں کا ردعمل گردانتے رہے اور اس مسئلے کا سراغ بلوچستان کی محرومیوں میں ڈھونڈتے رہے۔ انسانوں کی اس اذیت ناک موت پر ایسے بے حس تبصرے شاید ہی کسی اورملک میں ہوئے ہوں۔ اس کے بعد یہ فیشن چل نکلا۔ نہتے مسافروں کی بس کو روکو، اپنی مرضی کے مطابق انسانوں کی چھانٹی کرو اور مار دو۔ کوئٹہ سے ایران جانے والے مسافر ہوں، اسلام آباد سے گلگت جانے والے یا کراچی شہر کی بسوں میں سفر کرنے والے۔ یہ سب لوگ مرتے رہے اور ہم بے حسی کے ساتھ یہ مناظر دیکھ کر ویسی ہی میٹھی نیند سوتے رہے جیسے سینما ہال میں قتل و غارت والی فلم دیکھنے کے بعد گھر آ کر سوتے ہیں۔
کبھی کسی نے غور کیا کہ ایسی بے حسی کا آغاز کب ہوا۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کی لہر گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد پھیلی۔ افغانوں کے جسموں کے پرخچے اڑتے رہے، ہماری سرزمین سے جہاز اڑتے اور معصوم افغان شہریوں پر بم برسا کر فاتحانہ انداز سے لوٹتے۔ پہلے چار سالوں میں ستاون ہزار دفعہ امریکی جہازوں نے اس ملک کے ہوائی اڈوں سے پرواز کی۔ ہم جو مسلمان کے خون کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے بہتر سمجھتے تھے، کہ ہمارے پیارے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی درس دیا تھا۔
لیکن ہم نے سمجھ لیا کہ مسلمان تو صرف وہ ہیں جو پاکستان کی حدود میں رہتے ہیں۔ باقی تو زمین پربسنے والی غلاظتیں جن سے اس زمین کو پاک کرنا چاہیے۔ اس کے باوجود ہم دہشت گردی سے محفوظ تھے کہ ہمارا اﷲ ہمیں مہلت دے رہا تھا۔ نہ کوئی خودکش حملہ تھا اور نہ بس سے اتار کر بیہمانہ طریقے سے قتل کی وارداتیں۔ لیکن جولائی 2007ء میں ہم نے کئی راتوں تک ایک دلدوز اور ظالمانہ منظر اپنی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر ایک ہالی ووڈ کی فلم کی طرح دیکھا اور اپنے بچوں کو بستروں میں چھپائے چین کی نیند سوتے رہے۔ یہ تھا لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا منظر۔ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں میں گھرے بچے اور معصوم لڑکیاں۔ ہمیں صرف گولیوں کی گھن گھرج سنائی دیتی رہی لیکن ان کی چیخیں ہمارے کانوں تک نہ پہنچ پائیں۔
ان کی بھوک اور پیاس کے عالم میں ظالمانہ موت پر ہمارے تبصرے عجیب تھے۔ یہ دیکھو اسلام آباد کے بیچوں بیچ ایک تماشہ بنایا تھا ان لوگوں نے، ان میں تو صرف 73 لوگ مرے ہیں، یہ خارجی ہیں، واجب القتل ہیں، یہ پوری دنیا میں ہمارا امیج خراب کر رہے تھے۔ خس کم جہاں پاک، وہ دن اور آج کا دن، اس ملک کو چین نصیب نہیں ہو سکا۔ اس دن سے اﷲ نے ہمارے دلوں میں نفرت اور تعصب کو گہرا کر دیا۔ اس لیے کہ ہم نے دوسروں کی موت پر خوش ہونا سیکھ لیا تھا۔
پھر 12 مئی کو کراچی میں لوگ بھونے جائیں ہم اسلام آباد میں جشن مناتے تھے، کوئٹہ میں ہزارہ منگول قبائل کے لوگ چن چن کر مارے جائیں، ہمیں افسوس تک نہیں ہوتا تھا، قرآن کا درس دینے والا کوئی نہتہ عالم دین گولیوں کا نشانہ بنے، ہم گھروں میں خاموش اسے ایک عام سی خبر سمجھتے تھے، ہماری نفرت، تعصب اور خود غرضی کا عالم یہ ہے کہ ہم اپنے مخالف کا جنازہ پڑھنے نہیں جاتے۔ ہمارے کسی بھی عقیدے، رنگ، نسل اور زبان کے لوگوں کی محفل میں چلے جائو مخالف کی موت پر ان کے ہاں ظاہر نہ بھی ہو پھر بھی ایک دبی ہوئی خوشی ضرور ہوتی ہے۔ ہم انسانوں کی موت پر رونا بھول چکے ہیں۔ ہم صرف اپنوں کا ماتم کرتے ہیں۔
جو لوگ بحرین میں قتل عام کی مذمت کرتے تھے، انھیں شام میں انسانوں کے قتل پر ماتم بھول جاتا ہے، اور جو لوگ شام کے مقتولین پر نوحہ کناں ہیں انھیں بحرین کا فوجی ایکشن جائز لگتا ہے۔ جو لیبیا میں امریکی اور یورپی مدد سے قذافی کی موت کو جائز خیال کرتے تھے انھیں شام میں امریکی اور یورپی مدد ملت اسلامیہ کے خلاف سازش لگتی ہے۔ یہ سب کیا ہے۔ ہر کوئی میڈیا کو گالی دیتا ہے، ہر کوئی حکومت مخالفین کو کچلنے کا درس دیتا ہے۔ سب قرآن پڑھتے ہیں لیکن اﷲ کے عذاب کی نشانیاں نہیں دیکھتے۔ سورہ الانعام کی 65 ویں آیت میں اﷲ فرماتے ہیں۔ اﷲ تمہیں مختلف گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑا دے اور یوں ایک دوسرے کی طاقت اور عذاب کا مزا چکھا دے۔ ہم تعصبات کے اندھے غار میں گم ہیں اور ہماری حالت سورہ یٰسین میں بیان کیے گئے اﷲ کے اس عذاب میں گرفتار والی ہے ''اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں ملیامیٹ کر دیں، پھر یہ راستے کی تلاش میں بھاگے پھریں، لیکن انھیں کہاں کچھ سمجھائی دے گا۔ اور عذاب سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ اجتماعی استغفار۔
ان سے آٹو گراف بھی لیتے ہیں۔ ہمارا رویہ روز مرنے والے انسانوں کے بارے میں ایسا ہی ہو چکا ہے۔ البتہ جن کے احباب موت کی آغوش میں جاتے ہیں، وہی قیامت کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کے لیے احتجاج بھی وہی لوگ کرتے ہیں جو ان کے عقیدے، نسل، زبان یا سیاسی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ بابوسر میں 25 انسان اپنے ساتھیوں سے علیحدہ کیے گئے اور لائن میں کھڑے کر کے گولیوں سے بھون دیے گئے۔ باقی بچ جانے والے اسی طرح یہ منظر دیکھنے پر مجبور تھے جیسے مرغیوں کے ڈربے سے قصاب ایک مرغی ذبح کرنے کے لیے نکالتا ہے تو باقی مرغیاں اس بات پر شکر ادا کرتی ہیں کہ ان کی جان بچ گئی۔
سڑکوں پر احتجاج کرنے والے وہی لوگ تھے جو ان کے عقیدے سے تعلق رکھتے تھے۔ باقی اٹھارہ کروڑ لوگوں کے لیے یہ ہالی ووڈ کی فلم کا ایک منظر تھا جو کچھ دیر کے لیے ٹیلی ویژن کی اسکرین پر چلا اور تھوڑی دیر تک داد وصول کر کے غائب ہو گیا کہ اس کی جگہ لینے کے لیے اب دوسرے مناظر آ گئے تھے۔ نہ کوئی آنکھ آنسوئوں سے تر ہوئی اور نہ کسی کی نیند حرام۔ ایسا نہ پہلی بار ہوا اور نہ بحیثیت قوم ہمارے رویے کی یہ پہلی جھلک ہے۔ روز موت ہمارے شہروں میں رقص کرتی ہے اور روز ہمارے غصے اور نفرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے یہ یزیدی ٹولہ ہے، دوسرا کہتا ہے یہ دہشت گرد ہیں، تیسرا کہتا ہے یہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں، چوتھا کہتا ہے امریکا، بھارت اور افغانستان مل کر سب کروا رہے ہیں۔
ہر گروہ کا مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ ان کو سختی سے کچل دو، ان کی نسل تک ختم کر دو، ان کے خلاف پوری طاقت استعمال کرو۔ ہر ایک کا مطالبہ یہی ہے کہ اگر دوسرے گروہ کو نہ کچلا گیا تو یہ ملک تباہ ہو جائے گا۔ یہ نفرت کا عالم صرف مذہبی گروہوں تک محدود نہیں، نسل، رنگ اور زبان کی بنیاد پر جتنے لوگ اس ملک میں ہر روز مارے جاتے ہیں ان کا بھی حساب نہیں۔ انسانوں کے درمیان میں سے چن کر، شناختی کارڈ دیکھ کر، علیحدہ لائن میں کھڑا کر کے مارنے کا پہلا واقعہ بلوچستان کی وادیٔ بولان کے تفریحی مقام پیر غائب میں ہوا جہاں پکنک منانے کے لیے آئے ہوئے لوگوں میں سے شناختی کارڈ دیکھ کر پنجابیوں کو علیحدہ کیا گیا اور پھر انھیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔
پھر اس سے چند میل دور، چند ماہ بعد بس روکی گئی، شناختی کارڈ دیکھے گئے اور پنجابیوں کو مارا گیا۔ میرے ملک کے ''عظیم دانشور'' اسے فوج کی کاروائیوں کا ردعمل گردانتے رہے اور اس مسئلے کا سراغ بلوچستان کی محرومیوں میں ڈھونڈتے رہے۔ انسانوں کی اس اذیت ناک موت پر ایسے بے حس تبصرے شاید ہی کسی اورملک میں ہوئے ہوں۔ اس کے بعد یہ فیشن چل نکلا۔ نہتے مسافروں کی بس کو روکو، اپنی مرضی کے مطابق انسانوں کی چھانٹی کرو اور مار دو۔ کوئٹہ سے ایران جانے والے مسافر ہوں، اسلام آباد سے گلگت جانے والے یا کراچی شہر کی بسوں میں سفر کرنے والے۔ یہ سب لوگ مرتے رہے اور ہم بے حسی کے ساتھ یہ مناظر دیکھ کر ویسی ہی میٹھی نیند سوتے رہے جیسے سینما ہال میں قتل و غارت والی فلم دیکھنے کے بعد گھر آ کر سوتے ہیں۔
کبھی کسی نے غور کیا کہ ایسی بے حسی کا آغاز کب ہوا۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کی لہر گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد پھیلی۔ افغانوں کے جسموں کے پرخچے اڑتے رہے، ہماری سرزمین سے جہاز اڑتے اور معصوم افغان شہریوں پر بم برسا کر فاتحانہ انداز سے لوٹتے۔ پہلے چار سالوں میں ستاون ہزار دفعہ امریکی جہازوں نے اس ملک کے ہوائی اڈوں سے پرواز کی۔ ہم جو مسلمان کے خون کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے بہتر سمجھتے تھے، کہ ہمارے پیارے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی درس دیا تھا۔
لیکن ہم نے سمجھ لیا کہ مسلمان تو صرف وہ ہیں جو پاکستان کی حدود میں رہتے ہیں۔ باقی تو زمین پربسنے والی غلاظتیں جن سے اس زمین کو پاک کرنا چاہیے۔ اس کے باوجود ہم دہشت گردی سے محفوظ تھے کہ ہمارا اﷲ ہمیں مہلت دے رہا تھا۔ نہ کوئی خودکش حملہ تھا اور نہ بس سے اتار کر بیہمانہ طریقے سے قتل کی وارداتیں۔ لیکن جولائی 2007ء میں ہم نے کئی راتوں تک ایک دلدوز اور ظالمانہ منظر اپنی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر ایک ہالی ووڈ کی فلم کی طرح دیکھا اور اپنے بچوں کو بستروں میں چھپائے چین کی نیند سوتے رہے۔ یہ تھا لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا منظر۔ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں میں گھرے بچے اور معصوم لڑکیاں۔ ہمیں صرف گولیوں کی گھن گھرج سنائی دیتی رہی لیکن ان کی چیخیں ہمارے کانوں تک نہ پہنچ پائیں۔
ان کی بھوک اور پیاس کے عالم میں ظالمانہ موت پر ہمارے تبصرے عجیب تھے۔ یہ دیکھو اسلام آباد کے بیچوں بیچ ایک تماشہ بنایا تھا ان لوگوں نے، ان میں تو صرف 73 لوگ مرے ہیں، یہ خارجی ہیں، واجب القتل ہیں، یہ پوری دنیا میں ہمارا امیج خراب کر رہے تھے۔ خس کم جہاں پاک، وہ دن اور آج کا دن، اس ملک کو چین نصیب نہیں ہو سکا۔ اس دن سے اﷲ نے ہمارے دلوں میں نفرت اور تعصب کو گہرا کر دیا۔ اس لیے کہ ہم نے دوسروں کی موت پر خوش ہونا سیکھ لیا تھا۔
پھر 12 مئی کو کراچی میں لوگ بھونے جائیں ہم اسلام آباد میں جشن مناتے تھے، کوئٹہ میں ہزارہ منگول قبائل کے لوگ چن چن کر مارے جائیں، ہمیں افسوس تک نہیں ہوتا تھا، قرآن کا درس دینے والا کوئی نہتہ عالم دین گولیوں کا نشانہ بنے، ہم گھروں میں خاموش اسے ایک عام سی خبر سمجھتے تھے، ہماری نفرت، تعصب اور خود غرضی کا عالم یہ ہے کہ ہم اپنے مخالف کا جنازہ پڑھنے نہیں جاتے۔ ہمارے کسی بھی عقیدے، رنگ، نسل اور زبان کے لوگوں کی محفل میں چلے جائو مخالف کی موت پر ان کے ہاں ظاہر نہ بھی ہو پھر بھی ایک دبی ہوئی خوشی ضرور ہوتی ہے۔ ہم انسانوں کی موت پر رونا بھول چکے ہیں۔ ہم صرف اپنوں کا ماتم کرتے ہیں۔
جو لوگ بحرین میں قتل عام کی مذمت کرتے تھے، انھیں شام میں انسانوں کے قتل پر ماتم بھول جاتا ہے، اور جو لوگ شام کے مقتولین پر نوحہ کناں ہیں انھیں بحرین کا فوجی ایکشن جائز لگتا ہے۔ جو لیبیا میں امریکی اور یورپی مدد سے قذافی کی موت کو جائز خیال کرتے تھے انھیں شام میں امریکی اور یورپی مدد ملت اسلامیہ کے خلاف سازش لگتی ہے۔ یہ سب کیا ہے۔ ہر کوئی میڈیا کو گالی دیتا ہے، ہر کوئی حکومت مخالفین کو کچلنے کا درس دیتا ہے۔ سب قرآن پڑھتے ہیں لیکن اﷲ کے عذاب کی نشانیاں نہیں دیکھتے۔ سورہ الانعام کی 65 ویں آیت میں اﷲ فرماتے ہیں۔ اﷲ تمہیں مختلف گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑا دے اور یوں ایک دوسرے کی طاقت اور عذاب کا مزا چکھا دے۔ ہم تعصبات کے اندھے غار میں گم ہیں اور ہماری حالت سورہ یٰسین میں بیان کیے گئے اﷲ کے اس عذاب میں گرفتار والی ہے ''اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں ملیامیٹ کر دیں، پھر یہ راستے کی تلاش میں بھاگے پھریں، لیکن انھیں کہاں کچھ سمجھائی دے گا۔ اور عذاب سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ اجتماعی استغفار۔