معاشی استحصال کی پردہ پوشی

کیا خیرات کی حوصلہ افزائی کرنے والے خیرات میں چھپی تضحیک کو...

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

MIRPURKHAS:
ہمارے ملک ہی میں نہیں ساری دنیا میں خیراتی کاموں کو نیکی اور ثواب کے کاموں کا نام دے کر اس کلچر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی ایسے باشعور قلم کار بھی کرتے دِکھائی دیتے ہیں جو آقا و غلام، محتاج و غنی کی تفریق کے نظام کو دنیا کے اربوں غریب انسانوں پر ظلم اور معاشی استحصال بھی مانتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہندوستان کے نئے منتخب صدر پرنب مکھرجی نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے ایک بیان میں ''غربت کو انسانیت کی سب سے بڑی تضحیک'' کہا ہے، اس حوالے سے ہم نے ایک کالم میں غربت کے مسئلے کا جائزہ پیش کیا تھا۔ ہمارے ملک اور دنیا بھر میں خیراتی اداروں کی جس طرح حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، یہ غلطی نہیں بلکہ دانستگی ہے جو بالواسطہ طور پر انسانوں کی تقسیم کے استحصالی نظام کو مستحکم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ کیا خیرات کی حوصلہ افزائی کرنے والے خیرات میں چھپی تضحیک کو نہیں دیکھتے؟

کراچی میں بھی بھوکوں کو کھانا کِھلانے، ننگوں کو کپڑے مہیا کرنے اور غربا کو ان کی ضرورت کی بعض اشیاء فراہم کرنے کا کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ رمضان کے مہینے میں ان خیراتی کاموں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جو ادارے خیراتی کاموں میں حصّہ لیتے ہیں، اگرچہ یہ ادارے عموماً مڈل کلاس کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں لیکن یہ ادارے خیراتی کاموں کے لیے جو سرمایہ جمع کرتے ہیں، یہ سرمایہ وہ بین الاقوامی ادارے فراہم کرتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے ایجنٹوں کی حیثیت سے دنیا کے مفلوک الحال عوام میں اس ظالمانہ استحصالی نظام کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت کو نیکی ثواب کی گرد میں چُھپانا چاہتے ہیں۔

ایسی افواہیں بھی عام ہیں کہ نیکی اور ثواب کے کاموں میں بھی بہت بڑی بدعنوانیاں ہوتی ہیں لیکن یہ سب کچھ نیکی اور ثواب کے نقاب میں چُھپ جاتا ہے ۔ پرنب مکھرجی نے غربت کو انسانیت کی سب سے بڑی تضحیک کہا ہے۔ میں حیران ہوں کہ خیرات کو کیا نام دوں اور خیرات دینے والے اور لینے والوں کی مجبوری اور مختاری کو استحصال کی کون سی صورت قرار دوں؟

میں نے خیرات کے نام سے ایک مختصر افسانہ لکھا تھا، جس میں عید کی نماز کے بعد عید گاہ کے باہر بیٹھے ہوئے درجنوں مجبوروں کو خیرات بانٹنے والے ایک چھوٹے سخی کے ہاتھ میں پانچ روپے کا ایک نوٹ رکھا گیا۔ اس چھوٹے سخی نے جب سوال کیا کہ یہ کیا ہے تو پانچ کا نوٹ رکھنے والے نے جواب دیا، ''یہ خیرات ہے'' اس جواب پر چھوٹا سخی اس قدر مشتعل ہوگیا کہ مرنے مارنے پر تیار ہوگیا۔ اس چھوٹے سخی سے جب پوچھا گیا کہ تم خیرات دینے کو ثواب کا کام سمجھتے ہو تو خیرات لینے کو ذلّت اور تحقیر کیوں سمجھتے ہو؟ اس کا کوئی جواب نہ تھا۔

مسئلہ یہ نہیں کہ خیرات نیکی کا کام ہے یا کچھ اور ، مسئلہ یہ ہے کہ اس کھیل میں جو دو فریق ہیں ۔جو محتاج ہے ، وہ محتاج کیوں ہے؟ سرمایہ دار کی تعداد کتنی ہے اور محتاجوں کی تعداد کتنی ہے۔ اگرچہ یہ تقسیم انسانی تاریخ کے ساتھ ساتھ ہر دور میں واضح طور پر دِکھائی دیتی ہے لیکن انسانی تاریخ کے ہر دور میں بھیک کو ایک ذلت بھی سمجھا گیا، لیکن میں حیرت سے انسانی تاریخ کے ہر دور میں تلاش بسیار کے باوجود ایسے دانشوروں، ایسے فلسفیوں کو تلاش نہ کر سکا جو خیراتی کاموں کو استحصالی نظاموں کی پردہ پوشی اور خیرات کو انسانیت کی سب سے بڑی تضحیک سمجھتے ہوں۔ اس حوالے سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ نیکی کسی ایک ملک و قوم میں رائج نہیں بلکہ ہر پسماندہ اور ترقی یافتہ ملک میں اس نیکی کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔

آج سرمایہ دارانہ نظام اگرچہ اپنی طبعی موت کے قریب پہنچ گیا ہے لیکن اس نظام کی بدولت دنیا میں ترقی اور خوش حالی کے جو ترانے گائے جاتے ہیں، ان ترانوں کی دھنوں میں وہ الم ناک موسیقی چھپ جاتی ہے جو دنیا کے 98 فیصد انسانوں کی زندگی کے دکھوں پر استوار ہے اور ان کے دکھوں کو اجاگر کرتی ہے۔ بلاشبہ سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت دنیا معاشی ترقی کی معراج پر کھڑی ہے لیکن ترقی کی اس شاندار عمارت کی بنیادوں میں ان 98 فیصد انسانوں کا خون ہے جو اس ترقی کے اصل معمار ہیں اور جنھیں ہمیشہ اس نظام کے لٹیروں نے محتاج بنا کر رکھا۔ دو فیصد ایلیٹ کے قبضے میں موجود 80 فیصد دولت کو منصفانہ طور پر تقسیم کیا جائے تو نہ غربت رہے گی نہ خیرات کا کلچر رہے گا، نہ انسانیت کی تذلیل ہوگی۔

مجھے مزدوروں کے حقوق کی جنگ میں شامل رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس جنگ کے دوران مجھے مزدوروں اور صنعت کاروں کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے مزدوروں کو آج سے چالیس سال پہلے جس حالت میں دیکھا تھا، آج میں مزدوروں کو اس سے بدتر حالت میں دیکھ رہا ہوں جب کہ صنعت کار آج سے 40 سال پہلے ایک کارخانے کے مالک تھے تو آج دس کارخانوں کے مالک ہیں۔ مزدوروں کے خون پسینے سے اپنی امارت کے تاج محل تعمیر کرنے والوں نے اپنے ملوں کارخانوں میں دھرم کھاتے کھول رکھے ہیں۔ ان دھرم کھاتوں میں موجود رقم مزدوروں کی کمائی ہوتی ہے لیکن یہ کس قدر ظلم کی بات ہے کہ دھرم کھاتوں کے نام پر مزدوروں کی کمائی خیرات کے نام پر مزدوروں میں تقسیم کی جاتی ہے اور مزدور اپنی کمائی کو خیرات کے طور پر وصول کرتا ہے۔ اقبال کا ایک شعر ہے۔


دستِ دولت آفریں کو ''مزد'' یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات

دنیا بھر کی دولت پیدا کرنے والوں کو جب میں ہوٹلوں، سماجی تنظیموں کے لنگر خانوں کے سامنے روٹی کے لیے لمبی لمبی لائنوں میں بیٹھے دیکھتا ہوں تو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ بھوکے پیٹوں کو روٹی فراہم کرنا اگر نیکی اور ثواب ہے تو پھر عذاب کیا ہے؟ میں نے بھوکوں کی ان لائنوں میں بیٹھے لوگوں کی اکثریت کو اپنے چہرے چھپاتے دیکھا ہے۔ عزتِ نفس کا احساس انھیں اپنے چہرے چھپانے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کلچر کی حمایت کا جواز کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، اپنی اصل میں یہ جواز معاشی استحصال کی پردہ پوشی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ایسا سماج جو انسان کی محنت کو خیرات کی شکل میں اسے لوٹاتا ہے، اس سماج کی اینٹ سے اینٹ بجانا ہمارا فرض ہے۔ احسان دانش کے چند شعر پیش ہیں۔

چہروں پر رنگ صداقت کا، معصوم جبینیں تاباں ہیں
یہ شرم حیا کے پتلے ہیں، فطرت کے دلارے انساں ہیں
میں اس منڈی کی ہلچل میں جس سمت نظر دوڑاتا ہوں
کثرت سے یہاں انسانوں کو مصروفِ گدائی پاتا ہوں

مٹی کی تہیں رخساروں پر کشکولِ گدائی ہاتھوں میں
اک درد سا نادم لہجوں میں، اک ہوک سی غمگین باتوں میں

اقبال نے کہا تھا:
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
Load Next Story