پاکستان کے خلاف کھلی جنگ

پاکستان کے ایک بدنیت اور بدبخت حکمران نے مسلمانوں کے خلاف اس جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دے دیا


Abdul Qadir Hassan August 17, 2012
[email protected]

KARACHI: پاکستان سے کہیں زیادہ طاقت ور طاقتیں متحد ہو کر اس وقت پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ امریکا' نیٹو کے یورپی ممالک اور بھارت ان سب کا جنگی اڈہ افغانستان ہے جہاں سے وہ پاکستان پر حملہ آور ہیں اور یہ سب محض حالات حاضرہ کا نتیجہ اور مجبوری نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے پر عملدرآمد کا حصہ ہے۔ یہ باتیں بھولنی تو نہیں چاہئیں لیکن میں آپ کو ایک بار پھر یاد دلاتا ہوں کہ نیٹو کے سیکریٹری جنرل سے پوچھا گیا کہ اب جب سوویت یونین اور اس کا فوجی اتحاد وارسا ختم ہو چکا ہے تو اس کے مقابلے میں قائم ہونے والے فوجی پیکٹ نیٹو کی کیا ضرورت ہے۔ سیکریٹری جنرل کا دو لفظی جواب یہ تھا کہ 'اسلام ابھی باقی ہے'۔

اب جب مسلمانوں کے خلاف امریکی مہم شروع ہوئی تو نیٹو کے یورپی ارکان خود بخود اس میں بلاتکلف شامل ہو گئے۔ پاکستان کے ایک بدنیت اور بدبخت حکمران نے مسلمانوں کے خلاف اس جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دے دیا جیسے اس کے خیال میں پاکستان کوئی غیر مسلم ملک تھا، اس کے ساتھ ہی ایک اور بات یاد کیجیے کہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا تو امریکا کے ایک نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ ''پاکستان کا یہ بم امریکا کے لیے ناقابل برداشت ہے''۔ مغربی دنیا کے اعلان کے مطابق اسلام اور اس حوالے سے پاکستان کا ایٹم بم یہ سب ناقابل قبول ہیں فی الوقت پاکستان کا ایٹم بم نشانے پر ہے کیونکہ اسلام کا خاتمہ ایک وسیع اور طویل مدت کا معاملہ ہے لیکن پاکستان کا ایٹم بم ختم کرنا مختصر مسئلہ ہے۔

پاکستان کے کسی فوجی ہوائی اڈے پر حملہ محض کوئی تخریب کاری نہیں ہے۔ ہمارے ایک سابق فوجی ساتھی ایاز امیر نے درست کہا کہ یہ تو پاکستان پر حملہ ہے یعنی اس سے اگلا مرحلہ تو سول آبادی پر حملہ اور قبضہ ہے جو بتایا گیا نقصان اس سے بہت زیادہ ہوا۔ کامرہ کا اڈہ بہت اہم ہے اور خبروں سے پتہ چلا کہ ایسے کسی حملے کی پیشگی اطلاع بھی تھی۔ اگر یہ درست ہے تو ذمے دار لوگوں کو سزا دینی لازم ہے۔ پاکستان اب بھارت کی شاملات دہ نہیں کہ وہ جب چاہے اس پر حملہ کر دے۔ ان دنوں اس بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے چند ناداں پاکستانی بھارت میں ہیں، ان میں کچھ تو بھارت اور امریکا کے کھلے ایجنٹ ہیں اور کچھ ان ایجنٹوں کے بھاڑے کے ٹٹو ہیں۔

اس پر گفتگو بعد میں ہو گی اور دل کے پھپھولے پھوٹیں گے فی الحال یہ دیکھیں کہ ہم پر دشمن حملہ آور ہے، ایک مستند اور تاریخی دشمن جس کی دشمنی ہر پاکستانی کے دل پر نقش ہے اور اس کے چالاک دانشور اسے چھپاتے بھی نہیں ہیں مگر ہمارے لالچی اسے جوں کا توں قبول کر لیتے ہیں اور بھارتی عیار اور شاطر دانشوروں کی ہر بات بھی ان کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ ہماری انقلابی سیکولر حکومت نے چار پانچ برس گزار لیے ہیں اور میرا اندازہ ہے کہ اس کے مزاج اور پالیسی والے ہی لوگ پھر سے اقتدار میں آئیں گے۔ آپ اپنی سیاسی قیادت پر ایک ایک کر کے نظر ڈالیں۔

ان میں سے اکثر تو کسی نظریہ پاکستان کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان میں سے جو پاکستانیت کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے پاس پاکستانیت کی تعریف بس یہی ہے کہ اس نام کا ایک ملک ہے اور اسے یورپی ملکوں کی طرح اپنے دائیں بائیں کے ملکوں سے یورپی انداز کا میل جول رکھنا چاہیے کہ وہاں ایک سے دوسرے ملک جائیں تو پتہ نہیں چلتا کہ آپ ایک ملک کی حد بھی عبور کر آئے ہیں۔ زمین آب و ہوا مذہب کلچر انداز حکومت تاریخ سب اگر ایک جیسے ہوں تو پھر حدیں ملکوں کو تقسیم نہیں کرتیں لیکن ہم کیا بھارت کو اپنا یورپی طرز کا پڑوسی سمجھیں جو 1947 سے اب تک ہمارے اندر تخریب کاری کر رہا ہے ہاں یاد آیا کہ ہماری حکومت نے پہلی بار تسلیم کیا ہے کہ بھارت ہمارے ہاں گڑ بڑ کرتا اور کراتا ہے ورنہ گزشتہ چار برسوں میں تو کسی غیر ملک کا حوالہ دیا جاتا تھا مگر نام خفیہ رکھا جاتا تھا۔ ایسا کیوں ہوتا تھا بھارت کے ڈر سے امریکا کے حکم سے یا اپنی کسی مالیاتی مصلحت سے۔

ہمارے ہاں کرپشن ایک مذہب اور دین کی شکل اختیار کر گئی ہے حیرت ہے کہ کسی بڑے کی رشوت کو چھپانے کے لیے ایک وزیر اعظم گیا دوسرا تیار ہے اور عدالت عظمیٰ نے جیسے ملک کے تمام مقدمے فیصل کر دیے ہیں صرف ایک مقدمہ باقی ہے جس میں اس کے دن رات صرف ہو رہے ہیں لیکن اتنا کچھ کرنے کے باوجود ایک خط ہے جو لکھا نہیں جاتا۔ اب ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ خط تو شائد لکھ دیا جائے لیکن اس پر کسی کا نام نہ ہو یعنی کسی سوئس بینک میں کوئی بے نامی اکائونٹ ہے۔

ہماری یہ قوم جن اندرونی حالات سے گزر رہی ہے بدامنی اور عام بے اعتمادی سے جس طرح قوم کا تانا بانا بکھر چکا ہے اس میں ہمارے ہوائی اڈوں تک میں تخریب کاری ایک ناقابل برداشت عذاب ہے بلکہ ہم محسوس کریں تو ناقابل فہم حد تک ہماری توہین ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ نہ آپ اور نہ میں کچھ کر سکتے ہیں۔ ہم صرف اخبارات پڑھ سکتے ہیں یا ٹی وی پر نامکمل خبریں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ ایک جہاز کو کچھ نقصان ہوا لیکن ایک رپورٹر کی اطلاع ہے کہ ایک جہاز تباہ اور دوسرے کو نقصان ہوا ہے۔

یہ تخریب کار شوقیہ لوگ نہیں ہیں ان کے پیچھے حکومتیں ہیں اور یہ اس کام کے لیے تربیت یافتہ ہیں۔ یہ کون ہیں مسلمان ہیں غیرمسلم ہیں اور مسلمان ہیں تو کیا عقائد رکھتے ہیں جن کی وجہ سے وہ مسلمانوں اور ایک مسلمان ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کے یہ عناصر ہیں تو پاکستان کے حامی لیکن پاکستان کی امریکا کی حمایت میں پالیسیوں کے سخت خلاف ہیں اور پاکستان کو اس کی سزا دینا چاہتے ہیں۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ پرویز مشرف نے محض ایک ٹیلی فون کال پر امریکا کی اس جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔

جب اس شخص کو مکمل پروٹوکول بلکہ کچھ زیادہ اعزاز کے ساتھ رخصت کیا جا رہا تھا تو کسی کو خیال نہ آیا کہ یہ کون ہے بہرکیف پاکستان بلاوجہ امریکا کی اس جنگ میں کود گیا اور لطف یہ ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں اربوں ڈالر اپنی جیب سے خرچ کر ڈالے اب کچھ ڈالر ملے ہیں تو وہ ہمارا ادھار ہے جو امریکا نے ادا کیا ہے لیکن ہماری اربوں روپوئوں کی جو سڑکیں تباہ ہوئی ہیں ان کا حساب کون دے گا، شاید پرویز مشرف جو پاکستانی باشندوں کو بیچ کر دولت مند بنا رہا۔

میری ذہنی پریشانی مجھے دلجمعی کے ساتھ کچھ لکھنے نہیں دے رہی۔ کاش میں ایسا پاکستانی ہوتا جو ان دنوں مشرقی پنجاب میں اپنی پاکستانی بے عزتی کا اشتہار بنا پھرتا دکھائی دیتا یا پھر ان صحافی دوستوں کا ہمنوا بن جاتا جو بھارت اور امریکا کو ان دنوں بہت مرغوب ہیں اور طرح طرح کے لبادے اوڑھ کر قوم کو بے وقوف بناتے ہیں اور یہ قوم اگر بے وقوف بنتی ہے تو وہ اسی لائق ہے۔ ایک طرف باہر سے بہت بڑی طاقتیں حملہ آور ہیں دوسری طرف اندر سے میر جعفر و صادق سرگرم عمل ہیں۔ بیچ میں احمق پاکستانی ہیں۔ اتنی گزارش ہے کہ غور سے دیکھتے رہئے۔ سستی نہ کیجیے کہ کہیں آنکھ کھلے تو منظر ہی بدلا ہوا ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں