ہندو برادری کا احتجاج
پاکستان میں اقلیتی عوام عدم تحفظ اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں
KARACHI:
سندھ اور بلوچستان کے ہندو خاندانوں کی بڑی تعداد میں بھارت ہجرت کی خبروں کا صدر زرداری نے نوٹس لے لیا۔ ان کی ہدایت پر ایک خصوصی کمیٹی نے سندھ کے مختلف شہروں میں آباد ہندوئوں سے رابطہ کر کے معاملے کو طے کرنے کی کوشش کی، فریال تالپور نے اس معاملے میں مداخلت کی ۔ مگر پیپلزپارٹی مذہب کی زبردستی تبدیلی کے قانون کے بارے میں خاموش ہے۔ وزیرداخلہ رحمٰن ملک کو بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے 250 خاندانوں کو ویزے دینے کی سازش نظر آ گئی۔
جیکب آباد سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی اعجاز جکھرانی اور ہندو پنچائیت کے رہنما اور صوبائی وزیر مکیش کمار چائولہ نے ہندوئوں کی ہجرت کو پیپلزپارٹی کی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا مگر ایک 14 سالہ ہندو لڑکی کے مسلمان ہونے اور سکھر کے ایک دکاندار سے شادی کی خبر نے کئی پوشیدہ معاملات عیاں کر دیے۔ پاکستان میں اقلیتی عوام عدم تحفظ اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں، اس کی کئی اہم وجوہات ہیں جن میں 1973ء کے آئین کے تحت اقلیتوں سے امتیاز، اقوام متحدہ کے سول و پولیٹیکل رائٹس کنونشن پر عدم عمل درآمد کے علاوہ انتظامی معاملات بھی شامل ہیں۔
ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے، بلوچستان میں ڈاکٹروں، وکیلوں، سرکاری افسروں اور مالدار افراد کے اغوا برائے تاوان کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، ہزارہ منگول قبیلے کی ٹارگٹ کلنگ، سیاسی کارکنوں کے اغوا اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کی طویل داستانیں ہیں مگر بلوچستان میں ہندو اغوا برائے تاوان کا زیادہ شکار ہے۔ ہندو برادری زیادہ تر تجارتی پیشے سے منسلک ہے، انھیں اغوا کیا جاتا ہے پھر مہینوں اغوا کرنے والے مغویوںکی رہائی کے لیے اپنی شرائط میں رد و بدل کرتے ہیں اور بالآخر لاکھوں روپے لے کر ان کو رہائی ملتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران یہ الزام لگایا گیا کہ صوبائی وزرا اغوا برائے تاوان کے کاروبار کی سرپرستی کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی بلوچستان کی صورتحال پر از خود نوٹس کے معاملات پر ان شہریوں کے اغوا کا معاملہ پیش ہوا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس ضمن میں صوبائی وزیر داخلہ کے بیان کی وضاحت طلب کی تھی مگر عدالت عظمیٰ کے سامنے وزیر داخلہ، سیکریٹری داخلہ، چیف سیکریٹری اور آئی جی نے اس معاملے کو الفاظ میں ہیر پھیر کے ذریعے پس منظر میں دھکیل دیا، مگر ہندو برادری میں پیدا ہونے والے عدم تحفظ کا احساس برقرار رہا۔ اگرچہ سندھ میں امن و امان کی صورتحال بلوچستان کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے۔ سندھ میں آباد ہندو برادری میں بڑے جاگیردار، زمیندار، تاجر، وکیل، ڈاکٹر، اساتذہ، بینکر اور پروفیشنل افراد کی بڑی تعداد شامل ہے۔
اس برادری میں خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح خاصی بلند ہے۔ سندھ کے شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد ضلع تھرپارکر اور دوسرے شہروں میں آباد ہیں اور ہندو برادری کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان میرٹ کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اندرون سندھ میں ہندو برادری کے امیر افراد کے اغوا اور بھاری رقم دے کر رہائی کا معاملہ خوفناک صورت اختیار کر گیا ہے۔ سندھ کے پولیس حکام اغوا کی ہر واردات کے بعد ملزمان کی تلاش اور ان کی گرفتاری کا دعویٰ کرتے ہیں مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اغوا ہونے والے افراد کے اہل خانہ نے بھاری رقم ادا کر کے اپنے پیاروں کو رہا کرایا۔ کچھ ملزمان گرفتار ہوئے ہیں مگر ان ملزمان کی تعداد انتہائی کم ہے۔ کچھ مغوی رقم ادا کرنے کے باوجود قتل بھی ہوئے۔
سندھی سماج کے مطالعہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 30 برسوں میں سندھی معاشرے میں کئی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان تبدیلیوں سے ہندو برادری بھی متاثر ہوئی۔ ہندو برادری میں متوسط طبقے کا حجم بڑھا ہے، اب مردوں کے علاوہ خواتین میں بھی تعلیم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ہندو برادری کے ایک معروف ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اندرون سندھ کے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں کا ایک سروے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہندو لڑکے اور لڑکیوں کی اکثریت ان اداروں سے فارغ التحصیل ہو رہی ہے۔ جنرل یونیورسٹیوں میں بھی اس برادری کے طلبا کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
ہندو برادری کے پروفیشنل ماہرین دوسرے لوگوں کے لیے ایک چیلنج بن رہے ہیں۔ ہندو تاجروں کا کاروبار خاصا وسیع ہو رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق کراچی کے متوسط طبقے کے علاقوں گلستان جوہر، گلشن اقبال اور امرا کی بستیوں ڈیفنس وغیرہ میں ہندو تاجروں کے کاروبار میں بڑی توسیع ہوئی ہے۔ ایک ہندو ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ہندو برادری کو مختلف وجوہات کی بنا پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندو برادری مالی نقصان کسی نہ کسی طور برداشت کر لیتی ہے مگر لڑکیوں کے اغوا اور ان کے مذہب تبدیل کرانے کے واقعات نے ہزاروں سال سے آباد اس برادری کے ذہنوں کو انتشار کا شکار کر دیا ہے۔
اس برادری کے معقول افراد اس صورتحال کے تدارک کے لیے متعدد حل تجویز کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان اور اندرون سندھ امن و امان کی صورتحال بہتر ہونی چاہیے۔ اغوا برائے تاوان کے کاروبار کی سرپرستی بااثر وڈیرے اور سیاست دان کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کو ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ اقلیتی برادری کی جانوں کے تحفظ سے ان کا ریاستی اداروں پر اعتماد مضبوط ہوگا۔ زبردستی تبدیلی مذہب اور زبردستی شادی کے واقعات کو روکنے کے لیے ایسا قانون بنایا جائے جس پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے اور جو انتہاپسند عناصر اس قانون کی راہ میں رکاوٹ ہوں ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
سندھ کے علاقے گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے ایک دانشور کا کہنا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی سرحدی پٹی سے تعلق رکھنے والے بااثر جاگیرداروں کا ہندو برادری کے اغوا سے گہرا تعلق ہے۔ صدر زرداری کو ان سے باز پرس کرنی چاہیے۔ اس برادری کے ایک دانشور ڈاکٹر مرلی نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے اپنی برادری کو بھی مشورے دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوئوں کو قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونا چاہیے اور قومی جماعتوں میں انھیں اہم عہدے ملنے چاہئیں۔ جب یہ لوگ قومی جماعتوں میں متحرک ہوں گے تو یہ جماعتیں ان کے مسائل پر توجہ دینے پر مجبور ہوں گی، ان کا کہنا ہے کہ سندھ میں ایک زمانے میں ہندو امرا نے اسکول، کالج، اسپتال، یتیم خانے وغیرہ قائم کر کے دوسری برادریوں کے دل موہ لیے تھے مگر اب یہ سلسلہ کم ہو گیا ہے۔ اب بھی امرا کو رفاہی کاموں کو ترجیح دینی چاہیے اور ان کاموں سے بلا امتیاز مذہب، نسل و قوم ہر شخص کو استفادے کا موقع ملنا چاہیے۔
ہندئوں کی فیاضی سے دوسری برادریوں میں ان کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوگا۔ اس کے ساتھ اقلیتوں کو مخلوط انتخابات میں حصہ لینے کا حق نہیں ہے۔ اقلیتوں کو مخصوص نشستوں پر براہ راست انتخاب کا حق ہونا چاہیے، اس طرح تمام نمایندے اپنی برادری پر توجہ دینے پر مجبور ہوں گے۔ ہندو برادری کے معقول لوگوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں سخت مقابلے کی فضا ہے، وہاں پاکستان سے آنے والے لوگوں کے لیے گنجائش محدود ہے۔ اس لیے ہندو بھارت جانے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے، انھیں اپنی دھرتی پر تحفظ فراہم کیا جائے تو ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اقلیتوں میں پیدا ہونے والے مسائل پر انسانی حقوق کی تنظیمیں عرصہ دراز سے احتجاج کر رہی ہیں مگر حکومت نے توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔
ہندو برادری کے زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے قانون کے نفاذ پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر اب بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ اس مسئلے کا حل محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء کی قانون ساز اسمبلی کی تاریخی تقریر میں مضمرہے۔ جناح صاحب کے مطابق ریاست کی تشکیل نو کی جائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
سندھ اور بلوچستان کے ہندو خاندانوں کی بڑی تعداد میں بھارت ہجرت کی خبروں کا صدر زرداری نے نوٹس لے لیا۔ ان کی ہدایت پر ایک خصوصی کمیٹی نے سندھ کے مختلف شہروں میں آباد ہندوئوں سے رابطہ کر کے معاملے کو طے کرنے کی کوشش کی، فریال تالپور نے اس معاملے میں مداخلت کی ۔ مگر پیپلزپارٹی مذہب کی زبردستی تبدیلی کے قانون کے بارے میں خاموش ہے۔ وزیرداخلہ رحمٰن ملک کو بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے 250 خاندانوں کو ویزے دینے کی سازش نظر آ گئی۔
جیکب آباد سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی اعجاز جکھرانی اور ہندو پنچائیت کے رہنما اور صوبائی وزیر مکیش کمار چائولہ نے ہندوئوں کی ہجرت کو پیپلزپارٹی کی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا مگر ایک 14 سالہ ہندو لڑکی کے مسلمان ہونے اور سکھر کے ایک دکاندار سے شادی کی خبر نے کئی پوشیدہ معاملات عیاں کر دیے۔ پاکستان میں اقلیتی عوام عدم تحفظ اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں، اس کی کئی اہم وجوہات ہیں جن میں 1973ء کے آئین کے تحت اقلیتوں سے امتیاز، اقوام متحدہ کے سول و پولیٹیکل رائٹس کنونشن پر عدم عمل درآمد کے علاوہ انتظامی معاملات بھی شامل ہیں۔
ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے، بلوچستان میں ڈاکٹروں، وکیلوں، سرکاری افسروں اور مالدار افراد کے اغوا برائے تاوان کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، ہزارہ منگول قبیلے کی ٹارگٹ کلنگ، سیاسی کارکنوں کے اغوا اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کی طویل داستانیں ہیں مگر بلوچستان میں ہندو اغوا برائے تاوان کا زیادہ شکار ہے۔ ہندو برادری زیادہ تر تجارتی پیشے سے منسلک ہے، انھیں اغوا کیا جاتا ہے پھر مہینوں اغوا کرنے والے مغویوںکی رہائی کے لیے اپنی شرائط میں رد و بدل کرتے ہیں اور بالآخر لاکھوں روپے لے کر ان کو رہائی ملتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران یہ الزام لگایا گیا کہ صوبائی وزرا اغوا برائے تاوان کے کاروبار کی سرپرستی کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی بلوچستان کی صورتحال پر از خود نوٹس کے معاملات پر ان شہریوں کے اغوا کا معاملہ پیش ہوا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس ضمن میں صوبائی وزیر داخلہ کے بیان کی وضاحت طلب کی تھی مگر عدالت عظمیٰ کے سامنے وزیر داخلہ، سیکریٹری داخلہ، چیف سیکریٹری اور آئی جی نے اس معاملے کو الفاظ میں ہیر پھیر کے ذریعے پس منظر میں دھکیل دیا، مگر ہندو برادری میں پیدا ہونے والے عدم تحفظ کا احساس برقرار رہا۔ اگرچہ سندھ میں امن و امان کی صورتحال بلوچستان کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے۔ سندھ میں آباد ہندو برادری میں بڑے جاگیردار، زمیندار، تاجر، وکیل، ڈاکٹر، اساتذہ، بینکر اور پروفیشنل افراد کی بڑی تعداد شامل ہے۔
اس برادری میں خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح خاصی بلند ہے۔ سندھ کے شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد ضلع تھرپارکر اور دوسرے شہروں میں آباد ہیں اور ہندو برادری کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان میرٹ کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اندرون سندھ میں ہندو برادری کے امیر افراد کے اغوا اور بھاری رقم دے کر رہائی کا معاملہ خوفناک صورت اختیار کر گیا ہے۔ سندھ کے پولیس حکام اغوا کی ہر واردات کے بعد ملزمان کی تلاش اور ان کی گرفتاری کا دعویٰ کرتے ہیں مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اغوا ہونے والے افراد کے اہل خانہ نے بھاری رقم ادا کر کے اپنے پیاروں کو رہا کرایا۔ کچھ ملزمان گرفتار ہوئے ہیں مگر ان ملزمان کی تعداد انتہائی کم ہے۔ کچھ مغوی رقم ادا کرنے کے باوجود قتل بھی ہوئے۔
سندھی سماج کے مطالعہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 30 برسوں میں سندھی معاشرے میں کئی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان تبدیلیوں سے ہندو برادری بھی متاثر ہوئی۔ ہندو برادری میں متوسط طبقے کا حجم بڑھا ہے، اب مردوں کے علاوہ خواتین میں بھی تعلیم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ہندو برادری کے ایک معروف ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اندرون سندھ کے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں کا ایک سروے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہندو لڑکے اور لڑکیوں کی اکثریت ان اداروں سے فارغ التحصیل ہو رہی ہے۔ جنرل یونیورسٹیوں میں بھی اس برادری کے طلبا کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
ہندو برادری کے پروفیشنل ماہرین دوسرے لوگوں کے لیے ایک چیلنج بن رہے ہیں۔ ہندو تاجروں کا کاروبار خاصا وسیع ہو رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق کراچی کے متوسط طبقے کے علاقوں گلستان جوہر، گلشن اقبال اور امرا کی بستیوں ڈیفنس وغیرہ میں ہندو تاجروں کے کاروبار میں بڑی توسیع ہوئی ہے۔ ایک ہندو ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ہندو برادری کو مختلف وجوہات کی بنا پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندو برادری مالی نقصان کسی نہ کسی طور برداشت کر لیتی ہے مگر لڑکیوں کے اغوا اور ان کے مذہب تبدیل کرانے کے واقعات نے ہزاروں سال سے آباد اس برادری کے ذہنوں کو انتشار کا شکار کر دیا ہے۔
اس برادری کے معقول افراد اس صورتحال کے تدارک کے لیے متعدد حل تجویز کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان اور اندرون سندھ امن و امان کی صورتحال بہتر ہونی چاہیے۔ اغوا برائے تاوان کے کاروبار کی سرپرستی بااثر وڈیرے اور سیاست دان کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کو ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ اقلیتی برادری کی جانوں کے تحفظ سے ان کا ریاستی اداروں پر اعتماد مضبوط ہوگا۔ زبردستی تبدیلی مذہب اور زبردستی شادی کے واقعات کو روکنے کے لیے ایسا قانون بنایا جائے جس پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے اور جو انتہاپسند عناصر اس قانون کی راہ میں رکاوٹ ہوں ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
سندھ کے علاقے گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے ایک دانشور کا کہنا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی سرحدی پٹی سے تعلق رکھنے والے بااثر جاگیرداروں کا ہندو برادری کے اغوا سے گہرا تعلق ہے۔ صدر زرداری کو ان سے باز پرس کرنی چاہیے۔ اس برادری کے ایک دانشور ڈاکٹر مرلی نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے اپنی برادری کو بھی مشورے دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوئوں کو قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونا چاہیے اور قومی جماعتوں میں انھیں اہم عہدے ملنے چاہئیں۔ جب یہ لوگ قومی جماعتوں میں متحرک ہوں گے تو یہ جماعتیں ان کے مسائل پر توجہ دینے پر مجبور ہوں گی، ان کا کہنا ہے کہ سندھ میں ایک زمانے میں ہندو امرا نے اسکول، کالج، اسپتال، یتیم خانے وغیرہ قائم کر کے دوسری برادریوں کے دل موہ لیے تھے مگر اب یہ سلسلہ کم ہو گیا ہے۔ اب بھی امرا کو رفاہی کاموں کو ترجیح دینی چاہیے اور ان کاموں سے بلا امتیاز مذہب، نسل و قوم ہر شخص کو استفادے کا موقع ملنا چاہیے۔
ہندئوں کی فیاضی سے دوسری برادریوں میں ان کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوگا۔ اس کے ساتھ اقلیتوں کو مخلوط انتخابات میں حصہ لینے کا حق نہیں ہے۔ اقلیتوں کو مخصوص نشستوں پر براہ راست انتخاب کا حق ہونا چاہیے، اس طرح تمام نمایندے اپنی برادری پر توجہ دینے پر مجبور ہوں گے۔ ہندو برادری کے معقول لوگوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں سخت مقابلے کی فضا ہے، وہاں پاکستان سے آنے والے لوگوں کے لیے گنجائش محدود ہے۔ اس لیے ہندو بھارت جانے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے، انھیں اپنی دھرتی پر تحفظ فراہم کیا جائے تو ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اقلیتوں میں پیدا ہونے والے مسائل پر انسانی حقوق کی تنظیمیں عرصہ دراز سے احتجاج کر رہی ہیں مگر حکومت نے توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔
ہندو برادری کے زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے قانون کے نفاذ پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر اب بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ اس مسئلے کا حل محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء کی قانون ساز اسمبلی کی تاریخی تقریر میں مضمرہے۔ جناح صاحب کے مطابق ریاست کی تشکیل نو کی جائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔