فخر الدین جی ابراہیم کے لیے بڑا چیلنج

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس سال 31 جولائی کو فائنل لسٹ میں 84 ملین لوگوںکو ووٹ کا حقدار قرار دیا ہے


Fazal Bazai August 18, 2012
فضل بازئی

اس ملک میں توقع کے مطابق 2013 کے شروع میں الیکشن ہوں گے۔ سب پارٹیوں نے الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں جن میں بڑے جلسوں کے ساتھ کارنر میٹنگز بھی شامل ہیں۔ فخرالدین جی ابراہیم چیف الیکشن کمشنر بن چکے ہیں جن سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ بہرکیف الیکشن ایک پورا عمل ہے جو کئی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں صحیح مردم شماری، اس کی بنیاد پر الیکٹورل لسٹ، حلقہ بندیاں اور آخر میں ووٹ ڈالنا۔ ان سب میں کسی بھی طرف سے اثر انداز نہ ہونا صاف و شفاف الیکشن ہوا کرتا ہے۔ یہ الیکشن 2007 کے الیکٹورل لسٹ میں اضافہ کرکے منعقد ہوں گے کیونکہ 2008 کی مردم شماری کے نتائج کو بوجوہ روک دیا گیا ہے۔

EPC نے اس سال 31 جولائی کو فائنل لسٹ میں 84 ملین لوگوںکو ووٹ کا حقدار قرار دیا ہے جب کہ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک اور پلڈاٹ کے مطابق 98 ملین ووٹرز بنتے ہیں۔ اکنامک سروے 104 ملین کی بات کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 14 سے لے کر 20 ملین تک کے پاکستانی ووٹ کے حق سے محروم ہوجائیں گے۔

بقول الیکشن کمیشن ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر میں انفرادی طور پر ووٹرز لسٹ میں اندراج کیا جاسکتا ہے جب تک الیکشن کا اعلان نہ ہو۔ عجیب بات یہ ہے کہ اندرونِ سندھ، بلوچستان کے 25 اضلاع اور سرائیکی بیلٹ میں 2007 کے مقابلے میں ووٹرز زیادہ ہونے کے بجائے دس، دس لاکھ ووٹرز کم ہوئے ہیں۔ صرف کوئٹہ شہر کے 2007 میں ساڑھے چھ لاکھ ووٹرز تھے اب ساڑھے پانچ لاکھ ووٹرز ہیں۔ شاعر نے شاید اسی موقعے کے لیے کہا تھا ؎

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا

ہمارے خیال میں الجھائی گئی ہے۔ اس سلسلے میں جب سیکریٹری اشتیاق احمد خان سے پوچھا گیا تو جواب میں کہا کہ ہم نے وہ سارے ووٹرز لسٹ سے حذف کردیے جن کی نادرا نے تصدیق نہیں کی۔ ان میں بہت سے جینوئن ووٹرز بھی شامل تھے۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابات الیکشن کمیشن نے کنڈکٹ کروانے ہیں نادرا نے نہیں۔ ECP کا یہ بھی کہنا ہے کہ الیکشن 2007 کے الیکٹورل لسٹ کے مطابق ہو رہے ہیں اس لیے حلقہ بندیوں میں بھی کوئی رد و بدل نہیں ہوگا۔ ملک میں بہت ہی کم ایسے حلقے ہوں گے جن میں ووٹرز کی ضروریات اور آسانی کو ملحوظ خاطر رکھا ہوگا۔

جب کہ اکثریتی حلقے Gerry Mendering (حلقوں میں اپنے فائدے کے لیے ردوبدل) کا شکار ہیں۔ یہاں کوئٹہ کو مثال کے طور پر لیتے ہیں۔ اس شہر کی دو قومی اسمبلی کی نشستیں ہونی چاہئیں، کیونکہ آبادی 20 لاکھ سے اوپر ہے۔ جب کہ اکثر لوگوں کو یہ پڑھ کر حیرانی ہوگی کہ صوبائی اسمبلی کی تو کوئٹہ شہر کی چھ سیٹیں ہیں جب کہ قومی اسمبلی کی ایک بھی نہیں۔ قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کے لیے پانچ لاکھ ووٹرز کی تعداد رکھی گئی ہے جب کہ بعض حلقوں کو 40، 50 ہزار کم ووٹرز ہونے کے باوجود دیے گیے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق پچھلے الیکشن میں کوئٹہ کے ساڑھے چھ لاکھ ووٹرز تھے اب ساڑھے پانچ لاکھ لیکن سیٹ ندارد؟ یہ ہے جیری مینڈرنگ کا شاہکار۔ ان معروضات کا مطلب ہے پری الیکشن دھاندلی کا الزام تو لگ سکتا ہے،آخری دنوں میں اگر صیحح ووٹنگ ہو بھی تو اسے آزاد تو کہہ سکتے ہیں شفاف نہیں۔

بلوچستان کے پشتون علاقوں میں نادرا نے لاکھوں پشتون شناختی کارڈ بلاک کیے ہیں، وجہ افغان مہاجرین بتاتے ہیں لیکن بیسیوں ہزار ووٹرز جینوئن پشتون بھی ہیں اس لے ان کو فوری طور پر شناختی کارڈز جاری کیے جائیں۔

افغان مہاجرین کے بارے میں عرض ہے کہ یہ ہمارے بھائی ہیں۔ ہم ان کی مدد کرتے رہیں گے، لیکن انھیں شناختی کارڈ کا اجرا،الیکشن میں ووٹ ڈالنا یا الیکشن میں کھڑے ہونے کا حق کسی بھی صورت میں نہیں دینا چاہیے۔جو لوگ اس کی کوشش کرتے ہیں وہ ان کے ساتھ بھی دشمنی کر رہے ہیں اور یہاں کے پشتون عوام (بشمول پشتونخوا اور فاٹا) کے ساتھ بھی۔ پہلی بات تو یہ کہ ہمارے اپنے وسائل محدود ہیں، اوپر سے ان کا بوجھ، دوسرا نقصان ماحولیات کے حوالے سے ہے، ہمارے پہاڑوںاور میدانوں میں درخت تو چھوڑیں ان کی وجہ سے جڑی بوٹی تک نہیں ملتی اور ECO سسٹم مکمل طور پر تباہی کا شکار ہے، تیسرا سماجی طور پر ہم ان سے کافی آگے تھے، ان کے اتنی بڑی تعداد میں آنے کی وجہ سے آگے بڑھنے کا عمل اب انتہائی سست روی کا شکار ہے۔

یہاں پر پشتون قبیلوں کے درمیان جو ایک فطری توازن تھا وہ بھی ان کی وجہ سے بگڑ چکا ہے، آئے روز قبیلوں میں جھگڑے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں پر اب سال نو کے بعد ان کی تیسری جنریشن اس سرزمین پر ہوگی (میں ان کو بھی جنریشن کی حیثیت دیتا ہوں جو یہاں پر دس سال سے کم عمر میں آچکے تھے) جن کا اپنی مرضی سے جانا ممکن نہیں، یہی دنیا میں مہاجرین کی تاریخ ہے۔ ویسے بھی ڈیڑھ سو سال جدا رہنے کی وجہ سے پاکستانی معاشرے کو تو رہنے دیں پشتون معاشرے میں اب تک ایڈجسٹ نہیں ہوسکے ہیں۔

ویسے بھی افغانستان میں پشتون آبادی 54% لسانی اور 62% نسلی ہیں اب اگر ایک چھوٹے سے ملک سے ملین کے حساب سے (صرف پاکستان میں 17 لاکھ رجسٹرڈ، 13 لاکھ سے زائد ان رجسٹرڈ ہیں) پاکستان، ایران گلف اور دنیا کے ہر ملک کو ہجرت کر چکے ہوں اور یہ عمل اب بھی جاری ہے ان میں 90% کے قریب پشتون آبادی ہے تو پشتون افغانستان میں بھی بہت جلد اقلیت میں تبدیل ہو جایئں گے۔ اس لیے پشتون قوم پرست پارٹیوں اور افراد کو اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے ان کی واپسی کے لیے باقاعدہ مہم چلانی چاہیے، ورنہ جیسے پہلے گریٹ گیم میں پشتون وطن چار حصوں میں تقسیم ہوگیا (پانچواں حصہ میانوالی مستقل پنجاب کا حصہ بن چکا ہے) لیکن چھوٹے سے افغانستان میں کم ازکم اکثریت میں تھے، اب اس نئے گریٹ گیم میں افغانستان بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔

مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ 50 سے زائد ممالک، نیٹو اور ہمارے دوست کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگ جیتی جاچکی ہے، وہاں ہر طرف ترقیاتی کام ہورہے ہیں صرف ایک چھوٹے سے حصے میں گڑبڑ ہے تو پھر ان مہاجرین کو ان محفوظ علاقوں میں بھیج کر وہیں پر ان کی مدد کی جائے لیکن پچھلے دنوں UNHCR نے پاکستان اور ایران کی حکومتوں سے درخواست کی کہ فی الحال ان کی واپسی روک دی جائے کیونکہ افغان حکومت بشمول ان 50 ممالک کے اس قابل نہیںکہ انھیں سنبھال سکے۔

آخر میں یہ کہنا ہے کہ کوئٹہ کی سرزمین کا ان پر بھی اتنا ہی حق ہے جتنا اس شہر کے دوسرے باسیوں پر۔ چیف جسٹس صاحب اب اس شہر کے بیس لاکھ سے اوپر کی آبادی کو قومی اسمبلی میں نمایند گی کے لیے بھی سوموٹو نوٹس لیں۔ اس سے اس شہر کا حق بھی ادا ہوجائے گا اور کوئٹہ کے باسی بھی ممنون ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں