سعودی بادشاہت اور نیا بحران
یہ ردِعمل سعودی حکومت پر دباؤ کی فضا میں اضافہ کررہا ہے۔
سعودی بادشاہت بحران سے دوچار ہے۔
یہ بحران گذشتہ دو اڑھائی ہفتے میں نہ صرف پیدا ہوا ہے، بلکہ اس کی شدت اور گہرائی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ویسے تو بحران اور سیاست و اقتدار کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر پس ماندہ اقوام تک کسی تفریق کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں اور غلام گردشوں سے بحران کی ہوائیں گزرتی رہتی ہیں۔ کبھی ان کی رفتار نرم ہوتی ہے اور وہ دبے پاؤں ایک طرف سے آتی اور دوسری طرف نکل جاتی ہیں اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ در و دیوار سے ٹکراتے منہ زور تھپیڑوں کی طرح ایوانِ اقتدار کی بنیادوں کی ہلاتی نظر آتی ہیں۔ اس وقت سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلیمان کا اقتدار ایسے ہی ایک بلاخیز بحران کی زد پر آیا ہوا ہے۔
بحران کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ امریکا سے یورپ تک مقتدر ممالک کے سربراہوں نے اس پر اپنے ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ یہ ردِعمل سعودی حکومت پر دباؤ کی فضا میں اضافہ کررہا ہے۔
دوسری طرف عالمی ذرائع ابلاغ، حقوقِ انسانی، آزادیِ اظہار اور انصاف و مساوات کی متعدد تنظیمیں اور مختلف ممالک کی صحافتی برداری اس مسئلے پر نہ صرف کھلے عام اپنی رائے اور ردِعمل کا اظہار کررہی ہیں، بلکہ اس ضمن میں راست اور فوری اقدامات کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے بھی اس خبر کے پھیلاؤ اور بحران کی شدت میں اضافے میں خاصا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اِس وقت یہ مسئلہ عالمی سطح پر موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے۔ سعودی حکومت، بلکہ خود شاہ سلیمان نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے باضابطہ اقدامات کا آغاز بھی کیا ہے، لیکن فی الحال اس پر دباؤ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
2 اکتوبر کو جب مسئلے کا آغاز ہوا، بلکہ واقعہ رونما ہوا، اُس وقت سعودی ایوانِ اقتدار کی محفوظ چھتوں کے سائے تلے بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ گمان بھی نہ گزرا ہوگا کہ اس واقعے کے نتیجے میں وہ شور برپا ہوگا کہ جس سے ان پرسکون سائبان کے دیوار و در لرز اٹھیں گے۔ ایک صحافی یک بہ یک اتنا اہم ہوجائے گا کہ دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں اس کے حق میں آواز بلند کرنے لگیں گی۔ دنیا بھر میں صحافی برادری کے وہ لوگ جنھوں نے کل تک ایک شخص کا نام بھی نہ سنا ہوگا، وہ اس کے طرف دار اور حمایتی بن کر سامنے آجائیں گے اور ایک دوسرے کی آواز میں آواز ملا کر ایسی گھن گرج پیدا کریں گے کہ ساری دنیا ان کی طرف متوجہ ہوجائے گی۔ اگر اس کا ذرا سا بھی اندازہ سعودی حکومت کے افراد کو ہوتا تو مسئلے کا کوئی اور حل سوچا جاتا اور یہ واقعہ ہرگز رونما نہ ہوتا۔ یقیناً ایسی کسی بات کا سان گمان خود جمال خاشقجی کو بھی نہ ہوگا۔
جمال خاشقجی کون تھا؟ ایک صحافی جو لگ بھگ سال سوا سال پہلے سعودی عرب سے ازخود جلاوطنی اختیار کرکے امریکا منتقل ہوگیا تھا۔ اِس لیے کہ اپنے ملک میں اُس کے لیے حالات ناسازگار ہوگئے تھے۔ وہ اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ اُس نے محنت کی تھی۔ اپنے معاشرے میں پہچان حاصل کی تھی اور شعبے میں جگہ بنائی اور نام کمایا تھا۔ وہ کوئی عام، گم نام سا صحافی نہیں تھا۔ ان لوگوں میں تھا جن کی پیش کی ہوئی خبریں اور تیار کی ہوئی رپورٹیں توجہ سے دیکھی جاتی تھیں اور اُن کی گونج دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ اس کی رسائی ایوانِ اقتدار تک تھی اور آلِ سعود کے کتنے ہی افراد سے اس کے ذاتی اور قریبی مراسم تھے۔
شاہی حلقوں میں اس کا اٹھنا بیٹھنا تھا، اور اسے وہ خبریں بھی مل جاتی تھیں جو اُس کے پیشہ ور ساتھیوں تک پہنچ نہیں پاتی تھیں۔ خبر کے حوالے سے خاشقجی کا رویہ ہی الگ تھا۔ خبر رسانی کے معاملے میں وہ کسی دباؤ، مصلحت اور خوف کو خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھی اس کا ایک فقرہ دہراتے ہیں کہ میں اپنے ملک و قوم کا وفادار ہوں اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتا۔ مزاج کی اسی قطعیت نے اس کے لیے مسائل پیدا کیے اور اس نے شاہ سلیمان کی حکومت خصوصاً ولی عہد شہزاد محمد بن سلیمان کے بعض فیصلوں پر کڑی تنقید کی۔ بس پھر اس کے بعد تو حکومتِ وقت سے اس کے ٹکراؤ کا ماحول بنتا چلا گیا۔ یہ محسوس کرکے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے، اس نے جلاوطنی اختیار کی اور امریکا آگیا۔
صحافتی حلقوں میں جمال خاشقجی کی پہچان صرف اپنے ملک تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ باہر بھی جانا پہچانا جاتا تھا، اس لیے سعودی عرب سے امریکا منتقل ہونے کے بعد اسے کام کاج کے لیے پریشان نہیں ہونا پڑا، اور وہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھنے لگا۔ اب اس کی تحریروں میں اور زیادہ کھلا پن آگیا اور خصوصاً ولی عہد شہزادہ کڑی نکتہ چینی کا ہدف بننے لگا۔
سعودی حکومت کے فیصلوں اور اقدامات کے پس منظر میں خاشقجی نے شہزادہ محمد سلیمان کی خوے اقتدار کی واضح لفظوں میں نشان دہی کی۔ یہی نہیں، بلکہ شہزادے کے طاقت و اختیار کے مظاہر کو بھی صاف صاف نمایاں کیا۔ خاشقجی کی تحریروں نے سعودی حکومت کے بارے میں کئی ایسے سوالات اٹھائے جن کی گونج عالمی ذرائعِ ابلاغ میں سنی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ بعض مواقع پر سعودی ایوانِ اقتدار کو وضاحت یا صفائی بھی پیش کرنی پڑی۔ یوں خاشقجی اس کے لیے ایک مسلسل دردِسر بن گیا۔ خاشقجی چوںکہ اب امریکا میں تھا، اس لیے اسے کسی بھی چیز کی پروا تھی اور نہ ہی کوئی خوف۔
اس دوران میں عالمی صحافتی حلقوں میں اس کی پذیرائی میں تیزی سے اور بہت زیادہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر اس کی مانگ بھی بہت بڑھ گئی۔ سیمینارز اور کانفرنسز میں اسے بہت زیادہ بلایا جانے لگا۔ ایسی ہی ایک تقریب میں وہ ترکی گیا ہوا تھا جہاں اس کی ملاقات ہم پیشہ خاتون ہارٹس چنگیز (خدیجہ چنگیز) سے ہوئی۔ خاشقجی امریکا میں مالی اور پیشہ ورانہ حالات سے بے شک مطمئن تھا، لیکن بے پناہ تنہائی نے اس کی زندگی میں جو خالی پن پیدا کیا تھا، وہ سخت اضمحلال کا باعث تھا۔ یہی وہ شے تھی جس نے خاشقجی اور خدیجہ چنگیز کو ایک دوسرے کے قریب کردیا۔ جلد ہی بات رشتۂ ازدواج تک پہنچی۔ اس کے لیے خاشقجی کو قانونی کارروائی کی ضرورت تھی۔ کاغذات کا حصول استنبول میں سعودی سفارت خانے سے ممکن تھا۔ 2 اکتوبر کو خاشقجی اس کام کی انجام دہی کے لیے خدیجہ کے ساتھ سفارت خانے پہنچا۔ خدیجہ کو باہر انتظار کے لیے کہہ کر وہ سفارت خانے میں داخل ہوا، لیکن پھر کبھی واپس نہیں آیا۔
انتظار طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ شام ہوگئی اور سفارت خانے کے اوقاتِ کار ختم ہوگئے۔ تب خدیجہ کی بے چینی ناقابلِ برداشت ہوگئی۔ اس نے عملے کے افراد سے خاشقجی کے بارے میں دریافت کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ کام نمٹا کر جاچکا ہے۔ یہ جواب خدیجہ کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ بھلا وہ کیسے جاسکتا ہے جب کہ میں یہیں موجود ہوں، اس نے بہ آوازِ بلند کہا۔ اسے بتایا گیا کہ وہ دوسرے دروازے سے نکل گیا تھا۔ ناممکن، خدیجہ نے سوچا۔ وہ چوںکہ خاشقجی اور سعودی حکومت کے معاملات سے اس عرصے میں اچھی طرح واقف ہوچکی تھی، اس لیے اب تشویش اور خوف کی لہریں اس کے اندر دوڑنے لگیں۔ سفارت خانے کے عملے کا وہی ایک جواب تھا۔ خدیجہ چنگیز نے وہاں سے نکلتے ہوئے اپنے شعبے کے دوسرے لوگوں سے رابطہ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر پہلے سوشل اور پھر الیکٹرونک میڈیا پر پھیلتی چلی گئی کہ خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے میں داخل ہونے کے بعد سے لاپتا ہے اور بعد ازاں عالمی سطح پر اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پر بھی اس کی گم شدگی کا سوال گونجنے لگا۔
سعودی حکومت نے پہلے خاموشی اختیار کی، پھر بڑھتی ہوئی گونج کو دیکھتے ہوئے اس معاملے سے لاتعلقی اور لاعلمی کا اظہار کیا۔ گزرتے دنوں کے ساتھ صرف خدیجہ چنگیز کے خوف میں ہی اضافہ نہیں ہورہا تھا، بلکہ بین الاقوامی میڈیا اس سے زیادہ تشویش کا اظہار کرنے لگا۔ معاملے کی تحقیقات کے روز بہ روز بڑھتے ہوئے مطالبات اور میڈیا میں خاشقجی کی موت کے خدشات کا اظہار اس شدومد سے ہونے لگا کہ خود امریکی صدر کو بھی معاملے میں شامل ہوتے ہوئے بیان دینا پڑا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ سعودی حکومت کے ایما پر ہوا ہے تو اسے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
ادھر سعودی حکومت کا مؤقف بدستور وہی کہ وہ اس واقعے سے لاتعلق اور لاعلم ہے۔ دو ہفتے سے زائد وقت گزر گیا۔ اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر یہ خدشہ یقین کے ساتھ سامنے آنے لگا کہ خاشقجی کو قتل کرکے اس کی لاش کو بھی ٹھکانے لگا دیا گیا ہے۔ ترکی کے سراغ رساں ادارے پہلے ہی حرکت میں آچکے تھے۔ خاشقجی کی تلاش جاری تھی، لیکن کوئی نشان، کوئی سراغ کچھ بھی تو نہیں مل پارہا تھا۔ ترکی کے تحقیقاتی اداروں نے اس اثنا میں استنبول میں سعودی سفارت خانے کا دو بار دورہ کیا اور اس کی مکمل تلاشی لی گئی، لیکن ایک گمبھیر بے یقینی اور سکوت کے سوا کہیں کچھ بھی نہیں تھا۔
آخر سترہ دن بعد حقیقت سامنے آگئی اور جس خدشے کا اظہار کیا جارہا تھا، وہ سچ ثابت ہوا۔ خاشقجی اب اس دنیا میں نہیں تھا۔ سعودی حکومت نے اس کے استنبول کے سفارت خانے میں ہلاک ہونے کی تصدیق کردی۔ بتایا گیا کہ سفارتی عملے سے اس کی بدمزگی ہوئی اور بات ہاتھا پائی تک پہنچی جس میں اس کی موت واقع ہوئی۔ ظاہر ہے، عالمی ذرائع ابلاغ کے لیے یہ جواب متوقع تو ضرور تھا، لیکن تشفی بخش ہرگز نہیں۔ اس پر شور برپا ہونا فطری تھا۔ اب دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور صحافتی ادارے اور افراد اس واقعے پر سخت غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ خاشقجی کی موت کے ذمے دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔ قدرے نرم رویہ اختیار کرنے والے ممالک کا بھی تقاضا ہے کہ آزادانہ تحقیقات اور اطمینان بخش اقدامات کیے جائیں۔
ابتدا میں اس مسئلے پر امریکا اور سعودی عرب کے مابین تناؤ کی فضا پیدا ہوگئی تھی۔ جیسا کہ سطورِ بالا میں ذکر کیا گیا، کشیدگی کا اظہار اس سطح پر ہوا کہ امریکی صدر نے خود اس سلسلے میں سعودی عرب کے حکومتی افراد کے خلاف بیان دیا۔ تاہم اب سعودی عرب نے جب خاشقجی کی موت کی تصدیق کی ہے، امریکا اور سعودی عرب کے مابین سفارتی سطح پر اس مسئلے کو سلجھانے کا تأثر ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت کے اس اعتراف اور اس کے ساتھ کیے گئے اقدامات، یعنی نائب انٹیلی جنس سربراہ سمیت پانچ افراد کی برطرفی اور اٹھارہ اہل کاروں کی گرفتاری کو امریکا کے حکومتی ذرائع نے سراہا اور خوش آئند قرار دیا ہے اور اعتبار کا اظہار کیا ہے کہ اس مسئلے کے حوالے سے شفاف تحقیقات اور انصاف کے مطابق اقدامات کیے جائیں گے۔
امریکی حکومت کے اعلامیے سے بات واضح ہوگئی ہے کہ دونوں کے درمیان اعتماد اور تعاون کی فضا بحال ہے۔ صرف امریکا پر ہی موقوف نہیں، اندازہ ہوتا ہے کہ اس مسئلے پر سعودی حکومت نے متعدد ممالک کو سفارتی ذرائع سے اعتماد میں لیا ہے۔ اس لیے سعودی حکومت کے اعتراف اور اس کے ساتھ حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے کھلے لفظوں میں سراہا ہے۔ ترکی کہ جہاں یہ واقعہ رونما ہوا ہے، اُس کے صدر کا کہنا ہے کہ اس قتل کی تحقیق و تفتیش سے حاصل ہونے والی تمام تفصیلات سامنے لائی جائیں گی۔
فرانس نے سعودی حکومت کے بیان کو ناکافی قرار دیا ہے اور واقعے کی جملہ تفصیلات کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے اور قتل کی مذمت بھی کی ہے، اور اُس نے انھی دنوں سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ داروں کی کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کردیا ہے۔ برطانیہ کی طرف سے بھی اس واقعے پر تأسف کا اظہار کیا گیا ہے اور سعودی حکومت کی وضاحت کو غیر اطمینان بخش قرار دیا گیا ہے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے اور کہا کہ قاتلوں کو اپنے اقدام کا جواب دینا ہوگا۔ آسٹریلیا نے اس واقعے کی تفصیلات اور اعترافی بیان کے سامنے آنے کے بعد سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا۔ اسپین کی طرف سے بھی اس قتل پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ دوسری طرف عرب میڈیا ایسوسی ایشن نام کی تنظیم نے خاشقجی کے قاتلوں اور قتل کے احکامات جاری کرنے والوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ جب کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس قتل کی تحقیقات اقوامِ متحدہ سے کروانے کے لیے کہا ہے، تاکہ صحیح رپورٹ سامنے آسکے۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے شروع ہی سے اس خبر پر پوری سنجیدگی سے توجہ دی ہے۔ ظاہر ہے، جمال خاشقجی اس برادری کا ایک فعال، سرگرم، حقیقت پسند، بے باک اور مثالی فرد تھا۔ اس نے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھاتے ہوئے موت کو گلے لگانا قبول کیا، لیکن جھکنے سے انکار کردیا۔ صحافتی حلقوں میں اُسے تادیر ایک باکردار شخص اور روشن حوالے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس کی موت کی تصدیق کی خبروں نے کتنے ہی ملکوں کے ذرائعِ ابلاغ کے حلقوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ سعودی عرب کے بارے میں تو پہلے ہی یہ تأثر عام ہے کہ وہ ایک بند معاشرہ ہے اور بادشاہت کے نظام کی وجہ سے اس کے ذرائعِ ابلاغ پر بھی حکومت کا مکمل اختیار ہے۔ وہاں ایسی کوئی خبر آسانی سے منظرِعام پر نہیں آسکتی جو بادشاہ، اس کے نظام اور اس سے وابستہ افراد کے خلاف ہو۔ خاشقجی کے قتل کے معاملے پر الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی خبروں کا اثر ہی تھا کہ جس کا اظہار اقوامِ متحدہ، جرمنی، آسٹریلیا اور اسپین وغیرہ کے ردِعمل میں ہوا ہے۔
فی الحال سعودی عرب کے فرماں روا شاہِ سلیمان جو کچھ عرصے سے پس منظر میں تھے، ایک بار پھر منظر پر ابھر آئے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ جو اس سے پہلے اقتدار کے چہرے کی حیثیت سے فیصلے کرتا اور اقدامات کے احکامات جاری کرتا ہوا سامنے تھا، سرِدست پس منظر میں چلا گیا ہے۔ حکومت نے دو مشیر، پانچ اعلیٰ افسران برطرف کردیے ہیں۔ واقعے سے وابستہ اٹھارہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
ظاہر ہے، ان اقدامات کا بنیادی مقاصد یہ تأثر دینا ہے کہ سعودی بادشاہت کا اس واقعے سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ایسے ہر عمل کو ناپسندیدہ سمجھتی اور قابلِ گرفت گردانتی ہے۔ تاہم سعودی حکومت کے اقدامات کے باوجود میڈیا پر ردِعمل کا جو طوفان سامنے آیا ہے، اس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ ردِعمل عالمی سطح پر ہے جو پہلے ہی سعودی عرب اور اس کے نظامِ بادشاہت کے لیے اچھے جذبات نہیں رکھتا۔ خاشقجی کے واقعے کے پس منظر میں جس طرح ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کے احکامات اور اقدامات کا تجزیہ کیا جارہا ہے، وہ اس طوفان کو بڑھا دینے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ سعودی حکومت ایک ایسے بحران سے دوچار ہے، جس کی شدت اور سنگینی کو قابو میں لانے پر اس کا کوئی اختیار نظر نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بحران شاہ سلیمان کی حکومت کے لیے خطرات پیدا کررہا ہے یا پھر سعودی نظامِ حکومت خود پورا کا پورا اس کی زد میں آئے چلا جارہا ہے؟ اس ضمن میں مختلف آرا اور اندازے سامنے آرہے ہیں، تاہم صحیح جواب آنے والا وقت ہی فراہم کرے گا۔ خود یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ یہ آنے والا وقت اور کتنے فاصلے پر ہے؟
یہ بحران گذشتہ دو اڑھائی ہفتے میں نہ صرف پیدا ہوا ہے، بلکہ اس کی شدت اور گہرائی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ویسے تو بحران اور سیاست و اقتدار کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر پس ماندہ اقوام تک کسی تفریق کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں اور غلام گردشوں سے بحران کی ہوائیں گزرتی رہتی ہیں۔ کبھی ان کی رفتار نرم ہوتی ہے اور وہ دبے پاؤں ایک طرف سے آتی اور دوسری طرف نکل جاتی ہیں اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ در و دیوار سے ٹکراتے منہ زور تھپیڑوں کی طرح ایوانِ اقتدار کی بنیادوں کی ہلاتی نظر آتی ہیں۔ اس وقت سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلیمان کا اقتدار ایسے ہی ایک بلاخیز بحران کی زد پر آیا ہوا ہے۔
بحران کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ امریکا سے یورپ تک مقتدر ممالک کے سربراہوں نے اس پر اپنے ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ یہ ردِعمل سعودی حکومت پر دباؤ کی فضا میں اضافہ کررہا ہے۔
دوسری طرف عالمی ذرائع ابلاغ، حقوقِ انسانی، آزادیِ اظہار اور انصاف و مساوات کی متعدد تنظیمیں اور مختلف ممالک کی صحافتی برداری اس مسئلے پر نہ صرف کھلے عام اپنی رائے اور ردِعمل کا اظہار کررہی ہیں، بلکہ اس ضمن میں راست اور فوری اقدامات کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے بھی اس خبر کے پھیلاؤ اور بحران کی شدت میں اضافے میں خاصا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اِس وقت یہ مسئلہ عالمی سطح پر موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے۔ سعودی حکومت، بلکہ خود شاہ سلیمان نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے باضابطہ اقدامات کا آغاز بھی کیا ہے، لیکن فی الحال اس پر دباؤ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
2 اکتوبر کو جب مسئلے کا آغاز ہوا، بلکہ واقعہ رونما ہوا، اُس وقت سعودی ایوانِ اقتدار کی محفوظ چھتوں کے سائے تلے بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ گمان بھی نہ گزرا ہوگا کہ اس واقعے کے نتیجے میں وہ شور برپا ہوگا کہ جس سے ان پرسکون سائبان کے دیوار و در لرز اٹھیں گے۔ ایک صحافی یک بہ یک اتنا اہم ہوجائے گا کہ دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں اس کے حق میں آواز بلند کرنے لگیں گی۔ دنیا بھر میں صحافی برادری کے وہ لوگ جنھوں نے کل تک ایک شخص کا نام بھی نہ سنا ہوگا، وہ اس کے طرف دار اور حمایتی بن کر سامنے آجائیں گے اور ایک دوسرے کی آواز میں آواز ملا کر ایسی گھن گرج پیدا کریں گے کہ ساری دنیا ان کی طرف متوجہ ہوجائے گی۔ اگر اس کا ذرا سا بھی اندازہ سعودی حکومت کے افراد کو ہوتا تو مسئلے کا کوئی اور حل سوچا جاتا اور یہ واقعہ ہرگز رونما نہ ہوتا۔ یقیناً ایسی کسی بات کا سان گمان خود جمال خاشقجی کو بھی نہ ہوگا۔
جمال خاشقجی کون تھا؟ ایک صحافی جو لگ بھگ سال سوا سال پہلے سعودی عرب سے ازخود جلاوطنی اختیار کرکے امریکا منتقل ہوگیا تھا۔ اِس لیے کہ اپنے ملک میں اُس کے لیے حالات ناسازگار ہوگئے تھے۔ وہ اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ اُس نے محنت کی تھی۔ اپنے معاشرے میں پہچان حاصل کی تھی اور شعبے میں جگہ بنائی اور نام کمایا تھا۔ وہ کوئی عام، گم نام سا صحافی نہیں تھا۔ ان لوگوں میں تھا جن کی پیش کی ہوئی خبریں اور تیار کی ہوئی رپورٹیں توجہ سے دیکھی جاتی تھیں اور اُن کی گونج دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ اس کی رسائی ایوانِ اقتدار تک تھی اور آلِ سعود کے کتنے ہی افراد سے اس کے ذاتی اور قریبی مراسم تھے۔
شاہی حلقوں میں اس کا اٹھنا بیٹھنا تھا، اور اسے وہ خبریں بھی مل جاتی تھیں جو اُس کے پیشہ ور ساتھیوں تک پہنچ نہیں پاتی تھیں۔ خبر کے حوالے سے خاشقجی کا رویہ ہی الگ تھا۔ خبر رسانی کے معاملے میں وہ کسی دباؤ، مصلحت اور خوف کو خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھی اس کا ایک فقرہ دہراتے ہیں کہ میں اپنے ملک و قوم کا وفادار ہوں اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتا۔ مزاج کی اسی قطعیت نے اس کے لیے مسائل پیدا کیے اور اس نے شاہ سلیمان کی حکومت خصوصاً ولی عہد شہزاد محمد بن سلیمان کے بعض فیصلوں پر کڑی تنقید کی۔ بس پھر اس کے بعد تو حکومتِ وقت سے اس کے ٹکراؤ کا ماحول بنتا چلا گیا۔ یہ محسوس کرکے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے، اس نے جلاوطنی اختیار کی اور امریکا آگیا۔
صحافتی حلقوں میں جمال خاشقجی کی پہچان صرف اپنے ملک تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ باہر بھی جانا پہچانا جاتا تھا، اس لیے سعودی عرب سے امریکا منتقل ہونے کے بعد اسے کام کاج کے لیے پریشان نہیں ہونا پڑا، اور وہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھنے لگا۔ اب اس کی تحریروں میں اور زیادہ کھلا پن آگیا اور خصوصاً ولی عہد شہزادہ کڑی نکتہ چینی کا ہدف بننے لگا۔
سعودی حکومت کے فیصلوں اور اقدامات کے پس منظر میں خاشقجی نے شہزادہ محمد سلیمان کی خوے اقتدار کی واضح لفظوں میں نشان دہی کی۔ یہی نہیں، بلکہ شہزادے کے طاقت و اختیار کے مظاہر کو بھی صاف صاف نمایاں کیا۔ خاشقجی کی تحریروں نے سعودی حکومت کے بارے میں کئی ایسے سوالات اٹھائے جن کی گونج عالمی ذرائعِ ابلاغ میں سنی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ بعض مواقع پر سعودی ایوانِ اقتدار کو وضاحت یا صفائی بھی پیش کرنی پڑی۔ یوں خاشقجی اس کے لیے ایک مسلسل دردِسر بن گیا۔ خاشقجی چوںکہ اب امریکا میں تھا، اس لیے اسے کسی بھی چیز کی پروا تھی اور نہ ہی کوئی خوف۔
اس دوران میں عالمی صحافتی حلقوں میں اس کی پذیرائی میں تیزی سے اور بہت زیادہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر اس کی مانگ بھی بہت بڑھ گئی۔ سیمینارز اور کانفرنسز میں اسے بہت زیادہ بلایا جانے لگا۔ ایسی ہی ایک تقریب میں وہ ترکی گیا ہوا تھا جہاں اس کی ملاقات ہم پیشہ خاتون ہارٹس چنگیز (خدیجہ چنگیز) سے ہوئی۔ خاشقجی امریکا میں مالی اور پیشہ ورانہ حالات سے بے شک مطمئن تھا، لیکن بے پناہ تنہائی نے اس کی زندگی میں جو خالی پن پیدا کیا تھا، وہ سخت اضمحلال کا باعث تھا۔ یہی وہ شے تھی جس نے خاشقجی اور خدیجہ چنگیز کو ایک دوسرے کے قریب کردیا۔ جلد ہی بات رشتۂ ازدواج تک پہنچی۔ اس کے لیے خاشقجی کو قانونی کارروائی کی ضرورت تھی۔ کاغذات کا حصول استنبول میں سعودی سفارت خانے سے ممکن تھا۔ 2 اکتوبر کو خاشقجی اس کام کی انجام دہی کے لیے خدیجہ کے ساتھ سفارت خانے پہنچا۔ خدیجہ کو باہر انتظار کے لیے کہہ کر وہ سفارت خانے میں داخل ہوا، لیکن پھر کبھی واپس نہیں آیا۔
انتظار طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ شام ہوگئی اور سفارت خانے کے اوقاتِ کار ختم ہوگئے۔ تب خدیجہ کی بے چینی ناقابلِ برداشت ہوگئی۔ اس نے عملے کے افراد سے خاشقجی کے بارے میں دریافت کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ کام نمٹا کر جاچکا ہے۔ یہ جواب خدیجہ کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ بھلا وہ کیسے جاسکتا ہے جب کہ میں یہیں موجود ہوں، اس نے بہ آوازِ بلند کہا۔ اسے بتایا گیا کہ وہ دوسرے دروازے سے نکل گیا تھا۔ ناممکن، خدیجہ نے سوچا۔ وہ چوںکہ خاشقجی اور سعودی حکومت کے معاملات سے اس عرصے میں اچھی طرح واقف ہوچکی تھی، اس لیے اب تشویش اور خوف کی لہریں اس کے اندر دوڑنے لگیں۔ سفارت خانے کے عملے کا وہی ایک جواب تھا۔ خدیجہ چنگیز نے وہاں سے نکلتے ہوئے اپنے شعبے کے دوسرے لوگوں سے رابطہ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر پہلے سوشل اور پھر الیکٹرونک میڈیا پر پھیلتی چلی گئی کہ خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے میں داخل ہونے کے بعد سے لاپتا ہے اور بعد ازاں عالمی سطح پر اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پر بھی اس کی گم شدگی کا سوال گونجنے لگا۔
سعودی حکومت نے پہلے خاموشی اختیار کی، پھر بڑھتی ہوئی گونج کو دیکھتے ہوئے اس معاملے سے لاتعلقی اور لاعلمی کا اظہار کیا۔ گزرتے دنوں کے ساتھ صرف خدیجہ چنگیز کے خوف میں ہی اضافہ نہیں ہورہا تھا، بلکہ بین الاقوامی میڈیا اس سے زیادہ تشویش کا اظہار کرنے لگا۔ معاملے کی تحقیقات کے روز بہ روز بڑھتے ہوئے مطالبات اور میڈیا میں خاشقجی کی موت کے خدشات کا اظہار اس شدومد سے ہونے لگا کہ خود امریکی صدر کو بھی معاملے میں شامل ہوتے ہوئے بیان دینا پڑا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ سعودی حکومت کے ایما پر ہوا ہے تو اسے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
ادھر سعودی حکومت کا مؤقف بدستور وہی کہ وہ اس واقعے سے لاتعلق اور لاعلم ہے۔ دو ہفتے سے زائد وقت گزر گیا۔ اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر یہ خدشہ یقین کے ساتھ سامنے آنے لگا کہ خاشقجی کو قتل کرکے اس کی لاش کو بھی ٹھکانے لگا دیا گیا ہے۔ ترکی کے سراغ رساں ادارے پہلے ہی حرکت میں آچکے تھے۔ خاشقجی کی تلاش جاری تھی، لیکن کوئی نشان، کوئی سراغ کچھ بھی تو نہیں مل پارہا تھا۔ ترکی کے تحقیقاتی اداروں نے اس اثنا میں استنبول میں سعودی سفارت خانے کا دو بار دورہ کیا اور اس کی مکمل تلاشی لی گئی، لیکن ایک گمبھیر بے یقینی اور سکوت کے سوا کہیں کچھ بھی نہیں تھا۔
آخر سترہ دن بعد حقیقت سامنے آگئی اور جس خدشے کا اظہار کیا جارہا تھا، وہ سچ ثابت ہوا۔ خاشقجی اب اس دنیا میں نہیں تھا۔ سعودی حکومت نے اس کے استنبول کے سفارت خانے میں ہلاک ہونے کی تصدیق کردی۔ بتایا گیا کہ سفارتی عملے سے اس کی بدمزگی ہوئی اور بات ہاتھا پائی تک پہنچی جس میں اس کی موت واقع ہوئی۔ ظاہر ہے، عالمی ذرائع ابلاغ کے لیے یہ جواب متوقع تو ضرور تھا، لیکن تشفی بخش ہرگز نہیں۔ اس پر شور برپا ہونا فطری تھا۔ اب دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور صحافتی ادارے اور افراد اس واقعے پر سخت غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ خاشقجی کی موت کے ذمے دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔ قدرے نرم رویہ اختیار کرنے والے ممالک کا بھی تقاضا ہے کہ آزادانہ تحقیقات اور اطمینان بخش اقدامات کیے جائیں۔
ابتدا میں اس مسئلے پر امریکا اور سعودی عرب کے مابین تناؤ کی فضا پیدا ہوگئی تھی۔ جیسا کہ سطورِ بالا میں ذکر کیا گیا، کشیدگی کا اظہار اس سطح پر ہوا کہ امریکی صدر نے خود اس سلسلے میں سعودی عرب کے حکومتی افراد کے خلاف بیان دیا۔ تاہم اب سعودی عرب نے جب خاشقجی کی موت کی تصدیق کی ہے، امریکا اور سعودی عرب کے مابین سفارتی سطح پر اس مسئلے کو سلجھانے کا تأثر ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت کے اس اعتراف اور اس کے ساتھ کیے گئے اقدامات، یعنی نائب انٹیلی جنس سربراہ سمیت پانچ افراد کی برطرفی اور اٹھارہ اہل کاروں کی گرفتاری کو امریکا کے حکومتی ذرائع نے سراہا اور خوش آئند قرار دیا ہے اور اعتبار کا اظہار کیا ہے کہ اس مسئلے کے حوالے سے شفاف تحقیقات اور انصاف کے مطابق اقدامات کیے جائیں گے۔
امریکی حکومت کے اعلامیے سے بات واضح ہوگئی ہے کہ دونوں کے درمیان اعتماد اور تعاون کی فضا بحال ہے۔ صرف امریکا پر ہی موقوف نہیں، اندازہ ہوتا ہے کہ اس مسئلے پر سعودی حکومت نے متعدد ممالک کو سفارتی ذرائع سے اعتماد میں لیا ہے۔ اس لیے سعودی حکومت کے اعتراف اور اس کے ساتھ حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے کھلے لفظوں میں سراہا ہے۔ ترکی کہ جہاں یہ واقعہ رونما ہوا ہے، اُس کے صدر کا کہنا ہے کہ اس قتل کی تحقیق و تفتیش سے حاصل ہونے والی تمام تفصیلات سامنے لائی جائیں گی۔
فرانس نے سعودی حکومت کے بیان کو ناکافی قرار دیا ہے اور واقعے کی جملہ تفصیلات کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے اور قتل کی مذمت بھی کی ہے، اور اُس نے انھی دنوں سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ داروں کی کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کردیا ہے۔ برطانیہ کی طرف سے بھی اس واقعے پر تأسف کا اظہار کیا گیا ہے اور سعودی حکومت کی وضاحت کو غیر اطمینان بخش قرار دیا گیا ہے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے اور کہا کہ قاتلوں کو اپنے اقدام کا جواب دینا ہوگا۔ آسٹریلیا نے اس واقعے کی تفصیلات اور اعترافی بیان کے سامنے آنے کے بعد سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا۔ اسپین کی طرف سے بھی اس قتل پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ دوسری طرف عرب میڈیا ایسوسی ایشن نام کی تنظیم نے خاشقجی کے قاتلوں اور قتل کے احکامات جاری کرنے والوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ جب کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس قتل کی تحقیقات اقوامِ متحدہ سے کروانے کے لیے کہا ہے، تاکہ صحیح رپورٹ سامنے آسکے۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے شروع ہی سے اس خبر پر پوری سنجیدگی سے توجہ دی ہے۔ ظاہر ہے، جمال خاشقجی اس برادری کا ایک فعال، سرگرم، حقیقت پسند، بے باک اور مثالی فرد تھا۔ اس نے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھاتے ہوئے موت کو گلے لگانا قبول کیا، لیکن جھکنے سے انکار کردیا۔ صحافتی حلقوں میں اُسے تادیر ایک باکردار شخص اور روشن حوالے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس کی موت کی تصدیق کی خبروں نے کتنے ہی ملکوں کے ذرائعِ ابلاغ کے حلقوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ سعودی عرب کے بارے میں تو پہلے ہی یہ تأثر عام ہے کہ وہ ایک بند معاشرہ ہے اور بادشاہت کے نظام کی وجہ سے اس کے ذرائعِ ابلاغ پر بھی حکومت کا مکمل اختیار ہے۔ وہاں ایسی کوئی خبر آسانی سے منظرِعام پر نہیں آسکتی جو بادشاہ، اس کے نظام اور اس سے وابستہ افراد کے خلاف ہو۔ خاشقجی کے قتل کے معاملے پر الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی خبروں کا اثر ہی تھا کہ جس کا اظہار اقوامِ متحدہ، جرمنی، آسٹریلیا اور اسپین وغیرہ کے ردِعمل میں ہوا ہے۔
فی الحال سعودی عرب کے فرماں روا شاہِ سلیمان جو کچھ عرصے سے پس منظر میں تھے، ایک بار پھر منظر پر ابھر آئے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ جو اس سے پہلے اقتدار کے چہرے کی حیثیت سے فیصلے کرتا اور اقدامات کے احکامات جاری کرتا ہوا سامنے تھا، سرِدست پس منظر میں چلا گیا ہے۔ حکومت نے دو مشیر، پانچ اعلیٰ افسران برطرف کردیے ہیں۔ واقعے سے وابستہ اٹھارہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
ظاہر ہے، ان اقدامات کا بنیادی مقاصد یہ تأثر دینا ہے کہ سعودی بادشاہت کا اس واقعے سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ایسے ہر عمل کو ناپسندیدہ سمجھتی اور قابلِ گرفت گردانتی ہے۔ تاہم سعودی حکومت کے اقدامات کے باوجود میڈیا پر ردِعمل کا جو طوفان سامنے آیا ہے، اس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ ردِعمل عالمی سطح پر ہے جو پہلے ہی سعودی عرب اور اس کے نظامِ بادشاہت کے لیے اچھے جذبات نہیں رکھتا۔ خاشقجی کے واقعے کے پس منظر میں جس طرح ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کے احکامات اور اقدامات کا تجزیہ کیا جارہا ہے، وہ اس طوفان کو بڑھا دینے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ سعودی حکومت ایک ایسے بحران سے دوچار ہے، جس کی شدت اور سنگینی کو قابو میں لانے پر اس کا کوئی اختیار نظر نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بحران شاہ سلیمان کی حکومت کے لیے خطرات پیدا کررہا ہے یا پھر سعودی نظامِ حکومت خود پورا کا پورا اس کی زد میں آئے چلا جارہا ہے؟ اس ضمن میں مختلف آرا اور اندازے سامنے آرہے ہیں، تاہم صحیح جواب آنے والا وقت ہی فراہم کرے گا۔ خود یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ یہ آنے والا وقت اور کتنے فاصلے پر ہے؟