بھوت بحری جہاز

ان بحری جہازوں کے قصے جن پر آسیبوں کا قبضہ تھا۔


ذیشان محمد بیگ October 28, 2018
ان بحری جہازوں کے قصے جن پر آسیبوں کا قبضہ تھا۔ فوٹو: فائل

بھوتوں کا معاملہ ہمیشہ سے ہی انسانی ذہن کے لیے تجسس آمیز دلچسپی کا حامل رہا ہے۔

بچپن میں بھوتوں کی کہانیاں سننے سے لے کر بھوتوں، بھوت گھر یا بھوت بنگلہ اور بھوتوں پر بننے والی فلموں سے بھوتوں کی تلاش، جیسے ''گھوسٹ ہنٹز'' کے ٹی وی ریلیٹی شوز تک کی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ اس موضوع پر مبنی مواد میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں ''پائرٹس آف دی کریبین'' (Pirates of the Caribbean) نامی فلم کی سیریز نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے، جس میں بھوتوںکا بحری جہاز خاص دلچسپی کا باعث تھا۔ آج ہم آپ کو حقیقی زندگی میں پائے جانے والے ایسے ہی کچھ بھوت بحری جہازوں کے متعلق بتاتے ہیں۔

1- بھوت بحری جہازوں کا چیمپیئن :

7 نومبر 1872ء کو ''میری سلیسٹ'' (Mary Celeste) نامی ایک بحری جہاز کا کیپٹن اپنی بیوی، دو سالہ بچی اور عملے کے 7 ارکان کے ساتھ نیویارک سے اٹلی کے سفر پر روانہ ہوا۔ انہیں ایک ماہ بعد اپنی منزل پر پہنچنا تھا لیکن ایسا نہ ہوا۔ اسی دوران ایک برطانوی بحری جہاز ''ڈئے گراٹیا'' (Dei Gratia) نے ''میری سلیسٹ'' کو بحر اوقیانوس کے پانیوں میں بہتے ہوئے دیکھا۔ ''ڈئے گراٹیا'' کا عملہ ''میری سلیسٹ'' تک پہنچا تاکہ اگر وہاں کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو فراہم کی جاسکے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پورا جہاز خالی پڑا تھا حالانکہ جہاز پر تجارتی سمیت 6 مہینے کا کھانے پینے کا سامان اور عملے کی ضرورت کی دیگر چیزیں بدستور لدی ہوئیں تھیں جبکہ لائف بوٹس غائب تھیں۔ جہاز کے فرش پر تین فٹ پانی کھڑا تھا تاہم یہ کوئی ایسی تشویش ناک بات نہیں تھی کیونکہ اس سے جہاز کو ڈوبنے یا کسی اور قسم کے نقصان کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ یہ جہاز ایک بھوت بحری جہاز کا منظر پیش کررہا تھا اور آج تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس جہاز کے مسافروں پر کیا گزری۔ مشہور انگریزی ادیب ''سر آرتھر کونن ڈائل'' (Sir Arthur Conan Doyle) نے اس واقعے سے متاثر ہوکر ایک شارٹ سٹوری لکھی، جس میں اس جہاز کے عملے کے غیاب کو بحری قذاقوں کی کارروائی بتایا گیا، جنہوں نے جہاز کے عملے کو لوٹ مار کے لیے قتل کردیا تھا۔ لیکن اصل میں اس جہاز پر کیا گزری؟ یہ ابھی تک پردۂ راز میں ہی ہے۔ کیونکہ یہاں پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حملہ لوٹ مار کے لیے ہی کیا گیا تھا اور جہاز کو بحری قزاقوں نے لوٹا تھا تو اس پر موجود سامان کیسے محفوظ رہا ؟ اس معمے کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ جہاز میں پانی بھرنے کا علم ہونے پر کپتان نے عملے کو لائف بوٹس کے ذریعے جہاز چھوڑنے اور جان بچانے کا حکم دیا تاکہ وہ کسی زمینی ساحل تک پہنچ سکیں۔ لیکن حقیقت کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔

2- آؤٹر بنک کا معمہ :

''آؤٹر بنکس'' (Outer Banks) ریاست ہائے امریکہ کے مشرقی ساحل پے 200 میل لمبی پٹی پر واقع ''بیرئر آئی لینڈز'' (Barrier Islands) یعنی چھوٹے جزائر کے سلسلے کو کہتے ہیں جو ساتھ ساتھ واقع ہونے کی وجہ سے ایک ڈوری میں پروئے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔1920ء میں ''کیرول اے ڈئیرنگ'' (Carroll A Deering) نامی کارگو بحری جہاز نے امریکی ریاست ''ورجینا'' (Virgina) سے برازیل کے مشہور شہر ''ریوڈی جینیرو'' (Rio de Janeiro) تک کا تجارتی سفر کامیابی سے طے کیا۔ اس بحری جہاز پر عملے کے 10 افراد سوار تھے۔ دوران سفر جہاز کا کپتان حالانکہ بیمار ہوگیا تھا، تاہم نائب کپتان نے تمام ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا مگر واپسی کے سفر پر معاملہ کچھ گڑبڑ ہوگیا۔ سمندر میں جہازوں کو خطرات سے آگاہ کرنے اور راہنمائی فراہم کرنے والے ایک جہاز، جسے ''لائٹ شپ'' (Light Ship) کہتے ہیں، کے عملے کے ایک فرد کے مطابق امریکہ کی ریاست ''شمالی کیرولینا'' (North Carolina) کے سمندری علاقے میں ''کیرول اے ڈئیرنگ'' کے عملے کے ایک شخص نے، جو اپنے حلیے سے کوئی بڑا افیسر دکھائی نہیں دیتا تھا، اسے رپورٹ کی کہ جہاز اپنے لنگر کھو بیٹھا ہے۔ اگلے دن ایک اور بحری جہاز نے ''کیرول اے ڈئیرنگ'' کو آؤٹر بنکس کے قریب ایسے علاقے میں پایا جو اس کی واپسی کے روٹ کے حساب سے غیر متعلق علاقہ تھا۔ یہ بات حیران کن تھی کہ ''کیرول اے ڈئیرنگ'' وہاں کیا کررہا تھا ؟ مزید ایک دن بعد اسی سمندری علاقے میں تباہ شدہ جہاز پانی میں تیرتا ہوا پایا گیا لیکن امدادی کارکن اور تفتیش کار سمندر میں طغیانی اور شدید خطرناک موسمی حالات کی وجہ سے اس کے نزدیک نہ جاسکے۔ چار روز بعد جب بالآخر اس جہاز تک رسائی ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ جہاز کے کھانے کے کمرے میں میزوں پر کھانا چنا ہوا تھا تاہم تمام تر عملہ اپنے ذاتی سامان اور لائف بوٹس سمیت غائب تھا۔ حکومت نے اس معاملے کا ملبہ بحری قذاقوں اور باغیوں کے سر پر ڈال دیا لیکن تحقیق کرنے والوں کی کاوشیں اب تک بے ثمر ہی ثابت ہوئی ہیں۔

3- کسی سراغ کے بغیر :

کچھ بھوت بحری جہاز اتنے زیادہ پراسراریت کے حامل ہیں کہ ان کے پس منظر کے بارے میں کوئی بھی معلومات دستیاب نہیں ہوسکیں۔ 2006ء میں آسٹریلیا کے سمندری محافظوں کو پانیوں میں بہتا ہوا ایک جہاز ملا۔ اس کا وہ رسّا جو دوسرے جہازوں کے ساتھ باندھ کر کھینچنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، ٹوٹا ہوا تھا اور سارا جہاز خالی پڑا تھا۔ اس جہاز کی سائڈز پر اس کا نام ''جیان سنگ'' (Jian Seng) چھپا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ اس جہاز کی شناخت کے لیے تفتیش کاروں کو کوئی بھی چیز نہ مل سکی۔ نہ خطرے کے پیغامات بھیجنے کا کوئی ریکارڈ اور نہ ہی کسی قسم کے شناختی کاغذات، نہ عملے کے ذاتی استعمال کا سامان اور نہ ہی جہاز رانی کے متعلقہ دفتر میں جہاز غائب ہونے کی کسی اطلاع کا کوئی ریکارڈ، غرض سمندر میں اِدھر اُدھر گھومتے پھرتے اس پراسرار جہاز کے بارے میں تفتیش کار کچھ بھی نہ جان سکے کہ یہ کس کا جہاز ہے، کہاں سے آیا اور کہاں جارہا تھا اور اس کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ؟ اور اس کے مسافر اپنے سامان سمیت کہاں غائب ہوگئے۔ وہ بس زیادہ سے زیادہ یہ اندازہ قائم کرسکے کہ شاید یہ جہاز سمندر میں ماہی گیروں کی کشتیوں کو کھانے پینے کا سامان اور ایندھن وغیرہ فراہم کرتا ہوگا، مگر وہ اس بات کا جواب دینے سے قاصر تھے کہ جب یہ جہاز تباہ ہوا تو کسی نے اس کو بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟

4- اعلیٰ مقصد :

چونکئے نہیں، یہ ایک جہاز کا نام ہے جو بعد ازاں بھوت بحری جہاز بن گیا۔2002ء میں ''ہیلون'' (Halloween) کے تہوار کے موقع پر مچھلیاں پکڑنے والی ایک بڑی کشتی جس کا نام ''ہائی ایم نمبر6'' ۔۔ High Aim No.6 (اعلیٰ مقصد) تھا، تائیوان سے اپنے سفر پر روانہ ہوئی۔ 2003ء میں یعنی اپنے آغاز سفر کے ایک سال بعد جب یہ جہاز آسٹریلین نیوی کو سمندر میں تیرتا ہوا ملا تو انہیں لگا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔ جہاز نما اس بڑی کشتی کے انجن کا ایکسلیٹر پورا دبا ہوا تھا جبکہ پٹرول والی ٹنکی خالی پڑی تھی دلچسپ بات مگر یہ تھی کہ پٹرول کے فالتو ٹینک پورے بھرے ہوئے تھے، جیسے کسی نے ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو۔ اس کے علاوہ جہاز کے سرد خانے میں 10 ٹن ''ٹونا'' مچھلی شکار کرکے محفوظ رکھی ہوئی تھی۔ البتہ عملے کا کوئی فرد بھی جہاز پر موجود نہیں تھا۔ اس جہاز کو اب تک کے تمام بحری جہازوں میں سب سے پراسرار نوعیت کا جہاز مانا جاتا ے۔ بالآخر اس کے عملے کا ایک شخص منظر عام پر آہی گیا۔ اس انڈونیشی مچھیرے نے گرفتاری کے بعد یہ اقرار کیا کہ جہاز کا عملہ بحری قذاقوں کے ساتھ ملا ہوا تھا اور اس نے ان کے ساتھ مل کر جہاز کے کپتان اور چیف انجینئر کو قتل کردیا تھا۔ تاہم ان کو قتل کرنے کی وجوہات ابھی تک صیغۂ راز ہی میں ہیں۔

5- بھوتوں کا پیغام :

2013ء میں ''نینا'' (Nina) نامی ایک بڑی کشتی کے عملے نے ماہرین موسمیات سے رابطہ کرکے موسم کے خطرناک ہوجانے کی پیش گوئی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہی۔ کچھ ہی دیر بعد مگر ان کا رابطہ منقطع ہوگیا۔ سمندر میں 26 فٹ اونچی لہریں اٹھ رہی تھیں اور ہوا 70 میل فی گھنٹہ کی طوفانی رفتار اختیار کرچکی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ''نینا'' اس طوفان کا مقابلہ نہیں کرپائے گی اور اپنے انجام کو پہنچے گی اور حسب معمول اس کے بعد اس کو ڈھونڈنے اور مدد پہنچانے کے لیے ایک بے نتیجہ مہم شروع ہوجائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس مہم کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ تاہم کشتی کی گمشدگی کے تین ہفتوں کے بعد امدادی کارروائیاں کرنے والے دفتر میں ماہرین موسمیات کو ''نینا'' کے عملے کی جانب سے ایک پراسرار پیغام ملا جو طوفانی رات کے اگلے دن بھیجا گیا تھا۔ پیغام میں کچھ یوں تحریر تھا کہ ''شکر ہے گزشتہ رات طوفان زیادہ نقصان دہ ثابت نہیں ہوا۔ بس کشتی کے بادبان پھٹ گئے ہیں جس کی وجہ سے مستول بے کار ہو گئے ہیں''۔ اس پیغام سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے ''نینا'' بخیریت ابھی بھی اپنے سفر پر رواں دواں ہے۔ کشتی پر سوار ایک 19 سالہ لڑکی کے خاندان والوں کو جب اس پیغام کے متعلق معلوم ہوا تو انہوں نے سوچا کہ ان کی بیٹی محفوظ ہے۔ انہوں نے ذاتی طور پر سمندر کے اس علاقے کی سیٹلائٹ تصاویر حاصل کیں جن میں کشتی نما کوئی چیز دکھائی دے رہی تھی۔ اس سے یہ سمجھا گیا کہ شاید یہ ''نینا'' کی تصویریں ہیں۔ لیکن بعدازاں ماہرین نے ان تصاویر کا تجزیہ کرکے بتایا کہ وہ محض سمندر کی اونچی اونچی لہروں کی شبیہہ تھیں۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب طوفان میں کشتی تباہ ہوگئی تھی اور اس کا آج تک کوئی سراغ بھی نہیں ملاتو پھر وہ پیغام کس نے بھیجا تھا ؟

6- ناقابل توضحیح :

1955ء میں ایک تجارتی جہاز ''ایم وی جوئیٹا'' (M.V Joyita) جنوبی بحر الکاہل میں اپنے دو روزہ سفر پر روانہ ہوا، مگر بدقسمتی سے اپنی منزل پر نہ پہنچ سکا۔ امدادی ٹیمیں بہت تلاش و بسیار کے باوجود ناکام و نامراد واپس لوٹ آئیں۔ قریباً ایک ماہ بعد ایک اور جہاز کے کپتان کو ''ایم وی جوئیٹا'' نیم تباہ حال حالت میں تیرتا ہوا نظر آیا۔ جہاز میں سوار 25 مسافروں کا مگر کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ تفتیش کار اس جہاز کی تباہی کی کوئی بھی قابل فہم توجیہہ پیش نہ کرسکے۔ دہائیوں تک اس کے بارے میں بہت سے نظریات گردش کرتے رہے۔ چند کے نزدیک اس جہاز کے عملے کو سوویت یونین (روس) کی آبدوز نے اغوا کرلیا تھا جبکہ کچھ کہتے تھے کہ وہ جہاز جاپانی مچھیروں کے ہتھے چڑگیا تھا جنہوں نے جہاز پر سوار سب لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ 2002ء تک جہاز کے مسافروں کے خاندان والے جہاز کی تباہی کی اصل وجوہات کی تحقیق کے متعلق کوششیں کرتے رہے۔ سب سے زیادہ جس نظریے کو شہرت ملی اور جو قرین قیاس بھی تھا وہ ایک پروفیسر صاحب نے پیش کیا۔ ان کے مطابق جہاز ایک زنگ آلود پائپ لیک ہوجانے کی وجہ سے تباہ ہوا اور جہاز میں پانی بھرگیا اسی سبب عملے کو جہاز سے جان بچا کر نکلنا پڑا۔ سوال یہاں پھر یہی پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ عملہ گیا کہاں ؟

7- جدید ممّی :

2016ء میں جب فلپائن کے مچھیرے سمندر میں تیرتے ایک تباہ شدہ جہاز تک پہنچے تو ان کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ وہاں کیا منظر دیکھیں گے ؟ انہوں نے دیکھا کہ اس جہاز میں ایک جرمن ملاح کی حنوط شدہ لاش موجود تھی جو 20 سال قبل لاپتہ ہوگیا تھا۔ یعنی 20 برس سے وہ نعش اس جہاز میں سمندر کی سیر کرتی پھر رہی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جرمن ملاح ''مینفرڈ فرٹز باجورات'' (Manfred Fritz Bajorat) کے ایک دوست کا دعویٰ ہے کہ وہ 2009ء سے 2016ء تک اس کے ساتھ فیس بک پر رابطے میں تھا۔ گو اس نے اسے کبھی یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہے؟ بہرحال اگر وہ کسی حادثے کا شکار ہوگیا تھا تو یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک سال کے عرصے میں سمندری مرطوب و نمکین ہوا کسی لاش کو حنوط کردینے کی صلاحیت تو رکھتی ہے لیکن جب اس لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کی موت صرف ایک ہفتے قبل ہی ہوئی تھی۔ اب اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟''

8- بحری جہاز پر سفر کرنے کی غلطی :

اپریل 2007ء میں دو بھائی ایک بڑی کشتی کے کپتان کی معیت میں آسٹریلیا کے گرد اپنے دو ماہ کے تفریحی سمندری سفر پر روانہ ہوئے۔ محض تین دن بعد ہی ان کی کشتی جس کا نام ''کازII'' (Kaz II) تھا، آسٹریلیا کے ساحلوں پر موجود ''گریٹ بیرئر'' (Great Barrier) نامی مشہور چٹانی سلسلے میں تباہ حال حالت میں پائی گئی۔ کشتی میں ایک میز پر کافی کا ادھ خالی کپ اور اخبار کا شمارہ موجود تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کوئی اخبار پڑھتے ہوئے کافی سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ اچانک کسی نامعلوم وجہ کے باعث اٹھ کر چلا گیا۔ کشتی کے فرش پرچند چاقو بھی کھلی حالت میں پڑے ہوئے تھے مگر کشتی میں کوئی ذی روح موجود نہ تھا اور وہ مکمل طور پر خالی تھی۔ ایک تفتیشی افسر کی تحقیق کے مطابق شاید دونوں بھائیوں میں سے کوئی ایک، جو تیرنا نہیں جانتا تھا اچانک پانی میں گرگیا اور باقی دونوں افراد نے اس کو بچانے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگادی لیکن تینوں میں سے کوئی بھی بچ نہ سکا۔ تاہم یہ محض ایک اندازہ ہی تھا جس کے پیچھے کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔ کوئی نہیں جانتا ہے کہ ان بدقسمت افراد کے ساتھ دراصل ہوا کیا ؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں