کڈاں ولسو سوہنا سانولا وطن ساڈے غریباں دے۔۔۔

ممتاز خانم ۔۔۔ سرائیکی وسیب کی ایک ناقابل فرامو ش آواز۔


نذیر خالد October 28, 2018
ممتاز خانم ۔۔۔ سرائیکی وسیب کی ایک ناقابل فرامو ش آواز۔ فوٹو: فائل

امیر ریاست بہاولپور کے شاہی گلوکاروں کے خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے سنگیت کے رموز سے واقفیت رکھنے والی اس گائیکہ نے سرائیکی خطے پر کئی دہائیوں تک راج کیا۔

ستر، اسی اور نوے کی دہائیوں میں کیسٹ کی دکانیں ان کی آواز میں گائی ہوئی البمز سے بھری ہوتی تھیں، ان کے گائے ہوئے گیت گنگنائے جاتے تھے جبکہ خواتین اپنی تقریبات میں ان کے گیت کاپی کر کے اپنی نجی محافل کو سجاتی تھیں۔

بہاولپور کی اس گائیکہ نے سولو گائیکی کے علاوہ حسینہ ممتاز اور نجمہ ممتاز کی جوڑی کی شکل میں بھی بے پناہ مقبولیت سمیٹی۔ ممتاز خانم کی وفات یکم رمضان اکیس جولائی 2012ء اپنے آبائی گھر واقع بھٹو نگر (احمد پور شرقیہ) میں ہو ئی اور یوں ایک سریلی آواز ہی نہیں، سنگیت کا ایک سنہرا دور قبر میں دفن ہو گیا۔ سینکڑوں مرد و زن ان کا سنگیت سننے اور ان کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستے تھے، انہوں نے موسیقی کا میدان یوں مارا کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ لیجنڈ کا درجہ اختیار کر گئیں۔ ابھی سی ڈی کا دور نہیں آیا تھا اور ریڈیو و کیسٹ کا چلن عام تھا ۔ انہوں نے جو گیت گا دیئے وہ امر ہو گئے، کم از کم تین نسلیں ان کی گائیکی سے لطف اندوز ہوئی ہیں، ان کے گائے اور لوگوں کی طرف سے پسند کئے گئے گیتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہاں پر ان میں سے محض چند ایک کے بول لکھنا ہی ممکن ہو گا:

رانی پٹھانی، سوہریاں دی دوانی، ویرن پرنالیاندا ہے، رانی پٹھانی۔۔۔ ایہا کجلے والی اکھ، مستانی یار دی۔۔۔ اکھیاں داسانول توں ایں نور، نہ ونج دور رہ ونج دیس تے ۔۔۔۔ نبھ ویسی، پردیس نہ ونج وے ڈھول۔۔۔ میڈی سلمے ستارے والی گت ماہیا ۔۔۔کڈاں ولسو سوہنا سانولا، وطن ساڈے غریباں دے ۔۔۔ شاہزادہ بنا وے میں سہرا تیڈا گاواں وے ۔۔۔کیں کوں نہ لگے شالا عشق دا روگ نی

ممتاز خانم کی آواز تو خوبصورت تھی ہی، اس کے ساتھ ساتھ وہ نسوانی حسن کی بھی ایک مکمل تصویر تھیں، خوبصورت قد وقامت، دلکش خدوخال، پرکشش رنگ و روپ اور ان سب میں تناسب کی کارفرمائی، وہ بڑھاپے میں بھی پروقار اور دلنشیں شخصیت کی مالک تھیں، سٹیج پر آتیں تو لگتا کہ بہار آگئی ہے اور جب گانا شروع کرتیں تو پنڈال ان کی موجودگی سے سج جاتا۔ معمری میں بھی ان کی آواز میں وہی جوانی والی کھنک اور کشش تھی میں نے انہیں انتہائی بڑھاپے کے سن میں بھی سٹیج پر گاتے ہوئے سنا ہے، کوئی کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ کسی معمر خاتون کی آواز ہے۔ کسی بھی زبان و ثقافت کی یہ خوش بختی ہے کہ اس کی ترویج و ترقی کیلئے کوئی ممتاز خانم پیدا ہو جائے جو اس زبان کی مٹھاس، لہجے کے لوچ اور ثقافت کے دل موہ لینے والے رنگوں کو دوسرے وسیب کے لوگوں میں بھی مقبول بنا دے، یہ مشکل کام ممتاز خانم نے بہت آسانی کے ساتھ کر کے دکھا دیا، ممتاز خانم کی سریلی اور رسیلی آواز نے جس طرح اپنی تہذیب و ثقافت کو محفوظ کر دیا ہے اس کا تو کوئی حساب ہی نہیں، یہ انتہائی اطمینان اور خوشی کی بات ہے کہ ان کی زیادہ تر گائیکی ریکارڈڈ ہے اور آڈیو کے علاوہ ویڈیو ریکارڈنگ بھی کوشش سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

ممتاز خانم کے خاندان والے والیان ریاست بہاولپور کے دربار سے وابستہ شاہی سنگیت کارتھے اور کلاسیکل سنگیت کے ماہر تھے، اس لئے انہوں نے پیدائش کے بعد اپنے گرد و پیش سنگیت ہی سنا اور دیکھا، یہی وہ ماحول ہے جو میر عالم بچوں کو اتائیوں کے مقابلے میں ممتاز بناتا ہے۔ جب بہاولپور میں ابھی ریڈیو اسٹیشن قائم نہیں ہوا تھا تب ممتاز خانم ملتان ریڈیو سے گاتی رہیں اور ایک مدت سولو یعنی اکیلے گاتی رہیں، جب بہاولپور میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہو گیا تب انہوں نے مائی حسینہ کے ساتھ مل کر ایک جوڑی کی صورت میں گانا شروع کیا اور خوب شہرت پائی، حسینہ ممتاز کا نام دور و نزدیک پھیل گیا۔

حسینہ بھی بہت عمدہ گانے والی تھیں ان کی والدہ صاحبہ مائی بختاں (المعروف مائی بختو) بھی اپنے وقت کی مشہور گلوکارہ تھیں۔ مائی حسینہ کی مادری زبان مارواڑی ہے اس لئے اس جوڑی نے جہاں سرائیکی گیت گائے وہاں مارواڑی گیت بھی گاتی رہی ہیں۔ ایک وقت ایسا آیا کہ حسینہ ممتاز کی جوڑی قائم نہ رہ سکی اور ممتاز مائی نے اپنی بھتیجی نجمہ خانم (جو ان کے بھائی فیض احمد فیضن کی بیٹی تھیں) کے ساتھ جوڑی بنا لی اور اس جوڑی نے بھی سنگیت میں خوب شہرت پائی، بتایا جاتا ہے کہ نجمہ اپنے اوائل دور میں ایک عرصے تک وسیب کی سب سے خوبصورت گلوکارہ تسلیم کی جاتی تھیں۔

گانے والی جوڑی اگرخوبرو بھی ہو تو موسیقی کو کیسے چار چاند نہیں لگیں گے۔ ممتاز مائی کی شادی عین عالم شباب میں احمد پور کے ایک بڑے زمیندار محمد امین شاہ کے ساتھ ہوئی، ممتاز مائی نے اپنی تمام عمر ان کے ساتھ گزاری، یہ 2008 کی بات ہے، بہاولپور آرٹس کونسل کا چارج راقم کے پاس تھا، معلوم ہوا کہ حسینہ اور ممتاز آپس میں سخت ناراض ہیں اور کئی سال سے ان کی آپس کی بول چال مکمل طور پر بند ہے، میں نے اس بارے میں اپنے دوست فاروق خان سے بات کی جو وہاں چولستان ڈویلپمنٹ کونسل کے نام سے ایک این جی او چلا رہے ہیں، طے پایا کہ ہم مل کر ایک پروگرام رکھتے ہیں جس کا نام ہو گا " سنبھال" ( یعنی اپنے بڑوں کی،اپنے قیمتی اثاثوں کی دیکھ بھال ) اور اس میں حسینہ مائی کو بطور گلوکارہ بلایا جائے، ان کے فن پر گفتگو ہو اور ان سے سنگیت سناجائے اور اسی پروگرام میں مائی ممتاز کو خاص مہمان کے طور پر مدعو کیا جائے اور حسینہ مائی کے فن اور گائیکی کے بارے میں ان سے اظہار خیال کرایا جائے اور کوشش کی جائے کہ وہ اکیلے یا حسینہ کے ساتھ مل کر کچھ سنائیں۔ چنانچہ حسب پروگرام محفل سج گئی اور ہماری خوش قسمتی کہ اس میں ہماری دعوت پر مائی ممتاز بھی آ گئیں۔

اب اظہار خیال کا سلسلہ شروع ہوا تو جہاں مائی حسینہ کا نام آتا تو لازماً مائی ممتاز کا نام بھی آتا، تین گھنٹے سے زائد جمی رہنے والی یہ تقریب باثمر ثابت ہوئی، مائی ممتاز نے سٹیج پر آکر گانا تو نہ گایا مگر انہوں نے مائی حسینہ کے بارے میں اچھی گفتگو کی۔ ان کے ساتھ جمیل پروانہ بھی محفل میں موجود تھے انہوں نے بھی اپنی گفتگو میں حاضرین کو اس جوڑی کی گلوکاری کے حوالہ سے بتایا اور دونوں کی گائیکی کی تعریف کی۔ ہمارا تیر نشانے پہ لگا تھا اس لئے ہم خوش تھے اور اپنی اگلی چال کی تیاری میں لگ گئے تھے۔

اب ہم نے اس ٹائیٹل "سنبھال " کے تحت دوسرا پروگرام مائی ممتاز کے اعزاز میں ترتیب دیا جہاں اس بار انہوں نے گانا تھا جبکہ اس میں حسینہ مائی کو بھی مدعو کیا گیا۔ ہمارا یہ ہدف بھی حسب منشا حاصل ہو گیا کیوں کہ اس دوسری تقریب میں دونوں کافی قریب آگئیں اور آپس میں گفتگو کرنے لگیں۔ چند مہینے گزر گئے اب طے پایا کہ ایک ایسا پروگرام کرتے ہیں جس کا ٹائٹل ہو گا "جوڑیاں جگ تھوڑیاں" یعنی دنیا میں آئیڈیل کپل بہت کم ہیں اور اس میں دونوں کو ایک ساتھ بٹھایا جائے اور اکھٹے گانے کا ماحول پیدا کیا جائے۔ یہ پروگرام اعلیٰ درجے کے ایک مقامی ریسٹورنٹ کے لان میں رکھا گیا جہاں کمشنر بہاولپور ڈویژن میاں مشتاق احمد بورانہ کو مہمان خاص بنایا۔ خوش قسمتی کہ اس روز کلاسیکل سنگیت کے نامور استاد صدارتی ایوارڈ یافتہ گلوکار بدرالزماں خاں، قمر الزماں خاں بہاولپور میں موجود ہونے کے سبب ہماری دعوت پر اس محفل میں شریک ہوئے جبکہ ان کے نامور شاگرد، کلاسیکل سنگر بیورو کریٹ ڈاکٹر اطہر مسعود بھی ہمراہ تھے۔

استاد مبارک علی خان اور کئی دیگر نامور مقامی سنگیت کار بھی محفل میں موجود تھے۔ موجودہ پرنسپل قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور ڈاکٹر جاوید اقبال، ریڈیو پاکستان کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر اکرم شاد اور اس وقت کے موجودہ ڈائریکٹر ساجد درانی بھی موجود تھے۔ مذکورہ محفل سنگیت میں حسینہ ممتاز کی جوڑی نے اپنے گائے ہوئے مشہور گیت گا کر پرانی یادیں تازہ کر دیں اور حاضرین خوب لطف اندوز ہوئے۔ اس دن تک دونوں مائیاں ایک دوسرے کے اس قدر قریب آچکی تھیں کہ وہ یہ سننے یا ماننے کو ہی تیار نہ تھیں وہ کبھی آپس میں ناراض رہی ہیں یا ان کی آپسی بول چال بند رہی ہے۔ ہمارا مقصد کسی کو شرمندہ کرنا تو تھا ہی نہیں، جب وہ دونوں آپس میں گھل مل کر شیر و شکر ہو گئیں تو ہم اپنی کامیابی پر نازاں تھے۔ اس کے بعد مرتے دم تک وہ سہیلیوں اور بہنوں کی طرح رہتی رہیں، اب وہ دونوں اس جہان میں نہیں ہیں، پہلے ممتاز خانم گئیں ڈیڑھ دو سال بعد حسینہ بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں اور یوں سنگیت کی دنیا کی یہ عظیم اور لاجواب جوڑی یہاں سے رخصت ہو گئی۔

جو لوک گیت، کافیاں، عارفانہ کلام اور غزلیں ممتاز خانم نے گائی ہیں اور جن کی ریکارڈنگ موجود ہے انہیں نہ صرف تادیر یاد رکھا جائے گا بلکہ نئے گانے والے اور آنے والے دور کے میوزک کمپوزرز بھی اس گائیکی سے بھرپور استفادہ کر سکیں گے، جس محنت کے ساتھ اور جن بڑے اساتذہ سے ممتاز خانم نے سنگیت سیکھا وہ دوبارہ کہاں ماحول بن پائے گا۔ عمر کے پچھلے پہر، ممتاز خانم کو یہ شکوہ رہتا تھا کہ شہر میں موسیقی کے پروگرام ہوتے ہیں مگر ان کو کوئی نہیں بلاتا، اطلاع بھی نہیں دیتا۔ ہم نے ان کا یہ شکوہ بھی دور کر دیا تھا بلکہ وہ اکثر و بیشتر ہمارے پروگراموں میں تشریف نہیں لا سکتی تھیں لیکن ہم نے انہیں مدعو کرنے میں کبھی تساہل و تغافل نہیں برتا۔ جیسا کہ شروع میں ممتاز خانم کے خاندان کے حوالہ سے بیان ہوا، اسی وسیب کی ایک اور معروف جوڑی عاشق رمضان کی تھی جس نے مستانہ پروانہ سے پہلے یہاں شہرت پائی اس جوڑی میں استاد عاشق حسین جو ہیں وہ بھی اسی خاندان کے فرد ہیں اور ممتاز خانم کے سگے بھائی ہیں، اللہ کے فضل سے حیات ہیں۔ ڈیرہ نواب صاحب میں مقیم شاہی گلوکاروں کے اس خاندان جن کی یہ اولاد ہیں، ایک بہن اور چھہ بھائی تھے، بہن جن کا نام مائی پھلاں تھا اور جو رشتے میں ممتاز خانم اور استاد عاشق حسین کی پھوبھی بنتی تھیں، اللہ نے انہیں حسن فراوانی سے دے رکھا تھا، نواب صاحب نے انہیں اپنے عقد میں لے لیا تھا، بھائیوں میں ایک کا نام محمد دین خان تھا وہ اعلیٰ پائے کے شاہی گلوکار تھے عاشق حسین اور ممتاز خانم انہی کی اولاد تھیں۔

آگے عاشق حسین کی دو بیٹیاں شیریں کنول اور کرن آفرین بھی بہت اچھی گائیک ثابت ہو رہی ہیں، اس وسیب کی ایک اور نامور گلوکارہ مائی اللہ وسائی بھی اسی خاندان میں بیاہی ہوئی تھیں اور رشتے میں وہ مائی ممتاز اور استاد عاشق حسین کی چچی تھیں کیونکہ ان کی شادی محمد دین خان کے بڑے بھائی محمد عثمان خان کے ساتھ ہوئی تھی جو سنہارو کے نام سے مشہور تھے اعلیٰ درجے کے کلاسیکل سنگیت کار تھے لیکن طب یعنی حکمت کے شعبہ سے منسلک تھے۔ یوں یہ پورا خاندان موسیقی کے ساتھ وابستہ ہے اور آج بھی فن کی خدمت میں پیش پیش ہے۔

چند برس پہلے تک بہاولپور شہر جو محلات اور باغات کا شہر تھا اور بہت سے نامور گلوکاروں کی موجودگی کی بنا پر اسے سنگیت گھر بھی کہا جا سکتا تھا کیونکہ بہت سارے پختہ گانے والیاں اور گانے والے موجود و دستیاب تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر سنگیت کاروں سے ایسے خالی ہوا جیسے کسی کی نظر بد کھا گئی ہو، استاد منیر توکل خان گئے، حسین بخش خان ڈھاڈی گئے، فقیرا بھگت آنجہانی ہوئے، صدارتی ایوارڈ یافتہ پروین نذر، ممتاز خانم، حسینہ خانم اور استاد طارق عرف شیدی کی بیوی شازیہ طارق گئیں، استاد نذر حسین، امیر حسین، فدا حسین اور استاد حسنی نہ رہے۔ روحا اور سنی لاہور چلے گئے، شازیہ طالب اور کرن آفریں شادی کے بندھن میں بندھ کر اپنے اپنے سسرال سدھار گئیں۔

شیریں کنول کی خوبصورت آواز گرہستی میں گم ہو کر رہ گئی یہی حال حسین بخش خان ڈھاڈی کی بیٹی سلطانہ سحر کے ساتھ ہوا۔ مستانہ پروانہ کی جوڑی کے لیڈنگ رکن نصیر مستانہ اللہ کو پیارے ہو گئے، استاد رمضان شاکر فالج کا شکار ہو کر چارپائی پر لیٹ گئے، بہترین طبلہ نواز عابد خان اور پھر منگل خان بھی ہم میں نہ رہے۔ کلاسیکل گلوکار استاد مبارک علی خاں بڑھاپے اور کمزوری کی بنا پر گانا گانا اور سکھانا بند کر چکے ہیں۔ ان کا گائیک بیٹا نوازش علی خان گھر کا چولہا جلائے رکھنے کیلئے عارضی طور پر سنگیت کو چھوڑ کر کوئی نجی ملازمت کرنے پر مجبور ہو گیا، استاد عابد خان کا بیٹا ناصر محمود بھی شوق کی حد تک سنگیت کرتا ہے زیادہ توجہ سکول کی ملازمت پر ہے جہاں سے روزی ملتی ہے، کلاسیکل سنگیت کے معروف گھرانے میرا اشارہ استاد توکل خان کی جانب ہے، کے پوتے استاد اعجاز توکل خان زیادہ تر فیصل آباد میں ہوتے ہیں جہاں زرعی یونیورسٹی میں وہ سنگیت کے وزٹنگ پروفیسر ہیں۔

علاوہ ازیں ان کے زیادہ تر شاگرد بھی وہیں کے ہیں جبکہ ان کے نوعمر گلوکار بیٹے علی اور خیام سنگیت کی تعلیم و تربیت، ہائر ایجوکیشن اور پرفارمنس کیلئے لاہور میں مقیم ہیں اب چند گلوکار اور تین چار میوزک اکیڈمیاں ہیں جن کے دم قدم سے کچھ نوجوان میوزک سیکھ رہے ہیں ان میں ایک تو استاد ظفر علی دہلوی کی اکیڈمی ہے جہاں بہت معمولی معاوضہ پر بھی سنگیت یعنی گلوکاری اور ساز بجانا سکھایا جاتا ہے، استاد ظفر دہلوی پہلے بھی کئی شاگرد پیدا کر چکے ہیں، اسی طرح بہت ہی سریلے گائیک سردار ملک کی اکیڈمی میں بھی ہر وقت رونق لگی رہتی ہے اور وہ بھی کئی نعت خواں اور گلوکار پیدا کر چکے ہیں۔ سید نادر بخاری کی اکیڈمی بھی کئی برسوں سے سنگیت کیلئے اپنی خدمات پیش کر رہی ہے ان کے بھی کئی شاگرد آگے بڑھ چکے ہیں۔ استاد نواز جو ریڈیو پاکستان بہاولپور اسٹیشن پر میوزک کمپوزر بھی ہیں، بہاولپور کے علاوہ حاصل پور میں بھی سنگیت سکھاتے ہیں۔

ان کے بھی متعدد شاگرد ہیں۔ چند غیر معروف استاد بھی ہیں جو گھروں میں جا کر انفرادی طور پر سنگیت کی تعلیم و تربیت دیتے ہیں۔ ایک ٹھیا استاد طارق المعروف شیدی خان کی اکیڈمی بھی ہے، میڈم پروین نذر اور استاد نذر حسین کی وفات کے بعد ان کی دو بیٹیاں عاصمہ نذر اور ندا خان بھی سنگیت سیکھ کر پروگرام کرنے لگی ہیں، عاصمہ نذر تو خیر اپنی والدہ اور والد کی زندگی میں ہی گلوکاری کرنے لگ گئی تھیں تاہم ان کی چھوٹی بہن ندا خان نے اب گانا شروع کیا ہے۔ ان کے علاوہ نئی گانے والیوں میں سونم خان ان کی چھوٹی بہن سونینا خان، مقبول خان کی بیٹی شکیلہ خان اور استاد نواز کی شاگرد سنی رخسار بہت عمدہ گا رہی ہیں، پختہ گانے والیوں میں اب شازیہ بے بہا اور سلمیٰ خانم کے نام لئے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں