جنگل ہی جنگل کی بقا کے ضامن
جنگلات ماحولیات کو بہتر بنانے کا وہ علاج ہیں جسے اب فراموش کردیا گیا ہے۔
عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی زمانے میں یہ کہا اور سمجھا جاتا تھا کہ جنگلات دنیا کے ماحول کو بہتر اور خوب صورت بنانے کا بہترین علاج ہیں اور ان کی وجہ سے ہمارا پورا کرۂ ارض ہی بنی نوع انسان کے لیے خوب صورت اور رہنے کے قابل بن سکتا ہے۔ مگر اب انہی ماہرین نے اس حوالے سے اپنی رائے بدل دی ہے اور وہ بڑے مدلل انداز سے یہ کہتے ہیں کہ بے شک، ایک زمانے میں ایسا سمجھا جاتا تھا، مگر اب ایسا بالکل نہیں ہے، کیوں کہ اس قدرتی علاج یعنی جنگلات کو اب اس حوالے سے فراموش کردیا گیا ہے۔
حال ہی میں بین الاقوامی ماحولیاتی گروپس نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اس صورت حال پر بحث کی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے درختوں اور پیڑپودوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے کرۂ ارض کو بچانے اور اسے استحکام دینے کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔
ماہرین نے اس ضمن میں آپس میں گفتگو کرتے ہوئے یہ بحث بھی کی کہ کیا واقعی ہماری دنیا کے پیڑپودے اور درخت ہمارے کرۂ ارض کو بچانے میں کوئی اہم اور بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں؟ اور کیا ہماری دنیا کے سینے پر بکھرے ہوئے ان جنگلات کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ان کی مدد سے کوئی بہتر صورت حال سامنے آسکتی ہے؟ ماحولیاتی ماہرین نے اس پورے مباحثے کے بعد مذکورہ بالا سوالوں کے جواب اثبات میں دیے اور اس پر اپنے اطمینان کا اظہار بھی کیا۔ گویا انہیں امید واثق ہے کہ جنگلات کا تحفظ اس دنیا کو نئی زندگی دے سکتا ہے۔
ستمبر کی 12تاریخ کو غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) کے ایک گروپ نے سان فرانسسکو میں ایک ایسی ملاقات کی جس میں انہوں نے اس حل پر بحث و تمحیص کی کہ کیا ہم ماحولیات کے اپنے کرہ ارض پر پڑتے ہوئے منفی اثرات کے ضمن میں درختوں، پیڑ پودوں اور جنگلات کے مثبت کردار کے بارے میں غوروخوض کرسکتے ہیں اور کیا ہم دنیا کے مجموعی ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات سے بچنے کا کوئی ٹھوس راستہ نکال سکتے ہیں۔ان سبھی ماہرین ماحولیات نے اس ساری بحث و تمحیص کے بعد ایک حل تلاش کیا ہے جسے انہوں نے 30x30 کا نام دیا ہے۔ انہیں امید ہے کہ وہ مذکورہ بالا 30x30 کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پاسکتے ہیں۔
یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جسے خاص طور سے ان اہداف تک پہنچنے کے لیے تیار کیا گیا ہے جنھیں Paris Climate Agreementنے تیار کیا تھا اور جن کا بنیادی مقصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی لانا تھا۔ اس ضمن میں اس میٹنگ میں شریک تنظیموں کے سربراہوں کا یہ خیال ہے کہ اس طرح سبھی جنگلات کو بھی مینیج کیا جاسکے گا اور زمین کو بھی جس کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے 30 فی صد اہدافی اخراج میں کمی آسکے گی۔
٭جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی لانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟
بڑے بڑے جنگلات اس صلاحیت کے حامل ہیں کہ وہ بڑی مقدار میں کاربن کو چوس سکتے ہیں۔جنگل کے علاقے جیسے امیزون میں پائے جانے والے خطے یا علاقے کرۂ ارض سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے ضمن میں ایک سنک کا کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں واقعتاً کمی واقع ہوجاتی ہے۔
Global Forest Watch جو ڈی فاریسٹریشن کے عمل کو حقیقی وقت میں مانیٹر کرتا ہے، اس کا اندازہ ہے کہ 2001 اور 2017 کے درمیان 800 ملین ایکڑ درخت تباہ ہوچکے ہیں۔ اس کا زیادہ تر حصہ زراعت، logging اور مویشی پروری پر مشتمل ہے۔
سان فرانسسکو میں منعقد ہونے والی یہ چوٹی کانفرنس کی پوری کی پوری توجہ ان سالوشنز پر ہوگی جو ان صنعتوں کو فروغ پانے میں یا آگے بڑھنے میں تو اہم کردار ادا کرے گی ہی، اس کے ساتھ ان قواعد و ضوابط کو نافذالعمل ہونے میں بھی مواقع فراہم کرے گی اور جس کے یقینی طور پر مثبت اور ٹھوس نتائج برآمد ہوں گے۔
ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے Frances Seymour کا کہنا ہے کہ دنیا کے سبھی ملکوں کے پاس وہ وسعت یا گنجائش موجود ہے جس کی مدد سے وہ امکانی فاریسٹ منیجمنٹ کو نافذ کرسکیں گے۔ لیکن ان کے اہداف یا مقاصد اور اصلیت یا حقیقت کے درمیان درحقیقت سیاسی خواہش آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ برازیل کے بعد پیرو کے گھنے جنگلات بھی اسی قسم کے مسائل کا شکار ہیں اور ان کے لیے بھی کوئی قابل عمل علاج کی ضرورت ہے۔
٭ ایکواڈور کا گُم شدہ سماج
کسی زمانے میں یعنی زمانہ قدیم میں ایکواڈور کے گم شدہ سماج کے آثار جو کبھی ایکواڈور کے Pristine'کلاؤڈ فاریسٹ میں اور ایکواڈور کی سرسبز وادی میں پائے جاتے تھے۔ ماضی قدیم میں یہ معاشرہ ان گھنے جنگلوں میں رہتا بستا تھا اور پھر یکایک یہ ایک دم غائب ہوگیا، البتہ اس کی ایک قدیم جھیل آج بھی باقی ہے جو اس کے ماضی کی خوب صورت کہانی سنا رہی ہے۔
یہ 1850 کے عشرے کی بات ہے جب ماہرین نباتیات کی ایک ٹیم مشرقی ایکواڈور کی Quijos Valley کے کلاؤڈ فاریسٹ کی گھنی نباتات میں بڑی مشکل سے اپنا راستہ بناتے ہوئے آگے کی طرف پیش قدمی کررہی تھی۔ اس وقت ان کے راستے میں دور دور تک جو ہی پھیلی ہوئی تھی۔ ان سبھی ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ یہ pristine جنگل کا دل ہے، یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں اس سے پہلے کبھی کوئی نہیں گیا تھا۔
لیکن یہاں وہ غلط تھے اور بالکل غلط سوچ رہے تھے، کیوں کہ یہاں کسی زمانے میں دیسی اور مقامی لوگ جن کا تعلق مقامی Quijo groups سے تھا، انہوں نے اس جگہ پورے خطے میں نہایت زبردست قسم کی بستیاں بنالی تھیں مگر بعد میں یہاں آنے والے اور یہاں سے گزرنے والے اسپینی مہم جوؤں نے1500 کی دہائی میں اس پوری بستی اور آبادی کو تہ تیغ کرڈالا تھا۔ جب یہاں کی پوری آبادی ہی صاف ہوگئی تو پھر یہاں خود رو جھاڑیاں اور نباتات بہت بڑی تعداد میں آگ آئے اور انہوں نے پورے خطے کو سبز چادر اُڑھادی جس کے نتیجے میں یہاں یہ قدرتی جنگل آگ آیا۔ یہ معاشرتی توڑ پھوڑ اور جنگل کی تجدید نو کو بعد میں کی جانے والی ایک نئی اسٹڈی میں بیان کیا گیا ہے جو حال ہی میں Nature Ecology and Evolution میں شائع ہوئی ہے۔
مذکورہ Quijos Valley دنیا کے کلاؤڈ فاریسٹ میں واقع ہے، یہ کولمبیا کے ایک قدیم تجارتی راستے پر پڑتا ہے جہاں ہزاروں سال پہلے اس وقت رہتے تھے جب یہاں اسپینی پہنچے جو مکئی اور پیٹھے کی بڑے پیمانے پر کاشت کرتے تھے ، اس کے علاوہ یہ لوگ بین بھی اگاتے تھے اور غیرزرخیز مٹی میں اور وادی کی زمین میں passionfruit بھی اُگایا کرتے تھے۔
یہاں ریسرچ کرنے والے ماہرین کو وادی میں ایک چھوٹی سی جھیل بھی ملی جسے بعد میں کھدائی کرکے مزید وسیع کیا اور اس کی تہہ تک بھی پہنچے تو انہیں وہاں تلچھٹ کا ایک موٹا سا ٹیلہ بھی ملا جو غالباً یہاں کے لوگوں نے گذشتہ ایک ہزار سال کے دوران تعمیر کیا تھا، یہاں انہیں ایسے آثار اور شواہد بھی ملے جن سے پتا چلتا تھا کہ یہاں سے لوگ اس جگہ سفر کرکے آتے جاتے تھے۔ یہاں کی قدیم ترین تہوں میں سائنس دانوں کو زیرہ گل یا گل دانے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی ملے جو بہتے ہوئے وادی کی ڈھلوانوں تک بھی پہنچ گئے تھے اور یہ زیرہ گل اطراف کے علاقوں میں بھی موجود دکھائی دیے۔ یہ سب شواہد جنگلات کے آس پاس بھی نظر آئے اور جھیل کے پاس بھی جس سے ماہرین کو یہ اندازہ ہوا کہ مذکورہ بالا ٹکڑے اور مکئی کے بیج اور دوسری پولن گرین ہوا اور طوفان یا بارش کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے تھے جس کی وجہ سے ان کی نمو میں بھی اضافہ ہوجاتا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہوا کی وجہ سے بھی یہاں کے لوگ جن چیزوں کی کاشت کیا کرتے تھے، ان کے ہاتھوں سے نکل کر وہ تمام چیزیں پوری وادی میں پھیل جاتی تھیں۔ سائنسی ماہرین کو یہاں لکڑی کے کوئلے کے ڈھیروں ٹکڑے بھی ملے جن سے ماہرین کو یہ اندازہ لگانے میں مدد ملی کی قدیم لوگ جلانے کے لیے اور ایندھن کی ضرورت پوری کرنے کے لیے لکڑی کا کوئلا استعمال کیا کرتے تھے۔
٭مایا تہذیب کے قدیم شہر گوئٹے مالا کے قدیم جنگلوں میں:
نیشنل جیوگرافک کے مہم جو Albert Lin نے ایک خاص قسم کی ٹیکنالوجی کی مدد سے گوئٹے مالا کے جنگلات میں پوشیدہ قدیم مایا شہر کو کھوج نکالا ہے۔کہا جاتا ہے کہ جب 1540 کی دہائی میں اسپینی اس جگہ پہنچے تو انہوں نے یہاں بڑ ی تباہی اور بربادی پھیلائی، انہوں نے مقامی Quijos لوگوں کو بڑی بے دردی سے قتل کرڈالا اور یہاں خوف ناک قسم کی سازشیں بھی کیں اور ڈھیروں مقامی لوگوں سے زبردستی بیگار بھی لیا جس کے بعد Quijos نے ان سے بدلے کا آغاز کیا تو 1578 تک یا تو ان سب کو مار ڈالا یا انہیں اس خطے سے مکمل طور پر نکال باہر کیا جس کے بعد اس وادی سے اسپینیوں کا تسلط ختم ہوگیا۔
اس مطالعاتی ٹیم کے سربراہ Nick Loughlin کا کہنا ہے:''انسانی تاریخ میں یہ سانحہ ممکنہ طور پر سب سے بڑا اور خوف ناک سانحہ ہوسکتا ہے، کیوں کہ اس دوران اس خطے کے لاکھوں مقامی افراد کو مار ڈالا گیا جن کے ذمے دار یورپ کے نو آبادیاتی نظام کے خالق تھے۔ اس کے نتیجے میں جنگل میں آباد ایک قدیم اور شان دار تہذیب مٹ گئی۔
اس جھیل کی تلچھٹ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس خطے میں بڑی قیامت خیز لڑائی بھی ہوئی اور اس کے بعد یہاں ہول ناک سناٹا اور تنہائی بھی ہر طرف پھیل گئی۔ اس تنازعے کے دوران جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے جگہ جگہ لکڑی کے کوئلے کے بڑے بڑے ذخائر بھی وجود میں آئے جو غالباً لوگوں اور بستیوں کو نذر آتش کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ پھر یہ وادی بالکل خالی ہوگئی اور اس کی وجہ سے پولن ٹکڑے اور دیگر اشیا بھی وادی کے فرش پر جگہ جگہ بکھری نظر آئیں جن کی وجہ سے پوری وادی میں مذکورہ اشیا کی پیداوار بڑی تیزی سے بڑھنے اور پھیلنے لگی۔
فلوریڈا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کام کرنے والے ایک ایکولوجسٹ مارک بش کا کہنا ہے کہ جب آپ کسی زرخیز زمین پر کاشت کاری کرنا بند کردیتے ہیں تو اس کے بعد جنگل ایک بار پھر بڑھنے لگتا ہے جیسے ناجائز تجاوزات پھیلتی اور بڑھتی ہیں۔ پہلے گھاس بڑھتی ہے اور خالی جگہوں کو پر کرلیتی ہے جس کے بعد جنگل ایک بار پھر بڑھنے اور پھیلنے لگتا ہے۔ اسے ہم گویا جنگل کی واپسی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد اگلے لگ بھگ 130 برسوں کے دوران انسانی آثار بھی غائب ہونے لگتے ہیں اور پھر جنگل ایک بار پھر پھٹ پڑتا ہے۔ اس کے بعد مختلف درختوں کے زیرہ گل پہلی مرتبہ میں بہت تیزی سے بڑھتے ہیں، پھر دوسرے نمبر کے پولن اگتے ہیں اور ان کی رفتار سست بھی ہوتی ہے اور یہ لمبے بھی ہوتے ہیں۔ پھر وہ وقت بھی آن پہنچتا ہے جب جنگل پوری وادی کو ڈھانپ لیتا ہے۔ 1800کے عشرے تک انسان وادی میں واپس پہنچے۔ جھیل میں پائے جانے والے زیر گل کے ذرات اور مختلف اشیا کے ٹکڑے دکھائی دیے جس کی وجہ سے وہ پوری وادی بھی سرسبز ہوتی چلی گئی۔
پھر جب یورپی مہم جو اگلے راؤنڈ میں وہاں پہنچے تو انہوں نے وہاں اس قدر گھنی نباتات اور جنگل دیکھے کہ وہ خود رو انداز سے اگتے، بڑھتے اور پھیلتے چلے گئے۔ گویا وہاں کے جنگل کا منظر بڑا حسین اور عجیب و غریب تھا۔ گویا یہ جنگل ایک بار پھر جنگل بن گئے تھے اور اجڑنے کے بعد دوبارہ اسی شکل میں واپس آچکے تھے۔ معلوم ہوا کہ جنگل ہی جنگلوں کی حیات نو کے سبب بنتے ہیں۔
حال ہی میں بین الاقوامی ماحولیاتی گروپس نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اس صورت حال پر بحث کی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے درختوں اور پیڑپودوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے کرۂ ارض کو بچانے اور اسے استحکام دینے کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔
ماہرین نے اس ضمن میں آپس میں گفتگو کرتے ہوئے یہ بحث بھی کی کہ کیا واقعی ہماری دنیا کے پیڑپودے اور درخت ہمارے کرۂ ارض کو بچانے میں کوئی اہم اور بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں؟ اور کیا ہماری دنیا کے سینے پر بکھرے ہوئے ان جنگلات کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ان کی مدد سے کوئی بہتر صورت حال سامنے آسکتی ہے؟ ماحولیاتی ماہرین نے اس پورے مباحثے کے بعد مذکورہ بالا سوالوں کے جواب اثبات میں دیے اور اس پر اپنے اطمینان کا اظہار بھی کیا۔ گویا انہیں امید واثق ہے کہ جنگلات کا تحفظ اس دنیا کو نئی زندگی دے سکتا ہے۔
ستمبر کی 12تاریخ کو غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) کے ایک گروپ نے سان فرانسسکو میں ایک ایسی ملاقات کی جس میں انہوں نے اس حل پر بحث و تمحیص کی کہ کیا ہم ماحولیات کے اپنے کرہ ارض پر پڑتے ہوئے منفی اثرات کے ضمن میں درختوں، پیڑ پودوں اور جنگلات کے مثبت کردار کے بارے میں غوروخوض کرسکتے ہیں اور کیا ہم دنیا کے مجموعی ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات سے بچنے کا کوئی ٹھوس راستہ نکال سکتے ہیں۔ان سبھی ماہرین ماحولیات نے اس ساری بحث و تمحیص کے بعد ایک حل تلاش کیا ہے جسے انہوں نے 30x30 کا نام دیا ہے۔ انہیں امید ہے کہ وہ مذکورہ بالا 30x30 کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پاسکتے ہیں۔
یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جسے خاص طور سے ان اہداف تک پہنچنے کے لیے تیار کیا گیا ہے جنھیں Paris Climate Agreementنے تیار کیا تھا اور جن کا بنیادی مقصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی لانا تھا۔ اس ضمن میں اس میٹنگ میں شریک تنظیموں کے سربراہوں کا یہ خیال ہے کہ اس طرح سبھی جنگلات کو بھی مینیج کیا جاسکے گا اور زمین کو بھی جس کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے 30 فی صد اہدافی اخراج میں کمی آسکے گی۔
٭جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی لانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟
بڑے بڑے جنگلات اس صلاحیت کے حامل ہیں کہ وہ بڑی مقدار میں کاربن کو چوس سکتے ہیں۔جنگل کے علاقے جیسے امیزون میں پائے جانے والے خطے یا علاقے کرۂ ارض سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے ضمن میں ایک سنک کا کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں واقعتاً کمی واقع ہوجاتی ہے۔
Global Forest Watch جو ڈی فاریسٹریشن کے عمل کو حقیقی وقت میں مانیٹر کرتا ہے، اس کا اندازہ ہے کہ 2001 اور 2017 کے درمیان 800 ملین ایکڑ درخت تباہ ہوچکے ہیں۔ اس کا زیادہ تر حصہ زراعت، logging اور مویشی پروری پر مشتمل ہے۔
سان فرانسسکو میں منعقد ہونے والی یہ چوٹی کانفرنس کی پوری کی پوری توجہ ان سالوشنز پر ہوگی جو ان صنعتوں کو فروغ پانے میں یا آگے بڑھنے میں تو اہم کردار ادا کرے گی ہی، اس کے ساتھ ان قواعد و ضوابط کو نافذالعمل ہونے میں بھی مواقع فراہم کرے گی اور جس کے یقینی طور پر مثبت اور ٹھوس نتائج برآمد ہوں گے۔
ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے Frances Seymour کا کہنا ہے کہ دنیا کے سبھی ملکوں کے پاس وہ وسعت یا گنجائش موجود ہے جس کی مدد سے وہ امکانی فاریسٹ منیجمنٹ کو نافذ کرسکیں گے۔ لیکن ان کے اہداف یا مقاصد اور اصلیت یا حقیقت کے درمیان درحقیقت سیاسی خواہش آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ برازیل کے بعد پیرو کے گھنے جنگلات بھی اسی قسم کے مسائل کا شکار ہیں اور ان کے لیے بھی کوئی قابل عمل علاج کی ضرورت ہے۔
٭ ایکواڈور کا گُم شدہ سماج
کسی زمانے میں یعنی زمانہ قدیم میں ایکواڈور کے گم شدہ سماج کے آثار جو کبھی ایکواڈور کے Pristine'کلاؤڈ فاریسٹ میں اور ایکواڈور کی سرسبز وادی میں پائے جاتے تھے۔ ماضی قدیم میں یہ معاشرہ ان گھنے جنگلوں میں رہتا بستا تھا اور پھر یکایک یہ ایک دم غائب ہوگیا، البتہ اس کی ایک قدیم جھیل آج بھی باقی ہے جو اس کے ماضی کی خوب صورت کہانی سنا رہی ہے۔
یہ 1850 کے عشرے کی بات ہے جب ماہرین نباتیات کی ایک ٹیم مشرقی ایکواڈور کی Quijos Valley کے کلاؤڈ فاریسٹ کی گھنی نباتات میں بڑی مشکل سے اپنا راستہ بناتے ہوئے آگے کی طرف پیش قدمی کررہی تھی۔ اس وقت ان کے راستے میں دور دور تک جو ہی پھیلی ہوئی تھی۔ ان سبھی ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ یہ pristine جنگل کا دل ہے، یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں اس سے پہلے کبھی کوئی نہیں گیا تھا۔
لیکن یہاں وہ غلط تھے اور بالکل غلط سوچ رہے تھے، کیوں کہ یہاں کسی زمانے میں دیسی اور مقامی لوگ جن کا تعلق مقامی Quijo groups سے تھا، انہوں نے اس جگہ پورے خطے میں نہایت زبردست قسم کی بستیاں بنالی تھیں مگر بعد میں یہاں آنے والے اور یہاں سے گزرنے والے اسپینی مہم جوؤں نے1500 کی دہائی میں اس پوری بستی اور آبادی کو تہ تیغ کرڈالا تھا۔ جب یہاں کی پوری آبادی ہی صاف ہوگئی تو پھر یہاں خود رو جھاڑیاں اور نباتات بہت بڑی تعداد میں آگ آئے اور انہوں نے پورے خطے کو سبز چادر اُڑھادی جس کے نتیجے میں یہاں یہ قدرتی جنگل آگ آیا۔ یہ معاشرتی توڑ پھوڑ اور جنگل کی تجدید نو کو بعد میں کی جانے والی ایک نئی اسٹڈی میں بیان کیا گیا ہے جو حال ہی میں Nature Ecology and Evolution میں شائع ہوئی ہے۔
مذکورہ Quijos Valley دنیا کے کلاؤڈ فاریسٹ میں واقع ہے، یہ کولمبیا کے ایک قدیم تجارتی راستے پر پڑتا ہے جہاں ہزاروں سال پہلے اس وقت رہتے تھے جب یہاں اسپینی پہنچے جو مکئی اور پیٹھے کی بڑے پیمانے پر کاشت کرتے تھے ، اس کے علاوہ یہ لوگ بین بھی اگاتے تھے اور غیرزرخیز مٹی میں اور وادی کی زمین میں passionfruit بھی اُگایا کرتے تھے۔
یہاں ریسرچ کرنے والے ماہرین کو وادی میں ایک چھوٹی سی جھیل بھی ملی جسے بعد میں کھدائی کرکے مزید وسیع کیا اور اس کی تہہ تک بھی پہنچے تو انہیں وہاں تلچھٹ کا ایک موٹا سا ٹیلہ بھی ملا جو غالباً یہاں کے لوگوں نے گذشتہ ایک ہزار سال کے دوران تعمیر کیا تھا، یہاں انہیں ایسے آثار اور شواہد بھی ملے جن سے پتا چلتا تھا کہ یہاں سے لوگ اس جگہ سفر کرکے آتے جاتے تھے۔ یہاں کی قدیم ترین تہوں میں سائنس دانوں کو زیرہ گل یا گل دانے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی ملے جو بہتے ہوئے وادی کی ڈھلوانوں تک بھی پہنچ گئے تھے اور یہ زیرہ گل اطراف کے علاقوں میں بھی موجود دکھائی دیے۔ یہ سب شواہد جنگلات کے آس پاس بھی نظر آئے اور جھیل کے پاس بھی جس سے ماہرین کو یہ اندازہ ہوا کہ مذکورہ بالا ٹکڑے اور مکئی کے بیج اور دوسری پولن گرین ہوا اور طوفان یا بارش کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے تھے جس کی وجہ سے ان کی نمو میں بھی اضافہ ہوجاتا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہوا کی وجہ سے بھی یہاں کے لوگ جن چیزوں کی کاشت کیا کرتے تھے، ان کے ہاتھوں سے نکل کر وہ تمام چیزیں پوری وادی میں پھیل جاتی تھیں۔ سائنسی ماہرین کو یہاں لکڑی کے کوئلے کے ڈھیروں ٹکڑے بھی ملے جن سے ماہرین کو یہ اندازہ لگانے میں مدد ملی کی قدیم لوگ جلانے کے لیے اور ایندھن کی ضرورت پوری کرنے کے لیے لکڑی کا کوئلا استعمال کیا کرتے تھے۔
٭مایا تہذیب کے قدیم شہر گوئٹے مالا کے قدیم جنگلوں میں:
نیشنل جیوگرافک کے مہم جو Albert Lin نے ایک خاص قسم کی ٹیکنالوجی کی مدد سے گوئٹے مالا کے جنگلات میں پوشیدہ قدیم مایا شہر کو کھوج نکالا ہے۔کہا جاتا ہے کہ جب 1540 کی دہائی میں اسپینی اس جگہ پہنچے تو انہوں نے یہاں بڑ ی تباہی اور بربادی پھیلائی، انہوں نے مقامی Quijos لوگوں کو بڑی بے دردی سے قتل کرڈالا اور یہاں خوف ناک قسم کی سازشیں بھی کیں اور ڈھیروں مقامی لوگوں سے زبردستی بیگار بھی لیا جس کے بعد Quijos نے ان سے بدلے کا آغاز کیا تو 1578 تک یا تو ان سب کو مار ڈالا یا انہیں اس خطے سے مکمل طور پر نکال باہر کیا جس کے بعد اس وادی سے اسپینیوں کا تسلط ختم ہوگیا۔
اس مطالعاتی ٹیم کے سربراہ Nick Loughlin کا کہنا ہے:''انسانی تاریخ میں یہ سانحہ ممکنہ طور پر سب سے بڑا اور خوف ناک سانحہ ہوسکتا ہے، کیوں کہ اس دوران اس خطے کے لاکھوں مقامی افراد کو مار ڈالا گیا جن کے ذمے دار یورپ کے نو آبادیاتی نظام کے خالق تھے۔ اس کے نتیجے میں جنگل میں آباد ایک قدیم اور شان دار تہذیب مٹ گئی۔
اس جھیل کی تلچھٹ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس خطے میں بڑی قیامت خیز لڑائی بھی ہوئی اور اس کے بعد یہاں ہول ناک سناٹا اور تنہائی بھی ہر طرف پھیل گئی۔ اس تنازعے کے دوران جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے جگہ جگہ لکڑی کے کوئلے کے بڑے بڑے ذخائر بھی وجود میں آئے جو غالباً لوگوں اور بستیوں کو نذر آتش کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ پھر یہ وادی بالکل خالی ہوگئی اور اس کی وجہ سے پولن ٹکڑے اور دیگر اشیا بھی وادی کے فرش پر جگہ جگہ بکھری نظر آئیں جن کی وجہ سے پوری وادی میں مذکورہ اشیا کی پیداوار بڑی تیزی سے بڑھنے اور پھیلنے لگی۔
فلوریڈا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کام کرنے والے ایک ایکولوجسٹ مارک بش کا کہنا ہے کہ جب آپ کسی زرخیز زمین پر کاشت کاری کرنا بند کردیتے ہیں تو اس کے بعد جنگل ایک بار پھر بڑھنے لگتا ہے جیسے ناجائز تجاوزات پھیلتی اور بڑھتی ہیں۔ پہلے گھاس بڑھتی ہے اور خالی جگہوں کو پر کرلیتی ہے جس کے بعد جنگل ایک بار پھر بڑھنے اور پھیلنے لگتا ہے۔ اسے ہم گویا جنگل کی واپسی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد اگلے لگ بھگ 130 برسوں کے دوران انسانی آثار بھی غائب ہونے لگتے ہیں اور پھر جنگل ایک بار پھر پھٹ پڑتا ہے۔ اس کے بعد مختلف درختوں کے زیرہ گل پہلی مرتبہ میں بہت تیزی سے بڑھتے ہیں، پھر دوسرے نمبر کے پولن اگتے ہیں اور ان کی رفتار سست بھی ہوتی ہے اور یہ لمبے بھی ہوتے ہیں۔ پھر وہ وقت بھی آن پہنچتا ہے جب جنگل پوری وادی کو ڈھانپ لیتا ہے۔ 1800کے عشرے تک انسان وادی میں واپس پہنچے۔ جھیل میں پائے جانے والے زیر گل کے ذرات اور مختلف اشیا کے ٹکڑے دکھائی دیے جس کی وجہ سے وہ پوری وادی بھی سرسبز ہوتی چلی گئی۔
پھر جب یورپی مہم جو اگلے راؤنڈ میں وہاں پہنچے تو انہوں نے وہاں اس قدر گھنی نباتات اور جنگل دیکھے کہ وہ خود رو انداز سے اگتے، بڑھتے اور پھیلتے چلے گئے۔ گویا وہاں کے جنگل کا منظر بڑا حسین اور عجیب و غریب تھا۔ گویا یہ جنگل ایک بار پھر جنگل بن گئے تھے اور اجڑنے کے بعد دوبارہ اسی شکل میں واپس آچکے تھے۔ معلوم ہوا کہ جنگل ہی جنگلوں کی حیات نو کے سبب بنتے ہیں۔