کوچۂ سخن
غزل
رات صدائیں چپ ہوں گی تو تیرا رستہ دیکھوں گی
چپکے چپکے خواب آنکھوں میں تیرا چہرہ ڈھونڈوں گی
بادل، بارش، رنگ میں ڈھل کر جب تجھ کو یوں تکتے ہیں
قطرہ قطرہ بہہ کر تجھ کو، لمحہ لمحہ سوچوں گی
سات زمانے تجھ سے بچھڑ کر جب تجھ کو یوں تکتے ہیں
تیری ساری آہیں اپنے دل میں چھپا کر رکھوں گی
صبح کا وقت ہو، شام ہو یا پھر رات گھنی دیواروں پر
پتھر پتھر روند کے تجھ تک نیند نگر میں پہنچوں گی
دھوپ کا موسم کرب سے تڑپا خالی خالی گلیوں میں
پیلا سورج ڈوبے گا تو پھر میں تجھ کو مانگوں گی
(تمثیل حفصہ، کوئٹہ)
''جنکشن''
زندگی، زندگی
چل رہی تھی ابھی
ایک دم یوں ہوا
سرخ سگنل پہ گاڑی رکی
زندگی رک گئی
سلسلہ رک گیا
لوگ حیران تھے
ایسے ویرانے میں ریل کیوں رک گئی
کیوں گھڑی رک گئی
زندگی رک گئی
ہر طرف شور ہونے لگا
کیا ہوا۔۔۔؟
کیا ہوا۔۔۔۔؟
کیا اترنا پڑے گا یہاں؟
چہ مگوئیاں ہوئیں
لوگ اک دوسرے کی طرف دیکھنے لگ گئے
ایک دم یہ دھماکہ ہوا
ریل کی چیخ نے سب کو چونکا دیا
سبز بتی جلی
سلسلہ چل پڑا
یہ گھڑی چل پڑی
زندگی چل پڑی
(آغر ندیم سحر، لاہور)
غزل
یاد جو بزمِ تخیل میں پرانی ٹھہری
اپنی ہستی کی وہی شام سہانی ٹھہری
عہدِ افلاس میں یوں لوگ جیے جاتے ہیں
زندگی جیسے کوئی رسم نبھانی ٹھہری
کیسے ممکن ہے اڑے خاک نہ صحراؤں میں
آندھیوں کی تو یہ خصلت ہی پرانی ٹھہری
دل میں طوفان تو اٹھتے ہی رہیں گے عادل
یہی کافی ہے کہ موجوں کی روانی ٹھہری
(منیر عادل، شورکوٹ)
غزل
اٹھا کے چاک سے کیا کیا بنا دیے گئے ہم
کہیں پہ خِشت کی صورت لگا دیے گئے ہم
خیال و خواب سے آگے کی بات کرتے تھے
سو اِک کہانی کا حصہ بنا دیے گئے ہم
بنامِ مہر و وفا اور بنامِ رسم و رواج
کہیں بٹھائے کہیں سے اٹھا دیے گئے ہم
بس ایک بات پہ جاگی ہیں غیرتیں کیا کیا
ونی ہوئے کبھی کاری کرا دیے گئے ہم
حنوط کر کے کبھی صورتیں نہ یاد رہِیں
عجائبات میں لا کر سجا دیے گئے ہم
(فرحت زاہد، لاہور)
''عشق ایک گناہ''
جب بھی میان شہر، گزرتا ہوں اے حزیں
خود پر گزار لیتا ستم کوئی دل نشیں
جیون گزارتا ہوں میں خطرے میں گھات کے
سب فرق مٹ گئے ہیں حیات اور ممات کے
دیدار اک دفعہ کیا ہوا، دید ہو گئی
اک سال پھر سے گزرا ہے، پھر عید ہوگئی
ہنستا ہوں اپنے حال پہ، اپنے ہی خود تئیں
یہ عشق اک گناہ ہے، معافی کوئی نہیں
سجدے میں سر گیا ہے مگر دل کا کیا کریں
اعضاء تو تیرے نام کی مالا جپا کریں
قلبِ سلیم عرش ہے، تیرا مکان ہے
اس کی کلید تیری یہ شیریں زبان ہے
آجائیے گا مان سے، مر جائیں گے جو ہم
ہم کون سا ہی روز مرا کرتے ہیں صنم
باقی ہوں میں، تُو سیلِ رواں ہے تو کیا ہوا
دل میں ہو اطمینان تو سکہ کھرا ہوا
(عدیل رضا باقی، کراچی)
''میں اپنا مسلک بدل رہا ہوں''
اداس چہرے اداس لب ہیں
اداسی آنکھوں میں موجزن ہے
اداس گلیاں، اداس رستے
اداس چرخ کہن ہے یارو!
غضب کا انبوہ ِیاس ہے یہ
ہر اک یہاں پر ہے دل گرفتہ
چھلکنا چاہتے ہیں کتنے آنسو
ہیں کتنے قصے یہاں پہ غم کے
مگر یہاں کس کے آگے روئیں؟
یہاں تو سب میرِ داستاں ہیں
یہ خود میں خود سے ہی دو بدو ہیں
زمیں پہ ہو کے بھی آسماں ہیں
سمجھ نہ پایا انہیں زمانہ
یہ اپنے اندر ہی اک جہاں ہیں
یہ رنگ و ملت سے بالاتر ہیں
یہ سرحدوں سے بھی ماورا ہیں
یہ اپنی مستی میں مست سارے
دہر میں بکھرے یہ جا بجا ہیں
یہ ہم قبیلہ اداس چہرے
یہ ہم قبیلہ اداس آنکھیں
یہ ہم قبیلہ اداس لب اور
یہ ہم قبیلہ اداس جذبے
لہذا میں نے یہ طے کیا ہے
کہ اپنی پہچان ترک کرکے
ہاں! اپنی جھوٹی خوشی کی دنیا
ہاں ! اپنے جھوٹے نقاب کو اب
میں اپنے چہرے سے نوچ ڈالوں
میں غم پرستوں کا ہم قبیلہ
اداس مسلک قبول کرلوں
اداس مسلک قبول کرلوں
(فواد رضا، کراچی)
غزل
ٹھوکر سے دوسروں کو بچانے کا شکریہ
پتھر کو راستے سے ہٹانے کا شکریہ
اب یہ بتائیں آپ کی میں کیا مدد کروں
فرضی کہانی مجھ کو سنانے کا شکریہ
میرے بہت سے کام ادھورے نہیں رہے
اے دوست اتنے روز نہ آنے کا شکریہ
تنہا نہیں رہا ترے جانے کے بعد میں
کچھ اجنبی غموں سے ملانے کا شکریہ
اتنی خوشی ملی کہ سنبھالی نہیں گئی
دو چار لمحے مجھ پہ لٹانے کا شکریہ
محبوب تیرے ہجر میں کرتا ہوں شاعری
مجھ کو کسی ٹھکانے لگانے کا شکریہ
(خالد محبوب، بہاولپور)
غزل
میں نے وہ نظم لکھی ہے کہ خدا جانتا ہے
اس کا ہر لفظ خدائی کا پتا جانتا ہے
میری آنکھوں میں یہ تصویر ذرا غور سے دیکھ
مجھ کو اس شخص سے ملنا ہے''بتا جانتا ہے''؟
میں بھی زنجیر نہیں ہوتا کسی وحشت سے
وہ بھی تنہائی سے بچنے کی دعا جانتا ہے
دن تو میں پھر بھی کسی ڈھب سے بِتا لیتا ہوں
رات جو مجھ پہ گزرتی ہے خدا جانتا ہے
میری صورت یہ دکھائے بھی تو کیسے مجھ کو
میرے بارے میں یہ آئینہ بھی کیا جانتا ہے
میرے کشکول کو بھر دے کہ میں خالی ہوں بہت
تجھ سوا کون سخی میرا پتا جانتا ہے
دل کے بارے میں مَیں تفصیل بتاؤں تمھیں کیا
مختصر یہ کہ محبت کو سزا جانتا ہے
مسئلہ یہ ہے کہ میں خوش ہوں اکیلا ہو کر
اس قدر خوش کہ فقط میرا خدا جانتا ہے
میر کی مجھ کو سند دے تو میں سوچوں اس پر
ناروا حرف کو جو حرفِ روا جانتا ہے
دل دھڑکنے کی بھی آواز نہیں آتی زیبؔ
ایسی خاموشی کو تُو کیسے صدا جانتا ہے
(اورنگ زیب، کراچی)
غزل
بچھا گیا ہے وہ کانٹے، اب اس کا غم تو نہیں
بساط میری بھی پھولوں سے کوئی کم تو نہیں
ہے کرب پنہاں مری ذات میں تیرا ہم دم
ہر ایک زخم کا مرہم مگر صنم تو نہیں
ترے لیے بھی ہے زخموں کا پیرہن تیار
یہ انتقام ہے میرا کوئی ستم تو نہیں
صفائی دے بھی سکو تو نہ لوٹ کر آنا
کہ کج روی یہ تمھاری کوئی کرم تو نہیں
چراغ جلتے ہیں عینہ جو تیرے باطن میں
کرو جو غور تو یہ روشنی بھی کم تو نہیں
(عینہ میر، کراچی)
''آئینہ''
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
٭٭٭
آئنہ دیکھ کر تسلی ہوئی
ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی
٭٭٭
آئینوں میں عکس نہ ہوں تو حیرت رہتی ہے
جیسے خالی آنکھوں میں بھی وحشت رہتی ہے
٭٭٭
وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آ سکے
آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے
٭٭٭
بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات
آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا
٭٭٭
آئنہ دیکھ کے کہتے ہیں سنورنے والے
آج بے موت مریں گے مرے مرنے والے
٭٭٭
چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئنہ جھوٹ بولتا ہی نہیں
٭٭٭
اس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار
کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے
٭٭٭
دوسروں پر اگر تبصرہ کیجئے
سامنے آئنہ رکھ لیا کیجئے
٭٭٭
خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے
آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے
٭٭٭
کوئی بھولا ہوا چہرہ نظر آئے شاید
آئینہ غور سے تو نے کبھی دیکھا ہی نہیں
٭٭٭
مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے
آئینہ دیکھیے گا ذرا دیکھ بھال کے
٭٭٭
نہ دیکھنا کبھی آئینہ بھول کر دیکھو
تمہارے حسن کا پیدا جواب کر دے گا
٭٭٭
ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
آپ کا صفحہ
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ قارئین! یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ، آپ کے تخیل سے مزین اور آپ کی پسند کے اشعار سے سجے گا۔ آپ ہمیں اپنی نظمیں، غزلیں اور کسی بھی موضوع پر پسندیدہ اشعار اپنی تصویر کے ساتھ بھیج سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ ہمارا پتا ہے: روزنامہ ایکسپریس(سنڈے میگزین)،
5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی email:arif.hussain@express.com.pk