اٹھارہویں ترمیم وفاق کی مضبوطی کے لیے ضروری

وفاقی کابینہ صوبوں کے حقوق کو غصب کرنے کے بارے میں نہ سوچے۔

tauceeph@gmail.com

کیا چھوٹے صوبے محرومیوں کا شکار رہیں گے؟ کیا ون یونٹ کے ذریعے ملک کوکنٹرول کیا جائے گا؟ تحریک انصاف کے پاپولر ازم کے ماڈل کا مقصد ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنا ہے۔ وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی صوبائی خودمختاری کے لیے آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم کے خلاف مہم اور قومی مالیاتی ایوارڈ میں صوبوں کو فراہم کی جانے والی گرانٹ میں کمی سے ان خدشات کی تصدیق ہو رہی ہے۔

وفاقی وزیر فیصل واوڈا جو آبی وسائل کی وزارت کے نگراں ہیں،کہتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم وفاق کا قتل ہے۔ یہ آسمان سے اتری ہوئی کتاب نہیں ہے۔ اخبارات میں شایع شدہ خبر سے اخذکردہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت قومی مالیاتی ایوارڈ (NFC) میں کٹوتی کرکے قبائلی علاقوں کو فنڈز فراہم کرنے پر غورکر رہی ہے۔ قومی مالیاتی ایوارڈ کے فارمولے میں ترمیم سے بلوچستان اور سندھ براہ راست متاثر ہونگے۔

بلوچستان شدید خشک سالی کا شکار ہے جس کے نتیجے میں غربت کی سطح بڑھ رہی ہے۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو اس صورتحال پر مسلسل تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کا مطلب چھوٹے صوبوں کو مزید پسماندگی اور غربت میں دھکیل دینا ہے۔

حاصل صاحب کا کہنا ہے کہ سینڈک اور سوئی سدرن گیس ایکسٹنشن میں بلوچستان کے حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں آباد قوموں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد یہ آئینی حقوق حاصل کیے ہیں ۔ان کا استدلال ہے کہ قومی مالیاتی ایوارڈ میں وفاق اور صوبوں کو فراہم کی جانے والی رقوم کا فارمولہ پہلے ہی غیر منصفانہ ہے۔

وسائل و اختیارات کی تقسیم کو مزید منصفانہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ وفاق اپنے حصے سے فاٹا کو حصہ دے اور صوبوں کو فراہم کی جانے والی گرانٹ میں اضافہ کیا جائے۔ قومی مالیاتی ایوارڈ اور اٹھارہویں ترمیم کا معاملہ اتنا حساس ہے کہ تحریک انصاف کی مدد سے بلوچستان میں قائم ہونے والی حکومت کو بھی اس معاملے پر تشویش ہے۔ بلوچستان کی حکومت نے آیندہ قومی مالیاتی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے کو کم کرنے کو خطرناک قرار دیا ہے۔

بلوچستان حکومت کے مالیاتی شعبہ کا مؤقف ہے کہ صوبوں کے حصے سے 3 فیصد رقم فاٹا کو منتقل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آخری مردم شماری کے اعداد وشمار میں پختون خواہ کی آبادی بڑھ گئی ہے ۔ اب قبائلی علاقوں کے پختون خواہ میں انضمام کے بعد آبادی کی بنیاد پر کے پی کا حصہ خود بخود بڑھ جائے گا۔ باقی صوبوں کے حصے کو وہاں منتقل کرنا کسی صورت دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا ۔

بلوچستان کی تمام جماعتوں خواہ وہ حکومت میں شامل ہیں یا حزب اختلاف میں یہی مؤقف ہے کہ سندھ میں ڈیموں کی تعمیرکے حوالے سے خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ سندھ کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی حتمی فیصلے سے قبل سندھ کی رائے کو ضرور اہمیت دینی چاہیے۔ اٹھارہویں ترمیم کی بناء پر سندھ کو خاطرخواہ فائدہ ہوا ہے۔

اب اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے اور سندھ کے مؤقف کو مدنظر رکھے بغیر دریائے سندھ پر ڈیموں کی تعمیر سے سندھ کے مفاد کو شدید نقصان ہوگا جس کا فائدہ سندھ کی آزادی کا نعرہ لگانے والے اٹھائیں گے اور بلوچستان جیسی صورتحال پیدا ہوگی۔

سندھ کے مشیر اطلاعات مرتضی وہاب نے وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے بیانات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ فیصل واوڈا ملک کے آئین کی سمجھ نہیں رکھتے نہ انھیں تاریخ کا ادراک ہے۔ اس بناء پر وہ اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کے بیانات دے رہے ہیں ۔ وفاقی حکومت کے قانون کے سب سے بڑے مشیر اٹارنی جنرل بھی صدارتی نظام کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ سابق آمر پرویز مشرف کے دورکے مداح ہیں ، چھوٹے صوبوں میں اضطراب بڑھ رہا ہے۔


پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اس حقیقت سے واقف نہیں کہ آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم قیام پاکستان کی بنیاد بننے والی قرارداد پاکستان کا پرتو ہے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام چھوٹے صوبوںکے حقوق کے لیے عمل میں آیا تھا ۔ مسلم لیگ کی جدوجہد کی بناء پر سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرکے مکمل صوبے کا درجہ دیا گیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے 23مارچ 1940ء کو لاہور میں تاریخی اجتماع کیا۔ اس اجتماع میں قرارداد لاہور منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں ریاستوں کے کنفیڈریشن سے نئے ملک پاکستان کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مسلم لیگ کے اس مؤقف کی سب سے زیادہ سندھ اور بنگال میں پذیرائی ہوئی۔ ان صوبوں میں مسلم لیگ کی وزارتیں قائم ہوئیں ۔ سندھ اور بنگال کی منتخب اسمبلیوں نے پاکستان کے حق میں قراردادیں منظور کیں۔ اس وقت ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں 40ء کی دہائی میں یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی۔ یونینسٹ پارٹی نے پاکستان کی حمایت نہیں کی ۔

یہی وجہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ اقلیت میں ہونے کی بناء پر پاکستان کے حق میں قرارداد منظور نہیں کرا پائی، مگر پاکستان بننے کے بعد صوبوںکے حقوق کو پامال کیا گیا۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ مقتدرہ ، سول بیوروکریسی اور پنجاب کی مسلم لیگ کی قیادت اکثریتی صوبے بنگال کے حقوق کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔ یہ پالیسی ان کی سندھ، بلوچستان اور سرحد کے بارے میں تھی۔

تیسرے گورنر جنرل غلام محمد نے مسلم لیگ کے سینئر رہنما خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کرکے مشرقی پاکستان کے عوام میں محرومی کا احساس پیدا کیا تھا۔ بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کی طویل عرصے تک مزاحمت ہوئی۔ 1955ء میں مشرقی پاکستان کی اکثریت کو تسلیم نہ کرنے کے لیے مغربی پاکستان کے نام سے ایک نیا صوبہ قائم کیا گیا جس کو ون یونٹ کہا گیا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو برابری کی نمایندگی دی گئی۔

جنرل ایوب خان نے صدارتی نظام قائم کرکے مشرقی پاکستان کے عوام کو احساس دلایا کہ ان کا اقتدار میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ جب 1970ء میں عام انتخابات میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کامیاب ہوئی تو پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی نے جنرل یحییٰ خان کی حمایت کی، 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ جب 1973ء کا آئین تیار ہورہا تھا تو وفاق اور صوبوں کے اختیارات اہم معاملہ تھا۔ اس وقت وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے لیے تین فہرستیں تیارکی گئی تھیں۔

ایک فہرست ان امور کی تھی جو وفاق کے دائرے میں آتے تھے، دوسری صوبوں کی اور تیسری مشترکہ فہرست تھی جس پر وفاق اور صوبے دونوں قانون سازی کرسکتے تھے مگر وفاق کو مشترکہ فہرست پر بالادستی حاصل تھی ۔ اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میر غوث بخش بزنجو کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ مشترکہ فہرست دس سال بعد ختم کردی جائے گی اور یہ امور صوبوں کو منتقل ہونگے، مگر دس سال بعد جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آئے تو ون یونٹ جیسی صورتحال تھی ۔ اس صورتحال سے سندھ اور بلوچستان میں شدید احساس محرومی پیدا ہوا ۔

یہی وجہ تھی کہ ڈیموں کی تعمیر اور توانائی جیسے اہم مسائل تنازعات کا شکار ہوئے۔ سابق صدر پرویز مشرف کی غیر حقیقی پالیسی کے نتیجے میں بلوچستان ایک اور بحران کا شکار ہوا۔ پاکستان کے حامی سب سے بڑے سردار اکبر بگٹی کو شہید کردیا گیا ، یوں بلوچستان کے چند نوجوان باغی ہوگئے۔ پھر ایک ایسا بحران پیدا ہوا کہ دیگر غیر ملکی قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ جب بھی آزاد بلوچستان کے حامیوں سے بحث ومباحثہ ہوتا ہے تو جوان یہ سوال کرکے لاجواب کردیتے ہیں کہ بحیرہ عرب بلوچستان کے ساحل کے ساتھ ہزاروں سال سے بہہ رہا ہے۔

بلوچستان کے اس علاقے کے لوگ اس سمندر میں پیدا ہونے والی ہر لہر کی وجہ اور اس کے اثرات سے واقف ہے۔ بحیرہ عرب ان لاکھوں بلوچوں کی زندگی ہے مگر اس بحیرہ عرب کا دفاع کرنے کی تنظیم میں وہ شامل نہیں ہیں۔ جب پارلیمنٹ نے اٹھارہویں ترمیم منظور کی تھی تو وفاق پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا تھا کہ کاش 1970ء میں یہ ترمیم منظور ہوجاتی تو پاکستان کا جھنڈا چٹگانگ تک لہرا رہا ہوتا ۔ پاکستان بحیرہ عرب کے علاوہ خلیج بنگال میں ایک قوت ہوتا۔ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کو تاریخ سے سبق لینا چاہیے۔ اٹھارہویں ترمیم وفاق کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے۔

فیصل واوڈا نے امریکا میں خاصا وقت گزارا ہے، انھیں علم ہونا چاہیے کہ امریکا کی ترقی اس کے وفاقی نظام کی بناء پر ہے اس لیے وفاقی کابینہ صوبوں کے حقوق کو غصب کرنے کے بارے میں نہ سوچے۔
Load Next Story