احتساب کی راہ میں رکاوٹیں
نیب کے عملے اور تفتیش کاروں کو چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں کارکردگی کے مظاہرے کا موقع ملا ہے۔
ابھی منیر حفیظ نے بطور چیئرمین نیب ''پلی بارگین'' کو ''لوٹ کے مال میں حصے داری''کی باقاعدہ قانونی شکل نہیں دی تھی کہ اس سے قبل ہی نیب کو کرپشن سے نمٹنے میں کئی رکاوٹوں کا سامنا رہا، یہ صدر مملکت آصف زرداری ہی تھے جنھوں نے نیب کے ادارے کو، آئینی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے، غیر مؤثر بنایا۔
فرماں برداروں کو نیب کا چیئرمین بنایا گیا، پھر اس میں تعجب کیا کہ آصف زرداری کے خلاف استغاثہ غیر مؤثر ثابت ہوا اور مقدمات ''ناکافی ثبوت'' کی بنا پر خارج کردیے گئے۔ اسی طرح زرداری کے دوستوں کے خلاف مقدمات بھی راتوں رات ختم ہوئے اور پاکستان آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ''اچکوں کے لیے جنت'' بن گیا۔ نیب کے اعلیٰ حکام میں سے جس نے زبان کھولی اسے یا تو برخاست کردیا گیا یا غیر مؤثر بنا دیا گیا۔
چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد قمر الزماں چوہدری نے کسی حد تک نیب کا اعتبار بحال کرنے کی کوشش کی لیکن جب شریفوں کی نوبت آئی تو وہ بھی ڈھیر ہوگئے۔ نیب کے مشن کو ناکام بنانے کی کوششوں اور ''پر کترنے'' کی دھمکیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خامیوں اور مداخلت کے باوجود، بطور ادارہ نیب کی سمت درست رہی۔
نیب میں غیر قانونی تقرریوں کے خلاف سو موٹو کی سماعت کرتے ہوئے ، مارچ 2017میں سپریم کورٹ نے نیب کے چار ڈائریکٹر جنرلز کو برطرف کیا۔ برطرفی کا سبب بیان کیا گیا کہ یہ افسران نیب میں تعیناتی کے وقت مطلوبہ تعلیمی قابلیت نہیں رکھتے تھے۔ ان میں سے تین افسران ایسے تھے جو رضاکارانہ طور پر اس ادارے میں نہیں آئے تھے بلکہ انھیں نیب میں خدمات پیش کرنے کے لیے مامور کیا گیا تھا۔
انھیں 2003میں نیب میں کام جاری رکھنے یا فوج میں واپس جانے کا اختیار دیا گیا لیکن انھوں نے افواج میں اپنا کیرئیر بشمول پنشن، علاج معالجے کی سہولت، ویلفیئر پالیسی کے تحت ریٹائرمنٹ پر مکان اور پلاٹ جیسی مراعات قربان کردیں ۔ وہ کرپشن کے خلاف ''جہاد'' کے لیے پُرعزم تھے۔ نیب میں شمولیت تک وہ 10سے13برس انتظامی، تحقیقاتی، تفتیشی ، تربیتی اور عملی کارروائیوں کے شعبوں میں خدمات کا تجربہ رکھتے تھے۔
کیپٹن سے میجر کے عہدے پر ترقی کے امتحان میں وہ ''ملٹری لاء'' کا امتحان پاس کرچکے تھے، اس امتحان میں کام یابی کے لیے مینول آف پاکستان ملٹری لاز کے ساتھ قانون شہادت، شواہد کے حصول اور ''کنڈکٹ آف انکوائری اینڈ انویسٹی گیشنز'' کا نظری اور عملی سطح پر علم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مری کے ''اسکول آف ملٹری انٹیلی جینس''سے انٹیلی جینس کورس کرچکے تھے ، جس میں ملزمان سے پوچھ گچھ، تفتیشی عمل، لکھائی کے فرانزک تجزئیے اور شواہد یا معلومات کے حصول، جائزے اور چھان بین سے متعلق عمیق معلومات اور عملی تربیت دی جاتی ہے۔ اسی قابلیت اور نیب میں چار سالہ متعلقہ تجربے کی بنا پر انھیں نیب میں شامل کرلیا گیا جو میرٹ اور قانون کے عین مطابق تھا۔
انتہائی قابل اور اپنا لوہا منوانے والے ان افسران کو صرف اس لیے برطرف کیا گیا کہ کہیں کوئی تھا جسے ان کی تفتیشی مہارت اور لوٹ مار کے خلاف ان کی کام یابیاں ناگوار گزر رہی تھیں ۔ نیب کو بے ضرر بنانے کے لیے اس سے بہتر طریقہ کیا ہوسکتا ہے کہ کارکردگی کا مظاہر کرنے والوں ہی کو نکال باہر کیا جائے؟ اگرچہ قانون کے مطابق ہی کیوں نہ ہوں، لیکن عزت مآب عدلیہ ایسے سخت فیصلے جاری کرنے سے پہلے ان افسران کی کارکردگی اور جن حالا ت میں ان کی تقرریاں ہوئیں، ان پہلوؤں کو بھی زیر غور لاسکتی تھی۔ اگر شبہہ کا فائدہ ان برطرف افسران کو دیا جاتا تو یہ ملک مفاد میں بھی بہتر ہوتا۔
احتساب کی گرفت سے بچ نکلنے کے لیے سیاسی قوتوں کی صف بندی پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ ریکارڈ درست رکھنے کے لیے 2013سے اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پنجاب جو اس وقت احتساب کا مرکز بنا ہوا ہے، اس کے بارے میں اعداد و شمار بتاتے ہیں؛ ڈی جی حسنین احمد(2013-2015)نے ایک سال میں اوسطاً 196معاملات کی تحقیقات کروائیں جب کہ اسی دورانیے میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں برطرف ہونے والے افسر نے فی برس 210 معاملات کی تحقیقات کیں جن میں سے 208مقدمات ختم ہوئے۔ ان کے پیش رو ڈی جی شہزاد سلیم نے (2017 سے اب تک) اوسطاً200 تحقیقات کیں جن میں سے 198ختم ہوگئیں۔
حسنین نے فی برس 36 ریفرینس دائر کیے جب کہ برھان نے 46ریفرینس دائر کیے جن میں سے 13پر فیصلے ہوئے، شہزاد نے 50ریفرینس دائر کیے جن میں سے ہر سال تقریبا 23پر فیصلہ ہوا۔ حسنین نے فی سال 125گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جن میں سے 69پر عمل درآمد ہوا، برھان نے 154وارنٹ گرفتاری کا اجرا کیا ان میں سے 121پر عمل ہوا۔ شہزاد نے 414وارنٹ جاری کیے اور 170پر عمل درآمد کیا گیا۔ حسنین نے فی سال 1124ملین روپے ، برھان نے 675ملین روپے اور شہزاد نے 4140ملین اوسطاً فی برس بازیاب کروائے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ ان افسران کاریکارڈ پنجاب میں نیب کی شاندار کارکردگی کا ثبوت ہیں۔
اس برس فروری میں لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)کے ڈی جی احد چیمہ کی گرفتاری پر حکومت میں شامل مفاد پرستوں نے خوب واویلا کیا۔ اس اقدام کو ''غیر قانونی'' کہا، سابق ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ(ڈی ایم جی) کے افسران نے قلم چھوڑ ہڑتال کی اور اپنے پی اے ایس اور پی ایم ایس کے رفقائے کار کو اپنا ساتھ شامل کرنے کے لیے ڈرایا دھمکایا۔ برسراقتدار ن لیگ کی جانب سے ان افسران کی سرپرستی اس وقت واضح ہوگئی جب ''سرکاری حکام کو ہراساں کرنے اور ان کی تذلیل'' کے نام پر اس کارروائی کے خلاف پنجاب کی صوبائی اسمبلی سے مذمتی قرارداد منظور کروائی گئی۔
نیب کے اختیارات میں رکاوٹ یا کمی اس قرارداد کا بنیادی مقصد تھا۔یہاں تک کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اظہار برہمی کرتے ہوئے پنجاب کے چیف سیکریٹری سے کہا ''اپنے سیاسی آقاؤں کو بتا دیں کہ آپ (بیوروکریٹس) کو طلب کرنے پر سپریم کورٹ کے خلاف بھی قرارداد لے آئیں۔'' اس قرارداد سے واضح ہوگیا کہ سابق حکومت نے کس طرح اپنے اراکین اور متعلقین کی کرپشن کے دفاع کے لیے آئین کا اندھا دھند استعمال کیا۔ اس سے قبل سندھ اسمبلی میں کرپشن کے خاتمے کے لیے اپنے فرائض ادا کرنے والے اداروں نیب اور رینجرز کے خلاف قراردادیں منظور کی گئیں۔
پاکستان میں اعلیٰ قیادت کے نزدیک ہرممکن ذرایع سے طاقت حاصل کرنے اور خاندانی کاروبار کا نام سیاست ہے۔ افراد کے ایما پر آئین پامال ہوتا ہے، قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی اور ادارے محض مذاق بن کر رہ جاتے ہیں۔ نیب کے پاس کرپشن، خرد برد، ٹیکس چوری جیسے جرائم کے ہزاروں مقدمات ہیں جن میں سیاست داں ، سرکاری ملازمین اور کاروباری افراد وغیرہ اربوں روپے کی کرپشن میں مطلوب ہیں، اور نیب سے ان کے خوف زدہ ہونے کا سبب بھی سمجھ آجاتا ہے۔ غلط بیانی اور دروغ گوئی کو سکہ رائج الوقت بنا دیا گیا ہے، کیا کسی ملزم یا گواہ کو عدالت کے سامنے جھوٹ بولنے کی سزا ملی؟
نیب کے عملے اور تفتیش کاروں کو چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں کارکردگی کے مظاہرے کا موقع ملا ہے، جس کی وجہ سے یہ ادارہ صاحب اختیار اور بااثر طبقات کا مؤثر احتساب کرنے کے لیے پورے عزم سے آگے بڑھ رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں شہباز شریف کی تقریر سے یہ اور بھی واضح ہوجاتا ہے کہ نیب کو اس کی راہ سے ہٹانے کے لیے سرگرداں عناصر کس دیدہ دلیری سے آئین کو ڈھال بنالیتے ہیں۔ طاقت ور اور کرپٹ کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات کیا ہوگی کہ نیب کو ختم کردیا جائے یا اسے بے ضرر بنا کر رکھ دیا جائے تاکہ وہ بے خوف ہو کر لوٹ مار جاری رکھیں۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
فرماں برداروں کو نیب کا چیئرمین بنایا گیا، پھر اس میں تعجب کیا کہ آصف زرداری کے خلاف استغاثہ غیر مؤثر ثابت ہوا اور مقدمات ''ناکافی ثبوت'' کی بنا پر خارج کردیے گئے۔ اسی طرح زرداری کے دوستوں کے خلاف مقدمات بھی راتوں رات ختم ہوئے اور پاکستان آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ''اچکوں کے لیے جنت'' بن گیا۔ نیب کے اعلیٰ حکام میں سے جس نے زبان کھولی اسے یا تو برخاست کردیا گیا یا غیر مؤثر بنا دیا گیا۔
چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد قمر الزماں چوہدری نے کسی حد تک نیب کا اعتبار بحال کرنے کی کوشش کی لیکن جب شریفوں کی نوبت آئی تو وہ بھی ڈھیر ہوگئے۔ نیب کے مشن کو ناکام بنانے کی کوششوں اور ''پر کترنے'' کی دھمکیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خامیوں اور مداخلت کے باوجود، بطور ادارہ نیب کی سمت درست رہی۔
نیب میں غیر قانونی تقرریوں کے خلاف سو موٹو کی سماعت کرتے ہوئے ، مارچ 2017میں سپریم کورٹ نے نیب کے چار ڈائریکٹر جنرلز کو برطرف کیا۔ برطرفی کا سبب بیان کیا گیا کہ یہ افسران نیب میں تعیناتی کے وقت مطلوبہ تعلیمی قابلیت نہیں رکھتے تھے۔ ان میں سے تین افسران ایسے تھے جو رضاکارانہ طور پر اس ادارے میں نہیں آئے تھے بلکہ انھیں نیب میں خدمات پیش کرنے کے لیے مامور کیا گیا تھا۔
انھیں 2003میں نیب میں کام جاری رکھنے یا فوج میں واپس جانے کا اختیار دیا گیا لیکن انھوں نے افواج میں اپنا کیرئیر بشمول پنشن، علاج معالجے کی سہولت، ویلفیئر پالیسی کے تحت ریٹائرمنٹ پر مکان اور پلاٹ جیسی مراعات قربان کردیں ۔ وہ کرپشن کے خلاف ''جہاد'' کے لیے پُرعزم تھے۔ نیب میں شمولیت تک وہ 10سے13برس انتظامی، تحقیقاتی، تفتیشی ، تربیتی اور عملی کارروائیوں کے شعبوں میں خدمات کا تجربہ رکھتے تھے۔
کیپٹن سے میجر کے عہدے پر ترقی کے امتحان میں وہ ''ملٹری لاء'' کا امتحان پاس کرچکے تھے، اس امتحان میں کام یابی کے لیے مینول آف پاکستان ملٹری لاز کے ساتھ قانون شہادت، شواہد کے حصول اور ''کنڈکٹ آف انکوائری اینڈ انویسٹی گیشنز'' کا نظری اور عملی سطح پر علم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مری کے ''اسکول آف ملٹری انٹیلی جینس''سے انٹیلی جینس کورس کرچکے تھے ، جس میں ملزمان سے پوچھ گچھ، تفتیشی عمل، لکھائی کے فرانزک تجزئیے اور شواہد یا معلومات کے حصول، جائزے اور چھان بین سے متعلق عمیق معلومات اور عملی تربیت دی جاتی ہے۔ اسی قابلیت اور نیب میں چار سالہ متعلقہ تجربے کی بنا پر انھیں نیب میں شامل کرلیا گیا جو میرٹ اور قانون کے عین مطابق تھا۔
انتہائی قابل اور اپنا لوہا منوانے والے ان افسران کو صرف اس لیے برطرف کیا گیا کہ کہیں کوئی تھا جسے ان کی تفتیشی مہارت اور لوٹ مار کے خلاف ان کی کام یابیاں ناگوار گزر رہی تھیں ۔ نیب کو بے ضرر بنانے کے لیے اس سے بہتر طریقہ کیا ہوسکتا ہے کہ کارکردگی کا مظاہر کرنے والوں ہی کو نکال باہر کیا جائے؟ اگرچہ قانون کے مطابق ہی کیوں نہ ہوں، لیکن عزت مآب عدلیہ ایسے سخت فیصلے جاری کرنے سے پہلے ان افسران کی کارکردگی اور جن حالا ت میں ان کی تقرریاں ہوئیں، ان پہلوؤں کو بھی زیر غور لاسکتی تھی۔ اگر شبہہ کا فائدہ ان برطرف افسران کو دیا جاتا تو یہ ملک مفاد میں بھی بہتر ہوتا۔
احتساب کی گرفت سے بچ نکلنے کے لیے سیاسی قوتوں کی صف بندی پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ ریکارڈ درست رکھنے کے لیے 2013سے اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پنجاب جو اس وقت احتساب کا مرکز بنا ہوا ہے، اس کے بارے میں اعداد و شمار بتاتے ہیں؛ ڈی جی حسنین احمد(2013-2015)نے ایک سال میں اوسطاً 196معاملات کی تحقیقات کروائیں جب کہ اسی دورانیے میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں برطرف ہونے والے افسر نے فی برس 210 معاملات کی تحقیقات کیں جن میں سے 208مقدمات ختم ہوئے۔ ان کے پیش رو ڈی جی شہزاد سلیم نے (2017 سے اب تک) اوسطاً200 تحقیقات کیں جن میں سے 198ختم ہوگئیں۔
حسنین نے فی برس 36 ریفرینس دائر کیے جب کہ برھان نے 46ریفرینس دائر کیے جن میں سے 13پر فیصلے ہوئے، شہزاد نے 50ریفرینس دائر کیے جن میں سے ہر سال تقریبا 23پر فیصلہ ہوا۔ حسنین نے فی سال 125گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جن میں سے 69پر عمل درآمد ہوا، برھان نے 154وارنٹ گرفتاری کا اجرا کیا ان میں سے 121پر عمل ہوا۔ شہزاد نے 414وارنٹ جاری کیے اور 170پر عمل درآمد کیا گیا۔ حسنین نے فی سال 1124ملین روپے ، برھان نے 675ملین روپے اور شہزاد نے 4140ملین اوسطاً فی برس بازیاب کروائے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ ان افسران کاریکارڈ پنجاب میں نیب کی شاندار کارکردگی کا ثبوت ہیں۔
اس برس فروری میں لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)کے ڈی جی احد چیمہ کی گرفتاری پر حکومت میں شامل مفاد پرستوں نے خوب واویلا کیا۔ اس اقدام کو ''غیر قانونی'' کہا، سابق ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ(ڈی ایم جی) کے افسران نے قلم چھوڑ ہڑتال کی اور اپنے پی اے ایس اور پی ایم ایس کے رفقائے کار کو اپنا ساتھ شامل کرنے کے لیے ڈرایا دھمکایا۔ برسراقتدار ن لیگ کی جانب سے ان افسران کی سرپرستی اس وقت واضح ہوگئی جب ''سرکاری حکام کو ہراساں کرنے اور ان کی تذلیل'' کے نام پر اس کارروائی کے خلاف پنجاب کی صوبائی اسمبلی سے مذمتی قرارداد منظور کروائی گئی۔
نیب کے اختیارات میں رکاوٹ یا کمی اس قرارداد کا بنیادی مقصد تھا۔یہاں تک کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اظہار برہمی کرتے ہوئے پنجاب کے چیف سیکریٹری سے کہا ''اپنے سیاسی آقاؤں کو بتا دیں کہ آپ (بیوروکریٹس) کو طلب کرنے پر سپریم کورٹ کے خلاف بھی قرارداد لے آئیں۔'' اس قرارداد سے واضح ہوگیا کہ سابق حکومت نے کس طرح اپنے اراکین اور متعلقین کی کرپشن کے دفاع کے لیے آئین کا اندھا دھند استعمال کیا۔ اس سے قبل سندھ اسمبلی میں کرپشن کے خاتمے کے لیے اپنے فرائض ادا کرنے والے اداروں نیب اور رینجرز کے خلاف قراردادیں منظور کی گئیں۔
پاکستان میں اعلیٰ قیادت کے نزدیک ہرممکن ذرایع سے طاقت حاصل کرنے اور خاندانی کاروبار کا نام سیاست ہے۔ افراد کے ایما پر آئین پامال ہوتا ہے، قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی اور ادارے محض مذاق بن کر رہ جاتے ہیں۔ نیب کے پاس کرپشن، خرد برد، ٹیکس چوری جیسے جرائم کے ہزاروں مقدمات ہیں جن میں سیاست داں ، سرکاری ملازمین اور کاروباری افراد وغیرہ اربوں روپے کی کرپشن میں مطلوب ہیں، اور نیب سے ان کے خوف زدہ ہونے کا سبب بھی سمجھ آجاتا ہے۔ غلط بیانی اور دروغ گوئی کو سکہ رائج الوقت بنا دیا گیا ہے، کیا کسی ملزم یا گواہ کو عدالت کے سامنے جھوٹ بولنے کی سزا ملی؟
نیب کے عملے اور تفتیش کاروں کو چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں کارکردگی کے مظاہرے کا موقع ملا ہے، جس کی وجہ سے یہ ادارہ صاحب اختیار اور بااثر طبقات کا مؤثر احتساب کرنے کے لیے پورے عزم سے آگے بڑھ رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں شہباز شریف کی تقریر سے یہ اور بھی واضح ہوجاتا ہے کہ نیب کو اس کی راہ سے ہٹانے کے لیے سرگرداں عناصر کس دیدہ دلیری سے آئین کو ڈھال بنالیتے ہیں۔ طاقت ور اور کرپٹ کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات کیا ہوگی کہ نیب کو ختم کردیا جائے یا اسے بے ضرر بنا کر رکھ دیا جائے تاکہ وہ بے خوف ہو کر لوٹ مار جاری رکھیں۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)