عثمان بزدار پنجاب میں طاقت کا محور
پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اب پنجاب کی حکمرانی پر اپنی گرفت قائم کر لی ہے۔
ملک کا سیاسی منظر نامہ کافی دھندلا نظرآرہا ہے۔ اپوزیشن متحد ہوتی نظرآرہی ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ متحد اپوزیشن حکومت کے لیے کس قدر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ آصف زرداری بھی گیم میں واپس آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اس کے اپنے حلیف ہے۔ مجھے ایم کیو ایم کے تیور بدلتے نظر آرہے ہیں۔
مینگل بھی ناراض نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں مرکزی حکومت کے لیے روز بروز مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں کہ حکومت کو مکمل محفوظ قرار دیا جا سکے۔ کے پی میں سب ٹھیک نظر نہیں آرہا۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ بھی کوئی خاص اچھا تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ بلکہ کے پی کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے تحریک انصاف کے لیے زیادہ سوالات پیدا کر دیے ہیں۔
بلوچستان میں بھی تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ مشکل میں نظر آرہے ہیں۔ ان کے خلاف سازشیں شروع ہو چکی ہیں۔ سندھ میں تحریک انصاف اور پی پی پی کی حکومت کے درمیان لفظی محاذ آرائی شروع ہو چکی ہے۔ اس منظر نامے نے تحریک انصاف کے لیے پنجاب میں سیاسی استحکام بہت اہم کر دیا ہے۔ تحریک انصاف مختلف سیاسی محاذوں پر اس قدر پھنس چکی ہے کہ پنجاب کو مستحکم کرنا ناگزیر ہے۔ اسی لیے عثمان بزدار کو ساری طاقت دے دی گئی ہے ۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اب پنجاب کی حکمرانی پر اپنی گرفت قائم کر لی ہے۔ وہ اب مکمل با اختیار وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان کے ساتھ شراکت اقتدار کی خواہش رکھنے والے تمام لوگ اب مکمل بیعت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ عثمان بزدار کے ساتھ کافی زیادتی ہوئی ہے۔ ان کی نامزدگی کے ساتھ ہی تحریک انصاف نے خود ہی ان کے کمزور ہونے کا تاثر بھی قائم کیا ۔ پہلے چار رکنی مشاورتی کمیٹی کا شوشا چھوڑ دیا گیا۔ میں نے تو تب بھی لکھا تھا کہ ایسی کسی مشاورتی کمیٹی کا وجود ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک منتخب وزیر اعلیٰ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے کسی چار رکنی مشاورتی کمیٹی سے پوچھے گا۔عثمان بزدار کے خلاف سارا پراپیگنڈا اس کمیٹی کی وجہ سے ہوا۔ ایک تاثر قائم ہو گیا کہ عثمان بزدار کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ ایک سنئیر وزیر بنا دیا گیا۔ انھوں نے بھی یہ تاثر قائم کرنے کی بھر پور کوشش کی کہ وہ اگر وزیر اعلیٰ سے طاقتور نہیں تو ہم پلہ ضرور ہیں۔
لیکن عثمان بزدار کو بھی داد دینی پڑی گئی کہ اس قدر نا موافق حالات میں بھی وہ گھبرائے نہیں۔ انھوں نے سرنڈر نہیں کیا۔ اس سارے کھیل کی سب سے خوبصورت بات یہی ہے کہ عثمان بزدار نے ایک طرف اپنے اختیارات کے حصول کی جدوجہد جاری رکھی دوسری طرف کسی سے بھی محاذ آرائی سے بھی مکمل اجتناب کیا۔ کسی کو ناراض نہیں کیا۔ شاید یہی ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ بن گئی۔
پنجاب اسمبلی کے حالیہ بجٹ اجلاس میں عثمان بزدار نے پنجاب اسمبلی میں ڈیرے لگا کر ایک نئی سیاسی روایت قائم کر دی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کا دفتر ہمیشہ سے موجود ہے۔ لیکن کسی بھی وزیر اعلیٰ نے اس دفتر کو کبھی اس طرح استعمال نہیں کیا جس طرح عثمان بزدار نے استعمال کیا ہے۔ وہ تو بجٹ اجلاس کے دوران اسمبلی میں اپنے دفتر میںمورچہ لگا کر بیٹھ گئے۔ ایک طرف اپوزیشن نے اسمبلی کے باہر سیڑھیوں پر مورچہ لگایا ہوا تھا جب کہ دوسری طرف بزدار نے اسمبلی کے اندر مورچہ لگایا ہوا تھا۔
مین سمجھتا ہوں کہ حمزہ شہباز کی بجٹ اجلاس کے بائیکاٹ کی حکمت عملی کوئی زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔ اچھا شو لگ گیا۔ حمزہ شہباز کو کافی سیاسی اہمیت ملی۔ لیکن دوسری طرف ان کے اس بائیکاٹ کی وجہ سے حکومت کو بھی بہت فائدہ ہوا۔ ایوان سے اپوزیشن کی غیر حاضری کا حکومت نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اسی لیے یہ طے بھی کیا گیا کہ حکومت بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن کو نہیں منائے گی بلکہ ایسے حالات پیدا کیے جائیں گے کہ اپوزیشن باہر ہی رہے۔ اس طرح کہیں نہ کہیں یہ حمزہ شہباز ایک طرف حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور دوسری طرف حکومت کی بالواسطہ مدد بھی کر رہے تھے۔ اسی تناظر میں اپوزیشن کی حکمت عملی کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
تاہم عثمان بزدار نے بجٹ اجلاس کے دوران اسمبلی کے اندر ہی کابینہ کے اجلاس منعقد کیے۔ اس حکمت عملی کی وجہ سے تمام وزرا ء بجٹ اجلاس کے دوران اسمبلی میں ہی موجود رہے۔ ورنہ اس سے پہلے اسمبلی اجلاسوں میں وزرا ء کی حاضری ایک بڑامسئلہ رہتا تھا۔عثمان بزدار نے اسمبلی میں روزانہ مختلف اضلاع کی میٹنگز کر کے بھی ایک نئی روایت قائم کی ہے۔
قواعد میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے جس میں وزیر اعلیٰ کو اگر ہر اجلاس میں نہیں تو کم از کم بجٹ اجلاس میں ایوان میں موجود رہنے کا پابند کیا جائے۔ جب اسمبلی کے احاطوں میں وزیر اعلیٰ کے دفاتر موجود ہیں تو انھیں استعمال کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس سے پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو گی۔
عثمان بزدار تحریک انصاف کی لائف انشورنس ہیں۔ ان کی تبدیلی کے خواب دیکھنے والے بھی اب ان کی قیادت پر ایمان لے آئے ہیں۔اسی لیے مرکز سے بھی سب کو واضح کر دیا گیا ہے کہ عثمان بزدار کے ساتھ کسی بھی قسم کی شراکت داری ممکن نہیں پنجاب اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے دوران میں نے ان تمام قوتوں کو جو عثمان بزدار کے خلاف سرگرم تھیں۔ ان کو ڈمی ثابت کرنے کی کوشش میں تھیں کو ان کے ارد گرد آگے پیچھے گھومتے دیکھا۔ مجھے ایک ہی صف میں محمود و ایاز کھڑے نظر آئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ اور ان سے پہلے وزیر اعلیٰ میں کافی فرق ہے۔ دونوں کا موازنہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس سے پہلے پنجاب میں جتنے بھی وزیر اعلیٰ آئے ہیں کسی کا بھی یہ انداز نہیں رہا۔ میں کسی ایک کی بات نہیں کر رہا۔ میں گزشتہ بیس سال میں پنجاب میں آنے والے تمام وزراء اعلیٰ کی بات کر رہا ہوں۔ سب نے وزیروں کے بجائے بیوروکریسی کے ذریعے حکومت کرنے کی کوشش کی ہے۔
سب شہباز شریف کی بات کرتے ہیں لیکن شہباز شریف کے علاوہ باقی بھی بیوروکریسی کے چکر میں ہی رہے۔ محکموں کے سیکریٹری اور وزیر اعلیٰ مل کر وزیر کو زیرو کر دیتے تھے۔ ایسے وزیر اعلیٰ مضبوط سے مضبوط تر ہوجاتا ہے اور وزیر کمزور سے کمزور تر ہو جاتے ہیں۔لیکن عثمان بزدار نے یہ روایت بھی توڑ دی ہے۔ وہ پنجاب میں بیوروکریسی کے بجائے وزیروں کو مضبوط کر رہے ہیں۔ کسی بھی محکمہ سے کوئی بھی سمری وزیر کو مائنس کر کے نہیں لی جا رہی ہے۔ یہ بھی ایک تبدیلی ہے۔