صحافیوں کا قتل۔۔۔ کچھ کہانیاں

ایک صحافی کو موت کی نیند سلاکر کتنے ہی صحافیوں میں ذمے داری کا احساس جگا دیا جاتا ہے۔

وکٹوریا مارینوا کا تعلق بلغاریہ سے تھا ۔ تیس سالہ وکٹوریہ ٹی وی این کے پروگرام Detectorکی میزبان ہونے کے ساتھ ایک جرأت مند صحافی بھی تھی جس کی زندگی کا مقصد بلغاریہ میں ہونے والی کرپشن کو بے نقاب کرنا تھا ۔7 اکتوبر کی ایک سنسان دوپہر اس کی لاش روج کے ایک پارک سے ملی۔ لاش کودیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ مرنے سے قبل اسے شدید جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، جس کی تصدیق بعد میں پوسٹ مارٹم رپورٹس میں بھی کردی گئی۔ وکٹوریا کا جرم اس کا ایک صحافی ہونا قرار پایا۔

اپنے کندھوں پر عائد صحافت کی بھاری ذمے داری کو انتہائی سنجیدگی سے نبھانے کی سزا اس کو یورپ کی سر زمین پر بھی ایسے ہی دی گئی جیسے کسی بادشاہی یا غیرجمہوری نظام میں علم حق بلند کرنے والوں کو ہمیشہ سے دی جاتی رہی ہے۔ غائب ہونے سے ایک روز قبل اپنے پروگرام میں وکٹوریا نے دو ایسے صحافیوں کو بھی مدعو کیا تھا جو یورپی یونین فنڈ میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقاتی رپورٹنگ کر رہے تھے۔

اس کی یہ ہمت اشرافیہ کی آنکھوں میں کانٹا بن کے کھٹکی اور انھوں نے وہ کانٹا بلا تاخیر نکال پھینکا۔ اس ضمن میں وکٹوریا کی ایک ساتھی رپورٹر کا کہنا ہے کہ وہ کرپشن اسکینڈلزکی تحقیقات پرکام کرنے کے لیے بہت پُر جوش تھی جس کے لیے اسے اپنے تحفظ کی بھی کوئی فکر نہ تھی، لیکن افسوس وہ اپنے کام کو درست طریقے سے شروع بھی نہ کر پائی تھی کہ انتہائی بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔

اگرچہ بلغاریہ کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وکٹوریا کے قتل کا تعلق اس کے صحافتی معاملات سے نہیں اور اس قتل کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کروائی جائے گی، لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا وکٹوریا یورپ کی وہ پہلی صحافی ہے جو یورپی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والی کرپشن کے ناسورکوکھودنے کی کوشش میں مار دی گئی؟ ہرگز نہیں۔

گزشتہ ایک سال میں صرف یورپ کے تین صحافی کرپشن اسکینڈل کی تحقیقات میں ہاتھ ڈالنے کی سزا میں موت کے حقدار ٹھہرے۔ ان سب کی موت یقیناً ایک اتفاق نہیں۔ اگرچہ سب کہانیوں کے کردار الگ ضرور ہیں لیکن اختتام ایک ہی ہے، اور وہ ہے آزادی صحافت کی موت ۔ گزشتہ سال اکتوبرکے مہینے میں مالٹا کی مشہور صحافی اور بلاگر ڈیفنی گیلیزیا مافیا اسٹائل میں کار بم دھماکے میں گھرکے باہر ہلاک کردی گئی۔ اس کا جرم پاناما پیپرز کی تحقیقات میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔ اس کی کار کے اڑنے والے پرخچے کرپشن میں لتھڑے ہاتھوں کے محافظ بن گئے۔

53 سالہ ڈیفنی کے بلاگ پہلے ہی مالٹا کی اسٹیبلشمنٹ کے لیے پریشان کن تھے لیکن حکومت کی برداشت کا پیمانہ اس وقت لبریز ہوگیا جب اس نے مالٹا کے وزیراعظم جوزف مسکت، اس کی بیوی اور دو قریبی ساتھیوں کی کرپشن کا پردہ چاک کیا ۔

گویا اس طرح وہ اپنے موت کے فرشتوں کو خود ہی مدعو کر بیٹھی، یوں یورپ کی سرزمین پر ایک بار پھر آزادی صحافت کا کُھلے عام قتل ہوا جسے دنیا نے جلد ہی فراموش کردیا۔ اپنی ہلاکت سے تیس منٹ قبل لگائی جانے والی آخری پوسٹ میں اس نے لکھا تھا کہ ''یہاں ہر طرف نظر ڈالیے، صرف بد عنوان لوگ ملیں گے، صورت حال بے حد خراب ہے۔'' اور تیس منٹ بعد ہی وہ اس صورتحال کا خود شکار ہوگئی، لیکن ڈیفنی کی موت کے بعد اس کا مقصد جاری رہا۔


ایک صحافی کو موت کی نیند سلاکر کتنے ہی صحافیوں میں ذمے داری کا احساس جگا دیا جاتا ہے، اس کا احساس اگرکسی بھی تشدد پسند حکومت کو ہوجائے تو وہ کسی صحافی کے بہیمانہ قتل پر کبھی آمادہ نہ ہو۔ یہی مالٹا میں ہوا۔ ڈیفنی کی موت کے بعد اس کے ادھورے مقصد کی تکمیل کا بیڑا پندرہ ممالک کے پینتالیس صحافیوں پر مشتمل تنظیم نے اٹھایا۔ ''ڈیفنے پراجیکٹ'' کے نام سے اس کے مشن کو آگے بڑھا کر انھوں نے ثابت کیا کہ سچ کی کرنیں ان کی ساتھی کے قتل سے ماند نہیں پڑیں بلکہ جذبوں کو مزید گرما گئی ہیں۔

اسی سال فروری کے مہینے میں سلوواکیہ کے ستائیس سالہ صحافی جان کوشک کو ان کے گھر پر منگیتر سمیت قتل کردیا گیا۔ اعلیٰ حکومتی ایوانوں میں بدعنوانی اور سیاست دانوں کے مافیا گروہوں سے تعلقات کی کھوج میں لگنا ان کا وہ سنگین جرم تھا جس کا کفارہ صرف جان دے کر ہی ادا کیا جاسکتا ہے۔ سلوواکیہ میں کسی بھی رپورٹر کا یہ پہلا قتل تھا جس کے بعد مظاہرے شروع ہو گئے۔ جان کوشک کو سرمایہ دار طبقہ انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا تھا، کیونکہ اس کا بنیادی کام ٹیکس فراڈ کی تحقیقات کرنا تھا۔

کوشک کے قتل کے بعد سلوواکیہ میں تاریخ کے دوسرے بڑے مظاہرے ہوئے جس میں لاکھوں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا اور مجبوراً وزیراعظم اور وزیرداخلہ کو مستعفی ہونا پڑا ۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں تو ہوئیں لیکن اس کا اثر سرمایہ داروں پر ذرا نہیں پڑا۔ وہاں آج بھی بڑے پیمانے پر ٹیکس فراڈ ہو رہے ہیں اور صحافی سیاسی تیروں سے بچنے کے لیے دَم سادھے ہوئے ہیں۔

یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آج کی روشن دنیا میں آزادی صحافت کسی تاریک کونے کی نذرکردی گئی ہے۔ گِلہ صرف شاہوں سے کیوں کریں، جنگی خطوں میں ہی بننے والی صحافیوں کی قبروں کا نوحہ کیوں پڑھیں؟ کیوں نہ بات کریں ان کی بھی، جن کی دانست میں ان سا روشن خیال کوئی نہیں، جو آزادی کے نام پر سب کچھ تج دینے کے عہد باندھتے ہیں ۔

وہ جن کے سہانے ڈھول پِٹتے دیکھ کر ہم دور سے جھوم جھوم جاتے ہیں۔ یہ وہ معاشرے ہیں جو اپنی مسحورکُن تہذیبی اقدار کا ببانگِ دہل اعلان توکرتے ہیں لیکن میڈیا کی آزادی کا پاؤں اپنی دُم پر پڑتے ہی اچھل جاتے ہیں۔ صرف اس ایک سال میں یورپ میں سات صحافیوں کو کرپشن اسکینڈل کی تحقیقات کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دینا دراصل یورپی حکمرانوں کی عدم برداشت کا اظہار ہے۔ اپریل میں روسی صحافی Maksim Borodin کو، شام میں روس کی پرائیویٹ ملٹری کا راز فاش کرنے کے جرم میں اپارٹمنٹ کی چھت سے پھینک کر مار دیا گیا اور اس واقعے کو خودکشی کا رنگ دے دیا گیا۔

جولائی میں دو روسی صحافیوں کا بہیمانہ قتل ہوا اور واقعے کو تحقیقات کے مرحلوں سے کوسوں دور ہی دبا دیا گیا۔ خود ٹرمپ کا دور امریکا میں آزادی صحافت کے سامنے کئی سوالات کھڑے کرچکا ہے۔ یہاں فری پریس کے کارڈ اٹھائے صحافی سڑکوں پر آنکلے۔ ٹرمپ کے نزدیک پریس امریکیوں کا دشمن اور انتہائی بد دیانت ہے، جعلی خبریں پھیلاتا ہے۔ یوں امریکی میڈیا اور ٹرمپ کے درمیان ایک محاذ کھل گیا جس سے کون واقف نہیں ۔

اس کٹھن دور میں جب کوئی اپنے بچوں کو یہ بتانے کی جرأت مشکل سے کر پاتا ہو کہ انھیں کیا سوچنا اورکیا کرنا چاہیے، ایسے کڑے وقت میں میڈیا کو اپنے اشاروں پر چلنے کی ہدایات دینا ، ریاستوں کا اجتماعی احمقانہ پن نہیں تو اورکیا ہے۔

اس بات کو اب تسلیم کر لینا چاہیے کہ سچ بولنے والوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے یا بموں سے اڑا دیا جائے، سچ بہر حال سچ ہی رہے گا، ہر جابر کے سامنے وقت کوئی نہ کوئی گوری لنکیش، کوئی نہ کوئی خاشوقجی اور کوئی نہ کوئی ڈیفنی ضرورلاتا رہے گا جو ریاستی کروفر اور غرورکے سامنے کسی چٹان کی طرح ایستادہ رہیں گے۔ ان کے جسموں کو بے شک ریاستی انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا جائے لیکن سچ کی شمع جلانے کا مقصد کبھی فوت نہ ہوسکے گا۔
Load Next Story