صحافی کا سر لانے کی فرمائش
نئی صورت حال میں انھیں اس بات کا تو ڈر نہیں کہ کوئی ان کا سر کاٹ کر لانے کا مطالبہ کرے گا۔
جمال خشوگی کو قتل کردیا گیاجس کے بعد سوشل میڈیا پر نظر آنے والی تصویروں اورمقتول کے ساتھ پیش آنے والے واقعات نے نہ صرف پوری دنیا کوجھنجوڑ کر رکھ دیا بلکہ مختلف ممالک میں صحافیوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے بھی کئی سوالات سامنے آئے۔ سعودی عرب کی حکومت ابتدا میں اس قتل کو ماننے کے لیے بالکل تیار ہی نہیں تھی ۔
کہا جا رہا تھا کہ وہ ابھی زندہ ہیں لیکن امریکا اور سعودی عرب کے درمیان مسلسل رابطوں کے بعد بھی گومگو کی صورتحال واضح نہ ہوسکی جس کی وجہ امریکی صدرکے وہ غیر واضح بیانات تھے جن سے یہ بات سمجھنے میںدقت پیش آرہی تھی کہ وہ سعودی حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں یا اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ، لیکن ترکی کی حکومت اس بات پر مصر تھی کہ جمال خشوگی کو قتل کردیا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تاریخ کے دھارے کو موڑنا انتہائی مشکل کام ہے، جو لوگ اسے موڑنے کی کوشش کرتے ہیں وہ خود بھی تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ماضی میں کچھ بادشاہوں نے اپنے دربار میں معقول وظیفے پر ایسے تاریخ دان مقررکر رکھے تھے جو اس دور کے حالات و واقعات کے ساتھ بادشاہ کی فیاضی، بہادری، رحم دلی اور سخاوت کے بارے میں توصفحے کالے کرتے رہے مگرمخالفین کی کھال کھچوانے،کمزور ریاستوں پر قبضے اور جنگ وجدل کے دوران مخالفین اور ناپسندیدہ عناصرکے قتل عام کے بارے میں انھوں نے بہت کم لکھا،اس کے باوجود جو کچھ بھی ہواوہ سینہ بہ سینہ سفرکرتا ہوا لوگوں تک پہنچ ہی گیا ۔جمال خشوگی کے قتل کو بھی چھپانے کی انتہائی بھونڈی کوشش کی گئی لیکن وہ زیادہ شدت کے ساتھ دنیا کے سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مشرق وسطی کے ساتھ پوری دنیا کے سیاسی اورکاروباری حلقوں پر چھا گیا۔
ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ موجودہ دور میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ کسی ریاست یا بادشاہ سے اجازت لے کر لکھا جاتا ہے۔ ہاں یہ ضرورکہا جا سکتا ہے کہ کچھ ریاستیں اور ''بادشاہ '' اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے انھیں اکثر مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ میانمارکی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ماضی میں آمریت کے ہاتھوں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی آنگ سان سوچی نے اقتدارکا مزا چکھا تو اپنے ہم وطنوں کے ساتھ ہونے والے تمام مظالم بھلا کر ان طاقتوں کے ساتھ کندھا ملا کرکھڑی ہو گئی جو اپنے ملک کو سوائے بدھسٹوں کے تمام مذاہب اور قومیتوں سے پاک کرنا چاہتی تھیں۔
آنگ سان سوچی کی ذہنی تبدیلی اس وقت عروج پر پہنچی جب دو ماہ قبل میانمارکے شورش زدہ علاقے رخائن کے ایک گاؤںمیں قتل ہونے والے دس افراد کے بارے میں حقائق تلاش کرنے والے دو صحافیوں کو یہ کہہ کرگرفتار کر لیا گیا کہ ان کے اس عمل سے ملکی مفاد کو نقصان پہنچا ہے حالانکہ بعد میں قتل عام کا یہ واقعہ ثابت بھی ہوگیا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت بھی صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک بن چکا ہے جہاں گزشتہ دس برسوں کے دوران تینتیس صحافی قتل ہوچکے ہیں۔ بھارت کے دوردراز علاقوں میں چھوٹے اخبارات سے جڑے صحافی اور نامہ نگاراس لیے بھی مشکلات کا شکار ہیں کہ موجودہ حکومت کی جانبدارانہ مذہبی پالیسیوں کے خلاف لکھنے پر انھیں مذہبی دھڑوں کے ساتھ پولیس کے تشدد کا بھی سامنا ہے ۔
جمال خشوگی کے قتل نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے سیاسی حالات پر جو اثرات مرتب کیے ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جمال خشوگی ملک کے مختلف اخبارات اور رسائل میں تین سال تک رپورٹنگ کرتے ہوئے ''المدینہ'' کی ایڈیٹر شپ تک پہنچنے تھے۔ وہ افغانستان ، الجزایر، کویت اور سوڈان میں بھی نامہ نگار کے فرائض انجام دیتے رہے ۔
سعودی ولی عہد کی پالیسیوں سے اختلاف اور یمن پر حملے کی مخالفت کے بعد انھیں جلاوطنی اختیارکر کے امریکا جانا پڑا اور وہ '' واشنگٹن پوسٹ '' سے وابستہ ہوگئے ۔ ان کا قتل اس لیے کوئی انہونی بات نہیں کہ جن ممالک میں بادشاہت یا آمریت قائم ہو وہاں صحافی بھی بے بس عوام کی طرح پھونک پھونک کر قدم رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ایسے میں اگر ولی عہدکی ذاتی زندگی پر کھل کر تنقید کی جائے، پڑوسی ممالک پر حملوں کی مذمت کی جائے یا بادشاہت کے بجائے جمہوریت کا راگ الاپا جائے تو شاہی محل میں آرام کرنے والوں کی نیند تو ضرور خراب ہو گی۔
اس قتل سے مسلسل انکار کرنے کے بعد جب سعودی حکومت اقرار تک پہنچی تو اس کے مسائل گھٹنے کے بجائے مزید بڑھ گئے جس کی ایک جھلک ریاض میں منعقدہ عالمی اقتصادی کانفرنس میں بھی دیکھی گئی جس میں امریکا سمیت بہت سارے ممالک نے شرکت سے انکار کر دیا تھا اور ترکی میں موجود وہ آڈیو ہے جس میں ایک شخص کہہ رہا ہے "Bring me the head of the dog.'' بھی سعودی حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ چند دن قبل دیے جانے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کے مقابلے میں ان کے موجودہ بیانات بھی سعودی حکومت کے مستقبل کے لیے اچھے نتائج کا اشارہ نہیں دے رہے ۔امریکن خفیہ ایجنسی کے کئی اہل کار بھی اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ترکی میں موجود ہیں جن کے ساتھ سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہاسپل بھی معاملات پر نظر رکھنے کے لیے پہنچی ہیںاور سعودی عرب میں بھی اس قتل کی تحقیقات کے لیے کچھ امریکی اہلکار بھیجے گئے ہیں۔
دنیا کے بہت سارے ممالک کے صحافیوں کی طرح امریکی صحافیوں کو بھی اپنے صدر سے اس بات کی شکایت ہے کہ وہ انھیں اور ان کی خبروں کو جھوٹا کہہ کر ان کی تضحیک کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں لگ بھگ تین سو تنظیموں نے مل کر ان کے خلاف ایک مہم کا بھی آغازکیا تھا۔ ہمارے ملک کے صحافی بظاہر آزاد نظر آنے کے باوجود جن پابندیوں کا شکار ہیں دنیا کے دوسرے ممالک میں رہنے والے اس سے بالکل واقف نہیں۔
نئی صورت حال میں انھیں اس بات کا تو ڈر نہیں کہ کوئی ان کا سر کاٹ کر لانے کا مطالبہ کرے گا ،ہاں آج کل انھیں یہ دھڑکا ضرور لگا ہوا ہے کہ کسی بھی دن صبح صبح دفتر پہنچنے کے بعد ان کے ہاتھ میں ایک ایسا لیٹرتھمایا جا سکتا ہے جس پر لکھا ہو گا '' تمہارا سر تو سلامت رہے گا ، مگر آج تمہارا پیٹ کاٹ دیا جائے گا ۔''
یاد رہے کہ ہمارے ملک میں سچائی کا جھنڈا بلند کرنے والے صحافیوں کی کئی روشن مثالیں موجود ہیں، لیکن سچ تب ہی بولاجا سکتا ہے جب زندہ رہنے کے لیے پیٹ میں غذا اور جھوٹ سے جنگ کرنے کے لیے بازؤں میں طاقت موجود ہو۔
کہا جا رہا تھا کہ وہ ابھی زندہ ہیں لیکن امریکا اور سعودی عرب کے درمیان مسلسل رابطوں کے بعد بھی گومگو کی صورتحال واضح نہ ہوسکی جس کی وجہ امریکی صدرکے وہ غیر واضح بیانات تھے جن سے یہ بات سمجھنے میںدقت پیش آرہی تھی کہ وہ سعودی حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں یا اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ، لیکن ترکی کی حکومت اس بات پر مصر تھی کہ جمال خشوگی کو قتل کردیا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تاریخ کے دھارے کو موڑنا انتہائی مشکل کام ہے، جو لوگ اسے موڑنے کی کوشش کرتے ہیں وہ خود بھی تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ماضی میں کچھ بادشاہوں نے اپنے دربار میں معقول وظیفے پر ایسے تاریخ دان مقررکر رکھے تھے جو اس دور کے حالات و واقعات کے ساتھ بادشاہ کی فیاضی، بہادری، رحم دلی اور سخاوت کے بارے میں توصفحے کالے کرتے رہے مگرمخالفین کی کھال کھچوانے،کمزور ریاستوں پر قبضے اور جنگ وجدل کے دوران مخالفین اور ناپسندیدہ عناصرکے قتل عام کے بارے میں انھوں نے بہت کم لکھا،اس کے باوجود جو کچھ بھی ہواوہ سینہ بہ سینہ سفرکرتا ہوا لوگوں تک پہنچ ہی گیا ۔جمال خشوگی کے قتل کو بھی چھپانے کی انتہائی بھونڈی کوشش کی گئی لیکن وہ زیادہ شدت کے ساتھ دنیا کے سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مشرق وسطی کے ساتھ پوری دنیا کے سیاسی اورکاروباری حلقوں پر چھا گیا۔
ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ موجودہ دور میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ کسی ریاست یا بادشاہ سے اجازت لے کر لکھا جاتا ہے۔ ہاں یہ ضرورکہا جا سکتا ہے کہ کچھ ریاستیں اور ''بادشاہ '' اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے انھیں اکثر مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ میانمارکی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ماضی میں آمریت کے ہاتھوں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی آنگ سان سوچی نے اقتدارکا مزا چکھا تو اپنے ہم وطنوں کے ساتھ ہونے والے تمام مظالم بھلا کر ان طاقتوں کے ساتھ کندھا ملا کرکھڑی ہو گئی جو اپنے ملک کو سوائے بدھسٹوں کے تمام مذاہب اور قومیتوں سے پاک کرنا چاہتی تھیں۔
آنگ سان سوچی کی ذہنی تبدیلی اس وقت عروج پر پہنچی جب دو ماہ قبل میانمارکے شورش زدہ علاقے رخائن کے ایک گاؤںمیں قتل ہونے والے دس افراد کے بارے میں حقائق تلاش کرنے والے دو صحافیوں کو یہ کہہ کرگرفتار کر لیا گیا کہ ان کے اس عمل سے ملکی مفاد کو نقصان پہنچا ہے حالانکہ بعد میں قتل عام کا یہ واقعہ ثابت بھی ہوگیا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت بھی صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک بن چکا ہے جہاں گزشتہ دس برسوں کے دوران تینتیس صحافی قتل ہوچکے ہیں۔ بھارت کے دوردراز علاقوں میں چھوٹے اخبارات سے جڑے صحافی اور نامہ نگاراس لیے بھی مشکلات کا شکار ہیں کہ موجودہ حکومت کی جانبدارانہ مذہبی پالیسیوں کے خلاف لکھنے پر انھیں مذہبی دھڑوں کے ساتھ پولیس کے تشدد کا بھی سامنا ہے ۔
جمال خشوگی کے قتل نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے سیاسی حالات پر جو اثرات مرتب کیے ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جمال خشوگی ملک کے مختلف اخبارات اور رسائل میں تین سال تک رپورٹنگ کرتے ہوئے ''المدینہ'' کی ایڈیٹر شپ تک پہنچنے تھے۔ وہ افغانستان ، الجزایر، کویت اور سوڈان میں بھی نامہ نگار کے فرائض انجام دیتے رہے ۔
سعودی ولی عہد کی پالیسیوں سے اختلاف اور یمن پر حملے کی مخالفت کے بعد انھیں جلاوطنی اختیارکر کے امریکا جانا پڑا اور وہ '' واشنگٹن پوسٹ '' سے وابستہ ہوگئے ۔ ان کا قتل اس لیے کوئی انہونی بات نہیں کہ جن ممالک میں بادشاہت یا آمریت قائم ہو وہاں صحافی بھی بے بس عوام کی طرح پھونک پھونک کر قدم رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ایسے میں اگر ولی عہدکی ذاتی زندگی پر کھل کر تنقید کی جائے، پڑوسی ممالک پر حملوں کی مذمت کی جائے یا بادشاہت کے بجائے جمہوریت کا راگ الاپا جائے تو شاہی محل میں آرام کرنے والوں کی نیند تو ضرور خراب ہو گی۔
اس قتل سے مسلسل انکار کرنے کے بعد جب سعودی حکومت اقرار تک پہنچی تو اس کے مسائل گھٹنے کے بجائے مزید بڑھ گئے جس کی ایک جھلک ریاض میں منعقدہ عالمی اقتصادی کانفرنس میں بھی دیکھی گئی جس میں امریکا سمیت بہت سارے ممالک نے شرکت سے انکار کر دیا تھا اور ترکی میں موجود وہ آڈیو ہے جس میں ایک شخص کہہ رہا ہے "Bring me the head of the dog.'' بھی سعودی حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ چند دن قبل دیے جانے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کے مقابلے میں ان کے موجودہ بیانات بھی سعودی حکومت کے مستقبل کے لیے اچھے نتائج کا اشارہ نہیں دے رہے ۔امریکن خفیہ ایجنسی کے کئی اہل کار بھی اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ترکی میں موجود ہیں جن کے ساتھ سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہاسپل بھی معاملات پر نظر رکھنے کے لیے پہنچی ہیںاور سعودی عرب میں بھی اس قتل کی تحقیقات کے لیے کچھ امریکی اہلکار بھیجے گئے ہیں۔
دنیا کے بہت سارے ممالک کے صحافیوں کی طرح امریکی صحافیوں کو بھی اپنے صدر سے اس بات کی شکایت ہے کہ وہ انھیں اور ان کی خبروں کو جھوٹا کہہ کر ان کی تضحیک کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں لگ بھگ تین سو تنظیموں نے مل کر ان کے خلاف ایک مہم کا بھی آغازکیا تھا۔ ہمارے ملک کے صحافی بظاہر آزاد نظر آنے کے باوجود جن پابندیوں کا شکار ہیں دنیا کے دوسرے ممالک میں رہنے والے اس سے بالکل واقف نہیں۔
نئی صورت حال میں انھیں اس بات کا تو ڈر نہیں کہ کوئی ان کا سر کاٹ کر لانے کا مطالبہ کرے گا ،ہاں آج کل انھیں یہ دھڑکا ضرور لگا ہوا ہے کہ کسی بھی دن صبح صبح دفتر پہنچنے کے بعد ان کے ہاتھ میں ایک ایسا لیٹرتھمایا جا سکتا ہے جس پر لکھا ہو گا '' تمہارا سر تو سلامت رہے گا ، مگر آج تمہارا پیٹ کاٹ دیا جائے گا ۔''
یاد رہے کہ ہمارے ملک میں سچائی کا جھنڈا بلند کرنے والے صحافیوں کی کئی روشن مثالیں موجود ہیں، لیکن سچ تب ہی بولاجا سکتا ہے جب زندہ رہنے کے لیے پیٹ میں غذا اور جھوٹ سے جنگ کرنے کے لیے بازؤں میں طاقت موجود ہو۔