احمد کا بستہ اور بچوں کی ’’میڈیائی‘‘ تربیت

میڈیا کو چاہیے کہ وہ بچوں کی تربیت میں اپنا کردار مثبت رکھے، انہیں اپنی ریٹنگ بڑھانے کا ذریعہ نہ بنائے

میڈیا کو چاہیے کہ وہ بچوں کی تربیت میں اپنا کردار مثبت رکھے، انہیں اپنی ریٹنگ بڑھانے کا ذریعہ نہ بنائے۔ (فوٹو: یوٹیوب اسکرین گریب)

ISLAMABAD:
سوشل میڈیا کی دنیا میں آج کل بعض ویڈیوز سامنے آتے ہی دنیا بھر میں مقبول ہوجاتی ہیں، لیکن عوام بھول جاتے ہیں کہ یہ مقبولیت معاشرے کےلیے منفی کردار بھی ادا کرسکتی ہے۔ سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر آج کل ایک ویڈیو بڑی وائرل ہورہی ہے جو خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے ایک بچے احمد شاہ کی ہے... جی جی وہی، جو آپ نے بھی دیکھ لی ہوگی اب تک تو!

ویڈیو کچھ اس طرح سے ہے کہ احمد، جو غالباً صرف آٹھ سال سے بھی کم عمر کا ناسمجھ بچہ ہے، وہ اپنی استانی سے روٹھا ہوا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ٹیچر احمد کا بستہ واپس نہیں کررہیں۔ احمد کی یہ معصومیت اور نادانی پورے پاکستان میں مشہور ہوگئی ہے۔

''اوئے میرا بستہ واپس کرو،'' اس ویڈیو میں احمد اپنی استانی پر غصہ کرتا دکھائی دیتا ہے اور احمد کی استانی احمد کے ''اوئے اوئے'' کرنے پرخوش ہورہی تھیں۔ اس ویڈیو نے احمد کو مقبول تو کردیا لیکن کیا یہ پبلسٹی احمد کے مستقبل میں مثبت ثابت ہوگی؟

اگر بات کی جائے بچوں کی تربیت کی تو بچہ تو پھر بچہ ہوتا ہے، صحیح اور غلط سکھانا ماں باپ اور اساتذہ کی ذمے داری ہوتی ہے۔ اس کی مقبولیت دیکھتے ہوئے اسے ایک مقبول مارننگ شو میں مدعو کیا گیا جس کی میزبان ندا یاسر ہیں۔ لیکن اس شو میں ہوا کیا؟ یہاں احمد کو مجبور کیا گیا کہ وہ کیمرے کے سامنے دوبارہ غصہ دکھائے تاکہ اس بچے کی وجہ سے مارننگ شو کی ریٹنگ بڑھ سکے۔ ندا یاسر کسی حد تک کامیاب ہو بھی گئیں۔

ﷲ بھلا کرے ندا آپی کا، جن کی کاوشوں سے احمد یوٹیوب پر بھی وائرل ہوگئے۔ ''اوئے'' کو یوٹیوب پر 1.1 ملین ویوز مل گئے اور ٹرینڈنگ میں دوم نمبر پر چل رہا ہے۔ والدین اگر اپنے بچوں کے سامنے یہ ویڈیوز دیکھ کر خوش ہورہے ہیں تو یہ بات قابل غور ہے کہ اُن کا بچہ بھی کل اُن کے سامنے ایسی ہی بدتہذیبی سے پیش آسکتا ہے۔ اس بچے کی عمر پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کودنے کی ہے نہ کہ مارننگ شوز میں جانے کی۔


لیکن اس پر باضابطہ شوز کرنا اور وہاں بلا کر بچے کو غصہ دلانا، محض ناظرین کو محظوظ کرنے اور یا تجارتی مقاصد کےلیے اسے استعمال کرنا کسی طور درست نہیں، اس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ بچے بھول پن میں بہت سی باتیں کرجاتے ہیں، البتہ بچے جو دیکھتے اور سنتے ہیں، اسے اپنے حافظے میں محفوظ اور ری پروسیس کرکے معصومانہ اداؤں کے ساتھ دوہراتے ہیں۔ یہ بات تمام والدین کو دھیان میں رکھنی چاہیے کہ بچے ہماری باتیں اور ہماری حرکات اپناتے ہیں؛ تو اگر ہم غلط کریں گے تو بچہ بھی غلط حرکتیں کرے گا۔ ممکن ہے کہ وہ فوری طور پر کوئی ردعمل دکھائے، لہذا ماں باپ اور گھر کے دیگر افراد کو جو بچے کے تربیت پر اثرانداز ہوسکتے ہیں، انہیں اپنی بات چیت اور عمل میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ بچے کو ٹاک شوز میں بلا کر اس کی شخصیت تباہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

ندا آپی نے جہاں بچے کو شہرت دلوائی وہیں ریٹنگ کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے مارننگ شو میں نئی جان ڈالنے کا سہرا احمد کے سر جاتا ہے۔

پچھلے مہینے بھی بچہ اغوا ہونے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک ماں سے ایک آدمی بچہ چھین کر لے جارہا ہوتا ہے۔ وہ ویڈیو دیکھ کر میں بھی پریشان ہوگیا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ ندا آپی کے مارننگ شو کا ایک کلپ تھا۔ ویسے پیمرا کو ایسے شوز کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔

میں پورے وثوق سے یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ احمد کی اس معصومیت یا بدتمیزی کے پیچھے کس کا قصور ہے؛ مگر یہ بچے کے ساتھ ظلم ہے کہ اسے منفی سمت میں گامزن کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں کی تربیت میں اپنا کردار مثبت رکھے، انہیں اپنی ریٹنگ بڑھانے کا ذریعہ نہ بنائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story