متحدہ امارات سے مالیاتی پیکیج کی توقع

حکومت کی موثر اور ہوشمندانہ اقتصادی حکمت عملی کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔

حکومت کی موثر اور ہوشمندانہ اقتصادی حکمت عملی کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔فوٹو: فائل

پاکستان کے لیے سعودی طرز پر متحدہ عرب امارات سے بھی 6 بلین ڈالر کا اقتصادی پیکیج لینے کی راہ ہموار ہوگئی ہے، یوں ملک اپنے مخدوش معاشی سناریو سے نکل کر اقتصادی استحکام کے نئے امکانات اور توقعات کے خوش آیند مرحلہ میں داخل ہوگیا ہے، سعودی مالیاتی پیکیج کے بعد متحدہ عرب امارات کی طرف سے خیرسگالی اور مالی امداد کی پیشکش غیر معمولی دو طرفہ تعلقات کی تجدید کی سمت ایک حوصلہ افزا اقدام ہے۔

حکومت کی موثر اور ہوشمندانہ اقتصادی حکمت عملی کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں اور معیشت انشااللہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوجائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے وفود کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں ممکنہ معاہدے پر غور کیا گیا۔

قریبی ذرائع کے مطابق اگر پاکستان یو اے ای کے وفد سے کوئی معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو وزیراعظم عمران خان چین کے دورے کے فوری بعد متحدہ عرب امارات کے دورے پر روانہ ہوجائیں گے ، متحدہ عرب امارات وفد کی قیادت وزیر مملکت اورابوظہبی نیشنل آئل کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹرسلطان الجابرکر رہے تھے۔ وفد کو متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید النہیان کی خصوصی ہدایت پر پاکستان بھیجاگیا ہے۔

واضح رہے وزیراعظم عمران خان کی متحدہ عرب امارات کے ولی عہد سے 19 ستمبرکو ابوظہبی میں ملاقات ہوئی تھی اور انھوں نے اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا تھا۔ وزیراطلاعات ونشریات فوادچودھری نے بتایاکہ یو اے ای بہت ہی گہرا دوست ہے جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔

ادھر چین وزیراعظم عمران خان کا منتظر ہے ، چین کے سفیر ژاؤجنگ نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین سے قبل پاک چین معاشی تعاون اور سی پیک منصوبوں بارے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک منصوبوں سے پاکستان کی ترقی کی شرح 5.79 فیصد پر پہنچ چکی ہے،22 منصوبوں میں 75 ہزار براہ راست روزگار میسر آیا جب کہ 2030ء تک روزگار کے مزید7 لاکھ مواقع پیدا ہونگے، پاکستان کی2022ء تک توانائی کی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔

انھوں نے کہا کہ سی پیک کے 22 منصوبوں پر 19 ارب ڈالر خرچ کر رہے ہیں، یہ تاثر درست نہیں کہ صرف چینی کمپنیاں سی پیک سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، سی پیک پاکستان کے لیے اقتصادی بوجھ ہونے کا بھی غلط تاثر دیا گیا، سی پیک پر پاکستان اور پاکستانیوں کے تمام خدشات کا ازالہ کرینگے۔ انھوں نے کہا سی پیک، ایک خطہ ، ایک سڑک پروگرام کا اہم منصوبہ ہے، پاکستان کی تیار کنندہ مصنوعات اور برآمدات بہتربنانا اور بڑھانا چاہتے ہیں۔


یہ حقیقت ہے کہ سی پیک کے حوالہ سے گزشتہ چند ماہ میں غیر ذمے دارانہ بیانات دیے گئے، میڈیا میں بعض عناصر کی طرف سے بھی خیال آرائی کا منفی پیغام چین تک پہنچا کہ شاید نئی حکومت سی پیک پر نظر ثانی کررہی ہے،تاہم یہ وزیراعظم کی معاشی گرداب سے نکلنے کی درست حکمت عملی کا نتیجہ تھا جس کے تحت وہ چین کا چار روزہ دورہ کریں گے اور معاملات کو درست تناظر میں طے کیا جائے گا۔

چین نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی ہر ممکن مدد کی جائے گی اور توقع بھی یہی ہے کہ جس طرح سعودی اور متحدہ امارات کی طرف سے مثبت اور تعمیری سگنل ملے ہیں اسی طرح کا غیر معمولی پیکیج چین کی طرف سے بھی ملنے کی امید ہے، وزیراعظم کے غیر ملکی دوروں کے شیڈول میں ملائیشیا کے رہنما مہاتیر محمد سے ملاقات اور ان کے تعمیر وطن کے تاریخی تجربات سے وزیراعظم اور ان کی اقتصادی ٹیم بھرپور استفادہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

اصل مقصد ملک کو کرپشن سے پاک اور مضبوط اقتصادی بنیادوں پر عوام کی فلاح وبہبود کے قابل بنانا ہے، اس لیے دوست ملکوں سے روابط کی تجدید اور ان سے امداد و تعاون وقت کا جبر بھی ہے اور ملکی معیشت کے استحکام کے لیے ناگزیر پیش رفت بھی۔ اسی سیاق و سباق میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ روز سندھ میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل میں محکموں کے عدم تعاون پر اہم ریمارکس دیئے ہیں انھوں کہا کہ اس طرح کام نہیں چلے گا، جب تک ایک ایک ریکارڈ جے آئی ٹی کو نہ مل جائے میں یہیں آکر بیٹھ جاؤں گا اور کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔

چیف جسٹس نے عدم تعاون پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو اپنے چیمبر میں بلالیا، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جمعہ کو چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ نے سندھ میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل کی سماعت کی۔ بلاشبہ مجموعی طور پر ان اقدامات سے اگر مادر وطن کے معاشی اور مالیاتی مسائل دور ہوئے تو عوام ہی کو ان کے ثمرات مل سکیں گے ۔

وزیراعظم عمران خان نے نیا پاکستان ہائوسنگ منصوبے پر پیش رفت کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس منصوبے میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی حوصلہ افزا ہے۔

اب ضرورت ملکی معیشت کو مستحکم کرنے ، اقتصادی بریک تھرو کرنے اور امدادی پیکیج کے حصول سے آگے جاتے ہوئے ادارہ جاتی معاشی منصوبہ بندی کی ہے، یہ بڑی بات ہے کہ معاشی مسائل کے حل کے لیے حکومت ''بیک فٹ '' پر نہیں ہے جب کہ معاشی طاقت بننے کے لیے منزل ابھی دور ہے۔

 
Load Next Story