عام آدمی ’’عوام‘‘ میں بدل گیا
کچھ فلمیں پہلے ہفتے میں 100 کروڑ سے زیادہ کا بزنس کرتی ہیں۔ آپ ٹھیک سمجھے بھارتی فلموں کی بات ہو رہی ہے۔
ISLAMABAD:
کچھ فلمیں پہلے ہفتے میں 100 کروڑ سے زیادہ کا بزنس کرتی ہیں۔ آپ ٹھیک سمجھے بھارتی فلموں کی بات ہو رہی ہے۔ پاکستانی فلمیں تو ایک کروڑ کا بزنس کرنے کے قابل بھی نہیں رہ گئیں اور کچھ فلمیں ایسی ہوتی ہیں جو پہلے شو میں ہی فلاپ ہو جاتی ہیں۔ ہماری نئی وفاقی حکومت کا پہلا بجٹ بھی پہلے شو میں فلاپ ہونے والی فلم جیسا ہی ثابت ہوا ہے۔
بجٹ فلم کا افتتاحی شو قومی اسمبلی میں ہوا تو اس وقت ہاؤس فُل تھا۔ ارکان اسمبلی کے ساتھ ساتھ مہمانوں کی گیلریاں بھی کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ اب یہ پتہ نہیں ہماری بدقسمتی ہے یا اسحاق ڈار صاحب کی کہ انھیں جب بھی بجٹ بنانے کی ذمے داری سونپی جاتی ہے، خزانہ خالی ہوتا ہے۔اس بار تو اور بھی بڑے مسائل تھے ۔ مسائل کے انبار تھے، یہ کہا جانا چاہیے۔ انھیں بجٹ کی تیاری کے لیے وقت بھی کم ملا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ چیزوں کی درستگی کا آغاز ہو گیا ہے۔ بجٹ تقریر جیسے ہی ختم ہوئی وزیر خزانہ سے پہلا مطالبہ یہ ہوا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔
بجٹ تقریر کے اگلے دن پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں موجود میڈیا پرسنز کی اکثریت نے بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ اسحاق ڈار نے انھیں جواب دیا ''عوام کو کڑوی گولی نگلنا پڑے گی، تنخواہیں اگلے سال بڑھائیں گے''۔ اس پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے کچھ اور اہم باتیں بھی کیں۔ مثال کے طور پر بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے، جی ایس ٹی میں اضافہ معمولی ہے، ہیرو بننے کے مقبول فیصلوں پر یقین نہیں رکھتے، قربانیاں بھی دینا پڑیں گی، وغیرہ۔
ادھر تنقید ہو رہی تھی اُدھر وزیر خزانہ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ ''ایکسپریس'' نیوز کے پروگرام ''کل تک'' میں جاوید چوہدری سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ روزمرہ کھانے پینے کی اشیاء پر جی ایس ٹی کا نفاذ نہیں ہو گا۔ ایک دن بعد ایک اور ٹی وی پروگرام میں تنخواہوں کے ایشو پر وہ یوں گویا ہوئے ''اگلے سال کا مطلب آیندہ مالی سال ہے''۔ یعنی جولائی سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھ جائیں گی۔ پھر ہفتے کو یہ اعلان بھی ہو گیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔
گویا تین دن میں ہی تنخواہوں کا بھاری پتھر چومنا پڑ گیا۔ جی ایس ٹی میں اضافے کی پَخ البتہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔ ایک بات فی الوقت میری سمجھ میں نہیں آ رہی۔ دعویٰ ہے اشیاء خورونوش پر جی ایس ٹی نہیں لگایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بازار میں کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہو گئی ہیں۔ ممکن ہے دعویٰ درست ہو اور حقیقت غلط۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں عوام پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ ان کے پیشرو کہتے تھے بجٹ سے عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ عام آدمی اور عوام میں شاید باریک سا کوئی فرق ہو گا جو میرے جیسے کُند ذہن کو سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ویسے مجھے یہ دونوں ایک جیسے لگتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ میرے جیسے لوگ بھی ان عام آدمیوں کی صف میں شامل ہو جائیں جنھیں واقعی بجٹ وغیرہ سے فرق نہیں پڑتا۔
ہماری حکومت کے لیے خالی خزانے کو بھرنے کا آسان ترین ذریعہ تنخواہ دار طبقہ ہے۔ تنخواہ ان کے حوالے اسی وقت کی جاتی ہے جب ٹیکس کٹ چکا ہوتا ہے۔ خزانہ چونکہ کبھی بھرتا ہی نہیں اس لیے اگر وہ خالی ہو جاتا ہے تو یہ کسی کے لیے خبر نہیں ہونی چاہیے۔ میں نے تو کبھی کسی ٹی وی چینل پر یہ بریکنگ نیوز نہیں دیکھی کہ خزانہ بھر گیا یا خالی ہو گیا۔ میری تنخواہ میں ایک کمی تو بجٹ کے بعد اس وقت ہو گئی تھی جب جی ایس ٹی کی وجہ سے چیزیں مہنگی ہوئیں۔ اس میں مزید کمی کا پتہ اگست میں چلے گا کیونکہ جولائی سے ٹیکس کی کٹوتی بڑھے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ اپنے ''اللوں، تللوں''پر ابھی سے پابندی لگا دوں۔ سنا ہے ابھی بجلی کے نرخ بھی بڑھنے ہیں۔ اس کے بعد اور چیزوں کی باری بھی آئے گی۔ تین سال میں معیشت ٹھیک ہونے کی نوید سنائی گئی ہے، تب تک تو میرے جیسے سارے عام آدمیوں یا عوام کو قربانیاں دینا پڑیں گی۔
یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف کے چہرے پر مسکراہٹ کیوں نہیں ہے۔ میاں صاحب کے چہرے پر تب تک مسکراہٹ نہیں آئے گی جب تک انھیں یقین نہ ہو جائے کہ ان کی حکومت بڑے مسائل پر قابو پا سکتی ہے۔ یہ توقع تھی کہ انھیں چیلنجز کا سامنا ہو گا لیکن جو چیلنجز انھیں درپیش ہیں، اس کی وہ خود بھی توقع نہیں کر رہے ہوں گے۔ معاشی مسائل اپنی جگہ دہشت گردی کی تازہ لہر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کوئٹہ میں یونیورسٹی کی طالبات کو نشانہ بنانا، اسپتال میں خودکش حملہ، بہت خوفناک واقعات ہیں۔
زیارت میں قائد اعظمؒ کی ریذیڈینسی پر حملہ پاکستان کی اساس پر حملہ ہے۔ بلوچستان میں قوم پرست جماعت کو اقتدار دینے کے باوجود اس طرح کی کارروائیاں ہونے کا مطلب ہے کہ چیلنجز بہت بڑے ہیں۔ کسی حکومت کو ابتداء میں اس طرح کے حالات کا سامنا ہو تو اس کی مشکلات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا۔ ان حالات سے نمٹنے کے لیے بڑی جرات اور حوصلے کی ضرورت ہو گی۔ نوازشریف دو مرتبہ پہلے بھی وزیر اعظم رہے مگر انھیں اقتدار کے آغاز پر اس طرح کے چیلنجز کا سامنا پہلی بار ہو رہا ہے۔ امید ہے وہ ہمت نہیں ہاریں گے۔ بڑے لیڈر وہی ہوتے ہیں جو بدترین حالات میں بھی اپنے حوصلے قائم رکھیں۔
آخر میں ان دوستوں کے لیے چند سطریں جو چیمپئنز ٹرافی میں قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے تبصرہ چاہتے ہیں۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری کرکٹ ٹیم اور قومی خزانے میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کے پلے کچھ نہیں۔ خزانہ بھرنے کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ امن وامان کی صورتحال کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔ دہشت گردی کا خاتمہ ہونے سے خزانے پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ ایسا ہو گیا تو ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بھی بحال ہو جائے گی۔ جس ٹیم کو ہوم گراؤنڈ میں انٹرنیشنل کرکٹ نہ ملے وہ دوسروں کے میدانوں میں ایسا ہی پرفارم کرتی ہے۔ کچھ سلیکشن کے مسائل بھی ہیں۔ فی الحال میری گزارش ہے کہ شعیب ملک اور عمران فرحت کو کھلانے کی مجبوری سے جان چھڑا لی جائے، کوئی دیسی کوچ بھی ٹرائی کر لیا جائے تو افاقہ ہوسکتا ہے۔ کرکٹ ٹیم کی ہار پر باقی باتیں پھر سہی۔
کچھ فلمیں پہلے ہفتے میں 100 کروڑ سے زیادہ کا بزنس کرتی ہیں۔ آپ ٹھیک سمجھے بھارتی فلموں کی بات ہو رہی ہے۔ پاکستانی فلمیں تو ایک کروڑ کا بزنس کرنے کے قابل بھی نہیں رہ گئیں اور کچھ فلمیں ایسی ہوتی ہیں جو پہلے شو میں ہی فلاپ ہو جاتی ہیں۔ ہماری نئی وفاقی حکومت کا پہلا بجٹ بھی پہلے شو میں فلاپ ہونے والی فلم جیسا ہی ثابت ہوا ہے۔
بجٹ فلم کا افتتاحی شو قومی اسمبلی میں ہوا تو اس وقت ہاؤس فُل تھا۔ ارکان اسمبلی کے ساتھ ساتھ مہمانوں کی گیلریاں بھی کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ اب یہ پتہ نہیں ہماری بدقسمتی ہے یا اسحاق ڈار صاحب کی کہ انھیں جب بھی بجٹ بنانے کی ذمے داری سونپی جاتی ہے، خزانہ خالی ہوتا ہے۔اس بار تو اور بھی بڑے مسائل تھے ۔ مسائل کے انبار تھے، یہ کہا جانا چاہیے۔ انھیں بجٹ کی تیاری کے لیے وقت بھی کم ملا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ چیزوں کی درستگی کا آغاز ہو گیا ہے۔ بجٹ تقریر جیسے ہی ختم ہوئی وزیر خزانہ سے پہلا مطالبہ یہ ہوا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔
بجٹ تقریر کے اگلے دن پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں موجود میڈیا پرسنز کی اکثریت نے بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ اسحاق ڈار نے انھیں جواب دیا ''عوام کو کڑوی گولی نگلنا پڑے گی، تنخواہیں اگلے سال بڑھائیں گے''۔ اس پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے کچھ اور اہم باتیں بھی کیں۔ مثال کے طور پر بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے، جی ایس ٹی میں اضافہ معمولی ہے، ہیرو بننے کے مقبول فیصلوں پر یقین نہیں رکھتے، قربانیاں بھی دینا پڑیں گی، وغیرہ۔
ادھر تنقید ہو رہی تھی اُدھر وزیر خزانہ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ ''ایکسپریس'' نیوز کے پروگرام ''کل تک'' میں جاوید چوہدری سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ روزمرہ کھانے پینے کی اشیاء پر جی ایس ٹی کا نفاذ نہیں ہو گا۔ ایک دن بعد ایک اور ٹی وی پروگرام میں تنخواہوں کے ایشو پر وہ یوں گویا ہوئے ''اگلے سال کا مطلب آیندہ مالی سال ہے''۔ یعنی جولائی سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھ جائیں گی۔ پھر ہفتے کو یہ اعلان بھی ہو گیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔
گویا تین دن میں ہی تنخواہوں کا بھاری پتھر چومنا پڑ گیا۔ جی ایس ٹی میں اضافے کی پَخ البتہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔ ایک بات فی الوقت میری سمجھ میں نہیں آ رہی۔ دعویٰ ہے اشیاء خورونوش پر جی ایس ٹی نہیں لگایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بازار میں کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہو گئی ہیں۔ ممکن ہے دعویٰ درست ہو اور حقیقت غلط۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں عوام پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ ان کے پیشرو کہتے تھے بجٹ سے عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ عام آدمی اور عوام میں شاید باریک سا کوئی فرق ہو گا جو میرے جیسے کُند ذہن کو سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ویسے مجھے یہ دونوں ایک جیسے لگتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ میرے جیسے لوگ بھی ان عام آدمیوں کی صف میں شامل ہو جائیں جنھیں واقعی بجٹ وغیرہ سے فرق نہیں پڑتا۔
ہماری حکومت کے لیے خالی خزانے کو بھرنے کا آسان ترین ذریعہ تنخواہ دار طبقہ ہے۔ تنخواہ ان کے حوالے اسی وقت کی جاتی ہے جب ٹیکس کٹ چکا ہوتا ہے۔ خزانہ چونکہ کبھی بھرتا ہی نہیں اس لیے اگر وہ خالی ہو جاتا ہے تو یہ کسی کے لیے خبر نہیں ہونی چاہیے۔ میں نے تو کبھی کسی ٹی وی چینل پر یہ بریکنگ نیوز نہیں دیکھی کہ خزانہ بھر گیا یا خالی ہو گیا۔ میری تنخواہ میں ایک کمی تو بجٹ کے بعد اس وقت ہو گئی تھی جب جی ایس ٹی کی وجہ سے چیزیں مہنگی ہوئیں۔ اس میں مزید کمی کا پتہ اگست میں چلے گا کیونکہ جولائی سے ٹیکس کی کٹوتی بڑھے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ اپنے ''اللوں، تللوں''پر ابھی سے پابندی لگا دوں۔ سنا ہے ابھی بجلی کے نرخ بھی بڑھنے ہیں۔ اس کے بعد اور چیزوں کی باری بھی آئے گی۔ تین سال میں معیشت ٹھیک ہونے کی نوید سنائی گئی ہے، تب تک تو میرے جیسے سارے عام آدمیوں یا عوام کو قربانیاں دینا پڑیں گی۔
یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف کے چہرے پر مسکراہٹ کیوں نہیں ہے۔ میاں صاحب کے چہرے پر تب تک مسکراہٹ نہیں آئے گی جب تک انھیں یقین نہ ہو جائے کہ ان کی حکومت بڑے مسائل پر قابو پا سکتی ہے۔ یہ توقع تھی کہ انھیں چیلنجز کا سامنا ہو گا لیکن جو چیلنجز انھیں درپیش ہیں، اس کی وہ خود بھی توقع نہیں کر رہے ہوں گے۔ معاشی مسائل اپنی جگہ دہشت گردی کی تازہ لہر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کوئٹہ میں یونیورسٹی کی طالبات کو نشانہ بنانا، اسپتال میں خودکش حملہ، بہت خوفناک واقعات ہیں۔
زیارت میں قائد اعظمؒ کی ریذیڈینسی پر حملہ پاکستان کی اساس پر حملہ ہے۔ بلوچستان میں قوم پرست جماعت کو اقتدار دینے کے باوجود اس طرح کی کارروائیاں ہونے کا مطلب ہے کہ چیلنجز بہت بڑے ہیں۔ کسی حکومت کو ابتداء میں اس طرح کے حالات کا سامنا ہو تو اس کی مشکلات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا۔ ان حالات سے نمٹنے کے لیے بڑی جرات اور حوصلے کی ضرورت ہو گی۔ نوازشریف دو مرتبہ پہلے بھی وزیر اعظم رہے مگر انھیں اقتدار کے آغاز پر اس طرح کے چیلنجز کا سامنا پہلی بار ہو رہا ہے۔ امید ہے وہ ہمت نہیں ہاریں گے۔ بڑے لیڈر وہی ہوتے ہیں جو بدترین حالات میں بھی اپنے حوصلے قائم رکھیں۔
آخر میں ان دوستوں کے لیے چند سطریں جو چیمپئنز ٹرافی میں قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے تبصرہ چاہتے ہیں۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری کرکٹ ٹیم اور قومی خزانے میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کے پلے کچھ نہیں۔ خزانہ بھرنے کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ امن وامان کی صورتحال کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔ دہشت گردی کا خاتمہ ہونے سے خزانے پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ ایسا ہو گیا تو ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بھی بحال ہو جائے گی۔ جس ٹیم کو ہوم گراؤنڈ میں انٹرنیشنل کرکٹ نہ ملے وہ دوسروں کے میدانوں میں ایسا ہی پرفارم کرتی ہے۔ کچھ سلیکشن کے مسائل بھی ہیں۔ فی الحال میری گزارش ہے کہ شعیب ملک اور عمران فرحت کو کھلانے کی مجبوری سے جان چھڑا لی جائے، کوئی دیسی کوچ بھی ٹرائی کر لیا جائے تو افاقہ ہوسکتا ہے۔ کرکٹ ٹیم کی ہار پر باقی باتیں پھر سہی۔