سراب سے سیراب تک

سندھ کے سرحدی علاقے بدین میں پینے کے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہاں کے لوگ بہت پریشان ہیں۔

S_afarooqi@yahoo.com

سندھ کے سرحدی علاقے بدین میں پینے کے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہاں کے لوگ بہت پریشان ہیں۔ میرملوک شاہ کوٹ وارڈ نمبر4 کے رہائشی ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ ایک طرف جون کے مہینے کی قیامت خیزگرمی اوپر سے پانی کی عدم دستیابی نے ان بے چاروں کا براحال کر رکھا ہے۔

پانی کی شدید قلت کے باعث سندھ کے کئی علاقوں میں گزشتہ دنوں مظاہروں اور دھرنوں کی خبریں بھی تواتر سے موصول ہوتی رہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق شیخ بھرکیو اور اس کے نواح میں پینے کے پانی کی عدم دستیابی کے خلاف شہری سڑکوں پر آگئے۔ سیکڑوں افراد نے دھرنا دے کر سڑکیں بلاک کردیں ۔

جس کے نتیجے میں ٹنڈو محمد خان، ٹنڈوالہیار اور حیدر آباد سمیت کئی علاقوں کے لیے جانے والی ٹریفک بہت دیر تک معطل رہی۔ لوگ پانی کی قلت اور عدم دستیابی کی وجہ سے چراغ پا تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ قیامت خیز گرمی کے سبب سیکڑوں دیہات میں پانی کے تالاب خشک ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں انسان تو انسان بے زبان جانور بھی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور ہر جانب سے العطش العطش کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔

ایک طرف پانی کی عدم دستیابی نے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے تو دوسری جانب آلودہ پانی نے تباہی مچادی ہے۔ ضلع بدین میں گیسٹرو کی بیماری نے وبائی صورت اختیار کرلی ہے اور ایک اطلاع کے مطابق ایک ہفتے کے دوران 10 سے زائد افرادجاں بحق ہو گئے۔ ضلع بدین کے مختلف علاقوں بشمول کورواہ، شادی لارج، پنگریو، کھوسکی، راجوخانانی، کڑیو گھنور، پیر لاشاری اور دیگر کئی علاقوں میں گیسٹرو کا مرض خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں دواؤں کی عدم دستیابی اور شدید کمی نے اس مسئلے کو اور بھی گھمبیر بنادیا ہے ۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ بیماری گندے پانی کے استعمال کی وجہ سے تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ لہٰذا ان کی ہدایت کے مطابق لوگوں کو گندے پانی کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ مگر جب پانی میسر ہی نہ ہو تو مجبور لوگ گندہ پانی پی کر ہی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔

قارئین کرام! آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں ایک دماغ خور جرثومے کا ذکر کیا تھا جو گندے اور آلودہ پانی پینے کے نتیجے میں ہی پیدا ہوتا ہے اور ناک کے راستے سے دماغ پر حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ جان لیوا جرثومہ بھی مسلسل بہت سے لوگوں کی ہلاکت کا سبب بن رہا ہے اور اس سے نمٹنے کا بھی واحد طریقہ یہی ہے کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے جوکہ ہر شہری کا بنیادی انسانی حق ہے اور اقوام متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے

۔ ہماری ایک مرتبہ پھر یہ گزارش ہے کہ وطن عزیز میں سرگرم عمل بنیادی انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس سنگین صورت حال کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی فوری توجہ اس انسانی مسئلے کی جانب مبذول کرانی چاہیے۔ یہ بات قابل ذکر اور لائق تحسین ہے کہ ہماری نئی وفاقی حکومت نے اپنے تازہ بجٹ میں پینے کے صاف پانی کے آلات اور مشینری کی درآمدات میں ٹیکسوں کی چھوٹ دے دی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ صوبائی حکومتیں اور پینے کا صاف پانی مہیا کرنے والے تمام سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس خصوصی روایت کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گے اور اپنی سرگرمیوں کو تیز سے تیز تر کردیں گے۔


ایک سروے کے مطابق صوبہ سندھ کے علاقے تھر کی کل آبادی 15 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ جن کے لیے پینے کے صاف پانی کی دستیابی جوئے شیر لانے سے کم مشکل کام نہیں ہے۔ چونکہ اس علاقے میں پانی کی شدید قلت ہے اس لیے یہاں کے لوگوں کا ذریعہ آمدنی زراعت کے بجائے صرف مویشی بانی ہے۔ لہٰذا جانوروں کی زندگی کا تمام تر دارومدار بھی پینے کے پانی کی دستیابی پر ہی ہے۔ موسم گرما کی آمد کے ساتھ ساتھ یہاں پانی کا مسئلہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلاجاتا ہے جس کا قدرتی سبب یہ ہے کہ جوہڑ اور تالاب جوکہ ویسے ہی بہت کم ہیں دھوپ کی شدت سے خشک ہوجاتے ہیں۔ رہی بات پانی کے کنوؤں کی تو ان کی تعداد بھی بہت کم ہے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ زمین سے جو پانی نکالا جاتا ہے وہ کھارا ہوتا ہے جس کے پینے سے پیٹ کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں اور اچھا خاصا تندرست اور صحت مند انسان خواہ مخواہ بیمار پڑ جاتا ہے۔ تھر کے علاقے میں دو ہزار سے زیادہ چھوٹے چھوٹے گاؤں گوٹھ ہیں جہاں صرف کھارا پانی ہی دستیاب ہے اور وہ بھی بڑی مشکل سے ملتا ہے۔ یہ مسئلہ برسوں پرانا ہے جسے حل کرنے کے لیے سندھ کی سابقہ اور موجودہ حکومت عرصہ دراز سے کام کر رہی ہے۔

وفاقی حکومت نے بھی ''خوشحال پاکستان'' اسکیم کے تحت ماضی میں فراہمی آب کے منصوبوں کا آغاز کیا تھا مگر اس منصوبے کے تحت جو پلانٹ لگائے گئے تھے وہ کامیاب نہیں ہوسکے جس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جن کمپنیوں کو یہ کام سونپا گیا تھا وہ مطلوبہ اہلیت کی حامل نہیں تھیں۔ ''خوشحال پاکستان'' نامی اسکیم کے تحت CDWA نامی پروگرام کے توسط سے جو R.O پلانٹ لگائے گئے تھے وہ ناقص ہونے کے سبب روزاول ہی سے چل نہیں سکے۔ علاوہ ازیں اس پروجیکٹ میں اربوں روپے کے مبینہ گھپلے بھی ہوئے تھے جس کے نتیجے میں یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکا ۔

قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا تھر کا علاقہ اگر ایک جانب پانی کی نعمت سے محروم ہے تو دوسری جانب اس میں کوئلے کے بے پناہ قیمتی خزانے دفن ہیں جن کی مدد سے پاکستان کا توانائی کا سنگین ترین مسئلہ حل کرنے میں انشاء اللہ بڑی مدد حاصل ہوگی۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ حکومت سندھ نے صوبے بھر میں اور خاص طور سے تھر کے علاقے میں فراہمی آب کے منصوبے شروع کررکھے ہیں جن پر گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل عملی کام ہورہا ہے۔

سندھ کول اتھارٹی کے ترقیاتی منصوبوں کے تحت حکومت سندھ نے فراہمی آب کے متعدد منصوبوں کی ذمے داری جس ملکی کمپنی کو سونپی ہے اس کی کارکردگی ان منصوبوں کی کامیابی سے صاف ظاہر اور ثابت ہوچکی ہے۔ یہ اس بات کا بھی ایک روشن ثبوت ہے کہ ہمارے ملک میں بھی جوہر قابل کی کوئی کمی نہیں ہے اور یہاں ایسے کاروباری ادارے موجود ہیں جو نہ صرف بین الاقوامی سطح کے کامیاب اداروں کے ہم پلہ ہیں بلکہ حب الوطنی اور خدمت وطن کے جذبے سے بھی سرشار ہیں۔ یہاں سندھ حکومت کو بھی اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہیے کہ وہ صوبے میں فراہمی آب کے دیرینہ اور سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے خلوص نیت کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔

فراہمی آب کے ان منصوبوں کی نوعیت آم کے آم گٹھلیوں کے دام والی کہاوت کے مماثل ہے۔ ان منصوبوں پر دہری حکمت عملی کے تحت عملدرآمد کیا جارہا ہے جسے Two Pronged Approach کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ ایک جانب ان منصوبوں کے تحت فلٹریشن پلانٹس کے ذریعے آلودہ اور کھارے پانی کو پینے کے قابل بناکر ایک بڑے عوامی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری جانب ان کامیاب منصوبوں کے ذریعے صوبے کے بے روزگار نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔

اس لحاظ سے فراہمی آب کے یہ کامیاب منصوبے ایک رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں جس کی تقلید دیگر صوبوں خصوصاً صوبہ بلوچستان کی حکومت کو بھی کرنا چاہیے جہاں پینے کے پانی کا کال پڑا ہوا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صوبہ سندھ کے ان منصوبوں کا بین الاقوامی سطح پر نہ صرف نوٹس لیا گیا ہے بلکہ انھیں بہت زیادہ سراہا بھی جارہا ہے۔ ہمیں قوی امید ہے کہ سندھ کی موجودہ حکومت سراب سے سیراب تک کے اپنے فراہمی آب کے کامیاب منصوبوں کو نہ صرف برابر جاری رکھے گی بلکہ اسی کمپنی کی نگرانی میں مزید نئے منصوبوں کا آغاز بھی کرے گی تاکہ ایک جانب قلت آب کا سنگین مسئلہ حل ہو اور دوسری جانب صوبے کے لوگوں بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقعے بھی حاصل ہوں۔
Load Next Story