کینسر کیوں ہوتا ہے
آج ملکی ادارے عوام کی خدمت کی بجائے عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں اس لیے مسائل آئے روز بڑھتے جارہے ہیں۔
JEDDAH, SAUDI ARABIA:
کسی بھی شے کی اکائی پورے جسم کی شناخت ہوتی ہے، اسی طرح کسی بھی ملک کے اندر رہنے والے عوام ملک کی پہچان ہوتے ہیں ۔کسی بھی گائوں،کسی بھی شہر میں رہنے والے لوگوں میں اچھائیاں اور برائیاں ان کی پہچان ہوتی ہیں۔ غیر فطری عادات کا معیار اور منفی عمل و سوچ جوں جوں کسی بھی معاشرے میں بڑھتی جاتی ہے توں توں معاشرے میں زوال پذیری بڑھتی جاتی ہے۔
یہ ایک عام شے ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں کہاجاتا ہے کہ جو لوگ مذہب سے دور ہوتے جارہے ہیں تو اسی وجہ سے معاشرے میں برائیاں پھیلتی جارہی ہیں اور کسی بھی منفی واقعے کے ہونے پر یہ کہاجاتا ہے کہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ سسٹم نے انسانی سوچوں کو اپنا تابع کیا ہوا ہے۔ نئی نسل کی تربیت کے اعلیٰ انسانی معیاری تمام راستے سرمایہ داری کی دوڑ میں دھندلا کر معدوم ہوچکے ہیں۔
جن معاشروں میں بنیادی اعلیٰ اخلاقی عملی تربیت کا فقدان ہوتا ہے، ایسے معاشروں میں ایسے منفی افراد کا کردار انسانیت کی مسلسل نفی کرتا ہے۔ پہلی تربیت گاہ گھروں کا ''گودی ماحول'' ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہر فرد پرگلی،کوچوں کے ساتھ ہی شہروں کا مجموعی سیاسی، مذہبی، معاشی ماحول اثر انداز ہوتا ہے۔ تیسرے نمبر پر اسکول،کالج اور یونیورسٹی کا ماحول بچوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
آج پاکستانی عوام کی اکثریت 55 فی صد سے 60 فی صد تک خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ عوام غربت کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول توکرتے ہیں لیکن ان کے اندر سرمایہ داروں کے خلاف کشمکش ہر وقت موجود رہتی ہے۔ سرمایہ دارانہ سسٹم نہایت ہی بے حس، بھیڑیا ہے یہ ہمیشہ کم سرمائے سے زیادہ اور پھر مزید زیادہ ہونے کی طرف مسلسل دوڑتا ہے۔
اس طرح جوں جوں سرمایہ دار کے پاس سرمایہ بڑھتا ہے اسی نسبت سے عوام غربت کی دلدل میں دھنستے جاتے ہیں ۔ سرمایہ داری میں تمام ملکی ادارے سرمائے کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ کیونکہ ان اداروں کو سرمایہ دار اور جاگیردار حکمرانی کی شکل میں کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد ''سیاسی صنعت'' میں لگائے گئے سرمائے کو دگنا، چوگنا وصول کرنا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست یا ملک اپنے عوام کی بنیادی ضروریات زندگی تک عوام کی رسائی کو ممکن تر بنانے کی ذمے دار ہوتی ہے۔
آج ملکی ادارے عوام کی خدمت کی بجائے عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں اس لیے مسائل آئے روز بڑھتے جارہے ہیں۔ سرمائے کی ہوس میں سرمایہ پرست اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ عوام کی زندگیوں کو تباہ کرنا ان کی نظر میں کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ آج پورے ملک میں ''نشے کی صنعت'' بڑی تیزی سے پھیلادی گئی ہے۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں 40 لاکھ افغانیوں کو جب پاکستان میں پناہ دی گئی تو ساتھ ہی ہیروئن، کلاشنکوف، چرس و دیگر نشوں کو درآمد کرلیا گیا۔ میرے سامنے روزنامہ ایکسپریس 4 اکتوبر 2018 کی خبر ہے کہ ٹنڈو محمد خان ضلع میں ''مین پوری، گٹکے'' کے استعمال سے 48 افراد (سرطان) کینسر کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے اور 30 افراد سے زیادہ اب بھی موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
اسی طرح ٹھٹھہ میں گٹکا کھانے والے 50 افراد کینسر کا شکار ہیں۔ نشے کی صنعت کو فروغ دینے والے عام آدمی نہیں ہوسکتے کیونکہ پورے ملک کے ہر شہر،گائوں میں نشے کے عادی لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اخباروں میں آئے روز منشیات کے بارے میں خبریں شایع ہوتی ہیں۔ مورخہ 6 اکتوبر روزنامہ ایکسپریس کراچی میں شہ سرخی کی خبر شایع ہوئی کہ کھوکھرا پار پولیس نے جعلی پولیس اہلکار وقارکو گرفتار کرلیا۔ جو منشیات فروشی میں ملوث تھا۔
صدر پولیس نے ٹویوٹا کرولاکار کی تلاشی کے دوران گٹکوں سے بھری 11 بوریاں بر آمد کرکے ملزم اشرف خان کو گرفتار کرلیا۔ اسی طرح سپر مارکیٹ پولیس نے لیاقت آباد میں ایک منشیات فروش اور 2 گٹکا فروشوں کوگرفتار کیا۔ ڈاکس پولیس نے فشریز اور آئی سی لالہ زار سے 2 منشیات فروشوں کو گرفتارکرلیا۔
سوال یہ ہے کہ منشیات معاشرہ کیونکہ قبول کر رہا ہے؟ کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے عوام سے خیر خواہی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا ہے؟ اس ''منشیاتی وبا'' کے روکنے کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر اقبال۔ اے محمد خیانی کی کاوشیں لائق تحسین ہیں، ان کا ڈاکٹر روتھ فائو سول اسپتال کے شعبہ ای این ٹی شعبے سے تعلق ہے۔ (ڈاکٹر خیانی نے ای این ٹی میں پی ایچ ڈی بھی کیا ہے۔) اسی شعبے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر فاروق بھی منسلک ہیں۔
اسپتال کے ایک یونٹ کو یہ دیکھتے ہیں دوسرے یونٹ کو ڈاکٹر خیانی دیکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر خیانی کا کہنا ہے کہ مردوں میں پھیپھڑوں کا کینسر اور دوسرے نمبر پر منہ کا کینسر عام ہے۔ عورتوں میں بریسٹ کینسر ہوتا ہے جو لوگ تمباکو نوشی (سگریٹ) کرتے ہیں ایسے لوگوں میں سینے کا کینسر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جو لوگ مین پوری، گٹکا، تمباکو والا پان کھاتے ہیں ایسے لوگوں میں منہ کا کینسر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
گٹکا کھانے والوں کے منہ میں گٹکے میں شامل کیمیکل منہ کے اندرونی حصے اورگلے کے اندر جھلی کو نقصان پہنچاتے ہیں جس سے جھلی اور منہ کی ساخت کے خلیے اپنی کارکردگی کھو دیتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں متاثرہ حصہ بتدریج ناکارگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ کم عمر لوگوں میں سگریٹ نوشی، تمباکو والا پان، گٹکا کھانے کی عادت بڑھتی جارہی ہے۔ اگر منہ میں زخم ہوجائے تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کرلینا چاہیے۔
آج کل دندان ساز جس طرح سے پھیلے ہوئے ہیں۔ ان اناڑی دندان سازوں سے دور رہا جائے کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔ منہ یا گلے میں کسی بھی وجہ سے خراش یا معمولی زخمی ہوجائے تو تمباکو نوشی، پان، تمباکو اور گٹکے کا استعمال فوری بند کرکے کسی ماہر ای این ٹی سرجن یا ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔ قارئین ہمارا وسائل کے لحاظ سے بہت امیر ملک ہے۔ لیکن ہر دور میں حکومت کرنے والے حکمرانوں نے اپنے اپنے ذاتی مفادات کے لیے ملک کو غیر ملکیوں کا معاشی غلام بنادیا ہے۔
تعلیم کا معیارکئی درجوں میں بٹ چکا ہے اور یکساں نظام تعلیم پورے ملک میں نہیں ہے۔ عوام کو جاہل رکھنا حکومتوں کی ضرورت تھی ۔ آپ پاکستان کے کسی بھی شہر میں نکل جائیں۔ کھانے پینے والی اشیاء کی کھلے عام فروخت جاری ہے ، کھلے عام کھانے پینے کی اشیاء پر مکھیاں بیٹھتی ہیں اور ہم یہ اشیاء بصد شوق کھاتے ہیں ۔ 99 فی صد لوگوں کو مکھیوں کے بارے میں معلومات ہی نہیں ہیں۔
یہی مکھیاں گندگی کے ڈھیر پر بیٹھتی ہیں تو ان کی ٹانگوں سے جراثیم چمٹ جاتے ہیں اور پھر یہی مکھیاں کھانے والی اشیا پر بیٹھ کر جراثیم منتقل کردیتی ہیں۔ آلودہ پانی سے کئی بیماریاں ہوجاتی ہیں۔ اگر پانی کو ابال کر کپڑے میں چھان کر پیا جائے تو ہم بہت سی خطرناک بیماروں سے محفوظ ہوسکتے ہیں۔
کسی بھی شے کی اکائی پورے جسم کی شناخت ہوتی ہے، اسی طرح کسی بھی ملک کے اندر رہنے والے عوام ملک کی پہچان ہوتے ہیں ۔کسی بھی گائوں،کسی بھی شہر میں رہنے والے لوگوں میں اچھائیاں اور برائیاں ان کی پہچان ہوتی ہیں۔ غیر فطری عادات کا معیار اور منفی عمل و سوچ جوں جوں کسی بھی معاشرے میں بڑھتی جاتی ہے توں توں معاشرے میں زوال پذیری بڑھتی جاتی ہے۔
یہ ایک عام شے ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں کہاجاتا ہے کہ جو لوگ مذہب سے دور ہوتے جارہے ہیں تو اسی وجہ سے معاشرے میں برائیاں پھیلتی جارہی ہیں اور کسی بھی منفی واقعے کے ہونے پر یہ کہاجاتا ہے کہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ سسٹم نے انسانی سوچوں کو اپنا تابع کیا ہوا ہے۔ نئی نسل کی تربیت کے اعلیٰ انسانی معیاری تمام راستے سرمایہ داری کی دوڑ میں دھندلا کر معدوم ہوچکے ہیں۔
جن معاشروں میں بنیادی اعلیٰ اخلاقی عملی تربیت کا فقدان ہوتا ہے، ایسے معاشروں میں ایسے منفی افراد کا کردار انسانیت کی مسلسل نفی کرتا ہے۔ پہلی تربیت گاہ گھروں کا ''گودی ماحول'' ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہر فرد پرگلی،کوچوں کے ساتھ ہی شہروں کا مجموعی سیاسی، مذہبی، معاشی ماحول اثر انداز ہوتا ہے۔ تیسرے نمبر پر اسکول،کالج اور یونیورسٹی کا ماحول بچوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
آج پاکستانی عوام کی اکثریت 55 فی صد سے 60 فی صد تک خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ عوام غربت کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول توکرتے ہیں لیکن ان کے اندر سرمایہ داروں کے خلاف کشمکش ہر وقت موجود رہتی ہے۔ سرمایہ دارانہ سسٹم نہایت ہی بے حس، بھیڑیا ہے یہ ہمیشہ کم سرمائے سے زیادہ اور پھر مزید زیادہ ہونے کی طرف مسلسل دوڑتا ہے۔
اس طرح جوں جوں سرمایہ دار کے پاس سرمایہ بڑھتا ہے اسی نسبت سے عوام غربت کی دلدل میں دھنستے جاتے ہیں ۔ سرمایہ داری میں تمام ملکی ادارے سرمائے کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ کیونکہ ان اداروں کو سرمایہ دار اور جاگیردار حکمرانی کی شکل میں کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد ''سیاسی صنعت'' میں لگائے گئے سرمائے کو دگنا، چوگنا وصول کرنا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست یا ملک اپنے عوام کی بنیادی ضروریات زندگی تک عوام کی رسائی کو ممکن تر بنانے کی ذمے دار ہوتی ہے۔
آج ملکی ادارے عوام کی خدمت کی بجائے عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں اس لیے مسائل آئے روز بڑھتے جارہے ہیں۔ سرمائے کی ہوس میں سرمایہ پرست اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ عوام کی زندگیوں کو تباہ کرنا ان کی نظر میں کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ آج پورے ملک میں ''نشے کی صنعت'' بڑی تیزی سے پھیلادی گئی ہے۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں 40 لاکھ افغانیوں کو جب پاکستان میں پناہ دی گئی تو ساتھ ہی ہیروئن، کلاشنکوف، چرس و دیگر نشوں کو درآمد کرلیا گیا۔ میرے سامنے روزنامہ ایکسپریس 4 اکتوبر 2018 کی خبر ہے کہ ٹنڈو محمد خان ضلع میں ''مین پوری، گٹکے'' کے استعمال سے 48 افراد (سرطان) کینسر کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے اور 30 افراد سے زیادہ اب بھی موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
اسی طرح ٹھٹھہ میں گٹکا کھانے والے 50 افراد کینسر کا شکار ہیں۔ نشے کی صنعت کو فروغ دینے والے عام آدمی نہیں ہوسکتے کیونکہ پورے ملک کے ہر شہر،گائوں میں نشے کے عادی لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اخباروں میں آئے روز منشیات کے بارے میں خبریں شایع ہوتی ہیں۔ مورخہ 6 اکتوبر روزنامہ ایکسپریس کراچی میں شہ سرخی کی خبر شایع ہوئی کہ کھوکھرا پار پولیس نے جعلی پولیس اہلکار وقارکو گرفتار کرلیا۔ جو منشیات فروشی میں ملوث تھا۔
صدر پولیس نے ٹویوٹا کرولاکار کی تلاشی کے دوران گٹکوں سے بھری 11 بوریاں بر آمد کرکے ملزم اشرف خان کو گرفتار کرلیا۔ اسی طرح سپر مارکیٹ پولیس نے لیاقت آباد میں ایک منشیات فروش اور 2 گٹکا فروشوں کوگرفتار کیا۔ ڈاکس پولیس نے فشریز اور آئی سی لالہ زار سے 2 منشیات فروشوں کو گرفتارکرلیا۔
سوال یہ ہے کہ منشیات معاشرہ کیونکہ قبول کر رہا ہے؟ کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے عوام سے خیر خواہی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا ہے؟ اس ''منشیاتی وبا'' کے روکنے کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر اقبال۔ اے محمد خیانی کی کاوشیں لائق تحسین ہیں، ان کا ڈاکٹر روتھ فائو سول اسپتال کے شعبہ ای این ٹی شعبے سے تعلق ہے۔ (ڈاکٹر خیانی نے ای این ٹی میں پی ایچ ڈی بھی کیا ہے۔) اسی شعبے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر فاروق بھی منسلک ہیں۔
اسپتال کے ایک یونٹ کو یہ دیکھتے ہیں دوسرے یونٹ کو ڈاکٹر خیانی دیکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر خیانی کا کہنا ہے کہ مردوں میں پھیپھڑوں کا کینسر اور دوسرے نمبر پر منہ کا کینسر عام ہے۔ عورتوں میں بریسٹ کینسر ہوتا ہے جو لوگ تمباکو نوشی (سگریٹ) کرتے ہیں ایسے لوگوں میں سینے کا کینسر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جو لوگ مین پوری، گٹکا، تمباکو والا پان کھاتے ہیں ایسے لوگوں میں منہ کا کینسر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
گٹکا کھانے والوں کے منہ میں گٹکے میں شامل کیمیکل منہ کے اندرونی حصے اورگلے کے اندر جھلی کو نقصان پہنچاتے ہیں جس سے جھلی اور منہ کی ساخت کے خلیے اپنی کارکردگی کھو دیتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں متاثرہ حصہ بتدریج ناکارگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ کم عمر لوگوں میں سگریٹ نوشی، تمباکو والا پان، گٹکا کھانے کی عادت بڑھتی جارہی ہے۔ اگر منہ میں زخم ہوجائے تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کرلینا چاہیے۔
آج کل دندان ساز جس طرح سے پھیلے ہوئے ہیں۔ ان اناڑی دندان سازوں سے دور رہا جائے کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔ منہ یا گلے میں کسی بھی وجہ سے خراش یا معمولی زخمی ہوجائے تو تمباکو نوشی، پان، تمباکو اور گٹکے کا استعمال فوری بند کرکے کسی ماہر ای این ٹی سرجن یا ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔ قارئین ہمارا وسائل کے لحاظ سے بہت امیر ملک ہے۔ لیکن ہر دور میں حکومت کرنے والے حکمرانوں نے اپنے اپنے ذاتی مفادات کے لیے ملک کو غیر ملکیوں کا معاشی غلام بنادیا ہے۔
تعلیم کا معیارکئی درجوں میں بٹ چکا ہے اور یکساں نظام تعلیم پورے ملک میں نہیں ہے۔ عوام کو جاہل رکھنا حکومتوں کی ضرورت تھی ۔ آپ پاکستان کے کسی بھی شہر میں نکل جائیں۔ کھانے پینے والی اشیاء کی کھلے عام فروخت جاری ہے ، کھلے عام کھانے پینے کی اشیاء پر مکھیاں بیٹھتی ہیں اور ہم یہ اشیاء بصد شوق کھاتے ہیں ۔ 99 فی صد لوگوں کو مکھیوں کے بارے میں معلومات ہی نہیں ہیں۔
یہی مکھیاں گندگی کے ڈھیر پر بیٹھتی ہیں تو ان کی ٹانگوں سے جراثیم چمٹ جاتے ہیں اور پھر یہی مکھیاں کھانے والی اشیا پر بیٹھ کر جراثیم منتقل کردیتی ہیں۔ آلودہ پانی سے کئی بیماریاں ہوجاتی ہیں۔ اگر پانی کو ابال کر کپڑے میں چھان کر پیا جائے تو ہم بہت سی خطرناک بیماروں سے محفوظ ہوسکتے ہیں۔