ریاست اور انسانی ترقی کی شرح

جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔


جاوید قاضی October 28, 2018
[email protected]

ہمارے اجداد نے ان گنت قربانیوں کے بعد ہمارے لیے پاکستان تو بنایا مگر اس کی حفاطت کیسے کرنی ہے، چلانا کیسے ہے، یہ ہمیں نہ سمجھایا۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے سمجھایا تو سہی مگر ہمیں سمجھ میں نہ آیا یا پھر ہم سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔

اس وقت ہم ایک عجیب دوراہے پر کھڑے ہیں، جن کو مینڈیٹ ملا، انھوں نے اپنی من مانی کی اور جن کو نہیں ملا، انھوں نے ملاوٹ، اور یہ ملک خداداد نہ مینڈیٹ چاہتا ہے نہ ملاوٹ، یہ جو چاہتا ہے وہ ہے پرفارمنس، ایک بہترین قیادت اور بہترین کارکردگی۔ چاہے وہ مینڈیٹ سے ہو یا پھرملاوٹ سے، مگرکچھ کرکے دکھائیں۔

ریاست کتنی گھمبیر ہوتی ہے، کتنا وسیع اور بہترین نظام چاہتی ہے، یہ ماضی میں اس طرح نہ تھی جیسا کہ آج کل کی۔ ریاست اونٹوں اور گھوڑوں پر سواری کی عادی تھی، راستے کا تعین خود کرنا پڑتا تھا اور آج کی ریاست کے سامنے ایک طویل موٹروے ہے جس پر مخصوص اسپیڈ کے ساتھ ایک مضبوط گاڑی میں سوار ہوکر رواں دواں ہے۔ بصورت دیگر شاید آپ کا سفر کہیں ادھورا ہے۔ ریاست کے لیے اب مروجہ بین الاقوامی نظام موجود ہے، جنہوں نے اپنایا وہ اس روڈ پر ٹھیک جا رہے ہیں اور جنہوں نے نہیں اپنایا وہ بحرانوں سے گزر رہے ہیں۔

جمال خشوگی کے قتل نے پوری سعودی سلطنت کو ہلادیا ہے۔ دنیا میں جمہوریتوں کو بھلے ہی دائیں بازو کے populist پر دھول چڑھ گئی ہو مگر اب کی بار ایک نئی world regime سامنے آئی ہے۔ وہ نہ اقوام متحدہ ہے، نہ کوئی اور، وہ ہے عالمی ضمیر، انسانی حقوق، اظہار کی آزادی، جیسے بنیادی حقوق کی گارنٹی۔ دنیا کا میڈیا چلا اٹھا۔ جرمنی، فرانس اور کئی ممالک کی حکومتیں ہوں یا پھر سرمایہ کار، سب نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور بالآخر یہ اعتراف سامنے آیا کہ اس کا قتل ہوگیا ہے اور وہ قتل کسی اور سے نہیں بلکہ ریاست سے سرزرد ہوا ہے۔

وہ ریاستیں جہاں آمریتیں ہیں، وہ چاہے ایران ہو یا سعودی عرب، مصر ہو یا شام، ان کا اس طرح چلنا اب بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ کچھ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔ جب ریاست میں خود بادشاہ سلامت حرف آخر ہوتا ہے تو جمال خشوگی کے قتل جیسے واقعات جنم لیتے ہیں اور پھر دیکھیے۔ سعودی حکومت اپنے نظام کی فرسودگی کے اعتبار سے، اس ہائی وے پر اب چلتے چلتے کھسک رہا ہے۔ ریاست اب جنون، عشق و محبت کے افسانوں سے نہیں چلائی جاسکتی۔ قصے اورکہانیوں سے کسی غریب کا پیٹ نہیں بھرا جاسکتا۔ ریاست رومانوی شاعری اور قصیدوں میں رقم تو کی جاسکتی ہے مگر چلائی صرف سائنسی حقیقتوںکے تناظر میں جاسکتی ہے۔

ہوتا یوں ہے کہ ایک مخصوص مفاد جس کا ریاست پر ہاتھ حاوی ہوجاتا ہے وہ اپنے مفادات و اقتدار کی بقا کی خاطر ایک مخصوص بیانیے کو پروان چڑھاتا ہے، اگر وہ بیانیہ شرح نمو سے ٹکرائو میں نہیں تو ایسے مخصوص طبقے کا اقتدار بھی چلتا ہے اور عام آدمی کا معیار زندگی بھی بنتا ہے، لیکن ایسے مخصوص بیانیے کا اگر ٹکرائو شرح نمو سے ہوتا ہے تو پھر خانہ جنگی وغیرہ جیسی بیماریاں ریاست کے اندر پیدا ہوسکتی ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان کے اندر وہ طبقات ابھی صحیح معنوں میں بن ہی نہیں پائے ہیں جس سے ریاست میں عالمی حوالے سے ملے ہوئے ٹھوس سائنسی اقدار کی بنیاد ڈالی جا سکتی تھی۔ جب مائوزے تنگ چین کے انقلاب کو آگے لے کر بڑھ رہا تھا تو اس کے پاس کمیونزم کا نظریہ تھا اور پھر ان کے بعد ڈینگ زیائو پینگ نے اس نظریے کے اندر مارکیٹ کی حقیقت کو مانتے ہوئے متعارف کروایا، پوری دنیا سے کمیونزم رخصت ہوا مگر چین کے اندر ایسا کامیاب ہوا کہ وہ اب دنیا کی دوسری بڑی سپر طاقت بن کر ابھرا ہے۔ باقی دنیا کی ترقی یافتہ ریاستوں میں روسو کے نظریے کی بنیاد پر ایسا آئین آیا جس میں انسانیت کی عظمت کو اولین حیثیت دی گئی۔ ان ممالک میں بھرپور مڈل کلاس اور بہترین انفرااسٹرکچر کی بنیادیں پڑیں۔ انسانیت کی عظمت کو ماننے والی ریاستیں اس ہائی وے پر آج کی کرنسی ہیں اور وہ آمریتیں جہاں انسانی وسائل عمدہ ہیں، دنیا میں ایکسپورٹ کرتی ہیں، زرمبادلہ کماتی ہیں، وہ اپنے آپ کو اس عالمی ضمیر کے سامنے بچا پائی ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان نے ان ہی سماجی ریاستوں سے آزادی حاصل کی اور جمہوری انداز سے آگے بڑھے مگر ہماری راہیں اس جمہوری تسلسل سے کٹ گئیں، وہ اس لیے کہ ہمارے پاس قومی قیادت کا فقدان تھا جوکہ ہندوستان کے ساتھ نہ تھا۔ ہم سرد جنگ کی دلدل میں پھنس گئے۔ کمزور سیاسی قیادت، کمزور مڈل کلاس، کمزور انفرااسٹرکچر، اور جو ادارے ہمیں انگریز سامراج دے گیا ہم وہ بھی نہ سنبھال سکے اور پھر آج ستر سال کی تاریخ کا رقم کیا ہوا میرا وطن قرضوں کے بوجھ سے چور چور، غربت و فاقہ کشی و جہالت سے نڈھال اور اس پر جو بیانیہ میں شرح نمو اور HDI سے ٹکرائو ہے اس میں اور بگاڑ جنرل ضیاء الحق پیدا کرگئے یہاں تک کہ یہ ریاست مذہب سے بری طرح الجھ گئی۔ جب ہم کچھ دینے کے قابل نہیں ہوتے تو لوگوں کو کبھی معجزات بتاتے ہیں، کبھی ڈراما بازی کرتے ہیں اورکبھی لفاظی۔

ہم دنیا کی بہت حساس فیڈریشن ہیں۔ 1962ء کے آئین نے اس حساس فیڈریشن کو مانا ہی نہیں اور جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ 1973ء کا آئین اس حساس فیڈریشن میں پیچ وخم تو بتاتا ہے مگر ہم اس حقیقت سے انکاری ہیں اور ایک مخصوص بیانیہ کی رو میں اٹھارویں ترمیم اور صوبے کو توڑنے کی بات کی جاتی ہے۔ امریکا ایک ٖفیڈریشن ہے، ڈھائی سوسال پرانے اس آئین میں جو وحدتیں مانی گئیں وہ آج تک ویسے ہی برقرار ہیں۔ ہمارے فیڈریشن کا تصور جو 1973ء کے آئین میں موجود ہے وہ اسی آئین سے لیا گیا ہے مگر اس فیڈریشن کی حقیقت ہماری اپنی تاریخ میں موجود ہے۔ ضرورت ان وحدتوں کے اندر لا مرکزیت decentralization کی ہے، ایک مضبوط بلدیاتی نظام دینے کی ہے۔ دنیا میں مانی ہوئی نظریہ استعانتdoctrine of subsidiarity کے تحت خود مختاری autonomy دینے کی ضرورت ہے۔

آج کل بیانیہ پر اتنا زور دیا جارہا ہے، کبھی اس کو غدار تو کبھی اس کو غدار۔ کرپشن واحتساب کا وہ ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے کہ الامان و الحفیظ ، جب یہ کیسز عدالتوں میں آتے ہیں تو پراسیکیوشن ثابت کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے اور پھر اس طرح لوگوں کو آپ کے بنائے ہوئے بیانیہ پر اعتبار نہیں رہتا۔

ماڈرن ریاست سچ کے بغیر چل ہی نہیں سکتی اور سچ صرف میڈیا اور کالم نگار آپ کو بتاسکتے ہیں، اور اگر میڈیا پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر کچھ اور نہیں خود ریاست بیٹھنا شروع ہوجائے گی۔

ہم کوئی مصر نہیں یا کوئی مشرق وسطیٰ کی آمریت زدہ ریاست نہیں اور ہم اس ڈگر پر چل بھی نہیں سکتے۔ ہمارے لیے دو راستے ہیں، ایک یہ کہ ہم بند ریاست ہوجائیں، یہاں وفاق کو ختم کرکے ریاست کو پچاسوں انتظامی صوبوں میں تبدیل کرکے صدارتی نظام لائیں، جو بھی مخالفت کرے اس پر غداری وکرپشن کے کیسز لائیں۔ کوئی صحافی سچ لکھے اسے جیل یاترا کروائیں، لوگوں کو غائب کردیں، ابلاغ عامہ پر مکمل اجارہ داری قائم کردیں، بات ہی ختم۔ مگر اس سے آپ کی معیشت کشکول میں آجائے گی۔ کل ہم امریکا کے کہنے پر افغانستان میں گھس گئے اور انھوں نے ہمیں امداد دی۔ ہم پھر کوئی ایسا اتحاد کسی مشرق وسطیٰ کے ملک سے بنائیں گے اور وہاں کشکول لے کر پہنچ جائیں گے۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم قومی قیادت کو پروان چڑھانے کے لیے راہیں ہموارکریں، ایک ایسی قیادت جو صحیح مینڈیٹ کے ذریعے آئے۔ ہم اب الیکٹیبلز کی سیاست کو بحیثیت پالیسی الوداع کہہ دیں، جس جگہ جو بھی مڈل کلاس سیاست ہے وہ چاہے اپنے تاریخی تناظر میں قومی سیاست کرے، فیڈریشن کی سیاست کرے، ان کو کرنے دی جائے، کیونکہ اس سے ایک کھلی سیاست سامنے آئے گی، جہاں سچ بولنے اور لکھنے سے حکمرانی کا انداز بہتر ہوگا، کرپشن پر سوالیہ نشان آجائے گا۔

جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ایک نیا ورلڈ آرڈر ہماری دہلیز پر آن کھڑا ہے، بھلے دنیا میں دو سپر طاقتیں آجائیں اور ان میں ٹکرائو بھی ہوگا، مگر یہ آنے والی سردجنگ ماضی کی سردجنگ سے بہت مختلف ہوگی، یہاں اب امداد وکشکول سے اور جنگیں لڑنے سے ملک نہیں چلائے جاسکتے۔ ہم کسی کے ساتھ اتنا بڑا اتحاد نہیں بنا سکتے کہ دوسروں سے کٹ جائیں۔

ہمیں اپنی معیشت بہتر کرنے سے، ایک ایسی ریاست جہاں سب سے بڑی اور اہم بنیاد شرح نمو ہو، لوگوں میں سرمایہ کاری، اداروں کو مضبوط کرنے اور جو بھی سائنسی طریقے ہیں وہ اپنانے پڑیں گے۔ اس جنون و عشق ومعشوق کے قصے کہانیوں سے مجھے ڈر لگتا ہے کہ کوئی اور بیماری نہ ہم کو لگ جائے۔ ریاست کا کام نظریے دینا نہیں، معیار زندگی بہتر کرنا ہے۔ نظریے آتے اور جاتے رہیں گے۔ انسان کی عظمت، اس کی صحت، اس کا شعور وسیع کرنا ریاست کا اہم ستون ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں