لاہور کی محفلیں
خزاں کے موسم میں مال روڈ پر چہل قدمی کرتے ہوئے پائوں کے نیچے پتوں کی چر چراہٹ کہیں معدوم ہو چکی ہے۔
لاہور جو محفلوں کا شہر تھا اور جہاں سیاست اور علوم و فنون کے شائقین کی محفلیں جاری رہتی تھیں اب اس اعتبار سے اجڑ گیا ہے۔ میں لاہور کا ایک پرانا باشندہ ہوں ۔ اس زمانے سے اس شہر میں رہتا ہوں جب ایسی خوشگوار اور عالم افروز محفلوں کی اس قدر کثرت ہوتی تھی کہ اس شہر سے منسوب میلوں ٹھیلوں کے بارے میں یہ کہاوت ہے کہ:
دہاڑے ست تے اٹھ میلے
گھر جاواں میں کیہڑے ویلے
ان محفلوں پر بھی صادق آتی تھی لیکن کچھ تو بڑے لوگ رفتہ رفتہ اللہ کو پیارے ہو گئے اور کچھ زمانے کی تاجرانہ ضرورتوں اور روایتوں کی نذر ہو گئے ۔ میں نے لاہور کے کافی ہائوس کو آباد دیکھا ہے اور یہاں ایسے ایسے نکتہ سنج اور شگفتہ مجلسی گفتگو کے ماہرین کو دیکھا سنا ہے جن کے نام لکھتے ہوئے ان سے محرومی کا غم تازہ ہو جاتا ہے۔ لاہور کی مال روڈ کے اسی حصے میں کافی ہائوس کی بغل میں ایک ریستوران تھا یہاں کی محفلوں میں کچھ اور لوگ آیا کرتے تھے اور قریب ہی ٹی اسٹال جہاں ادیب لوگ بیٹھا کرتے تھے۔
یہ ادبی اڈہ نہ جانے اب کس حال میں ہے۔ انار کلی سے قریب مال روڈ کے یہ تین مرکز اس وقت کے جدید لاہور کی جان تھے لیکن ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کا پورا منظر بدل گیا جو لوگ عرب ہوٹل سے اٹھ کر کافی ہائوس میں آتے تھے وہ یہاں سے ایسے اٹھے کہ پھر اس سڑک کی دو ایک جگہوں پر چند روزہ محفلیں جمانے کے بعد کہیں غائب ہو گئے۔ وقت کی بوسیدگی کی نظر ہو گئے۔
نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم کا ڈیرہ بعد میں آباد ہوا ۔ انھیں دنوں نئے بدلے ہوئے لاہور کی امیر مگر بے روح آبادی گلبرگ میں پرانے سیاست زدہ ملک غلام جیلانی کا گھر کچھ وقت تک آباد رہا ۔ اس سیاسی میزبان کے ہاں بیگم نصرت بھٹو سیاسی پسماندگی کے کئی ماہ جھیلتی رہیں ۔ مرحوم و مقتول شیخ مجیب الرحمٰن دکھائی دیتے رہے میاںمحمود علی قصوری کی بلند آواز گونجتی رہی ۔
ہمارے جیسے جونیئر نیازمندان بیسیوں بڑے سیاستدانوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے رہے لیکن ملک صاحب کی وفات کے بعد اس بڑے گھر کا لان کا ایک کمرشل جگہ کے طور پر استعمال شروع ہو گیا اور یہ ڈیرہ اس بڑی عمارت کے پیچھے کہیں گم ہو گیا ۔ مکان مکینوں کے ساتھ آباد رہتے ہیں کہ 'سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا'۔
لاہور گلبرگ میں ہی مخدوم حسن محمود اپنی الگ محفل سجاتے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے دوستوں کو کھانے پکا کر کھلاتے یہ ان کا شوق تھا اور شام ہوتے ہی ان کی محفل آباد ہو جاتی لیکن یہ محفل خاص و عام کی محفل نہیں ہوتی تھی بلکہ اس محفل میں صرف مخدوم صاحب کے مخصوص دوست ہی شرکت کرتے تھے جن کی خدمت کر کے وہ خوش ہوتے ۔ اسی طرح کی کئی ایک اور محفلیں لاہور کی شاموں کو رونق بخشتی تھیں اور مختلف حلقہ احباب کے لوگ اپنی اپنی مخصوص محفلوں میں سر شام پہنچنا شروع ہو جاتے اور رات گئے تک ان محفلوں کو آباد رکھتے۔
لاہور شہر کا ایک اپنا الگ اور مخصوص مزاج تھا اس شہر نے پاکستان بھر سے آنے والوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور اپنا دامن سب کے لیے کھول دیا کہ آئو اور مجھ میں سمٹ جائو۔ لاہور کے اپنے باسی بھی اندرون لاہور کی آبادیوں میں اپنی ثقافت کو زندہ رکھتے ہوئے شام کو شہر کی دیوار کے ساتھ باغوں میں اکٹھے ہو جاتے جہاں پرلاہوریوںکی ٹولیاں اپنی پسند اور مزاج کے مطابق کھیل تماشے میں مصروف ہو جاتیں، کہیں تاش کی محفل جم جاتی اور کہیں لڈو کی ۔ پہلوان اپنی کسرت کرتے دکھائی دیتے تو کہیں چائے کے ساتھ گرم انڈوں سے لطف اندوز ہوا جاتا ۔
لڑائی جھگڑے بھی عام تھے اور لاہور کے پرانے باسی اپنے رعب داب کو قائم رکھنے کے لیے لڑائیوں میں مشہور تھے، لیکن یہ لڑائیاں بیرون شہر سے آنے والوں سے نہیں بلکہ اپنے ہی مقامی باشندوں کے ساتھ ہوتی تھیں ۔ شام کو گھروں کے باہر بنائے گئے تھڑوں پر لڑکیاں بالیاں اور گھر کی خواتین اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر اپنی الگ محفل جماتیں جہاں پر خواتیں میں بنائو سنگھار کا مقابلہ ہوتا اور ہر روز ہوتا ۔ سنا ہے اندرون لاہور میں کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں پر یہ روایت ابھی بھی زندہ ہے ۔ لاہور برصغیر کی ثقافت کا امین تھا، فلموں کی کامیابی کا آغاز لاہور سے ہوتا اور ہر فیشن لاہور سے شروع ہوتا اور وہی فیشن پورے برصغیر میں مقبول ہوتا جسے لاہور قبول کرتا۔
لاہور سے سیاسی ڈیروں اور ادبی محفلوں کی رخصتی بتدریج ہوئی۔ پہلے پہل تو سیاستدانوں نے بابوئوں کے شہراسلام آباد جا کر ڈیرہ لگا لیا مگر اقتدار کے شہر کی بے جان زندگی اور بابو ٹائپ لوگ مختلف مزاج کے تھے، اس لیے سیاستدانوں کے اسلام آبادی ڈیرے آباد نہ ہو سکے ۔ کئی برس گزر جانے کے بعداب بھی اسلام آباد میں کوئی باقاعدہ سیاسی ڈیرہ نہیں، چند ایک ریستوران ضرور ہیں جہاں پر شہر اقتدار کے خوشحال صحافی حضرات اپنی محفل جماتے ہیں۔
جہاں پر ضرورت مند سیاستدان حاضری دیتے ہیں لیکن جس طرح کی محفلیں لاہور میں جمتی تھیں ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اب و ہ لوگ ہی نہیں رہے جو ایسی خوبصورت محفلوںکے روح رواں تھے اور نہ ہی ان میں شرکت کرنے والے رہ گئے ہیں جو ان بڑے لوگوں کے ہاں حاضری دیتے اور ان کی باتوں سے بہت کچھ سیکھتے تھے۔
اب لاہور میں بڑے بڑے ہوٹلوں کے ریستوران ہیں جمخانہ کلب ہے جہاں عام لوگ بااثر سیاسی شخصیات کی تلاش میں بھٹکتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان سے کوئی کام نکلوا سکیں۔ لاہور کے فٹ پاتھ تجاوزات کے زیر سایہ سسک رہے ہیں ۔ لاہور بدل ضرور گیا ہے مگر اس تبدیلی نے پرانے لاہور کو کہیںگم کر دیا ہے اس تبدیلی نے شہر کو ایسا نیا رنگ نہیں دیا جسے دیکھ کر حیرت زدہ لوگ سکون پا سکیں ۔
خزاں کے موسم میں مال روڈ پر چہل قدمی کرتے ہوئے پائوں کے نیچے پتوں کی چر چراہٹ کہیں معدوم ہو چکی ہے۔ شاید وہ پائوں ہی نہیں رہے جن سے یہ پتے آشنا تھے ۔ یہی کہہ سکتا ہوں کہ لوگ چلے گئے زمانہ بدل گیا اور اس کے ساتھ ہی لاہور بدل کر اجڑ بھی گیا ۔
دہاڑے ست تے اٹھ میلے
گھر جاواں میں کیہڑے ویلے
ان محفلوں پر بھی صادق آتی تھی لیکن کچھ تو بڑے لوگ رفتہ رفتہ اللہ کو پیارے ہو گئے اور کچھ زمانے کی تاجرانہ ضرورتوں اور روایتوں کی نذر ہو گئے ۔ میں نے لاہور کے کافی ہائوس کو آباد دیکھا ہے اور یہاں ایسے ایسے نکتہ سنج اور شگفتہ مجلسی گفتگو کے ماہرین کو دیکھا سنا ہے جن کے نام لکھتے ہوئے ان سے محرومی کا غم تازہ ہو جاتا ہے۔ لاہور کی مال روڈ کے اسی حصے میں کافی ہائوس کی بغل میں ایک ریستوران تھا یہاں کی محفلوں میں کچھ اور لوگ آیا کرتے تھے اور قریب ہی ٹی اسٹال جہاں ادیب لوگ بیٹھا کرتے تھے۔
یہ ادبی اڈہ نہ جانے اب کس حال میں ہے۔ انار کلی سے قریب مال روڈ کے یہ تین مرکز اس وقت کے جدید لاہور کی جان تھے لیکن ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کا پورا منظر بدل گیا جو لوگ عرب ہوٹل سے اٹھ کر کافی ہائوس میں آتے تھے وہ یہاں سے ایسے اٹھے کہ پھر اس سڑک کی دو ایک جگہوں پر چند روزہ محفلیں جمانے کے بعد کہیں غائب ہو گئے۔ وقت کی بوسیدگی کی نظر ہو گئے۔
نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم کا ڈیرہ بعد میں آباد ہوا ۔ انھیں دنوں نئے بدلے ہوئے لاہور کی امیر مگر بے روح آبادی گلبرگ میں پرانے سیاست زدہ ملک غلام جیلانی کا گھر کچھ وقت تک آباد رہا ۔ اس سیاسی میزبان کے ہاں بیگم نصرت بھٹو سیاسی پسماندگی کے کئی ماہ جھیلتی رہیں ۔ مرحوم و مقتول شیخ مجیب الرحمٰن دکھائی دیتے رہے میاںمحمود علی قصوری کی بلند آواز گونجتی رہی ۔
ہمارے جیسے جونیئر نیازمندان بیسیوں بڑے سیاستدانوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے رہے لیکن ملک صاحب کی وفات کے بعد اس بڑے گھر کا لان کا ایک کمرشل جگہ کے طور پر استعمال شروع ہو گیا اور یہ ڈیرہ اس بڑی عمارت کے پیچھے کہیں گم ہو گیا ۔ مکان مکینوں کے ساتھ آباد رہتے ہیں کہ 'سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا'۔
لاہور گلبرگ میں ہی مخدوم حسن محمود اپنی الگ محفل سجاتے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے دوستوں کو کھانے پکا کر کھلاتے یہ ان کا شوق تھا اور شام ہوتے ہی ان کی محفل آباد ہو جاتی لیکن یہ محفل خاص و عام کی محفل نہیں ہوتی تھی بلکہ اس محفل میں صرف مخدوم صاحب کے مخصوص دوست ہی شرکت کرتے تھے جن کی خدمت کر کے وہ خوش ہوتے ۔ اسی طرح کی کئی ایک اور محفلیں لاہور کی شاموں کو رونق بخشتی تھیں اور مختلف حلقہ احباب کے لوگ اپنی اپنی مخصوص محفلوں میں سر شام پہنچنا شروع ہو جاتے اور رات گئے تک ان محفلوں کو آباد رکھتے۔
لاہور شہر کا ایک اپنا الگ اور مخصوص مزاج تھا اس شہر نے پاکستان بھر سے آنے والوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور اپنا دامن سب کے لیے کھول دیا کہ آئو اور مجھ میں سمٹ جائو۔ لاہور کے اپنے باسی بھی اندرون لاہور کی آبادیوں میں اپنی ثقافت کو زندہ رکھتے ہوئے شام کو شہر کی دیوار کے ساتھ باغوں میں اکٹھے ہو جاتے جہاں پرلاہوریوںکی ٹولیاں اپنی پسند اور مزاج کے مطابق کھیل تماشے میں مصروف ہو جاتیں، کہیں تاش کی محفل جم جاتی اور کہیں لڈو کی ۔ پہلوان اپنی کسرت کرتے دکھائی دیتے تو کہیں چائے کے ساتھ گرم انڈوں سے لطف اندوز ہوا جاتا ۔
لڑائی جھگڑے بھی عام تھے اور لاہور کے پرانے باسی اپنے رعب داب کو قائم رکھنے کے لیے لڑائیوں میں مشہور تھے، لیکن یہ لڑائیاں بیرون شہر سے آنے والوں سے نہیں بلکہ اپنے ہی مقامی باشندوں کے ساتھ ہوتی تھیں ۔ شام کو گھروں کے باہر بنائے گئے تھڑوں پر لڑکیاں بالیاں اور گھر کی خواتین اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر اپنی الگ محفل جماتیں جہاں پر خواتیں میں بنائو سنگھار کا مقابلہ ہوتا اور ہر روز ہوتا ۔ سنا ہے اندرون لاہور میں کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں پر یہ روایت ابھی بھی زندہ ہے ۔ لاہور برصغیر کی ثقافت کا امین تھا، فلموں کی کامیابی کا آغاز لاہور سے ہوتا اور ہر فیشن لاہور سے شروع ہوتا اور وہی فیشن پورے برصغیر میں مقبول ہوتا جسے لاہور قبول کرتا۔
لاہور سے سیاسی ڈیروں اور ادبی محفلوں کی رخصتی بتدریج ہوئی۔ پہلے پہل تو سیاستدانوں نے بابوئوں کے شہراسلام آباد جا کر ڈیرہ لگا لیا مگر اقتدار کے شہر کی بے جان زندگی اور بابو ٹائپ لوگ مختلف مزاج کے تھے، اس لیے سیاستدانوں کے اسلام آبادی ڈیرے آباد نہ ہو سکے ۔ کئی برس گزر جانے کے بعداب بھی اسلام آباد میں کوئی باقاعدہ سیاسی ڈیرہ نہیں، چند ایک ریستوران ضرور ہیں جہاں پر شہر اقتدار کے خوشحال صحافی حضرات اپنی محفل جماتے ہیں۔
جہاں پر ضرورت مند سیاستدان حاضری دیتے ہیں لیکن جس طرح کی محفلیں لاہور میں جمتی تھیں ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اب و ہ لوگ ہی نہیں رہے جو ایسی خوبصورت محفلوںکے روح رواں تھے اور نہ ہی ان میں شرکت کرنے والے رہ گئے ہیں جو ان بڑے لوگوں کے ہاں حاضری دیتے اور ان کی باتوں سے بہت کچھ سیکھتے تھے۔
اب لاہور میں بڑے بڑے ہوٹلوں کے ریستوران ہیں جمخانہ کلب ہے جہاں عام لوگ بااثر سیاسی شخصیات کی تلاش میں بھٹکتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان سے کوئی کام نکلوا سکیں۔ لاہور کے فٹ پاتھ تجاوزات کے زیر سایہ سسک رہے ہیں ۔ لاہور بدل ضرور گیا ہے مگر اس تبدیلی نے پرانے لاہور کو کہیںگم کر دیا ہے اس تبدیلی نے شہر کو ایسا نیا رنگ نہیں دیا جسے دیکھ کر حیرت زدہ لوگ سکون پا سکیں ۔
خزاں کے موسم میں مال روڈ پر چہل قدمی کرتے ہوئے پائوں کے نیچے پتوں کی چر چراہٹ کہیں معدوم ہو چکی ہے۔ شاید وہ پائوں ہی نہیں رہے جن سے یہ پتے آشنا تھے ۔ یہی کہہ سکتا ہوں کہ لوگ چلے گئے زمانہ بدل گیا اور اس کے ساتھ ہی لاہور بدل کر اجڑ بھی گیا ۔