پاک بھارت تعلقات حتمی موڑ پر
’’پاکستان کی خفیہ ایجنسی بھارتی پنجاب اوردیگرعلاقوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے سکھ عسکریت پسند لیڈروں پر دباؤ ڈال رہی ہے‘
''پاکستان کی خفیہ ایجنسی بھارتی پنجاب اوردیگرعلاقوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے سکھ عسکریت پسند لیڈروں پر دباؤ ڈال رہی ہے''(بھارتی وزیرداخلہ سوشیل کمارشندے کا پاکستان پر الزام، 5جون) پاکستان نے بھارت کے ان الزامات کو سختی سے مستردکردیاہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی بھارت میں دہشت گردی پھیلارہی ہے۔ یہ بیان غیر ضروری اور غیر سودمند ہے، اس طرح کے الزامات دونوں ممالک (پاکستان وبھارت) کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ الزام تراشی سے قبل شواہد پیش کرے، بھارتی وزیر داخلہ کے بیان کے اوقات نامناسب ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی نئی قیادت بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی اپنی خواہش ظاہر کرچکی ہے۔
واضح رہے کہ وزارت عظمیٰ کی مسند پر بیٹھنے سے قبل نامزد وزیراعظم کی حیثیت سے میاں محمد نواز شریف نے بھارت کے ساتھ 1999کی سطح پر تعلقات کا آغازکرنے کی بات کی ہے۔ جس کے بعد بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کا پیغام ان کے معاون خصوصی ایس کے لامبا نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سے رائے ونڈ میں ملاقات کرکے پہنچایا۔ جس میں انھوں نے نواز شریف کے بیان کا خیر مقدم کیا اور اس ملاقات میں پاک بھارت دوستی اور مذاکراتی عمل آگے بڑھانے پر اتفاق ہوا۔
بعدازاں بھارت کے وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے جاپانی میڈیا کو انٹرویو میں کہاکہ ''پاکستان اور بھارت کے رشتوں میں بہتری کے لیے دہشت اور تشدد سے پاک ماحول میں اسلام آباد میں بننے والی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے انتظار میں ہوں، بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ پر امن، دوستانہ اور شراکت داری پر مشتمل رشتوں کی وکالت کی ہے اور دہشت وتشدد سے پاک ماحول میں تمام مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی خواہش ظاہر کی ہے'' اس کے بعد بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کا ایک انٹرویو سامنے آیا۔
جس میں انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کی تمام دیواریں گرانے کو ناگزیر اور وقت کی سب سے بڑی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ خطے میں پائی جانے والی غیر یقینی صورتحال کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کے بغیر کوئی چارہ نہیں، امید ہے کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے حالیہ بیانات پر عمل در آمد کرائیں گے'' اسی روز یعنی 30مئی کو آن لائن نے یہ خبر جاری کی کہ پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر شرت سبھروال نے کہاہے کہ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کی نئی متوقع حکومت بھارت کے ساتھ مذاکرات میں انتہائی سنجیدہ ہے، دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنا شروع ہوچکی ہے، نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ جلد ایک دوسرے کو گلے لگالیںگے۔
دونوں ممالک کی قیادت مذاکرات کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ ہے اور گزشتہ کچھ دنوں سے اس حوالے سے مثبت کوششیں ہورہی ہیں۔ اس بیان کے بعد بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے اپنے دورہ جاپان اور تھائی لینڈ سے واپسی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ''پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات چاہتے ہیں، ہم اس وعدے پر قائم ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تمام مسائل پر امن طریقے سے حل ہوں، نواز شریف نے جو باتیں کہی ہیں اس سے رشتے مزید بہتر ہونے کی توقع ہے۔''
نئے عالمی تناظر اور زمینی حقائق کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں آتی اس وقت تک خطے میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ماضی میں غیرریاستی عناصر کی متشددانہ کارروائیوں کے نتیجے میںمذاکرات کے عمل میں تعطل پیدا ہوگیا تھا۔ لیکن اب محسوس ہوتاہے کہ دونوں ممالک کی قیادت کو اس بات کاادراک ہوگیاہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں، بلکہ امن دونوں ممالک کی فوری ضرورت ہے۔ اس سلسلے میںجب تک بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف خلوص نیت سے پیش قدمی نہیں کرتا خطے میں پائیدار امن کا خواب عبث ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی حکومت مسئلہ کشمیر پر دیرینہ موقف سے انحراف نہیں کرسکتی، مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام کا حق خود ارادیت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکز اور محور ہے۔ مسئلہ کشمیر پر کشمیری عوام کی خواہشات کے برعکس کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
بھارت کے ساتھ جامع مذاکراتی عمل میں مسئلہ کشمیر ہی بنیادی نکتہ ہوتاہے۔ یاد رہے کہ انقرہ میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس میں60 ممالک کے200مندوبین نے قرارداد کے ذریعے ہندوستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت فراہم کرے۔ قرارداد میں یہ بھی مطالبہ کیاگیا کہ ہندوستان کی8لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںکررہی ہیں اس کو فوری طورپر بند کیاجائے۔
ادھر بھارتی خارجہ پالیسی کونسل نے پاکستان اور بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ دونوں ممالک کشمیر سے فوجیں ہٹالیں تو مسئلہ کشمیر کا حل نکل سکتاہے۔ خطہ کشمیر پر کئی طاقتوں کی نظریں مرکوز ہیں، بروقت فیصلہ نہ کیاگیا تو یہ طاقتیں کشمیری عوام کو غلام بنانے کے لیے وار کرسکتی ہیں، خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر وی پی ویدک نے ''پاک بھارت تعلقات اور مستقبل'' کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ بھارت کشمیریوں کو آزادی دینے کے حق میں ہے، تاہم ریاست کی معاشی حالت دیکھتے ہوئے اور چاروں اطراف سے بڑی طاقتوں کے نرغے میں ہونے کی وجہ سے کشمیر کو مکمل آزادی نہیں دی جاسکتی۔ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہ کیاگیا، جنوبی ایشیا میں امن کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ کشمیر کے تینوں فریق پاکستان بھارت اور کشمیریوں کو بامقصد بات چیت میں شامل کیاجانا چاہیے اور متفقہ حل سامنے لانا چاہیے۔ کوئی مسئلہ طاقت کے بل بوتے پر حل نہیں کیاجاسکتا۔ اس کے لیے مسلسل بات چیت کی ضرورت ہے۔''
یہ امر خوش آیند ہے کہ دہلی میں مرکزی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیاگیا ہے کہ جموں وکشمیر میں تعینات ریگولر آرمی کے آپریشنل کمانڈ کو تاحکم ثانی وادی میں آپریشن سے روک دیاجائے۔ بھارتی حکومت نے فوجی کمانڈ کے سینئر حکام اور وزیراعلیٰ جموں وکشمیر عمر عبداﷲ سے مشورے کے بعد جموں وکشمیر میں فوجی آپریشنز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کہاجارہاہے کہ ریگولر آرمی کے ساڑھے نو ہزار سے زائد جوانوں کو دہلی واپسی کے احکامات دے دیے گئے ہیں اور مقامی پولیس کو صورتحال پر نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پیرا ملٹری فورسز کی حساس رپورٹ کے اندر وزارت داخلہ کو بتایاگیاہے کہ وادی کے اندر اگر سیاسی ماحول میں آزادی دی جائے اور حریت قیادت کو کام کرنے دیاجائے تو حالات میں مزید بہتری آسکتی ہے۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ کشمیر کے اندر امن وامان کے قیام اور فوجی مداخلت کم کرنے کے لیے امریکا سمیت اوآئی سی کا بھارت پر دباؤ ہے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ سات سو کروڑ کے نئے پیکیج کے ساتھ اگلے چند دنوں میں سری نگر آنے والے ہیں۔ ان کے ہمراہ سونیا گاندھی بھی ہوگی۔
مذکورہ بالا صورتحال کے تناظر میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی آزادی کے ساتھ سکھ کا سانس لے سکیں گے کیونکہ کشمیری عوام کے خون نے بالآخر فیصلہ کن عالمی طاقتوں کو یہ باور کرادیاہے کہ قتل وغارت گری اور دہشت گردی اور ظلم وستم سے کسی قوم کو جبراً غلام نہیں رکھاجاتا بلکہ مذاکرات ہی کے ذریعے باہمی معاملات کو حل کیاجاسکتاہے۔ لیکن بھارت کے اندر موجود ایسے عناصر بھی ہیں جو پاکستان بھارت تعلقات میں خوش گواری کے خواہاں نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں پر بھی بھارت کی نگاہ ہونی چاہیے ورنہ دیگر صورت میں یہ عناصر رکاوٹ بنتے رہیں گے اور پاک بھارت تعلقات میں تلخی بڑھتی رہے گی۔ اس طرح جنوبی ایشیا میں امن کے خواب کی تعبیر بھیانک ہوسکتی ہے۔ امید ہے اس مرتبہ پاک بھارت مذاکرات کسی سازش کا شکار نہیں ہوں گے اور اپنا مقصد ''امن'' کو پالیں گے۔