خبروں کی کوریج
موجودہ دور ابلاغ عامہ کا دور تصور کیا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے میڈیا سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ادارہ بن چکا ہے۔
موجودہ دور ابلاغ عامہ کا دور تصور کیا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے میڈیا سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ادارہ بن چکا ہے۔ اس نے پوری دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ ہر لمحہ، ہر وقت اور ہر جگہ خبر کے پیچھے دوڑنا اور اس کی کھوج میں لگے رہنا اس کے متعلقہ افراد کا مقصد و محور ہے۔ امریکی ذرایع ابلاغ کے ادارے سی این این نے اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دنیا کے ہر کونے کی خبر گیری کے لیے ہر وقت تیار ہیں اور دنیا کے ختم ہونے کے آخری لمحے کی خبر کی کوریج تک سرگرم عمل رہیں گے۔ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں میڈیا پابندیوں سے مبرا ہے جس کی وجہ سے وہاں کا ہر طبقہ اس کے سحر میں گرفتار ہے۔
وہاں کا پرنٹ میڈیا الیکٹرونک میڈیا سے خوفزدہ نہیں ہے۔ اہل مغرب آج بھی اسی دلچسپی سے اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرتے ہیں جس طرح الیکٹرونک میڈیا کے نہ ہونے سے پہلے استفادہ کیا کرتے تھے۔ پرنٹ میڈیا آج بھی الیکٹرونک میڈیا میں داخل ہونے کا دروازہ سمجھا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات جو بین الاقوامی میڈیا کی ترقی اور پذیرائی میں اضافے کا سبب ہے کہ وہاں کا میڈیا اپنے معاشرے اور ملک کا دفاع کرتا ہے۔ وہ اپنی خبر کو داخلی معاملات کے متصادم نہیں کرتا۔ ایسی خبر نشر نہیں کرتا جس سے وہاں کا تشخص مجروح ہو اور نہ ہی اپنے اور معاشرے کے وقار میں کوئی قدغن نہیں لگنے دیتا۔ بین الاقوامی میڈیا ہمارے یہاں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے حالانکہ وہ ہماری کھوج میں مسلسل سرگرم نظر آتا ہے۔ ہماری خبریں نشر کرتا ہے اور کسی قسم کی پابندی کو بھی قبول نہیں کرتا۔
ہمارے ملک میں میڈیا کسی قدر آزاد اور غیر جانبدار ہے لیکن اس کی غیر جانبداری بعض اوقات مشکوک نظر آنے لگتی ہے۔ بعض اینکرز مخصوص حالات میں جانبداری کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا سے قبل پرنٹ میڈیا بہت عروج پر تھا۔ اخبارات و رسائل کی اشاعت اور مطالعے کا ذوق بدرجہ اتم تھا لیکن الیکٹرونک میڈیا نے جوں جوں اپنے قدم مضبوط کرنا شروع کیے وہیں سے پرنٹ میڈیا زوال کی جانب بڑھنے لگا۔ لوگوں میں مطالعے کی دلچسپی معدوم ہورہی ہے جو ہماری اقدار کے عین مخالف ہے۔ ماہرین کے مطابق جس طرح جسم کی خوراک غذا سے منسوب ہے بالکل اسی طرح ذہن کی غذا مطالعے کے بغیر ناممکن ہے۔ جس صورت حال سے ہمارا معاشرہ گزر رہا ہے ۔
بین الاقوامی میڈیا کی نسبت ہمارے یہاں میڈیا پر پابندی کا خطرہ بھی ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اداروں کو اصل حقائق منظر عام پر لانے میں بہت زیادہ دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔ اس کی وجوہات میں معاشی صورت حال عام ہے، بعض صحافیوں کو مخصوص لابی کے لیے کام کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ مشرف دور میں حقائق سے پردہ کشائی کی پاداش میں کچھ ٹی وی چینلز پابندی کی زد میں آئے لیکن میڈیا کے پرعزم مظاہروں نے بالآخر عائد پابندی کو ختم کرڈالا۔
میڈیا پر پابندی رہی اور اس نے اس کے باوجود اپنی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے وکلاء کی آزاد اور غیرجانبدار عدلیہ کے قیام کی ملک گیر تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ میڈیا نے مقصد کی روح اور پیشے کے تقاضوں کے مطابق تحریک پر جرأت مندانہ اور انتہائی ذمے دارانہ پوزیشن بنائے رکھی۔ اگر میڈیا اس طرح کا رد عمل ظاہر نہ کرتا تو حکومتی ڈھانچہ ججز کی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرکے اسے ختم کردیتا۔ کیونکہ ججز کی بحالی پر تاخیری حربے استعمال کیے جارہے تھے اور اس کے خلاف مزاحمت کی کیفیت پیدا ہورہی تھی۔ وکلاء کو تقسیم کرنے کے روایتی حربے استعمال کیے جارہے تھے۔ اس موقع پر میڈیا نے اس تحریک میں بھرپور ساتھ دیا۔
پاکستانی میڈیا میں Breaking News کی بھرمار نے اس کے وقار کو خاصی حد تک مجروح کیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کی نسبت پاکستانی میڈیا میں تشدد پسندانہ رویہ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ ہر خبر کو کوریج دینا الگ ہے لیکن اس کا نشر یا اشاعت کرنا الگ بات ہے۔ بین الاقوامی میڈیا خصوصاً امریکی میڈیا اپنے مفادات کے مطابق خبر بناتا ہے۔ صرف اپنے مطلب کی چیزیں بتاتا ہے جب کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خبر کو جواز بناکر پیش کرتا ہے۔ اس کی واضح مثال ریمنڈ ڈیوس ہے۔
جسے امریکا نے عام شہری ظاہر کرتے ہوئے ہمارے یہاں سے آسانی سے باہر نکلواکر اپنے ملک لے گیا البتہ بعد کے حالات میں امریکا نے خود ہی اس کی اصلیت کھول دی۔ ہمارے میڈیا پر پابندیوں کی بھرمار ہے۔ بین الاقوامی میڈیا جس میں انڈیا بھی شامل ہے ہماری خبریں بغیر تصدیق اور احتیاط کے داغ دیتا ہے جب کہ ہمارا میڈیا ان کی خبریں نشر یا اشاعت کرنے میں بہت محتاط رویہ رکھتا ہے۔ ابھی گزشتہ ماہ انڈین جاسوس سربجیت سنگھ پر ساتھی قیدیوں کے حملے کی خبر بغیر احتیاط کے نشر کردی گئی اور مسلسل خبروں کی زینت بنایا گیا۔ سربجیت سنگھ کے قتل کی خبر نشر کرنے میں بھی نامناسب رویہ اختیار کیا گیا اور وزارت خارجہ کے بیانات سے کم اور ذاتی فریق بن کر ہی اس کی خبر گیری کرتے رہے۔
دوسری جانب جوں ہی سربجیت سنگھ کی میت کی انڈین حوالگی کے وقت ایک بے گناہ پاکستانی کے قتل کی خبر کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ واضح رہے کہ ثناء اللہ پندرہ سال قبل اپنی بکری کے تعاقب میں انڈین علاقے میں داخل ہونے کے جرم میں قید کردیا گیا تھا۔ اخبارات اور دیگر ذرایع بھی اس کے قتل کی تصدیق کرچکے تھے لیکن یہاں یہ خبر اتنی کوریج نہیں ملی۔یہاں یہ خبر نشر کی گئی کہ ثناء اللہ تشویشناک حالت میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج ہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا میڈیا اب تک بین الاقوامی میڈیا کے زیر اثر اور تابع ہے۔ ہمارے یہاں آج بھی بین الاقوامی خبر کو ریفرنس بنا کر گفتگو کی جاتی ہے اور اسے ہی مستند سمجھا جاتا ہے ۔
ملک میں ہونے والے واقعات کو نشر کرنے یا اشاعت کرنے میں احتیاط نہیں برتی جاتی۔ ہمارے میڈیا کا اہم ترین فرض ہے کہ ملک کے حساس موضوعات کو نہایت احتیاط سے منظر عام کریں۔ میڈیا ہر وقت ریٹنگ کی دوڑ میں نہ بھاگے بلکہ ملک وقوم کے تشخص کو اہمیت دے۔ جس طرح بین الاقوامی میڈیا اپنی خبر کو اپنے ملک اور عوام کے مفاد کو مدنظر رکھ کر نشر کرتا ہے اور اپنی چیزوں کو اس میں نمایاں مقام دیتا ہے بالکل اسی طرح ہمارے یہاں کوشش رہنی چاہیے کہ اسلام اور مسلم کا دفاع کیا جائے۔ عالمی سطح پر ملکی مفادات کو مقدم سمجھا جائے۔ بین الاقوامی خبروں کو اپنے مطابق بناکر نشر کیا جائے اور ضروری ہو تو آخر میں ان کا دعویٰ ظاہر کرے نہ کہ ان کے مفادات کو اپنے اوپر حاوی کرلے۔
وہاں کا پرنٹ میڈیا الیکٹرونک میڈیا سے خوفزدہ نہیں ہے۔ اہل مغرب آج بھی اسی دلچسپی سے اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرتے ہیں جس طرح الیکٹرونک میڈیا کے نہ ہونے سے پہلے استفادہ کیا کرتے تھے۔ پرنٹ میڈیا آج بھی الیکٹرونک میڈیا میں داخل ہونے کا دروازہ سمجھا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات جو بین الاقوامی میڈیا کی ترقی اور پذیرائی میں اضافے کا سبب ہے کہ وہاں کا میڈیا اپنے معاشرے اور ملک کا دفاع کرتا ہے۔ وہ اپنی خبر کو داخلی معاملات کے متصادم نہیں کرتا۔ ایسی خبر نشر نہیں کرتا جس سے وہاں کا تشخص مجروح ہو اور نہ ہی اپنے اور معاشرے کے وقار میں کوئی قدغن نہیں لگنے دیتا۔ بین الاقوامی میڈیا ہمارے یہاں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے حالانکہ وہ ہماری کھوج میں مسلسل سرگرم نظر آتا ہے۔ ہماری خبریں نشر کرتا ہے اور کسی قسم کی پابندی کو بھی قبول نہیں کرتا۔
ہمارے ملک میں میڈیا کسی قدر آزاد اور غیر جانبدار ہے لیکن اس کی غیر جانبداری بعض اوقات مشکوک نظر آنے لگتی ہے۔ بعض اینکرز مخصوص حالات میں جانبداری کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا سے قبل پرنٹ میڈیا بہت عروج پر تھا۔ اخبارات و رسائل کی اشاعت اور مطالعے کا ذوق بدرجہ اتم تھا لیکن الیکٹرونک میڈیا نے جوں جوں اپنے قدم مضبوط کرنا شروع کیے وہیں سے پرنٹ میڈیا زوال کی جانب بڑھنے لگا۔ لوگوں میں مطالعے کی دلچسپی معدوم ہورہی ہے جو ہماری اقدار کے عین مخالف ہے۔ ماہرین کے مطابق جس طرح جسم کی خوراک غذا سے منسوب ہے بالکل اسی طرح ذہن کی غذا مطالعے کے بغیر ناممکن ہے۔ جس صورت حال سے ہمارا معاشرہ گزر رہا ہے ۔
بین الاقوامی میڈیا کی نسبت ہمارے یہاں میڈیا پر پابندی کا خطرہ بھی ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اداروں کو اصل حقائق منظر عام پر لانے میں بہت زیادہ دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔ اس کی وجوہات میں معاشی صورت حال عام ہے، بعض صحافیوں کو مخصوص لابی کے لیے کام کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ مشرف دور میں حقائق سے پردہ کشائی کی پاداش میں کچھ ٹی وی چینلز پابندی کی زد میں آئے لیکن میڈیا کے پرعزم مظاہروں نے بالآخر عائد پابندی کو ختم کرڈالا۔
میڈیا پر پابندی رہی اور اس نے اس کے باوجود اپنی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے وکلاء کی آزاد اور غیرجانبدار عدلیہ کے قیام کی ملک گیر تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ میڈیا نے مقصد کی روح اور پیشے کے تقاضوں کے مطابق تحریک پر جرأت مندانہ اور انتہائی ذمے دارانہ پوزیشن بنائے رکھی۔ اگر میڈیا اس طرح کا رد عمل ظاہر نہ کرتا تو حکومتی ڈھانچہ ججز کی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرکے اسے ختم کردیتا۔ کیونکہ ججز کی بحالی پر تاخیری حربے استعمال کیے جارہے تھے اور اس کے خلاف مزاحمت کی کیفیت پیدا ہورہی تھی۔ وکلاء کو تقسیم کرنے کے روایتی حربے استعمال کیے جارہے تھے۔ اس موقع پر میڈیا نے اس تحریک میں بھرپور ساتھ دیا۔
پاکستانی میڈیا میں Breaking News کی بھرمار نے اس کے وقار کو خاصی حد تک مجروح کیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کی نسبت پاکستانی میڈیا میں تشدد پسندانہ رویہ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ ہر خبر کو کوریج دینا الگ ہے لیکن اس کا نشر یا اشاعت کرنا الگ بات ہے۔ بین الاقوامی میڈیا خصوصاً امریکی میڈیا اپنے مفادات کے مطابق خبر بناتا ہے۔ صرف اپنے مطلب کی چیزیں بتاتا ہے جب کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خبر کو جواز بناکر پیش کرتا ہے۔ اس کی واضح مثال ریمنڈ ڈیوس ہے۔
جسے امریکا نے عام شہری ظاہر کرتے ہوئے ہمارے یہاں سے آسانی سے باہر نکلواکر اپنے ملک لے گیا البتہ بعد کے حالات میں امریکا نے خود ہی اس کی اصلیت کھول دی۔ ہمارے میڈیا پر پابندیوں کی بھرمار ہے۔ بین الاقوامی میڈیا جس میں انڈیا بھی شامل ہے ہماری خبریں بغیر تصدیق اور احتیاط کے داغ دیتا ہے جب کہ ہمارا میڈیا ان کی خبریں نشر یا اشاعت کرنے میں بہت محتاط رویہ رکھتا ہے۔ ابھی گزشتہ ماہ انڈین جاسوس سربجیت سنگھ پر ساتھی قیدیوں کے حملے کی خبر بغیر احتیاط کے نشر کردی گئی اور مسلسل خبروں کی زینت بنایا گیا۔ سربجیت سنگھ کے قتل کی خبر نشر کرنے میں بھی نامناسب رویہ اختیار کیا گیا اور وزارت خارجہ کے بیانات سے کم اور ذاتی فریق بن کر ہی اس کی خبر گیری کرتے رہے۔
دوسری جانب جوں ہی سربجیت سنگھ کی میت کی انڈین حوالگی کے وقت ایک بے گناہ پاکستانی کے قتل کی خبر کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ واضح رہے کہ ثناء اللہ پندرہ سال قبل اپنی بکری کے تعاقب میں انڈین علاقے میں داخل ہونے کے جرم میں قید کردیا گیا تھا۔ اخبارات اور دیگر ذرایع بھی اس کے قتل کی تصدیق کرچکے تھے لیکن یہاں یہ خبر اتنی کوریج نہیں ملی۔یہاں یہ خبر نشر کی گئی کہ ثناء اللہ تشویشناک حالت میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج ہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا میڈیا اب تک بین الاقوامی میڈیا کے زیر اثر اور تابع ہے۔ ہمارے یہاں آج بھی بین الاقوامی خبر کو ریفرنس بنا کر گفتگو کی جاتی ہے اور اسے ہی مستند سمجھا جاتا ہے ۔
ملک میں ہونے والے واقعات کو نشر کرنے یا اشاعت کرنے میں احتیاط نہیں برتی جاتی۔ ہمارے میڈیا کا اہم ترین فرض ہے کہ ملک کے حساس موضوعات کو نہایت احتیاط سے منظر عام کریں۔ میڈیا ہر وقت ریٹنگ کی دوڑ میں نہ بھاگے بلکہ ملک وقوم کے تشخص کو اہمیت دے۔ جس طرح بین الاقوامی میڈیا اپنی خبر کو اپنے ملک اور عوام کے مفاد کو مدنظر رکھ کر نشر کرتا ہے اور اپنی چیزوں کو اس میں نمایاں مقام دیتا ہے بالکل اسی طرح ہمارے یہاں کوشش رہنی چاہیے کہ اسلام اور مسلم کا دفاع کیا جائے۔ عالمی سطح پر ملکی مفادات کو مقدم سمجھا جائے۔ بین الاقوامی خبروں کو اپنے مطابق بناکر نشر کیا جائے اور ضروری ہو تو آخر میں ان کا دعویٰ ظاہر کرے نہ کہ ان کے مفادات کو اپنے اوپر حاوی کرلے۔