مجرموں کی ہٹ دھرمی
عمومی طور پر میڈیا سے یہ شکوہ زبان زد عام ہے کہ میڈیا خبرتو دے دیتا ہے لیکن خبر کے فالواپ میں نہیں جاتا لیکن...
عمومی طور پر میڈیا سے یہ شکوہ زبان زد عام ہے کہ میڈیا خبرتو دے دیتا ہے لیکن خبر کے فالواپ میں نہیں جاتا لیکن شاہ زیب قتل کیس میں میڈیا صرف بریکنگ نیوز اور شہ سرخیوں تک ہی محدود نہ رہا بلکہ میڈیا تواتر سے شاہ زیب قتل کیس کے محرکات کو سامنے لاتا رہا اور سزا ہونے تک مجرمان کا پیچھا بھی کرتا رہا، جس دن شاہ زیب کی سانسوں کو چھیننے والوں کو سزا سنائی گئی اس کے بعد کے مناظر بہت سی آنکھوں نے میڈیا کے طفیل دیکھے ہوں گے، بااثر ملزمان سزا سننے کے بعد یوں خوشی کا اظہارکررہے تھے گویا انھیں کوئی بڑی کامیابی ملی ہو۔
کیا خون کے پیاسوں کا طرز عمل یہ ہوتا ہے؟ اور یہ طرز عمل کیوں اختیار کیا گیا؟ محض اس زعم میں کہ قانون ان کے ہاتھ کی چھڑی ہے۔ شاہ زیب قتل کیس پر نگاہیں مرکوز کرنے والے جانتے ہیں کہ سرکاری اداروں کو کس کس طرح سے زچ کرنے کی کوشش کی گئی۔ شاہ زیب کے ورثاء پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا کیا حربے آزمائے گئے؟ قانون کو ہاتھ میں لینے کے لیے کیا کیا اثر و رسوخ کے داؤ استعمال کیے گئے؟ میڈیا کو اس کیس سے ''آؤٹ'' کرنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے گئے؟
عدالت سے شاہ رخ اور اس کے ساتھیوں کو سزا ہوگئی، سزا کے بعد بھی اتنی خوشی اور اتنی دیدہ دلیری؟ دلگیری کی جگہ چہروں پر ''ہیروازم'' کے تاثرات؟ سادہ سا مطلب یہ ہے کہ شاہ زیب کے بااثر قاتلوں نے ابھی ہار تسلیم نہیں کی۔ کیا بااثر قاتل اب بھی قانون کی دیواروں میں نقب لگانے کے لیے زور آزمائی کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ یہاں دال نہ گلی تو کیا ہوا ابھی بہت سی راہیں کھلی ہیں، جہاں سے شاہ زیب قتل کیس کے بااثر ملزمان رفوچکر ہونے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ ہماری تہذیب اور اخلاقی اقدار کا جنازہ ملاحظہ فرمائیے کہ ظالم اپنے کیے گئے ظلم پر بھی وکٹری کا نشان بنارہے ہیں ۔
شاہ زیب قتل کیس کے ایک اور پہلو کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شاہ زیب نہ تو ڈاکے کے کیس میں مارا گیا نہ جائیداد کے تنازعے میں جان ہارا، بلکہ شاہ زیب کا جرم یہ تھا کہ اس کی غیرت کو چھیڑا گیا اور جب اس نے اپنی غیرت اور عزت کو بچانے کی کوشش کی تو اسے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ شاہ زیب قتل کیس کے نتائج نہ صرف شاہ زیب کے ورثاء کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں بلکہ ان کروڑوں والدین اور غیرت مند بھائیوں کے لیے بھی از حد اہمیت رکھتے ہیں جو اپنی ماؤں اور بہنوں کو بھیڑیا نما درندوں سے محفوظ رکھنے کے متمنی ہیں۔
سلگتا ہوا سوال یہ ہے کہ شاہ زیب قتل کیس کے بااثر ملزمان اگر اپنے منطقی انجام کو پہنچ پاتے ہیں تو معاشرے میں ایسے عناصر کے لیے ایک قانونی پیغام پہنچ سکے گا جن کا دوسرں کی ماؤں بہنوں کو سر راہ چھیڑنا مشغلہ ہے۔ اور اگر شاہ زیب قتل کیس میں ملزمان آزاد ہوتے ہیں تو کروڑوں والدین اور غیرت مند بھائیوں کے جذبات و احساسات کو کس خانے میں فٹ کیا جائے گا؟ امریکی اور مغربی خوشنودی کے چمچہ گیر سزا سنتے ہی واویلا کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ان کے استدلال کے جواب میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شاہ زیب کو قتل کرنے والے معصوم ہیں تو شاہ زیب کے عمل کو کس سماجی ضابطے میں فٹ کیا جائے؟ معاشرے میں ایک نیاسوال جنم لے گا جس کا جواب معاشرے کے کسی فرد کے پاس نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ جنگل کے قانون کے حامل معاشرے میں ہمیشہ سے طاقت وروں کا ساتھ دینا یہاں روایت رہی ہے، بالادست طبقہ جو کرے جیساکرے، ملکی دولت کو ڈکار لے، لوگوں کی عزتوں پر ڈاکے ڈالے، اس کے لیے سب جائز قرار دیا گیا تھا۔
شاہ زیب قتل کیس میں بھی اسی روایت کو پورے طمطراق سے دہرانے کی کوشش کی گئی۔ یہ تو بھلا ہو اعلیٰ عدلیہ کا کہ جس نے نہ صرف اس ظلم کا ازخود نوٹس لیا بلکہ گناہ گاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ہر وقت سرگرم رہی، اگر اس کیس میں اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا کا ساتھ نہ ہوتا تو بالادست طبقہ کب کا اس کیس کو سرد خانے کی نذر کرچکا ہوتا۔ ایک متوسط خاندان دباؤ بھی برداشت کرے، عدالتوں کے چکر بھی کاٹے اور انصاف کے حصول کے لیے اپنا خون پسینہ بھی بہائے اور سب سے بڑھ کر اپنے لخت جگر کی مظلومیت کا جنازہ بھی اٹھائے پھرے۔ دوسری جانب بااثر قاتل ظلم کرکے بھی وکٹری کے نشان بنائے چہروں پر ''ہیرو ازم'' سجائے۔ اعلیٰ عدلیہ کی آزادی کے بعد اب اس سارے معاشرتی قضیے کا جڑوں سے خاتمہ ضروری ہے۔ اور جس طرح سے میڈیا نے اس کیس کا اب تک ''پیچھا'' کیا ہے، امید ہے کہ ہر بااثرمجرم کے منطقی انجام تک میڈیا اس کا ایسا ہی پیچھا کرتا رہے گا۔
باعزت اور پرامن معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ظالموں کو ایسی نکیل ڈالی جائے کہ انھیں اور ان میں سے کسی اور کو ایسا ظلم کرنے کا خیال تک نہ آئے۔ قانون اس وقت ہی ''زندہ باد'' کا درجہ حاصل کرسکتا ہے جب قانون محمود و ایاز دونوں کو ایک آنکھ سے دیکھنے کا عملی مظاہرہ کرے۔ اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا جس طرح سے جرائم کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں اگر انتظامیہ بھی اسی خلوص نیت کا مظاہرہ کرے تو معاشرے میں جرائم کی شرح کم ہوسکتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا تو اپنا کردار ادا کررہے ہیں، اب آنے والے دنوں میں انتظامیہ اپنے لیے کیا رول منتخب کرتی ہے، یہ انتظامیہ ہی بہتر طور پر بتاسکتی ہے۔
کیا خون کے پیاسوں کا طرز عمل یہ ہوتا ہے؟ اور یہ طرز عمل کیوں اختیار کیا گیا؟ محض اس زعم میں کہ قانون ان کے ہاتھ کی چھڑی ہے۔ شاہ زیب قتل کیس پر نگاہیں مرکوز کرنے والے جانتے ہیں کہ سرکاری اداروں کو کس کس طرح سے زچ کرنے کی کوشش کی گئی۔ شاہ زیب کے ورثاء پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا کیا حربے آزمائے گئے؟ قانون کو ہاتھ میں لینے کے لیے کیا کیا اثر و رسوخ کے داؤ استعمال کیے گئے؟ میڈیا کو اس کیس سے ''آؤٹ'' کرنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے گئے؟
عدالت سے شاہ رخ اور اس کے ساتھیوں کو سزا ہوگئی، سزا کے بعد بھی اتنی خوشی اور اتنی دیدہ دلیری؟ دلگیری کی جگہ چہروں پر ''ہیروازم'' کے تاثرات؟ سادہ سا مطلب یہ ہے کہ شاہ زیب کے بااثر قاتلوں نے ابھی ہار تسلیم نہیں کی۔ کیا بااثر قاتل اب بھی قانون کی دیواروں میں نقب لگانے کے لیے زور آزمائی کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ یہاں دال نہ گلی تو کیا ہوا ابھی بہت سی راہیں کھلی ہیں، جہاں سے شاہ زیب قتل کیس کے بااثر ملزمان رفوچکر ہونے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ ہماری تہذیب اور اخلاقی اقدار کا جنازہ ملاحظہ فرمائیے کہ ظالم اپنے کیے گئے ظلم پر بھی وکٹری کا نشان بنارہے ہیں ۔
شاہ زیب قتل کیس کے ایک اور پہلو کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شاہ زیب نہ تو ڈاکے کے کیس میں مارا گیا نہ جائیداد کے تنازعے میں جان ہارا، بلکہ شاہ زیب کا جرم یہ تھا کہ اس کی غیرت کو چھیڑا گیا اور جب اس نے اپنی غیرت اور عزت کو بچانے کی کوشش کی تو اسے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ شاہ زیب قتل کیس کے نتائج نہ صرف شاہ زیب کے ورثاء کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں بلکہ ان کروڑوں والدین اور غیرت مند بھائیوں کے لیے بھی از حد اہمیت رکھتے ہیں جو اپنی ماؤں اور بہنوں کو بھیڑیا نما درندوں سے محفوظ رکھنے کے متمنی ہیں۔
سلگتا ہوا سوال یہ ہے کہ شاہ زیب قتل کیس کے بااثر ملزمان اگر اپنے منطقی انجام کو پہنچ پاتے ہیں تو معاشرے میں ایسے عناصر کے لیے ایک قانونی پیغام پہنچ سکے گا جن کا دوسرں کی ماؤں بہنوں کو سر راہ چھیڑنا مشغلہ ہے۔ اور اگر شاہ زیب قتل کیس میں ملزمان آزاد ہوتے ہیں تو کروڑوں والدین اور غیرت مند بھائیوں کے جذبات و احساسات کو کس خانے میں فٹ کیا جائے گا؟ امریکی اور مغربی خوشنودی کے چمچہ گیر سزا سنتے ہی واویلا کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ان کے استدلال کے جواب میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شاہ زیب کو قتل کرنے والے معصوم ہیں تو شاہ زیب کے عمل کو کس سماجی ضابطے میں فٹ کیا جائے؟ معاشرے میں ایک نیاسوال جنم لے گا جس کا جواب معاشرے کے کسی فرد کے پاس نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ جنگل کے قانون کے حامل معاشرے میں ہمیشہ سے طاقت وروں کا ساتھ دینا یہاں روایت رہی ہے، بالادست طبقہ جو کرے جیساکرے، ملکی دولت کو ڈکار لے، لوگوں کی عزتوں پر ڈاکے ڈالے، اس کے لیے سب جائز قرار دیا گیا تھا۔
شاہ زیب قتل کیس میں بھی اسی روایت کو پورے طمطراق سے دہرانے کی کوشش کی گئی۔ یہ تو بھلا ہو اعلیٰ عدلیہ کا کہ جس نے نہ صرف اس ظلم کا ازخود نوٹس لیا بلکہ گناہ گاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ہر وقت سرگرم رہی، اگر اس کیس میں اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا کا ساتھ نہ ہوتا تو بالادست طبقہ کب کا اس کیس کو سرد خانے کی نذر کرچکا ہوتا۔ ایک متوسط خاندان دباؤ بھی برداشت کرے، عدالتوں کے چکر بھی کاٹے اور انصاف کے حصول کے لیے اپنا خون پسینہ بھی بہائے اور سب سے بڑھ کر اپنے لخت جگر کی مظلومیت کا جنازہ بھی اٹھائے پھرے۔ دوسری جانب بااثر قاتل ظلم کرکے بھی وکٹری کے نشان بنائے چہروں پر ''ہیرو ازم'' سجائے۔ اعلیٰ عدلیہ کی آزادی کے بعد اب اس سارے معاشرتی قضیے کا جڑوں سے خاتمہ ضروری ہے۔ اور جس طرح سے میڈیا نے اس کیس کا اب تک ''پیچھا'' کیا ہے، امید ہے کہ ہر بااثرمجرم کے منطقی انجام تک میڈیا اس کا ایسا ہی پیچھا کرتا رہے گا۔
باعزت اور پرامن معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ظالموں کو ایسی نکیل ڈالی جائے کہ انھیں اور ان میں سے کسی اور کو ایسا ظلم کرنے کا خیال تک نہ آئے۔ قانون اس وقت ہی ''زندہ باد'' کا درجہ حاصل کرسکتا ہے جب قانون محمود و ایاز دونوں کو ایک آنکھ سے دیکھنے کا عملی مظاہرہ کرے۔ اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا جس طرح سے جرائم کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں اگر انتظامیہ بھی اسی خلوص نیت کا مظاہرہ کرے تو معاشرے میں جرائم کی شرح کم ہوسکتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا تو اپنا کردار ادا کررہے ہیں، اب آنے والے دنوں میں انتظامیہ اپنے لیے کیا رول منتخب کرتی ہے، یہ انتظامیہ ہی بہتر طور پر بتاسکتی ہے۔