ملا برادر کی رہائی اور افغانستان کا امن
لڑائی کی شدت میں کمی آجاتی ہے‘ بہرحال ملا برادر کی رہائی ایک اہم پیش رفت ہے
ایک سینئر طالبان لیڈر ملا برادر کی رہائی کے بارے میں خبریں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اعتماد سازی کے اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں۔ ملا برادر کو آٹھ سال سے زیادہ عرصہ قبل مبینہ طور پر پاکستان میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بعد ازاں خبر ملی کہ ملا عبدالغنی برادر کو ریاست پاکستان نے رہا کر دیا، جس کی افغان طالبان کے ترجمان نے تصدیق کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قطر کے وزیر خارجہ کے پاکستان کے حالیہ دورے نے ملا برادر کی رہائی کی راہ ہموار کرنے میں مدد دی ہے۔ واضح رہے قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر بھی قائم ہے جو کہ امن پراسس کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ملا برادر افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے کیونکہ افغان طالبان پر ان کا اثر موجود ہے اور افغان طالبان میں ان کی بہت عزت و تکریم کی جاتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ملا برادر کی2010ء میں پاکستان میں گرفتاری کے بعد طالبان کی قیادت میں کم از کم دو مرتبہ تبدیلی عمل میں آ چکی ہے، تاہم ملا برادر کی رہائی کا افغانستان میں امن پراسس پر مثبت اثر پڑنے کی توقع ہے اور اس حوالے سے جلد اقدامات شروع ہو جائیں گے کیونکہ امریکا کی طرف بھی افغان طالبان کے ساتھ سلسلہ جنبانی استوار کرنے کی کافی عرصے سے کوششیں ہو رہی ہیں جن کے اب نتیجہ خیز ہونے کی توقع نظر آنے لگی ہے۔ اب چونکہ موسم سرما شروع ہو رہا ہے جب افغانستان کا زیادہ علاقہ برفباری سے ڈھک جاتا ہے اور نقل و حرکت محدود ہو جاتی ہے اس موسم میں طالبان کی حرکت پذیری بھی متاثر ہوتی ہے اور حالات منجمد ہو جاتے ہیں۔
لہٰذا لڑائی کی شدت میں کمی آجاتی ہے' بہرحال ملا برادر کی رہائی ایک اہم پیش رفت ہے' اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ افغانستان کی صورت حال پر غور کریں تو وہاں طالبان اور دیگر جنگجو گروپوں کی کارروائیوں میں خاصی شدت آئی ہے خصوصاً قندھار کے حالیہ واقعے نے افغانستان کی حکومت کی کمزوری کو عیاں کیا ہے' امریکا کی خواہش ہے کہ کسی طرح طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے معاملات طے پا جائیں۔ اس مقصد کے لیے امریکی حکام پاکستان کو بھی ڈومور کا کہتے رہے ہیں۔ اب ملا برادر کی رہائی سے معاملات کسی حد تک آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ افغانستان میں قیام امن اس خطے میں استحکام اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا اور افغانستان پر برسراقتدار طبقے کو زیادہ قربانی دینی چاہیے' اس طریقے سے ہی اس ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ملا برادر افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے کیونکہ افغان طالبان پر ان کا اثر موجود ہے اور افغان طالبان میں ان کی بہت عزت و تکریم کی جاتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ملا برادر کی2010ء میں پاکستان میں گرفتاری کے بعد طالبان کی قیادت میں کم از کم دو مرتبہ تبدیلی عمل میں آ چکی ہے، تاہم ملا برادر کی رہائی کا افغانستان میں امن پراسس پر مثبت اثر پڑنے کی توقع ہے اور اس حوالے سے جلد اقدامات شروع ہو جائیں گے کیونکہ امریکا کی طرف بھی افغان طالبان کے ساتھ سلسلہ جنبانی استوار کرنے کی کافی عرصے سے کوششیں ہو رہی ہیں جن کے اب نتیجہ خیز ہونے کی توقع نظر آنے لگی ہے۔ اب چونکہ موسم سرما شروع ہو رہا ہے جب افغانستان کا زیادہ علاقہ برفباری سے ڈھک جاتا ہے اور نقل و حرکت محدود ہو جاتی ہے اس موسم میں طالبان کی حرکت پذیری بھی متاثر ہوتی ہے اور حالات منجمد ہو جاتے ہیں۔
لہٰذا لڑائی کی شدت میں کمی آجاتی ہے' بہرحال ملا برادر کی رہائی ایک اہم پیش رفت ہے' اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ افغانستان کی صورت حال پر غور کریں تو وہاں طالبان اور دیگر جنگجو گروپوں کی کارروائیوں میں خاصی شدت آئی ہے خصوصاً قندھار کے حالیہ واقعے نے افغانستان کی حکومت کی کمزوری کو عیاں کیا ہے' امریکا کی خواہش ہے کہ کسی طرح طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے معاملات طے پا جائیں۔ اس مقصد کے لیے امریکی حکام پاکستان کو بھی ڈومور کا کہتے رہے ہیں۔ اب ملا برادر کی رہائی سے معاملات کسی حد تک آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ افغانستان میں قیام امن اس خطے میں استحکام اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا اور افغانستان پر برسراقتدار طبقے کو زیادہ قربانی دینی چاہیے' اس طریقے سے ہی اس ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے۔