ذِلتوں کے مارے لوگ

اس ملک میں سب سے پہلے عزتِ نفس کومجروح کیا جاتاہے


راؤ منظر حیات October 29, 2018
[email protected]

انسان نے دنیاکے کس ملک یاخطے میں پیدا ہونا ہے، اس اہم ترین نکتے پراس کاکوئی کنٹرول نہیں۔ نہ کوئی رضا مندی یامرضی شامل ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک Biological Event ہے۔ اسے قدرت کی منشابھی کہا جاسکتا ہے۔ مگر یہی واقعہ جس پر اس کا کوئی زورنہیں،بالواسطہ یابلاواسطہ، پیدا ہونے والے انسان کی آنے والی زندگی کے نوے فیصد حصے کا فیصلہ کردیتا ہے۔ہرمعاشرے میں صرف دس فیصد افراد ایسے ہوتے ہیں جوکسی بھی ملک کے شہری ہوں،ترقی کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ دس فیصدشرح بھی شائددرست نہ ہو۔یہ ایک فیصدسے لے کرپانچ فیصدبھی ہوسکتی ہے۔ یا شائد تھوڑی سی زیادہ یاذرا سی کم۔

چلیے، تھوڑی دیرکے لیے میرے اس قائم کردہ مفروضے کو تسلیم نہ کیجیے۔آپ کہیں کہ نہیں،انسان جہاں بھی پیدا ہوجائے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔وہ کسی بھی سماج میں ترقی کرسکتا ہے۔ آپ ہی کی بات مان لیتاہوں۔مگرمیرے اگلے سوال پر ضرورتوجہ دیجیے۔ بل گیٹس اگرپاکستان میں پیدا ہو جاتا تو کیا واقعی ترقی کرسکتاتھا۔نیوٹن اگرسعودی عرب میں پیداہوتا، تو کیااسے آزادسوچ کی اجازت میسر ہوتی۔ مادام کیوری اگر ایران میں ہوتی توکیا ریڈیم پرتحقیق کرتے سائنسی دنیامیں انقلاب لاسکتی ہے۔دعوے سے عرض کرسکتا ہوں کہ مادام کیوری کسی جگہ تین چاربچے پال رہی ہوتی اور روز اپنے خاوند کے لیے صرف کھانا بنانے کوہی زندگی کامقصد سمجھتی۔ اگر ٹوائن بی جیسا عظیم فلسفی اورمحقق گھانامیں پیدا ہوتا تو کیا دنیا کی سب سے سنجیدہ تاریخ لکھ سکتا تھا۔ اگر مارلن منروغلطی سے ہمارے جیسے ''اسلامی'' ملک میں پیداہوجاتی تو کیاوہ دنیاکی عظیم ترین ایکٹرس بن سکتی تھی۔ قطعاًنہیں۔ آپ میرے خیال سے متفق نہ ہوں۔ مگر اوپر کیے گئے انتہائی سادہ سے سوالات پر غور ضرور کیجیے گا۔ شائد میرے اورآپ کے جواب حیرت انگیز طور پر ایک جیسے ہوں۔

اپنے ملک کولے لیجیے۔یہاں پیدائش کے وقت تقریباً ہربنیادی اَمرکے متعلق فیصلہ ہوجاتا ہے۔ نواز شریف کے گھر پیداہوںتوآپ پیدائشی ارب پتی ہیں۔اگر آپ بینظیرکی اولادہوں تو ایک سیاسی پارٹی کاقائدبن جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی کھرب پتی سیٹھ کے آنگن میں واردہوں توآنے والی زندگی میں بغیرمانگے ہوئے، ہرسہولت قدموں میں ہوتی ہے۔ دوبارہ عرض کرونگا،کہ ہمارے جیسے مشکل ترین بلکہ ظالم ترین معاشرے میں محض چندفیصدلوگ محنت یاحادثے کی بدولت زندگی کی دوڑمیں آگے نکلتے ہیں۔مگرکیایہ سوال نہیں اُبھرتاکہ نناوے فیصد شہریوں کامستقبل کیاہے؟ انھیں ترقی کی شاہراہ پر کون آگے لے کرجائیگا۔ان کی پسماندگی کون دور کریگا۔ یہاں تک عرض کروںگاکہ ترقی تودورکی بات،اس کو انسان کون تسلیم کریگا۔دوردورتک یہ انہونی ہوتی ہوئی نظرنہیں آرہی۔

لاہورکی مثال دیتاہوں۔ایک بچہ جوایچیسن کالج یاامریکن اسکول میں پڑھتاہے،کلاس میں جسکی ہرطرح کی ضرورتیں بن مانگے پوری کردی جاتی ہیں۔جسکی کتابیں غیرملکی بہترین علمی مقامات سے کشیدہوکرآتی ہیں۔جسکے لیے گھڑسواری سے لے کرتیراکی،اورتیراکی سے لے کر پولو تک کھیلنے کی ہرسہولت موجود ہے۔ اگر پڑھنا چاہے، تو ہزاروں کتابوں پرمشتمل وسیع لائبریری درسگاہ میں ہی موجود ہے۔ جسے انگریزی زبان کے صحیح تلفظ سکھانے کے لیے غیرملکی اساتذہ میسر ہیں۔ جسے،اسکول کی طرف سے چھٹیوں میں روم اورپیرس تک رسائی موجودہے۔یعنی تعلیمی سطح پرجس سہولت کاذکرکریں، بہترین صورت میں اس طالبعلم کی رسائی میں ہے۔بالکل اسی طرح امریکن اسکول میں بچوں اوربچیوں کے لیے ہروہ تعلیمی آسائش موجود ہے، جس کا عام لوگ صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔مگراسی شہرمیں نناوے فیصدبچوں کوتعلیمی لحاظ سے کوئی بنیادی سہولت میسرنہیں ہے۔ کیا شاد باغ، اچھرہ، گجرپورہ اورشاہدرہ کے اسکولوں میں سرکاری اورنجی اسکولوں کے طلباء اور طالبات کوبچپن ہی سے،ہرطرح کی سہولت سے محروم نہیں رکھاگیا۔ ہم دنیاوی لحاظ سے انھیں مرتے دم تک ذلت کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں۔

اس ملک میں سب سے پہلے عزتِ نفس کومجروح کیا جاتاہے۔نہیں نہیں۔یہ بہت سادہ سی بات لکھی گئی ہے۔ عزتِ نفس کوبربادکیاجاتاہے۔اس کاقیمہ کردیا جاتا ہے۔ اس کوقتل کردیاجاتاہے۔ہمیں احساس ہی نہیں ہوتاکہ ہمارا قیمتی ترین اثاثہ چوری کرلیاگیاہے۔درست ہے بچپن سب کواچھالگتاہے۔مگرجوان ہونے کے مرحلے کوروکا نہیں جا سکتا۔تعلیمی درسگاہوں میں ہرطرح کے خواب دیکھ کرجب نوجوان لڑکایالڑکی عملی دنیامیں آتاہے توآنکھوں میں چمک ہوتی ہے۔لگتاہے کہ دنیااسکی ٹھوکروں میں ہے۔ملک کے بلندترین مقام پرپہنچناچاہتاہے۔مگرجب نوکری تلاش کرنے کے لیے ایک دفترسے دوسرے دفتر،ایک مقتل سے دوسرے مقتل،ایک ادارہ سے دوسرے ادارے،ایک شہر سے دوسرے شہرتک جاتاہے تواعتماد،خواہشیں اوررنگ برنگے خواب، سب کچھ کرچی کرچی ہوکراسکی اپنی روح میں پیوست ہوجاتے ہیں۔پہلے ایک سال میں ہی پتہ چل جاتاہے کہ نہیں،اس سسٹم میں سب کچھ ہے مگراسکے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔اگر ایم اے انگریزی کیاہواہے،تواسے اپنی تعلیم بے معنی نظر آنے لگتی ہے۔تھوڑے عرصے بعد،کلرک بننے کے لیے ہاتھ پیر جوڑکرکسی بابویاسیٹھ کے درپرجانورکی طرح بیٹھا ہوتا ہے۔

گھنٹوں انتظارکرتاہے کہ شائداسے دفترکے اندربلاکرکوئی نوکری دے دے۔چلیے روزگارنہ دے،اسے ہمدردی کے دوبول ہی مل جائیں۔مگرایساکچھ نہیں ہوتا۔قلیل عرصے کے بعدوہ نوجوان اپنی بے توقیری کاعادی ہوجاتا ہے۔ ذلت کی وادی میں گرنے کے بعداسکے اندرسے عزتِ نفس کا بخار مکمل طورپرختم ہوجاتاہے۔صرف نوکری حاصل کرتے کرتے دھکے کھاکھاکر ذہنی طورپرمکمل طورپرمفلوج ہوجاتا ہے۔کسی نوجوان بچے یابچی سے بات کریں۔ان کے ساتھ ہونے والی دردناک داستانوں کے دیوان کھلتے ہوئے نظر آئینگے۔

نوکری کوچھوڑیے۔پاکستان کے کسی حکومتی ادارے سے کام پڑگیا،توسمجھیے کہ آپکونیم پاگل کردیا جائیگا۔ اگرکوئی نوجوان، تھانیدارکویہ کہہ دے،کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا، وہ توقانون کے مطابق موٹر سائیکل چلارہاتھا۔تو یقین فرمائیے، کہ اسے کانسٹیبل بیچ سڑک پرایسی پھینٹی لگائے گا کہ چودہ طبق روشن ہوجائینگے۔ اگر خدانخواستہ کسی کوتھانے میں جانا پڑ گیا، توجان لیجیے کہ آپکودس منٹ میں جانور بنادیا جائیگا۔کپڑے اُتار کرتشدد کرنا، بدبودار کوٹھریوں میں رہنا، ہر مرحلے پرپیسے دینے پرمجبورکرنا،ہمارے تھانے کے کلچر کا حصہ ہے۔اسے ہم تسلیم کرچکے ہیں۔ نصیب برے ہوں، اور کچہری جانے کاحادثہ پیش آجائے تومحترم چیف جسٹس کی اداکردہ اکثرباتیں صرف تقریرہی معلوم ہوتی ہیں۔ ریڈر،اہلمد،نائب کورٹ ایسی مخلوق ہیں،جوسانس لینے کے بھی سائلین سے پیسے لیتے ہیں۔ججوں کے پاس مقدمہ سننے کاوقت نہیں ہوتا۔ لہذا انسان پیشیاں بھگت بھگت کرذہنی طورپرکنگال ہوجاتاہے۔چھوٹی عدالت سے بڑی عدالت اورپھرعدالتیں ہی عدالتیں۔ مستقل بنیادپر ذلت کی ٹوکری سرپراُٹھانے کے لیے مل جاتی ہے۔مگرانصاف نہیں ملتا۔ بیانگ دہل کہہ رہاہوں،کہ ہماراعدالتی نظام شرمناک حدتک ناقص ہے۔یہ ہرکام کرسکتاہے۔مگرکسی بھی انسان کوبروقت انصاف دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔یہ بھی عرض کروں کہ یہ ایسے ہی چلتارہیگا۔ہرشخص کودعاکرنی چاہیے کہ اسے عدالتی نظام سے دوردورتک واسطہ نہ پڑے۔

اگرآپ یااہل خانہ میں سے کوئی بیمارہوجائے توسمجھیے کہ ایک ایسی دلدل میں دھنس گئے ہیں جہاں سے صرف موت ہی آپکوعزت سے باہرنکال سکتی ہے۔کسی سرکاری اسپتال میں چلے جائیں۔باورکروادیاجائیگاکہ آپکی حیثیت ایک کیڑے سے زیادہ نہیںہے۔ میواسپتال گنگارام، سروسز اسپتال اوراس طرح کے تمام اسپتالوں میں ہزاروں کی تعدادمیں عام لوگ،برامدوں میں کھڑے اپنی باری کا انتظارکرتے رہتے ہیں۔طبی معائنے کے لیے پرچی بنوانابھی ایک قیامت خیز مرحلہ ہے۔ادنیٰ دوائیاں،درمیانی درجے کے معالج اور ہزاروں طرح کی بلائیں،مریض اورلواحقین کواس طرح گرفت میں لے لیتے ہیں کہ وہ سہولت سے موت کی خواہش کرناشروع کردیتاہے۔کسی بھی جگہ چلے جائیے۔ایک جیسی بدحالی اوربے رحمی ہے۔ بائیس کروڑ شہریوں کی اکثریت، دراصل انسان اورجانورکی سطح کے درمیان میں زندگی گزارنے پر مجبورکردیے گئے ہیں۔ذلتوں کے مارے ان لوگوں کانہ کبھی کوئی والی وارث تھااورنہ آنے والے وقت میں ہوگا۔ جتنی جلدی ہو،آپ عزتِ نفس کاسوداکرکے ذلیل ہونے کے عادی ہوجائیں۔شائداسی طرح تکلیف کم ہوجائے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں