مشاہدات
’’مشاہدات‘‘ ہوش بلگرامی کی زندگی کے آخری دنوں میں چھپی اور پھر گم ہوگئ
''مشاہدات'' ہوش بلگرامی کی خودنوشت داستانِ حیات سے زیادہ ان واقعات اور حالات کی کہانی ہے جن کے وہ شاہد تھے۔ یہ وہ دور تھا جب انگریز برصغیر میں ایک خلفشار پھیلاکر یہاں سے نکل رہا تھا اور اس کے ساتھ حیدرآباد دکن میں آصف جاہی خاندان کی حکمرانی بھی ختم ہورہی تھی اور ریاست کا وجود بھی۔ ہوش آخری نظام میر عثمان علی خاں کے مصاحب خاص تھے، دربار سے انھیں نواب ہوش یار جنگ بہادر کا خطاب ملا تھا۔
''مشاہدات'' ہوش بلگرامی کی زندگی کے آخری دنوں میں چھپی اور پھر گم ہوگئی۔ راشد اشرف نے اسے ڈھونڈ نکالا اور زندہ کتابوں میں شامل کردیا۔ ہوش بلگرامی اپنی خودنوشت کے بارے میں لکھتے ہیں ''میری زندگی کے اس ادبی تحفے میں ایسے حقائق پوشیدہ ہیں اور ''مشاہدات'' کے ایسے ناقابل انکار مناظر پھیلے ہوئے ہیں جن کے مطالعے سے ممکن ہے کہ ناظرین بہت جلد ان تجربات پر عبور حاصل کرلیں جن کے لیے میں نے مصائب برداشت کیے ہیں، روحانی تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ میں نے چونکہ کسی قدر صاف بیانی سے کام لیا ہے اس لیے یہ خیال نہ کیا جائے کہ صرف انسانی عیبوں ہی پر نظر رکھی ہے۔
نہیں بلکہ جہاں صفات ملی ہیں ان کے بیان کرنے میں قلم کو روکا نہیں گیا ہے۔ میں نے دوسروں کے عیب گنوانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی غلطیاں اور اپنے عیوب بیان کرنے میں ذرا بھی پس و پیش نہیں کیا ہے۔ یہاں اس کا اعتراف ہے کہ جو کچھ اپنے متعلق بیان کیا گیا ہے وہ ''مشتے نمونہ از خروارے'' اس لیے ہے کہ اس سرگزشت کا مقصد آپ بیتی کی نمائش نہیں بلکہ جگ بیتی سناکر سبق دینا ہے اور اس کی لپیٹ میں کوئی شہر آجائے، ماضی و حال کی تاریخ آجائے، کسی فرمانروا کا سامنا ہوجائے، کوئی دوست مل جائے، کوئی دشمن سر پر سوار ہوجائے، انسانی اخلاق کا تذکرہ چھڑ جائے، سیاست کا میدان نظر آجائے تو سب کو سلیقے سے سمیٹ لیا جائے اور کسی موضوع کو تشنہ نہ رکھا جائے، ورنہ بغیر کسی عجز و انکسار کے اس کا اقرار کرتا ہوں کہ میری زندگی ہمیشہ سراپا عیوب رہی اور اس عمل کی وجہ سے رہی کہ:
جی پہ بن جائے یہ گوارا ہے
بات سننے کی مجھ میں تاب کہاں
میں نے خودداری کی رفتار میں ذرا بھی لچک پیدا نہیں ہونے دی اور صداقت نے نقصانات کی ایک طویل فہرست تیار کرادی مگر جو عادتیں پڑگئیں، وہ پختہ ہوکر رہیں، جو فطرت بن گئی وہ بن گئی۔ نہ یہ تقاضائے وقت سے بدلی اور نہ اس نے کسی وقت مصلحت کا احترام کیا''۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں کہ ہوش نے بھرپور عملی زندگی گزاری، جس میں انتظامی ذمے داریاں بھی تھیں، مصائب کے طور طریقے بھی تھے، مجلس شغل اشتعال بھی تھے اور ادبی تخلیقی سرگرمیاں بھی تھیں، ادبی صحافت میں بھی دخل دیا۔ ان کی عربی اور فارسی میں بہت اچھی استعداد تھی اور بذلہ سنجی و حاضر جوابی میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتے۔ خوش گفتاری میں کمال کا حامل تھا کہ وہ ''کہیں اور سنا کرے کوئی'' کے مصداق ہر محفل میں، ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے اور چھا جاتے۔ میر عثمان علی خاں ان کی ان صفات کو اس حد تک پسند کرتے تھے کہ انھیں اپنے مصاحب خاص کا درجہ دے دیا تھا۔ اپنے سفر میں بھی ہم رکابی کا شرف بخشتے تھے۔
ہوش بلگرامی کا دو مرتبہ حیدرآباد میں رہنا ہوا۔ 1911 سے 1918 کا زمانہ اس طرح گزرا کہ ایک مرتبہ گنگ کوٹھی میں ڈنر کھایا۔ دو تین تقریبوں میں نظام کو دیکھا، مولانا سید سلمان ندوی سے یہیں ملاقات ہوئی اور علامہ اقبال سے بھی یہیں ملے، دعوت بھی کی، مولانا ظفر علی خاں سے بھی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ نواب عماد الملک بلگرامی تو ان کے مربی تھے۔ پھر یہ ہوا کہ ہوش بلگرامی کے رسالے میں ایک ایسا مضمون شایع ہوگیا جس پر ناراض ہوگئے اور ہوش کو حیدرآباد چھوڑ دینا پڑا۔
ہوش بلگرامی حیدرآباد سے رخصت ہوکر بھوپال گئے، پھر آگرہ گئے اور جے پور، بالآخر رام پور پہنچے اور نواب سید حامد علی خان کے دربار میں حاضر ہوئے۔ رام پور شمالی ہند میں مسلمانوں کی واحد ریاست تھی، خوشحال تھی۔
ہوش بلگرامی دس سال رام پور میں رہے۔ دربار سے وابستگی تھی، نواب حامد علی خاں ان پر مہربان تھے۔ ہوش نے ان کی اس قدر تعریف کی ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے نظام دکن نہیں نواب رام پور ان کے مربی تھے۔ ان کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ''محرم کے پہلے عشرے میں روپوش رہتے تھے، رقص و سرود کی محفلیں بند رہتی تھیں۔ مذہبی معلومات کے سمندر تھے۔ انگریزی بے تکلف بولتے تھے۔ حافظہ ایسا زبردست تھا کہ قصائد زبانی سناتے تھے۔ نفاست پسندی میں ہزہائنس کا مشکل جواب نکل سکے گا۔ اخلاقی جرأت ان میں اتنی تھی کہ میں نے کسی میں نہیں دیکھی۔ ہز ہائنس کے ایوان کا جمال، دلفریب سامان آرائش، ایرانی قالین، کمخواب کے پردے، گیلری میں عیاں تصویریں، میری نظر سے تو ہندوستان کی کسی ریاست میں نہ گزریں۔ ہز ہائنس دن میں سوتے، رات بھر جاگتے، یہ موسیقی کے مسلمہ ماہر مان لیے گئے تھے، ہر ساز مشاقی سے بجاتے تھے۔ سنتا تھا کہ جوانی میں دلہن راستے ہی سے غائب کردی جاتی تھیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کتنی صداقت ہے، کیونکہ میرے دس سالہ زمانے میں، ریتو کے سوا اور کوئی اس قسم کا شگوفہ نہیں کھلا''۔
ہوش بلگرامی کے دس سال رام پور میں اچھے گزرے، پھر نظام نے انھیں حیدرآباد آنے کی اجازت دے دی۔ یہ حیدرآباد پہنچے، نظام کے دربار میں حاضر ہوئے، ملازمت بھی مل گی۔ پہلے سیونگ بینک کی انسپکٹری، پھر مہتمی، بیس سال میں ترقی کرتے کرتے وزارت تعمیرات کے سیکریٹری ہوگئے۔ پھر سر مرزا اسماعیل کے صدارت سے مستعفی ہوجانے کے بعد اتحادالمسلمین کی ریشہ دوانیوں اور یہاں کے سازشی ماحول سے تنگ آکر جنوری 1948 میں ریٹائرمنٹ لے لی۔
ہوش بلگرامی نے نظام دکن کے ساتھ پانچ سفر بھی کیے۔ دہلی اور علی گڑھ کے سفر کی داستان دلچسپ ہے۔ بیس سال تک نظام کے ساتھ رہنے کے دوران ہوش نے دن کے اجالوں اور رات کی تاریکیوں میں کیا کیا نہ دیکھا۔ نظام کی خوش مزاجی اور ناراضگی، حکمرانی کے طمطراق اور انسانیت کی سادگی کے مظاہرے بھی دیکھے اور مشرقی درباروں کی سازشیں بھی دیکھیں۔ ''مشاہدات'' میں ان سب کا ذکر ہے۔
ہوش بلگرامی کی خود نوشت کے بارے میں ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں کہ اس میں یہ صفت تو ہے کہ یہ مصنف کی زندگی کے احوال، خیالات و نظریات اور تاثرات اور مشاہدات کو ہمارے سامنے لاتی ہے لیکن یہ ایک سوانح عمری کی طرح مربوط اور عہد بہ عہد واقعات کو ارتقائی نوعیت کے ساتھ پیش نہیں کرتی، اس سے قطع نظر اس خود نوشت کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کا بڑا حصہ سقوط حیدرآباد کے آخری ایام اور اس کے سیاسی ابتلا اور مصنف کے تاثرات و نظریات کے بیان پر مشتمل ہے۔ سقوط کے ہنگامہ خیز دنوں میں ہوش بلگرامی اور اس وقت کے کوتوال دین یار جنگ، یہ دو ہی میر عثمان علی خاں کے ساتھ دن رات رہا کرتے تھے، لیکن دونوں ہی کا عمل اور نظریات یکسر مختلف تھے۔ دین یار جنگ حیدرآباد کی آزادی کے حق میں تھے جب کہ ہوش چاہتے تھے کہ حیدرآباد بھارت کے آگے گھٹنے ٹیک دے کہ اسی میں عافیت ہے۔