پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کا محبت اور نفرت کا رشتہ ہے

دونوں جماعتوں میں ملازمتوں کی تقسیم اور امن وامان کی صورتحال سے نمٹنے کے حوالے سے مفادات کا تصادم ہے۔


مظہر عباس June 18, 2013
دونوں جماعتوں میں ملازمتوں کی تقسیم اور امن وامان کی صورتحال سے نمٹنے کے حوالے سے مفادات کا تصادم ہے۔ فوٹو: فائل

اگرچہ ایم کیو ایم نے اشارہ دیا ہے کہ اس کے کارکنوں نے اپنے قائد الطاف حسین سے کہا ہے کہ جب تک لیاری گینگ وار سے متعلق ان کے مطالبے منظور اور پیپلزامن کمیٹی کے اہم لیڈروں کو گرفتار نہیں کیا جاتا، اپوزیشن میں بیٹھا جائے، پھر بھی ایم کیو ایم نے مذاکرات کیلیے دروازے کھلے رکھے ہیں۔

ایم کیوایم کی ہنگامی میٹنگ کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کا ردعمل واضح نہیں ہے تاہم یہ سخت اور جارحانہ بھی نہیں ہے، لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت صورتحال کا جائزہ لے گی اور ایم کیو ایم کو رغبت دلانے کی ایک اور کوشش کرے گی، سندھ کی دونوں مضبوط پارٹیوں کے مابین مذاکرات کا نتیجہ کچھ بھی نکلے، دونوں کا محبت اور نفرت کا 26 سالہ رشتہ قائم ہے ،دونوں میں خاص طور پر ملازمتوں کی تقسیم اور امن وامان کی صورتحال سے نمٹنے کے حوالے سے مفادات کا تصادم ہے، پی پی پی اور ایم کیو ایم کا رشتہ سندھی اور اردو بولنے والوں کا رشتہ سمجھا جاتا ہے یہ تصور آج بھی قائم ہے اگرچہ پیپلزپارٹی ایک قومی جماعت ہے اور ایم کیو ایم ، متحدہ قومی موومنٹ سے متحدہ میں بدل چکی ہے ،دونوں جماعتوں نے پہلی دفعہ ہاتھ 1988 کے الیکشن کے بعد ملایا تھا، جو کراچی کے واقعات کے ردعمل کے نتیجہ میں حیدرآباد میں دو سوافراد کی ہلاکت کے دو ہفتہ بعد ہوئے تھے۔

دودن میں ہلاکتوںکی تعداد 300 ہو گئی تھی، اس کا اثر انتخابات پر بھی پڑا، جس کے نتیجہ اندرون سندھ پیپلزپارٹی جیت گئی اور اربن سندھ کامیدان ایم کیو ایم کے ہاتھ میں آگیا، دونوں کا اتحاد 1989 میں اس وقت ٹوٹ گیا جب پیپلزپارٹی نے ایم کیوایم پر الزام لگایا کہ اس نے سابق وزیراعظم بینظیر کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میں نواز شریف کا ساتھ دیا، پیپلزپارٹی کی دوسری مدت کی حکومت (1993 ) کے دوران دونوں جماعتیں دور دور ہی رہیں، تاہم 2008 کے الیکشن کے بعد زرداری اور الطاف معاہدہ 5 سال تک قائم رہا،1990 اور 1997 میں ایم کیو ایم کا اتحاد مسلم لیگ ن کے ساتھ رہا ، 1992 کے فوجی آپریشن کے بعد ایم کیو ایم اتحاد سے نکل گئی، پھر 1998 میںسابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد نواز شریف نے دوسرے دور حکومت کے دوران سندھ میں گورنر راج نافذ کر دیا، صدر زرداری کے قریبی ساتھی اورسابق وزیر داخلہ رحمان ملک جنہوںنے گذشتہ پانچ سال دونوں جماعتوں کا اتحاد برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ایک بار پھر سرگرم ہیں لیکن اب کی بار کام ذرا مشکل دکھائی دیتا ہے، اتوار کی ملاقاتوں نے ظاہر ہوتا ہے کہ پس پردہ سفارتکاری کچھ کام دکھا رہی ہے تاہم لگتا ہے ایم کیو ایم ابھی وقت لے گی اور اپنے مطالبات کے حوالے سے سندھ حکومت کے جواب کا انتظار کرے گی۔

اس سے پہلے ایم کیو ایم کے سینیٹر بابر غوری اور ڈاکٹر فاروق ستار نے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقاتیں کیں لیکن انہیں مسلم لیگ ن کیطرف سے متحدہ کیلئے کوئی گرم جوشی نظر نہیں آئی، 11 مئی کے الکیشن کے بعد سے نواز شریف اور الطاف حسین میں براہ راست رابطہ بھی نہیں ہو سکا، الطاف حسین نے سندھ کی موجودہ حکومت کے بارے میں ریمارکس دیئے تھے کہ دیہی سندھیوں کی حکومت ہے، تاہم رحمان ملک کی قیادت میں پیر مظہراحق اور جمیل الزماں پر مشتعمل پی پی کے وفد نے الطاف حسین کے مذکورہ بیان کے کافی دنوں بعد نائن زیرو کا دورہ کیا ہے، اتوار کو ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے ایم کیو ایم کے لیڈر خالد مقبول صدیقی کا ردعمل دوستانہ کی بجائے رسمی تھا، لگتا ہے کہ ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ پہلے پیپلزامن کمیٹی کو توڑا جائے اور اس کے بڑے لیڈروں کیخلاف ایکش لیا جائے۔

ایم کیو ایم ، پیپلزپارٹی کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتی کہ اس کا پی اے سی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، تاریخی طورپر پی اے سی کا قیام 2002 کے الکیشن میں پیپلزپارٹی کے اندر ٹکٹوںکی تقسیم کے تنازع کے بعد عمل میں آیا تھا، لیکن صورتحال میں بگاڑ سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کیطرف سے پی اے سی کی کھل کر حمایت کرنے سے آیا، اس کے بعد کراچی میں کافی ہلاکتیں ہوئیں اور ایم کیوا یم نے سندھ حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی تاہم مرزا کے وزارت اور رکنیت سندھ اسمبلی سے استفعیٰ کے بعد ایم کیو ایم واپس حکومت میں آ گئی، ایم کیو ایم نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی اس شرط پر حمایت کی تھی کہ وہ ان کی مخالف تنظیم ایم کیو ایم (ح) کیخلاف آپریشن کریں، ایم کیو ایم (ح) کے بارے میں متحدہ کا خیال ہے کہ وہ ایم کیوایم کو کچلنے کیلئے 1992 میں فوجی آپریشن کے بعد ایسٹیبلشمنٹ نے قائم کی تھی، پیر کو ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت، اس کے عہدیداروں، ارکان پارلیمنٹ کیطرف سے سامنے آنیوالے ردعمل نے پیپلزپارٹی کیلئے سندھ میں حکومت کا کام مشکل بنا دیا ہے، صدر زرداری اور رحمان ملک کا اس حوالے سے اگلا قدم دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا جبکہ اسلام آباد سے وفاقی حکومت اور مسلم لیگ ن بھی صورتحال کو مانیٹرنگ کر رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |