جمال خاشقجی گریٹراسرائیل کیلئے قربانی کا بکرا

اگر جمال خاشقجی کے قتل کو نائن الیون سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہیں ہوگا


حسیب اصغر October 31, 2018
اگر جمال خاشقجی کے قتل کو نائن الیون سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہ ہوگا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

سعودی عرب کے شاہ سلمان نے 2015 کے آغاز میں ارض مقدس کا اقتدار سنبھالا۔ اقتدار کے فوری بعد انہوں نے سعودی عرب میں وہ حیرت انگیز تبدیلیاں کیں جنہیں انہوں نے ''اصلاحات'' کا نام دیا۔ ان تبدیلیوں کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے اپنے ناتجربہ کار شہزادے محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد اور وزیرِ دفاع جیسے اہم ترین عہدوں پر مقرر کردیا۔ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، سلطنت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی جون 2017 تک کے مختصر عرصے میں ولی عہد کے ساتھ ساتھ اقتصادی کونسل کے سربراہ اور ریاست کے کرتا دھرتا بھی بن بیٹھے۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلے یمن پر جنگ مسلط کی، 2017 میں قطر کا مقاطعہ کیا، ایران کے ساتھ پراکسی وار کو بام عروج پر پہنچایا اور شام میں باغیوں کی مدد کی۔ کینیڈا کے ساتھ سفارتی جنگ مول لی، لبنان کے وزیرِاعظم سعد الحریری کو ریاض طلب کرکے جبری استعفیٰ لیا۔ محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں انتہائی طاقتور تصور کیے جانے والے طاقتور شہزادوں اور تجارتی شخصیات کو کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر گرفتار کرکے جیل میں ڈالا، رہائی کےلیے بھاری رقوم وصول کیں؛ جبکہ بعض کو قتل کردیا جن میں کچھ کی ہلاکت کو حادثے کا نتیجہ قرار دیا گیا۔

یہ وہ اقدامات تھے جن کے باعث سعودی عرب دنیا بھرمیں ایک نئی شناخت کے ساتھ پہچانا جانے لگا۔ ان غیرمعمولی تبدیلیوں کی وجہ سے جہاں شہزادہ محمد بن سلمان کو تحسین کا سامنا ہوا، وہیں سعودی عرب سمیت اسلامی دنیا میں شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ان تمام معامالات کے باوجود شہزادہ محمد بن سلمان نے کسی بھی قسم کے دباؤ میں آںے کے بجائے اپنا وژن 2030 جاری رکھا۔

شہزادہ محمد بن سلمان کی اصلاحات جاری تھیں۔ اسی دوران یمن میں سعودی اتحادیوں کی جانب سے عورتوں اور بچوں سمیت شہریوں کا قتل عام بھی جاری رہا جس پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے آواز اٹھائی۔ انہی آوازوں میں ایک آواز سعودی عرب کے ایک لبرل اور پروگریسیو جرنلسٹ جمال خاشقجی کی بھی تھی جسے 2 اکتوبر 2018 کو ترکی کے شہر استبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: 'گریٹر اسرائیل' کی قیمت: امریکی تباہی اور عالمی بربادی

یہ ہے وہ مختصر قصہ جو اب تک میڈیا پر خبروں کا حصہ بنا رہا، جس کے تناظر میں بین الاقوامی خبر رساں اداروں کی جانب سے اب تک کی جاری اطلاعات کے مطابق یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کی جمال خاشقجی کے قتل میں براہ راست سعودی عرب ملوث ہے۔

یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ایک مملکت کے معاملات کو چلانے والے اتنے بدھو ہوسکتے ہیں کہ ایک ایسے صحافی کو، جو ملکی پالیسیوں سے متنفر ہوکر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرگیا ہو اور آئے روز اپنے کالموں کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ پر لاتا رہا ہو، اسے کسی دوسرے ملک میں واقع اپنے ہی قونصل خانے میں بلا کر قتل کردیا جائے؟

یہ بات انتہائی مضحکہ خیز لگتی ہے۔ میں اس بات سے انکاری نہیں کہ سعودی عرب اس صحافی کی جان نہیں لے سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ بادشاہت میں ایسا ہی ہوتا ہے، بلکہ اس سے بھی بھیانک اور بدترین ہوتا ہے۔ لیکن اب وہ وقت نہیں، اب بادشاہ کو بھی جواب دینا پڑتا ہے۔

اس تناظر میں سعودی حکومت کبھی یہ بھیانک غلطی ہرگز نہیں کرسکتی؛ وہ بھی ترکی جیسے ملک میں۔

اگر اس صحافی کو قتل ہی کرنا تھا تو اور بھی بے شمار طریقے ہیں جیسے کوئی ٹریفک حادثہ یا ڈکیتی مزاحمت، کوئی جھگڑا یا کچھ بھی... لیکن ایک قونصل خانے میں بلاکر قتل کرنا عقل سے بالاتر ہے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: پاکستان؛ ''گریٹر اسرائیل'' کی راہ میں بڑی رکاوٹ

اگر میں یہ کہوں کہ جمال خاشقجی کے قتل میں کسی نہ کسی طرح اسرائیل کا کردار ہے، تو یقیناً میرے پڑھنے والے کہیں گے کہ مجھے اسرائیل فوبیا ہے، لیکن میں یہاں قیاس آرائیوں اور مفروضوں کے بجائے کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھوں گا، جن کی روشنی میں آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اگر جمال خاشقجی کے قتل کو نائن الیون سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہیں ہوگا؛ کیونکہ اس قتل کے بعد جو کچھ اب سعودیہ کے ساتھ ہونے والا ہے، وہ بالکل ویسا ہی ہے جو افغانستان کے ساتھ ہوا۔ یا یوں کہیے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ ہوا تو غلط نہیں ہوگا۔ جو کچھ ''بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں'' (WMDs) کے نام پر عراق کے ساتھ ہوا، وہ بھی آپ کے سامنے رہنا چاہیے۔

افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کی تباہی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ ان ممالک کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیل کے ''گریٹر اسرائیل'' کے منصوبے کو آگے بڑھانا ہے۔ اس میں سعودی عرب کا بھی ایک بہت بڑا حصہ شامل ہے جو مجوزہ گریٹر اسرائیل میں آتا ہے۔ خاشقجی کے قتل کو میں سعودیہ کا نائن الیون اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جس وقت امریکا میں نائن الیون کا ڈرامہ ہوا اس وقت، اور اس کے بعد بھی، اسرائیل کی جانب سے خاموشی رہی؛ حالانکہ اسرائیل کردستان میں ہونے والے ریفرنڈم پر بھی بول پڑا جس سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن نائن الیون کے حوالے سے آج تک ناجائز ریاست نے کوئی بیان ہی نہیں دیا۔ گویا کہ انہیں خبر ہی نہیں ہوئی کہ کوئی سانحہ نما ڈرامہ رچایا جاچکا ہے۔ نائن الیون کا ڈرامہ خود اسرائیل نے کرایا۔ یہ میں نہیں، اس بات کا اقرار بیشتر امریکی کرچکے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار کیون پارٹ نے ہنری کسنجر کے اس خدشے کو درست قراردیا ہے کہ امریکا میں یہ تاثر عام پایا جا رہا ہے کہ اسرائیل اور اس کے حامیوں نے نائن الیون کا حملہ کرایا، امریکہ میں صہیونی حکومت کی ساکھ شدید متاثر ہو رہی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمال خاشقجی کو قتل کرنے کی وجوہ کیا ہیں؟

اس سوال کے جواب کےلیے میں ماضی میں ہونے والے ایک بہت بڑے جھوٹ کی جانب توجہ کرنا چاہوں گا جسے لوگ ہولوکاسٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ ہولوکاسٹ ہی تھا جس میں ہزاروں غریب یہودیوں کو صہیونیوں نے خود قتل کرکے فلسطین کی سرزمین پر قبضے کا جواز پیدا کیا۔ چند ہزار اپنے ہی یہودیوں کو قتل کرنے کے پیچھے ایک بڑا مقصد تھا؛ اسی طرح نائن الیون کا جھوٹ جس میں امریکا کو (جو اسرائیل کی ایک کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ بھی نہیں) استعمال کیا گیا اور اس کے بعد گریٹر اسرائیل کی راہ میں حائل رکاوٹیں یعنی مشرقی وسطیٰ کے ممالک کو تباہ کیا گیا۔ وہاں بھی انہوں نے بظاہر اپنوں کو نقصان پہنچایا، حالانکہ اس سے بہت بڑا نقصان مسلم ممالک کو پہنچا۔ یہاں بھی وہی طریقہ کار استعمال کیا جارہا ہے۔ یہاں انہوں نے جمال خاشقجی کو استعمال کیا جو واشنگٹن پوسٹ اور امریکا سمیت دنیا کے نامور اخبارات میں لکھتا تھا اور لبرل پروگریسیو جرنلسٹ کے طور پر جانا جاتا تھا؛ جو کسی حد تک امریکی انتظامیہ کا نور نظر بھی تھا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ چند سال بعد دنیا کو اس قتل کی حقیقت بھی معلوم ہوجائے گی، لیکن اس وقت بھی اصل قاتلوں کا کچھ نہیں کر سکیں گے؛ جیسے کہ ہولوکاسٹ کی حقیقت معلوم ہوگئی۔ لیکن صہیونیوں نے اپنے مقاصد حاصل کرلیے اور پھر دنیا ان کا کچھ بھی نہیں کرسکی۔

ایسے ہی نائن الیون کی حقیقت بھی کھل گئی لیکن وہ اپنے مقاصد حاصل کرچکے تھے۔ ''بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں'' کے نعرے کی حقیقت بھی کھل گئی لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ ایسے ہی اس قتل کی حقیقت بھی سب کے سامنے آجائے گی، لیکن اس وقت ہمارے پاس کچھ بھی کرنے اور کہنے کو نہیں ہوگا؛ اور صہیونی اپنے مقاصد کو حاصل کرچکے ہوں گے۔

اگر آپ نے گریٹر اسرائیل کا نقشہ دیکھا ہو (جو بہ آسانی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے) تو آپ کو علم ہوگا کہ گریٹر اسرائیل صرف فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ اس میں سعودی عرب کا بہت بڑا حصہ بھی شامل ہے جو صہیونیوں کو اپنے عقیدے کے مطابق گریٹر اسرائیل میں شامل کرنا ہے۔ اس نقشے کا بغور جائزہ لیں تو یہ اور ماضی کے دوسرے جھوٹ کی طرح اس قتل کا ڈرامہ بھی آپ کے سامنے عیاں ہوجائے گا؛ کیونکہ سعودی حکومت کو اگر اسے قتل کروانا ہی تھا تو اتنے بھونڈے طریقے تو گلی محلے کا کوئی بدمعاش بھی استعمال نہیں کرتا، وہ تو پھر ایک حکومت ہے۔

اس کے برعکس، حقیقت یہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے سعودی عرب کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔

اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات کے ساتھ یمن میں جنگ بھی شامل ہے... اور اب سعودی صحافی کے مضحکہ خیز طریقے پر قتل میں سعودی حکومت کو ملوث کرکے سعودی عرب میں بے یقینی کی صورتحال کو ہوا دینا بھی (جو پہلے ہی سے وہاں موجود ہے) اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں، سعودی شہزادے نے بیشتر دیگر شہزادوں سمیت دیگر کئی اثر و رسوخ والی شخصیات کو قید میں رکھنے کے ساتھ ساتھ قتل بھی کروادیا ہے جس کی وجہ سے وہاں کی عوام میں ایک بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے؛ اور اس صحافی کے قتل میں سعودی حکومت کو کسی نہ کسی طرح شامل کرنے کے بعد حالات مزید گمبھیر ہوجائیں گے۔ یہاں یہ بات ہر خاص و عام جانتا ہے کہ امریکا کی اپنی کوئی پالیسی نہیں، امریکا چپ چاپ وہی کرتا ہے جو اسرائیل چاہتا ہے۔ امریکا نے سعودی عرب کا سارا نظام اپنے ہاتھ میں کیسے لیا؟ یہ سمجھنے کےلیے آپ کو اس طریقہ کار پر غور کرنا پڑے گا جس کے تحت محمد بن سلمان کو سارے کا سارا نظام سونپ دیا گیا۔ محمد بن سلمان نے سعودی تاریخ کو بدل دیا اور اقتدار میں آتے ہی بہت غیرمعمولی شہزادوں کو بدعنوانی میں گرفتار کیا جس کے باعث شاہی خاندان میں وہ ایک دشمنی کا بیج بوگیا۔

سعودی شاہی خاندان میں محمد بن سلمان کے خلاف دشمنی عروج پر آگئی ہے... اور یہ ایک بہترین اسکرپٹ کے تحت ہورہا ہے۔ ایک جانب عوام بدظن ہیں تو دوسری جانب شاہی خاندان کی دشمنی۔ اور اب سعودی حکومت کا ایک صحافی کے قتل میں ملوث ہونا۔ یہ تمام باتیں سلطنت سعودی کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے کےلیے کافی ہیں۔ کیونکہ اگر حکومت اس قتل میں ملوث پائی گئی تو محمد بن سلمان مجرم ثابت ہوگا۔ یہ، ان کے والد شاہ سلمان اور وہ تمام شہزادے اور شاہی خاندان، جو پہلے ہی ان سے نفرت میں جل رہے ہیں، وہ اپنا کردار ادا کریں گے۔ اور یوں اس اسکرپٹ کے تحت سعودی عرب بھی عراق لیبیا اور شام کی جیسی صورتحال میں گھر سکتا ہے۔

یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ جب یہ منصوبہ اپنے حتمی مراحل میں داخل ہوجائے گا تو دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر اسرائیل کی سرزمین پر بسایا جائے گا۔ ابھی حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے 10,000 افریقی یہودیوں کو اسرائیل میں بسانے کی منظوری دی ہے۔ ویسے تو اسرائیل میں دنیا بھر سے یہودیوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، لیکن باقاعدہ حکومتی سطح پر اس کا اعلان نہیں کیا گیا تھا جو اب کیا گیا ہے۔

یہ تمام حالات و واقعات پکار پکار کر یہی کہہ رہے ہیں کہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ اب ایک حتمی مرحلے میں داخل ہوا چاہتا ہے۔ جمال خاشقجی کو اسی مقصد کے حصول میں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ آنے والے برسوں میں عالمی سیاسی منظر نامے پر ہم کچھ بہت ہی غیر متوقع باتیں دیکھیں، لیکن گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بنانے والوں کےلیے یہ سب کچھ بالکل متوقع اور ان کے منصوبے کے عین مطابق ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں