کیا شماریات ایک خشک اور مشکل مضمون ہے

ایک زرعی تحقیق کار کےلیے شماریات کوسمجھنا جتنااہم ہے، اتناہی اہم شماریاتی ماہرکےلیے زرعی تحقیقی اصولوں کوسمجھنا ہے


ڈاکٹر شوکت علی November 01, 2018
ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آج کے طالب علم کو شماریات پڑھانے کا چیلنج، آج سے 40 سال پہلے کے چیلنج سے بالکل مختلف ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وہ طالب علم، شماریات جن کا باقاعدہ مضمون نہیں ہوتا، وہ اسے ریاضی کی طرح ایک خشک اور مشکل مضمون سمجھتے ہیں۔ میں نے خود بھی شماریات کے کئی کورس، ایک غیر شماریاتی طالب علم کی حیثیت سے پڑھے ہیں۔ لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اس مضمون کو پڑھنے اور پڑھانے کی تمام تر مشکلات ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں ورنہ شماریا ت تو ایک معجزانہ اور دلفریب مضمون ہے۔

کچھ روز پہلے میں ایف ایم 93 پر کسی امریکا پلٹ ماہر شماریات کی گفتگو سن رہا تھا۔ وہ بتا رہے تھے کہ شماریات دو طرح کے لوگ پڑھتے ہیں: ایک وہ، شماریات جن کا باقاعدہ مضمون ہوتا ہے؛ اور دوسرے وہ جو بنیادی طور پر تو زراعت، میڈیکل یا سوشل سائنس وغیرہ کے طالب علم ہوتے ہیں لیکن شماریات اپنی تحقیقی ضروریات کے پیش نظر پڑھتے ہیں۔

گفتگو کرنے والے کا خیال تھا کہ شماریات کے باقاعدہ طالب علموں کو تو یقینا شماریات کی تھیوری وغیرہ پڑھائی جانی چاہیے لیکن دیگر طلباء کو شماریات پڑھانی کم اور سکھانی زیادہ چاہیے۔ انہوں نے مثال دے کر بتایا کہ جس طرح ایک مستری اور سول انجینئر کی مہارت میں فرق ہے، یہی فرق شماریات کے باقاعدہ طلباء اور دیگر طالب علموں میں ہوتا ہے۔ مستری کو جب کام سکھایا جاتا ہے تو ہمارا تمام تر فوکس، انجینئرنگ کے علمی پہلو کی بجائے سیکھنے والے کی عملی مہارت پر ہوتا ہے۔ غیر شماریاتی طالب علم کو شماریات کی تھیوری پڑھانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی شخص کو - مستری بننا جس کی ضروت ہے - سول انجینئرنگ پڑھانے لگ جائیں۔

آپ میں سے جو لوگ میری عمر کے ہیں، وہ یہ بات جانتے ہوں گے کہ ہمارے بزرگوں کو دو، تین، چار والے پہاڑوں کے ساتھ ساتھ سوا دو، ڈھائی اور پونے تین وغیرہ کے پہاڑے بھی یاد کروائے گئے تھے؛ اور یہ پہاڑے انہیں 2 سے 20 تک یاد کرنے پڑتے تھے۔ لیکن جب ہماری باری آئی تو ہم نے بھی 20 تک پہاڑے تو یاد کیے لیکن بیچ میں سے سوا دو، ڈھائی اور پونے تین وغیرہ والے پہاڑے نکل گئے۔ لیکن آج کل کا بچہ جب پہاڑے یاد کرتا ہے تو اسے صرف 2 سے 10 تک پہاڑے یاد کروائے جاتے ہیں۔ یہ تبدیلی آنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ پچھلے تیس چالیس سال میں کیلکولیٹر نے رفتہ رفتہ ان پہاڑوں کی جگہ لے لی ہے۔

شماریات کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو پچھلے بیس تیس سال میں شماریاتی سافٹ ویئر کی دنیا میں انقلابی تبدیلی کے باوجود ہمارا پڑھنے پڑھانے کا انداز وہی ہے کہ جو بیس تیس سال پہلے تھا۔ خاص طور پر غیر شماریاتی طالب علموں کو بے جا فارمولوں میں اس طرح الجھا دیا جاتا ہے کہ وہ شماریات کو ایک خشک اور مشکل مضمون سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمارے پوسٹ گریجویٹ کے ریسرچ اسکالر شماریات کے کئی کئی کورسز پاس کرنے کے باوجود اپنے ریسرچ ڈیٹا کا شماریاتی تجزیہ نہیں کر پاتے؛ اور اس کام کےلیے وہ ان لوگوں کے پاس بیٹھے ہوتے ہیں جن کی اپنی تعلیم تو شاید بی اے بھی نہیں ہوتی لیکن انہوں نے چند دن کسی استاد کے پاس بیٹھ کر یہ کام سیکھ لیا ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ شماریات کا باقاعدہ مضمون پڑھنے والے بھی اپنے ریسرچ ڈیٹا کا شماریاتی تجزیہ کم ہی کر پاتے ہیں۔

تو پھر سوال یہ ہے کہ ہم اپنے طلباء کو شماریات کی کلاسوں میں کیا پڑھا رہے ہیں؟

ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آج کے طالب علم کو شماریات پڑھانے کا چیلنج، آج سے 40 سال پہلے کے چیلنج سے بالکل مختلف ہے۔

میں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا ہوا ہے کہ سوشل سائنس میں ایم فل کرنے والا ایک طالب علم بیٹھ کر 140 مربع فٹ کی ٹیلی شیٹ پر اپنے ریسرچ ڈیٹا کا انداراج کر رہا ہے۔ ٹیلی شیٹ پر درج شدہ ڈیٹا کے شماریاتی تجزیے کےلیے طالب علموں کو سینکڑوں ہزاروں کیلکولیشنز کرنا پڑتی تھیں؛ اور پھر حاصل شدہ نتائج کی مدد سے انہیں کئی کئی طرح کے ٹیبل اور چارٹ، پنسل اور پیمانے کی مدد سے بنانا ہوتے تھے۔ اس کام میں انہیں کئی کئی مہینے لگ جاتے تھے۔ لیکن آج کل ڈیٹا کا اندراج 140 مربع فٹ والی شیٹ کے بجائے کمپیوٹر میں موجود سافٹ ویئر ایس پی ایس ایس پر ہوتا ہے - اور کیلکولیشن، ٹیبل اور چارٹ والا سارا کام آپ ایک کلک کی مدد سے کر سکتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کل طالب علموں کےلیے کیلکولیشن وغیرہ کا چیلنچ وہ نہیں جو 40 سال پہلے تھا۔ آج کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم سافٹ ویئر کی مدد سے مطلوبہ نتائج کیسے حاصل کرسکتے ہیں؛ اور پھر ان نتائج کی کون کونسی ممکنہ توضیحات اور تشریحات ہوسکتی ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنی کلاسوں میں پڑھائے جانے والے اسباق کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم آج بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہمارے طالب علموں کو اپنی ریسرچ کا ڈیٹا 140 مربع فٹ والی ٹیلی شیٹ پر درج کرنا ہے اور پھر انہیں سیکڑوں ہزاروں کیلکولیشنز کرکے نتائج حاصل کرنے ہیں۔

ہمیں یقینی طور پر شماریات پڑھانے کےلیے اپنے زاویہ نگاہ اور اپنی سمت کو بدلنا ہوگا۔

میرے خیال میں ہمیں عمومی شماریات (جنرل اسٹیٹسٹکس) پر اکتفا کرنے کے بجائے اسپیشلائزڈ اسٹیٹسکس کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً زرعی (ایگریکلچرل) شماریات کےلیے جو مہارت چاہیے وہ سماجی (سوشل) شماریات سے بہت مختلف ہے۔ خاص طور پر شماریاتی تجزیئے کے بعد نتائج کی تشریح و توضیح کےلیے آپ کو اسپیشلائزڈ اسٹیٹسٹکس میں مہارت درکار ہوتی ہے۔

ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے میں شماریات کا علیحدہ شعبہ موجود ہے جس کا مقصد تحقیقی افسران کی رہنمائی کرنا ہے۔ میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ گزشتہ دو سال سے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل نے شماریاتی افسران کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے کہ وہ فیلڈ میں جاکر زرعی ماہرین کے ریسرچ ٹرائلز دیکھیں گے اور ان ریسرچ ٹرائلز کے بارے میں رپورٹ کریں گے جن کے ڈیزائن شماریاتی اصولوں کے مطابق نہیں۔ ادارے میں کام کرنے والے شماریاتی افسران کا کہنا ہے کہ جب سے انہوں نے فیلڈ میں موجود ریسرچ ٹرائلز کا جائزہ لینا شروع کیا ہے، ان کی ایگریکلچرل شماریات سے متعلق سمجھ بوجھ بہت بہتر ہوئی ہے۔

میرا اپنا تجربہ یہی ہے کہ ایسا ماہر شماریات جو ایگریکلچرل ریسرچ کی شدھ بدھ نہیں رکھتا، اسے ایگریکلچر ریسرچ کے نتائج کی تشریح و توضیح میں اچھی خاصی مشکل پیش آتی ہے۔ لہذا میرے نزدیک ایک زرعی تحقیق کار کےلیے شماریات کو سمجھنا جتنا اہم ہے، اتنا ہی اہم اس شماریاتی ماہر کےلیے زرعی تحقیق کے بنیادی اصولوں کو سمجھنا ہے؛ کیونکہ ایک دوسرے کے شعبوں کا مناسب ادراک ہونے سے ہی بات بہتر طور پر سمجھی اور سمجھائی سکتی ہے۔ اور ظاہر ہے اگر ایسا ہو جائے تو اس سے بہت بہتر اور درست نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ میں اپنے ان خیالات کو حرف آخر نہیں سمجھتا۔ یہ مضمون صرف مکالمے کےآغاز کےلیے لکھا جارہا ہے تاکہ سوچنے سمجھنے والے لوگ اس پر اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ ہمارا مقصد تحقیق اور شماریات کے باہمی تعلق میں بہتری لانا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔