پاکستان سٹیزن پورٹل … درست اقدام

عوامی مسائل شفاف طریقے سے حل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سرکاری دفاتر میں سسٹم کو بہتر بنایا جائے۔


Editorial October 30, 2018
عوامی مسائل شفاف طریقے سے حل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سرکاری دفاتر میں سسٹم کو بہتر بنایا جائے۔ فوٹو:فائل

وزیراعظم عمران خان نے براہ راست عوامی شکایات کے حل اور تجاویز کے لیے 'پاکستان سٹیزن پورٹل' کا باضابطہ افتتاح کر دیا ہے۔ وزیراعظم نے اتوار کو افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عوام کو خوشخبری سنائی کہ وزیراعظم آفس میں مختلف محکموں' وزارتوں اور دفاتر سے متعلق شکایات کے اندراج اور ان کے فوری حل کے لیے وضع کیا گیا نظام ''پاکستان سٹیزن پورٹل'' نئے پاکستان کی علامت ہے' یہ نظام ای گورننس ہے جو پاکستان میں پہلی مرتبہ ہو گا' اس طرح کا نظام پہلے کبھی پاکستان میں متعارف نہیں کرایا گیا، سسٹم سے یہ بھی پتا چل سکتا ہے کہ کس علاقے سے زیادہ شکایات آ رہی ہیں، یہ نظام خیبرپختونخوا میں چل چکا ہے، سسٹم تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز کے دفاتر سے منسلک ہے۔

پورٹل سے عوام براہ راست شکایات وتجاویز وزیراعظم آفس کو بھجوا سکیں گے، عوامی شکایات کے ازالے اور تجاویز پر عملدرآمد کی نگرانی وزیراعظم آفس میں ہوگی، شہری موبائل فونز میں مخصوص ایپلی کشن سے حکومتی اداروں تک آواز پہنچا سکیں گے۔ سٹیزن پورٹل سے سزا اور جزا کے نظام میں بہتری آئے گی، اس نظام کے تحت پاکستان کے کسی بھی حصے سے عام آدمی شکایت کر سکے گا۔ پاکستان سٹیزن پورٹل کے قیام کے لیے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جا رہا ہے جو وزیراعظم آفس میں قائم کیا گیا ہے۔

عوام ہمیشہ سرکاری دفاتر سے شکوہ سنج رہے ہیں کہ ان کے جائز کام بھی بروقت اور رشوت دیے بغیر سرانجام نہیں پاتے' اہلکار انھیں اس قدر الجھاتے ہیں کہ برسوں سرکاری دفاتر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا اور بالآخر دام بنائے کام کے مصداق انھیں رشوت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ رشوت اس قدر عام ہے کہ جائز کام ہو یا نہ ہو ناجائز کام ضرور ہو جاتا ہے۔ سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں پریشان عوام اپنا سارا غصہ حکومت پر نکالتے ہیں کہ وہ سسٹم صحیح کرنے سے اغماض برت رہی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ سرکاری دفاتر کے نظام کو راہ راست پر لانے اور عوامی مسائل کو بروقت اور شفاف طریقے سے حل کرنے کے لیے انھوں نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق نئے نظام پاکستان سٹیزن پورٹل کا افتتاح کیا ہے جس کے بارے میں وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اس نظام کی مدد سے ملکی تاریخ میں پہلی بار عوام حکومت کا احتساب کر سکیں گے۔

اس نظام کی مدد سے وزراء کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کے ماتحت اداروں میں کہاں سست روی آرہی ہے، کہاں مسائل پیدا ہورہے ہیں اور کونسا سرکاری افسر کرپشن کر رہا ہے یا رشوت مانگ رہا ہے' پاکستان میں تبدیلی تب آئی گی جب ہر شہری ذمے دار شہری بنے گا، حکومتی دفاتر میں بیٹھے لوگوں کو احساس ہوگا کہ ہم عوام کے پیسے سے تنخواہ لے رہے ہیں۔

ہر حکومت عوام کی بہتری کے لیے کوئی نہ کوئی نیا سسٹم رائج کرتی اور عوام کو یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ اب ان کے مسائل بروقت اور بآسانی حل ہوں گے اور ان کی شکایات کا فوری ازالہ ہو جائے گا۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دور حکومت میں بھی کھلی کچہریوں کا نظام لایا گیا' میاں نواز شریف فون پر براہ راست خود عوامی شکایات سنتے اور انھیں حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

حکمرانوں کا براہ راست عوامی شکایات سننا ایک اچھا اور روایتی عمل ہے لیکن اس سے چند ایک لوگوں کے مسائل تو حل ہو جاتے ہیں مگر اکثریت کو اپنے مسائل کے حل کے لیے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔

عوامی مسائل شفاف طریقے سے حل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سرکاری دفاتر میں سسٹم کو بہتر بنایا جائے اور عوام کے مسائل حل نہ کرنے والے اور راشی اہلکاروں کے خلاف بروقت کارروائی بروئے کار لائی جائے تو امید کی جاتی ہے کہ اس سے سسٹم میں بہتری آئے گی۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ٹول فری نمبر سے مفت کال اور حکومت سے متعلق جو بھی شکایات ہیں وہ اس پورٹل پر کی جا سکتی ہیں جب کہ عدلیہ کے حوالے سے آنیوالی شکایات چیف جسٹس کو بھجوائی جائیں گی۔

وزیراعظم نے اپنی تقریر میں مخالف سیاستدانوں پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اس نظام سے کرپشن ختم ہو جائے گی لیکن انھیں اس سے مشکلات پیش آئیں گی وہ پھر سڑکوں پر نکل کر کہیں گے مجھے کیوں نکالا؟ کوئی بھی نظام اس وقت ہی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے جب اس کی مسلسل نگرانی کی ، احتساب کے عمل کو شفاف بنایا جائے اور عوامی شکایات پر بروقت کارروائی کی جائے۔

ہمارے ہاں حکمرانوں نے اداروں کو استحکام بخشنے کے بجائے اپنی کرسی کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز رکھی،جس کا ماحصل کمزور اداروں اور کھوکھلے نظام کی شکل میں برآمد ہوا۔حکومت اداروں کو مضبوط بنائے تو امید ہے عوامی شکایات ایک سسٹم کے تحت خود بخود حل ہوتی چلی جائیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں