قتل و غارت کی وجوہات جانے بغیر
افغانستان وہ ملک بن گیا ہے جہاں خون خرابا روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔
حیوان کی جان بھی قیمتی ہوتی ہے لیکن انسان نے حیوانوں کی جان کو بے وقعت اس لیے بنادیا ہے کہ حیوان اس کی خوراک اور اس کی ضرورتوں میں کام آتا ہے۔ آج ہمارے کالم کا موضوع انسان اور حیوان کی جان اس لیے بناکہ انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کی جان لینے کی ایک افسوسناک خبر نظر سے گزری جس کے مطابق افغانستان کے قندھار میں ایک ''انسان'' نے تین انسانوں کی جان لے لی اور دو کو زخمی کردیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق فائرنگ کا یہ واقعہ گورنر ہاؤس کے کمپاؤنڈ میں ہونے والے ایک اجلاس میں پیش آیا جس میں گورنر، انٹیلی جنس سربراہ اور پولیس چیف ہلاک اور دو امریکی زخمی اور ایک امریکی جنرل بچ گیا، افغانستان وہ ملک بن گیا ہے جہاں خون خرابا روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔
قتل و غارت کا کلچر افغانستان سے نکل کر انسانی جان کا احترام کرنے والے اور انسانی جان کی حفاظت کا دعویٰ کرنے الے ملکوں میں بھی پھیل رہا ہے اور ایک انسان بغیرکسی وجہ کے کسی انسان کی جانیں لے رہا ہے۔ تازہ اطلاع کے مطابق روس کے زیر انتظام علاقے جزیرہ نماکریمیا کے ایک کالج میں بم دھماکے سے 18 افراد ہلاک اور پچاس افراد زخمی ہوگئے جن میں سے 4 کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ دھماکا کالج کے ہی ایک طالب علم نے کیا جس نے بعد میں خود کو گولی مار کر ہلاک کرلیا۔ امریکا کے مختلف شہروں میں بھی کریمیا جیسے قتل کی آئے دن وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اب قتل و غارت کی خبریں روز مرہ کا ایسا معمول بن گئی ہیں کہ عوام نے ان پر دھیان دینا ہی چھوڑدیا ہے۔
انسان کو زندگی کیوں ملتی ہے یا انسان کیوں پیدا ہوتا ہے اس کا جواب ایک نہیں ایک سے زیادہ ہیں لیکن اس بات پر ہر طبقہ فکر متفق ہے کہ زندگی خدا کی ایک امانت ہے جس کی حفاظت کی جانی چاہیے اب رہا زندگی کا مقصد کیا ہے تو اس کے بعد ایک سے زیادہ جواب ہیں۔ اگر ایک بھیک مانگنے والے سے زندگی کا مقصدپوچھیں تو وہ جواب دے گا زندگی کا مقصد بھیک مانگنا ہے ایک دولت مند سے پوچھیں کہ زندگی کا مقصد کیا تو وہ ترنت جواب دے گا ''بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست'' ایک قصائی سے پوچھیں کہ اس کی زندگی کیسے گزرتی ہے تو وہ جواب دے گا جانور ذبح کرتے ہوئے۔
جانور فطرت کی طرف سے انسان کی خوراک بتائے گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی جانور کو بے مقصد ہلاک کرتا ہے تو وہ ظالم کہلاتا ہے لیکن ایک قصائی دن میں کئی جانور ذبح کرتا ہے تو وہ ظالم نہیں کہلاتا کیونکہ وہ ہزار جانور انسان کی غذا بنتے ہیں۔
انسان کی جان حیوان کی جان سے زیادہ قیمتی دو وجوہات سے ہوتی ہے ایک یہ کہ انسان اشرف المخلوقات ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اچھے برے میں تمیز کرسکتا ہے۔ جائز ناجائز میں امتیاز کرسکتا ہے ظالم اور نا انصافی کی مخالفت کرتا ہے۔ ظلم جب عام اور روز مرہ کی بات ہو تو اس کی اہمیت اور سفاکی قابل برداشت ہوجاتی ہے اگرچہ خوشی سے نہیں نفرت سے، ناگواری سے، دل آزاری سے جنگوں میں ہونے والی قتل و غارت بھی ناگوار اور قابل مذمت و نفرت ہوتی ہے لیکن سفاک انسان نے اسے جائز بنالیا ہے۔ خواہ کتنا ہی مہذب کیوں نہ ہو۔
کسی بھی بیماری کا علاج ایک یا دو تین دواؤں سے نہیں ہوتا تو حکما و بیماری کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دہشت گردی ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج طاقت سے کرنے کی ہر طرح کوشش کی گئی امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر 10 سال سے زیادہ عرصے تک طاقت کے ذریعے اس خطرناک بلکہ دہشت ناک بیماری کا علاج کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن ''مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوںدوا کی'' والا معاملہ ہوگیا ۔ اس علاج کے دوران فوجیوں کے ساتھ لاکھوں بے گناہ سویلین بھی مارے گئے یہ تمام مارے جانے والے خواہ وہ فوجی ہوں یا سویلین ایک ایسی بے مقصد اور احمقانہ لڑائی میں مارے گئے جس کے وہ فریق ہی نہیں تھے۔
جنگیں ہو یا دہشت گردی اس کے فریق بے گناہ فوجی ہوتے ہیں۔ نہ سویلین ان کا ذمے دار حکمران طبقہ ہوتا ہے کیونکہ اس کے سیاسی اور معاشی مفادات ہی اسے جنگوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ ان مفادات کا تعلق نہ عام فوجیوں سے ہوتا ہے نہ عام بے گناہ عوام سے دہشت گردی ایک ایسی جنگ بلکہ واحد ایسی جنگ ہے جس کا واضح مقصد اب تک معلوم نہ ہوسکا اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گرد اس جنگ کا مقصد دنیا میں اپنا مذہب پھیلانا بتاتے ہیں لیکن یہ تاویل اس وقت صریحاً غلط ثابت ہوجاتی ہے جب اس مقدس جنگ میں دہشت گردوں کے لاکھوں ہم مذہب انتہائی بربریت کے ساتھ مارے جاتے ہیں۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہے اور اب تک اس کے 70 ہزار بے گناہ مسلمان اور پاکستانی بیدردی سے مارے گئے۔
یہ سچ ہے کہ اس لایعنی جنگ میں اب تک لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے اور یہی اس دہشت گردی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ آہستہ آہستہ یہ دہشت گردی بڑی طاقتوں کے مفادات کی جنگ کا رخ بھی اختیار کرتی جارہی ہے جنگ ہو یا دہشت گردی ان میں مارے جانے والے بے گناہ ہی ہوتے ہیں خواہ وہ فوجی ہی کیوں نہ ہوں عام طور پر جنگوں میں قومی مفادات کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن جنگوں میں قومی مفادات ملوث نہیں ہوتے۔ قومی مفادات ان کی بنیاد ہوتے ہیں۔
دنیا میں جتنی جنگیں قومی مفادات کے نام پر لڑی گئیں اور لڑی جارہی ہیں ان کا تعلق عموماً قومی مفادات سے نہیں طبقاتی مفادات سے ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا وہ کھیل ہے جس میں کسی کی جان لینے کے لیے کسی جائز وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی حکم حاکم اصل مسئلہ ہے اور حاکم سرمایہ دارانہ نظام کا محافظ ہوتا ہے۔
یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا یہ ایسی نظریاتی جنگ ہے جس کے نظریات کا پتا صحیح معنوں میں آج تک نہ چل سکا۔ اب یہ عالموں، دانشوروں، مفکروں، فلسفیوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس المیے کی تحقیقات کریں کہ دہشت گردی کیا ہے؟ دہشت گرد کون ہے ؟ اور اس کا نظریاتی پس منظر میں حل کیونکر ممکن ہے یہ ایسا کام ہے جو انجام دے گا س کا احسان پوری انسانیت پر ہوگا۔