ڈبکی لگائی
کچھوے کی عادات ڈبکی لگانا اور بچھوکی عادت ڈنک مارنا جیسے میں نے عرض کیا ایسے لوگ ہم میں موجود ہیں۔
بچھو نے کچھوے سے کہا ''مجھے تیرنا نہیں آتا، باہر نکالو'' کچھوا بولا ''تم میری پیٹھ پر بیٹھ جاؤ میں تم کوکنارے پر چھوڑ دوںگا۔'' کچھوے کی پیٹھ پر بچھو بیٹھ گیا۔ اس نے پہلی بار ڈنک مارا ،کچھوا بولا ''تم مجھے بھی ڈنک مار رہے ہو'' بچھو بولا ''آیندہ خیال کروںگا تمہیں ڈنک نہ ماروں ۔''
دوسری بار پھر ڈنگ مارا، کچھوا بولا ''پھر ڈنک لگایا تم نے '' بچھو نے عاجزی سے کہا ''اب نہیں ہوگا۔'' لیکن جب تیسری بار بچھو نے ڈنک مارا تو کچھوا بولا '' تم باز نہیں آئے مجھے ڈنک مار رہے ہو۔'' بچھو بولا ''کیا کروں یہ میری عادت ہے۔ ''کچھوے نے پانی میں ڈبکی لگائی، بچھو پانی میں نیچے اوپر ہوا تو بولا ''تم نے کیوں ڈبکی لگائی، جب میں تمہاری پیٹھ پر بیٹھا تھا۔'' کچھوا بولا ''تمہاری ڈنک مارنا عادت ہے، میری ڈبکی لگانا عادت ہے۔''
کیڑے مکوڑے، حشرات الارض، جانور ان کی نسلاً جو عادات ہیں وہ نہیں بدلتیں لیکن انسان جو اشرف المخلوقات ہے ان میں مختلف اچھی بری عادات موجود ہیں۔ وہ بھی نسل در نسل چلی آرہی ہیں۔ میں سب کی بات نہیں کررہا چند جانوروں کی عادتوں سے مشابہ کیے حیات نہیں مثلاً کسی کے بارے میں کہتے ہیں یہ آدمی خطرناک ہے معلوم بھی نہیں ہوتا اور ڈنک مارتا ہے بچھو ہے بچھو۔ کسی کے بارے میں کہاجاتا ہے یہ بہت چالاک، مکار، عیار ہے اس سے بچنا لیکن شریف النفس غریب لوگ چاہتے ہوئے بھی ایسے مختلف النوع لوگوں سے نہیں بچ پاتے۔ بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے وہ ایسے چالاک، عیار، مکار ڈنک مارنے والے لوگوں کو اپنا نمایندہ بنالیتے ہیں۔ وہ شخص اپنی چالاکی سے حکومت تک پہنچ جاتا ہے۔
ان حکومتوں کی بات زیر غور ہے جنھوں نے اس ملک پر سالہا سال گزارے اس ملک و ملت کو کیا دیا؟ جواب آیا غربت، افلاس، بھوک،تنگی، جی ہاں دوچار کی بات نہیں اکثریتی عوام کی بات ہے جو دو وقت کھانے کی مشکل میں ہے وہ کسی کے لیے کیا کریں گے۔ ان کو تو اپنی غربت سے وقت نہیں۔ ان لوگوں کے پاس بہت وقت ہے جو بغیر کسی محنت، مشقت کے مال و زر سے اپنے خزانے بھررہے ہیں۔
کچھوے کی عادات ڈبکی لگانا اور بچھوکی عادت ڈنک مارنا جیسے میں نے عرض کیا ایسے لوگ ہم میں موجود ہیں۔ بالآخر 35 سالوں میں کافی حد تک پہچان چکے ہیں لیکن پھر بھی ان کے فریب کا شکار ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے جانور، کیڑے مکوڑے ایسے پیدا کیے جو انسانوں کو با خبر رکھتے ہیں جیسے مینڈک، ٹرٹراتے ہوئے برا ضرور لگتا ہے لیکن وہ ہوشیار کرتا ہے اور جب جھینگر اندھیری رات میں اپنی خاردار ٹانگ کو رگڑ کر آواز نکالتا ہے لوگ سنتے ہیں وہ ان تمام کو تاریک رات میں ہوشیار تو کرتا ہے دوسری طرف چور اور ڈاکوؤں کو ڈراتا بھی ہے۔ وہ اس کی آواز سن کر بھاگ جاتے ہیں۔
اس لیے کہ انھیں معلوم ہے گھر میں کوئی ایک ضرور جھینگر کی سریلی آواز سے جاگ رہا ہوگا۔ علاقہ کا چوکیدار اپنی لاٹھی کسی پتھر پر مار کر آواز لگاتا ''جاگتے رہنا'' جب کہیں چوری ہوتی اور چوکیدار سے کہاجاتا تو اس کا جواب معقول تھا یہ چوری فجرکی اذان کے بعد ہوئی ہے جب میں فجر کی نماز پڑھنے مسجد گیا تھا۔ لوگ اس کی بات پر یقین کرتے اس لیے کہ کسی کو صحیح نہیں معلوم تھا اس گھر میں چوری کس وقت ہوئی۔
کیا کہیں، کس کو کہیں، سچائی تلخ ہوتی ہے ہر کوئی برداشت نہیں کرسکتا جب عادت جھوٹ بولنے، ملت کو دھوکا دینے کی ہو تو مشکل ہے وہ راہ مستقیم پر آئیں۔ جب برصغیر میں برٹش راج قائم ہوا۔ اگر کوئی عام معمولی، غریب انسان صرف دو الفاظ بھی ادا کردیتا تو اس کو قتل کردیا جاتا بلکہ اس علاقے میں قتل عام شروع ہوجاتا۔ یہ سب مسلمانوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ غیر مسلموں کو چھوٹ دی ہوئی تھی۔
تعجب ہے برٹش راج گزرے اکہتر سال بیت گئے لیکن ابھی بھی تاج برطانیہ کے قانون پر چل رہے ہیں۔ ہماری مسلم مملکت ہے حکمران بھی مسلمان اور عوام کی اکثریت بھی مسلمان لیکن ابھی بھی یورپ کے ممالک ہمارے خلاف نہایت چالاکی و مکاری سے کام کررہے ہیں جو انھوں نے ہمارے ملک کے غداروں کو خرید لیا ہے چونکہ وہ بکاؤ مال ہیں اس لیے اپنے ملک و ملت کے خلاف سرگرمیوں میں کوشاں ہیں۔
بہت باتیں عیاں ہوچکی ہیں، یہ بھی معلوم ہوا کہ کون سا ملک ہمارے ملک کے خلاف اور کون سا ملک ہماری حمایت کررہاہے۔ بزرگوں نے کہاہے کہ اگر دوست کو سمجھنا ہو تو برے وقت میں اس کی پہچان ہوتی ہے۔ یہ بات بالکل بلکہ سو فی صد ہر دور میں پوری ہے۔ ہماری فطرت ہے بہت جلد کسی کے لیے بلند بانگ باتیں، نعرے، قصیدہ خوانی شروع کردیتے ہیں جب برا وقت آتا ہے تو وہی ملک یا فرد جس کی ہم کسی پل تعریف کرنے سے نہیں رکے آج وہی خاموش ہوجاتا ہے یا بظاہر خلاف۔
اب کیا کہوں کیا بتاؤں کس کی بات کروں بلکہ میں سمجھنے سے قاصر ہوں اس طویل عرصے میں ہم ان لوگوں کو کیوں نہیں سمجھ سکے جو ہر انتخاب پر لچھے دار تقریر کرتے، بڑے بڑے وعدے کرتے اتنا بڑا وعدہ کرلیا کہ آسمان کے تارے توڑ کر لے آئیں گے جب کہ ایسا ممکن نہیں لیکن اس ملک کی سادہ، شریف النفس اور غریب عوام نے یقین کرلیا۔
''تالا علی گڑھ کا'' پرانی بات بے اب تو بڑی کمپنیاں آٹو میٹک تالوں کے ساتھ ہمہ و اقسام کے تالے بنارہی ہیں۔ چابی کی کہیں بات نہیں ہوئی تالے کی بات شاید یہ سب ہی نے کی ہوگی۔ چونکہ بحیثیت مسلمان ہمیں یقین رہا کوئی تالا کیسا ہو ایمان کی طاقت، ہماری ہمت حوصلہ اس کو کھول دے گا۔ تاریخ گواہ ہے ایسا ہی ہوا۔ نہ جانے کیوں اب ہم ان لوگوں کے ڈر و خوف میں ہیں جن کے دست تالوں میں ہیں۔ میرے بزرگ آج بھی نا امید نہیں، وہ کہتے ہیں فکر نہ کریں ایک دن ضرور ایسا آئے گا جب یہ سارے عوام ان بد کرداروں کے خلاف کھڑی ہوں گے ان کے ہاتھوں سے سارے تالے نیچے گر جائیں گے جسے عوام کھول دیں گے۔
ہاں یاد آیا! جن لوگوں نے باریاں لگانے کو کہا بلکہ باری لگائی آج وہی لوگ ان کے حواری مضطرب، تڑپ رہے ہیں ان کی بے چینی اور تڑپ کو دیکھ کر سچائی سامنے آئی ہے۔ انھوں نے برا کیا تو اب یہ اس کو بھگتیں گے۔ مکافات عمل ہے برا کیا ہے تو برا ہوگا۔ اچھا کیا ہے تو اچھا ہوگا ۔
بچپن کی بات یاد آرہی ہے سنتے تھے ایک آدمی کے پاس گھاس کا گٹھا، بکری اور شیر ہے سامنے پل سے اس کو دوسری طرف جانے کے لیے خود اور ایک گھاس بکری یا شہر کو لے جانا ہے۔ وہاں اس کو چھوڑ کر اکیلے آئے اور دوسرے کو لے جائے، سوچتے رہے وہ انسان اپنے ساتھ کس کو لے جائے گا۔ واپس آکر کس کو لے گا، پہلے اس کا جواب غلط ہوا لیکن بعد میں صحیح ہوگیا۔ یہ سمجھ لیں اگر آج کچھ غلط ہوجائے گا تو کل ضرور صحیح ہوگا ہم سب لوگ صحیح جواب حاصل کرلیں گے۔
حقیقت ہے ہم سب کو صحیح جواب کی ضرورت ہے تاکہ متحد ہوسکیں جو شیرازہ بکھر گیا۔ جس سے ہمارے دشمنوں نے فائدہ حاصل کیا۔ اس ملک کے 22 کروڑ عوام کو تمام اختلافات بھلاکر ایک ساتھ ہونا پڑے گا کیونکہ اس میں ہمارے ملک اور قوم کی بہتری ہے۔ امریکی اور برطانیہ شاید نہ چاہیں کہ پاکستان کے عوام یکجا ہوں ان کو یہ خوف ہوگا اگر 22 کروڑ ایک پلیٹ فارم پر ہوگئے تو ہمارا مطیع وفرماں بردارکون ہوگا؟
دوسری بار پھر ڈنگ مارا، کچھوا بولا ''پھر ڈنک لگایا تم نے '' بچھو نے عاجزی سے کہا ''اب نہیں ہوگا۔'' لیکن جب تیسری بار بچھو نے ڈنک مارا تو کچھوا بولا '' تم باز نہیں آئے مجھے ڈنک مار رہے ہو۔'' بچھو بولا ''کیا کروں یہ میری عادت ہے۔ ''کچھوے نے پانی میں ڈبکی لگائی، بچھو پانی میں نیچے اوپر ہوا تو بولا ''تم نے کیوں ڈبکی لگائی، جب میں تمہاری پیٹھ پر بیٹھا تھا۔'' کچھوا بولا ''تمہاری ڈنک مارنا عادت ہے، میری ڈبکی لگانا عادت ہے۔''
کیڑے مکوڑے، حشرات الارض، جانور ان کی نسلاً جو عادات ہیں وہ نہیں بدلتیں لیکن انسان جو اشرف المخلوقات ہے ان میں مختلف اچھی بری عادات موجود ہیں۔ وہ بھی نسل در نسل چلی آرہی ہیں۔ میں سب کی بات نہیں کررہا چند جانوروں کی عادتوں سے مشابہ کیے حیات نہیں مثلاً کسی کے بارے میں کہتے ہیں یہ آدمی خطرناک ہے معلوم بھی نہیں ہوتا اور ڈنک مارتا ہے بچھو ہے بچھو۔ کسی کے بارے میں کہاجاتا ہے یہ بہت چالاک، مکار، عیار ہے اس سے بچنا لیکن شریف النفس غریب لوگ چاہتے ہوئے بھی ایسے مختلف النوع لوگوں سے نہیں بچ پاتے۔ بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے وہ ایسے چالاک، عیار، مکار ڈنک مارنے والے لوگوں کو اپنا نمایندہ بنالیتے ہیں۔ وہ شخص اپنی چالاکی سے حکومت تک پہنچ جاتا ہے۔
ان حکومتوں کی بات زیر غور ہے جنھوں نے اس ملک پر سالہا سال گزارے اس ملک و ملت کو کیا دیا؟ جواب آیا غربت، افلاس، بھوک،تنگی، جی ہاں دوچار کی بات نہیں اکثریتی عوام کی بات ہے جو دو وقت کھانے کی مشکل میں ہے وہ کسی کے لیے کیا کریں گے۔ ان کو تو اپنی غربت سے وقت نہیں۔ ان لوگوں کے پاس بہت وقت ہے جو بغیر کسی محنت، مشقت کے مال و زر سے اپنے خزانے بھررہے ہیں۔
کچھوے کی عادات ڈبکی لگانا اور بچھوکی عادت ڈنک مارنا جیسے میں نے عرض کیا ایسے لوگ ہم میں موجود ہیں۔ بالآخر 35 سالوں میں کافی حد تک پہچان چکے ہیں لیکن پھر بھی ان کے فریب کا شکار ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے جانور، کیڑے مکوڑے ایسے پیدا کیے جو انسانوں کو با خبر رکھتے ہیں جیسے مینڈک، ٹرٹراتے ہوئے برا ضرور لگتا ہے لیکن وہ ہوشیار کرتا ہے اور جب جھینگر اندھیری رات میں اپنی خاردار ٹانگ کو رگڑ کر آواز نکالتا ہے لوگ سنتے ہیں وہ ان تمام کو تاریک رات میں ہوشیار تو کرتا ہے دوسری طرف چور اور ڈاکوؤں کو ڈراتا بھی ہے۔ وہ اس کی آواز سن کر بھاگ جاتے ہیں۔
اس لیے کہ انھیں معلوم ہے گھر میں کوئی ایک ضرور جھینگر کی سریلی آواز سے جاگ رہا ہوگا۔ علاقہ کا چوکیدار اپنی لاٹھی کسی پتھر پر مار کر آواز لگاتا ''جاگتے رہنا'' جب کہیں چوری ہوتی اور چوکیدار سے کہاجاتا تو اس کا جواب معقول تھا یہ چوری فجرکی اذان کے بعد ہوئی ہے جب میں فجر کی نماز پڑھنے مسجد گیا تھا۔ لوگ اس کی بات پر یقین کرتے اس لیے کہ کسی کو صحیح نہیں معلوم تھا اس گھر میں چوری کس وقت ہوئی۔
کیا کہیں، کس کو کہیں، سچائی تلخ ہوتی ہے ہر کوئی برداشت نہیں کرسکتا جب عادت جھوٹ بولنے، ملت کو دھوکا دینے کی ہو تو مشکل ہے وہ راہ مستقیم پر آئیں۔ جب برصغیر میں برٹش راج قائم ہوا۔ اگر کوئی عام معمولی، غریب انسان صرف دو الفاظ بھی ادا کردیتا تو اس کو قتل کردیا جاتا بلکہ اس علاقے میں قتل عام شروع ہوجاتا۔ یہ سب مسلمانوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ غیر مسلموں کو چھوٹ دی ہوئی تھی۔
تعجب ہے برٹش راج گزرے اکہتر سال بیت گئے لیکن ابھی بھی تاج برطانیہ کے قانون پر چل رہے ہیں۔ ہماری مسلم مملکت ہے حکمران بھی مسلمان اور عوام کی اکثریت بھی مسلمان لیکن ابھی بھی یورپ کے ممالک ہمارے خلاف نہایت چالاکی و مکاری سے کام کررہے ہیں جو انھوں نے ہمارے ملک کے غداروں کو خرید لیا ہے چونکہ وہ بکاؤ مال ہیں اس لیے اپنے ملک و ملت کے خلاف سرگرمیوں میں کوشاں ہیں۔
بہت باتیں عیاں ہوچکی ہیں، یہ بھی معلوم ہوا کہ کون سا ملک ہمارے ملک کے خلاف اور کون سا ملک ہماری حمایت کررہاہے۔ بزرگوں نے کہاہے کہ اگر دوست کو سمجھنا ہو تو برے وقت میں اس کی پہچان ہوتی ہے۔ یہ بات بالکل بلکہ سو فی صد ہر دور میں پوری ہے۔ ہماری فطرت ہے بہت جلد کسی کے لیے بلند بانگ باتیں، نعرے، قصیدہ خوانی شروع کردیتے ہیں جب برا وقت آتا ہے تو وہی ملک یا فرد جس کی ہم کسی پل تعریف کرنے سے نہیں رکے آج وہی خاموش ہوجاتا ہے یا بظاہر خلاف۔
اب کیا کہوں کیا بتاؤں کس کی بات کروں بلکہ میں سمجھنے سے قاصر ہوں اس طویل عرصے میں ہم ان لوگوں کو کیوں نہیں سمجھ سکے جو ہر انتخاب پر لچھے دار تقریر کرتے، بڑے بڑے وعدے کرتے اتنا بڑا وعدہ کرلیا کہ آسمان کے تارے توڑ کر لے آئیں گے جب کہ ایسا ممکن نہیں لیکن اس ملک کی سادہ، شریف النفس اور غریب عوام نے یقین کرلیا۔
''تالا علی گڑھ کا'' پرانی بات بے اب تو بڑی کمپنیاں آٹو میٹک تالوں کے ساتھ ہمہ و اقسام کے تالے بنارہی ہیں۔ چابی کی کہیں بات نہیں ہوئی تالے کی بات شاید یہ سب ہی نے کی ہوگی۔ چونکہ بحیثیت مسلمان ہمیں یقین رہا کوئی تالا کیسا ہو ایمان کی طاقت، ہماری ہمت حوصلہ اس کو کھول دے گا۔ تاریخ گواہ ہے ایسا ہی ہوا۔ نہ جانے کیوں اب ہم ان لوگوں کے ڈر و خوف میں ہیں جن کے دست تالوں میں ہیں۔ میرے بزرگ آج بھی نا امید نہیں، وہ کہتے ہیں فکر نہ کریں ایک دن ضرور ایسا آئے گا جب یہ سارے عوام ان بد کرداروں کے خلاف کھڑی ہوں گے ان کے ہاتھوں سے سارے تالے نیچے گر جائیں گے جسے عوام کھول دیں گے۔
ہاں یاد آیا! جن لوگوں نے باریاں لگانے کو کہا بلکہ باری لگائی آج وہی لوگ ان کے حواری مضطرب، تڑپ رہے ہیں ان کی بے چینی اور تڑپ کو دیکھ کر سچائی سامنے آئی ہے۔ انھوں نے برا کیا تو اب یہ اس کو بھگتیں گے۔ مکافات عمل ہے برا کیا ہے تو برا ہوگا۔ اچھا کیا ہے تو اچھا ہوگا ۔
بچپن کی بات یاد آرہی ہے سنتے تھے ایک آدمی کے پاس گھاس کا گٹھا، بکری اور شیر ہے سامنے پل سے اس کو دوسری طرف جانے کے لیے خود اور ایک گھاس بکری یا شہر کو لے جانا ہے۔ وہاں اس کو چھوڑ کر اکیلے آئے اور دوسرے کو لے جائے، سوچتے رہے وہ انسان اپنے ساتھ کس کو لے جائے گا۔ واپس آکر کس کو لے گا، پہلے اس کا جواب غلط ہوا لیکن بعد میں صحیح ہوگیا۔ یہ سمجھ لیں اگر آج کچھ غلط ہوجائے گا تو کل ضرور صحیح ہوگا ہم سب لوگ صحیح جواب حاصل کرلیں گے۔
حقیقت ہے ہم سب کو صحیح جواب کی ضرورت ہے تاکہ متحد ہوسکیں جو شیرازہ بکھر گیا۔ جس سے ہمارے دشمنوں نے فائدہ حاصل کیا۔ اس ملک کے 22 کروڑ عوام کو تمام اختلافات بھلاکر ایک ساتھ ہونا پڑے گا کیونکہ اس میں ہمارے ملک اور قوم کی بہتری ہے۔ امریکی اور برطانیہ شاید نہ چاہیں کہ پاکستان کے عوام یکجا ہوں ان کو یہ خوف ہوگا اگر 22 کروڑ ایک پلیٹ فارم پر ہوگئے تو ہمارا مطیع وفرماں بردارکون ہوگا؟