آج کل اسکرپٹ کے بغیر ہی کام چل رہا ہے عاصم بخاری

فنکار اسکرین پر نظر نہ آئے تو لوگ بھی اسے فراموش کر دیتے ہیں۔

فنکار اسکرین پر نظر نہ آئے تو لوگ بھی اسے فراموش کر دیتے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

حفیظ جالندھری نے کہا تھا:
تشکیل و تکمیل فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں

یہ بات معروف اداکار عاصم بخاری پر بھی صادق آتی ہے جو بیس اکیس برس کی عمر میں اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ ہوئے، جب اس کا آغاز ہوا۔ اپنے طویل فنی سفر میں انہوں نے 50 سٹیج ڈراموں، 250 فلموں اور 600 سے زائد ٹی وی ڈراموں میں کام کیا۔ ریڈیو میں کمپیئرنگ کے علاوہ انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے ڈرامے بھی لکھے۔ وہ پنجابی کے بہت اچھے شاعر بھی ہیں، اب تک ان کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔

عاصم بخاری کا تعلق اندرون لاہور موچی دروازے سے ہے، جہاں وہ 1944ء میں پیدا ہوئے۔ خاندانی پس منظر مذہبی تھا، دادا قرآن پاک کا درس دیتے، جب کہ نانا امام مسجد تھے۔ والد فکر معاش کی خاطر مختلف شہروں میں ملازمت کرتے رہے، چنانچہ یہ اپنے تایا کے ساتھ رہے جو فاریسٹ آفیسر تھے۔ سرگودھا سے میٹرک کرنے کے بعد اپنے ابا کے پاس کراچی چلے گئے اور وہاں کامرس کی تعلیم کا آغاز کر دیا۔ ابھی زیر تعلیم ہی تھے کہ نیشنل بینک میں ملازمت مل گئی، چنانچہ وہ ڈگری ادھوری چھوڑ کر 1961ء میں لاہور آ گئے۔ بے روزگاری کے زمانے میں وہ سٹیج پر کام کرنے کا تجربہ حاصل کر چکے تھے۔

ہوا یوں کہ ایک مرتبہ دوست کے ساتھ سٹیج ڈرامے کی ریہرسل دیکھنے گئے۔ ڈائریکٹر نے انہیں بھی کام کرنے کی پیشکش کی، جو انہوں نے فوراً قبول کر لی۔ 1964ء میں ان کے بینک نے ایک ڈرامیٹک کلب بنائی جس کے تحت ایک ڈراما کیا گیا۔ اس ڈرامے میں دوسرے فنکاروں کے ساتھ ننھا مرحوم، جمیل فخری اور خود انہوں نے بھی حصہ لیا۔ پی ٹی وی، جس کا نیا نیا آغاز ہوا تھا، کے لوگ بھی یہ ڈراما دیکھنے آئے ہوئے تھے، ان کے کہنے پر انہوں نے ٹی وی کیلئے آڈیشن دیا اور تین دن بعد ایک ڈرامے کا اسکرپٹ ان کے ہاتھوں میں تھا۔ عاصم بخاری کہتے ہیں، ''میں خاندان کا پہلا فرد ہوں جو اس شعبے میں آیا۔ اب خاندان میں میرے جو بڑے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ تم میں اس کی صلاحیت قدرتی طور پر تھی۔''

تھیٹر، ریڈیو، ٹی وی اور فلم میں کام کے تجربے کو وہ مختلف نوعیت کا قرار دیتے ہیں، جن میں سے ہر ایک کا اپنا مزا ہے۔ ان کے بقول، ''تھیٹر کی خوبی یہ ہے کہ آپ کو اپنے کارکردگی کا فیڈ بیک فوراً مل جاتا ہے، گویا ادھر ہی محنت کا صلہ وصول ہو جاتا ہے۔ ریڈیو میں آپ نے صرف اپنی آواز کے ذریعے لوگوں تک بات پہنچانی ہے، آپ کے سامنے صرف مائیک ہوتا ہے، لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں کہ کون کون آپ کو سن رہا ہے۔ وہاں ایک تصوراتی کیفیت ہوتی ہے، جبکہ ٹی وی کے لیے آپ نے آواز کے ساتھ چہرے کے تاثرات بھی دینے ہوتے ہیں۔'' انہوں نے ریڈیو پاکستان کے لیے ''پنجاب رنگٔ'' کے نام سے ایک پروگرام کی میزبانی کی۔

ٹی وی ڈراموں کے گرتے ہوئے معیار پر وہ شاکی نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں، ''آج کل اسکرپٹ کے بغیر ہی کام چل رہا ہے، جو کسی بھی کھیل کی کامیابی کی بنیاد ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ فنکاروں کا انتخاب کردار کی ضرورت کے مطابق میرٹ پر کیا جائے، تعلقات کی بنیاد پر نہیں۔ باقی چیزیں بعد میں آتی ہیں۔ اب ایک جیسے ڈرامے بن رہے ہیں، نالائق لوگ آگے آ گئے ہیں۔ جو کھیل بن رہے ہیں، ان میں کوئی پیغام نہیں ہوتا۔ دعا ہے کہ ہمارا ٹی وی دوبارہ اسی عروج پر چلا جائے، جو ایک وقت ہماری پہچان تھا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کی سرپرستی میں مختلف شعبوں کے قابل لوگوں کو تلاش کیا جائے اور انہیں پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو میں لایا جائے۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو کو ٹھیک طریقے سے چلایا جائے تو ان کے سامنے نجی ادارے آج بھی صفر ہیں۔''

عاصم بخاری کے نزدیک اداکاری کی صلاحیت کسی بھی شخص میں قدرتی طور پر ہوتی ہے۔ ایک اچھے اداکار میں مشاہدے کی صلاحیت ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے کردار کو جلد سمجھ لے اور اس طرح کام کرے جو کہ کردار کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق، ''اصولی طور پر تو یہ ہونا چاہیے کہ کوئی بھی کردار کرنے کی حامی اسکرپٹ پڑھ کر کرنی چاہیے۔ لیکن کبھی کبھی کمپرومائز بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس میں میرا طریقہ یہ ہے کہ جو کردار پسند آئے وہ اس میں ڈوب کے کرتا ہوں، جو لوگوں کو آج بھی یاد ہیں۔ لیکن بعض رول کرتے ہوئے ڈیفنسو ہونا پڑتا ہے، محتاط ہو کر کام کرنا ہوتا ہے، جیسا کہ کرکٹ میں بعض اوقات آپ کو ڈیفنسو اسٹروک کھیلنا پڑتا ہے۔'' معاوضے کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ سینئر آرٹسٹ کو رکشے کا میٹر نہ بنائیں کہ اتنے دن کی دیہاڑی کے حساب سے اتنے پیسے بنتے ہیں۔ بلکہ کھیل میں ان کے کردار کے مطابق معاوضہ دیا جائے۔

کہتے ہیں، ''ویسے آج کل بزرگوں کی معاشرے میں ضرورت نہیں رہی اور ڈرامے میں تو ویسے ہی نہیں رہی۔'' انہوں نے شاعری کا آغاز قدرے تاخیر سے 1996ء میں کیا۔ ان کی شخصیت کی جو روحانی جہت ہے وہ ان کی شاعری میں صاف نظر آتی ہے۔ کہتے ہیں، ''اچانک ایک لہر آئی، جس نے مجھ سے یہ سب کہلوایا۔ میرے اندر کوئی بے چینی تھی، جب شاعری سے میں نے اپنی سوچ کو بیان کرنا شروع کیا تو اطمینان ملا۔'' پنجابی شاعری کے تین مجموعے 'دوہریاں شکلاں' ، 'سوچ اڈاری' اور 'دل چڑیاں دا آلنا' شائع ہو چکے ہیں۔


عاصم بخاری کی شادی 1974ء میں ہوئی۔ شریک حیات کا انتخاب ان کی والدہ نے کیا۔ دو بیٹوں، دو بیٹیوں کے والد ہیں۔ ان کے دونوں بیٹے اور چھوٹی بیٹی بطور چائلڈ آرٹسٹ ٹی وی میں بھی کام کر چکے ہیں۔ اجلال بخاری اور معطر بخاری کو 'عینک والا جن' میں کام کرنے پر بہت شہرت ملی۔ پوچھا، ''آپ کو خوشی ہوتی ہے؟'' مسکراتے ہوئے کہنے لگے: ''میں تو جلتا ہوں، پہلے کہا جاتا تھا کہ وہ عاصم بخاری کے بچے جا رہے ہیں۔ اب مجھے دیکھ کر کہا جاتا ہے کہ 'عینک والا جن' کے عمران کے ابوجا رہے ہیں۔'' پسندیدہ کھانے کے متعلق بتاتے ہیں، ''پسند کے کھانے یاد تو بہت آتے ہیں، لیکن اپنی صحت کو مدنظر رکھ کر کھانا کھاتا ہوں۔ والدہ مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں۔ اس لیے جب کوئی ایسی چیز پکی ہوتی جو مجھے پسند نہ تھی، تو وہ بڑی منتیں کر کے مجھے کھلایا کرتیں۔''

ان کی 2003ء میں اوپن ہارٹ سرجری ہو چکی ہے۔ عمر کے ساتھ صحت کے مسائل بھی درپیش رہتے ہیں، لیکن وہ بدستور اپنے فن سے وابستہ ہیں، کیونکہ ان کے مطابق اس شعبے میں ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں، ''جب کوئی آرٹسٹ اسکرین پر نظر نہیں آتا تو لوگ بھی اسے فراموش کر دیتے ہیں۔ یہ زندگی کی حقیقت ہے۔

لیکن میں جب تک ہمت ہے متحرک زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔'' حال ہی میں انہوں نے ایک شارٹ فلم اور ٹی وی ڈراما ریکارڈ کرایا ہے۔ زیادہ تر شوبز انڈسٹری اس وقت کراچی میں ہے، وہ بھی کراچی جانے کا سوچتے ہیں، لیکن گھر والے آمادہ نہیں ہوتے۔ سعودی عرب، چین، انڈیا، مصر، امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور کچھ دوسرے مماک جا چکے ہیں۔ ابھی بھی برطانیہ اور کینیڈا میں بچوں کے پاس وقت گزار کر لوٹے ہیں۔ کئی برسوں سے پان کھانے کی عادت ہو چکی ہے۔ زندگی میں کئی مشکلات دیکھیں، لیکن قدرت نے ساتھ دیا اور ان میں سے نکالا۔ ایک مرتبہ فلم بنائی جو ریلیز نہ ہو سکی، جس کی وجہ سے لاکھوں کا قرض چڑھ گیا۔ پھر سب گھر والوں نے مل کر ہمت کی اور وہ بتدریج اس مشکل سے نکل آئے۔ اپنے بارے میں بتاتے ہیں، ''میری پبلک ریلیشنگ بہت کمزور ہے۔ اس کا نقصان تو ہوتا ہے لیکن فائدہ یہ ہے کہ غیر متنازعہ رہا ہوں۔ جب کام ختم ہوا تو واپس گھر آ جاتا ہوں، مجھے صرف ایک دو آرٹسٹوں اور ڈائریکٹرز کے گھر کا پتا ہے۔ جب میں کل کا موازنہ آج سے کرتا ہوں تو اپنے آپ کو بادشاہ محسوس کرتا ہوں، جسے اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔'' حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں 'پرائیڈ آف پرفارمنس' دیا ہے۔

''جوانی میں ہی بوڑھا بنا دیا گیا''
پہلے دو سال مجھے ہیرو کے رول ملے۔ پھر سپورٹنگ رول ملنے لگے، اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ سر کے بال وقت سے پہلے ہی کم ہونا شروع ہو گئے۔ اسکرین پر مجھے جلد بوڑھا کرنے میں ٹی وی والوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، جنہوں نے 1980ء کے ایک ڈرامے میں مجھے دردانہ بٹ کے باپ کا کردار دیا۔ اس سے آپ اندازہ کر لیں۔ لیکن مجھے اس کا کوئی افسوس نہیں۔ سر پر پہلے کی طرح بال ہوتے تو پھر شاید افسوس ہوتا کیونکہ میں اپنے آپ کو ہیرو سمجھتا رہتا۔ ہیرو کے کردار کے لیے مسابقت زیادہ ہوتی ہے، جب کہ باپ تو میں کسی کا بھی ہو سکتا ہوں۔ اس لیے ہیرو میرے سامنے کون ہوتا ہے، بچہ ہے اپنا۔

''آرٹ برائے آرٹ کا قائل نہیں''
عاصم بخاری آرٹ برائے آرٹ کے قائل نہیں، وہ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو تفریح کے انداز میں بھلائی کا پیغام دینا چاہیے۔ کیونکہ وعظ کے انداز میں کسی کو بات سمجھائی جائے تو وہ اس پر دھیان نہیں دیتا، لیکن یہ پیغام ایک کھیل کی صورت میں دیا جائے، تو لوگ اس کا زیادہ اثر قبول کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ''کسی ڈرامے کے ایک سین میں مجھے تہجد پڑھتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس کے کئی برس بعد مجھے کراچی میں ایک شخص نے بتایا کہ وہ سین دیکھنے کے بعد اس نے کبھی تہجد کی نماز نہیں چھوڑی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مقصد نیک ہو تو اداکاری بھی عبادت ہے۔''

''اشفاق احمد میرے روحانی استاد ہیں''
وہ اشفاق احمد کو اپنا روحانی استاد قرار دیتے ہیں، جن سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ۔ کہتے ہیں، ''اشفاق احمد خود شوٹنگ پر تشریف لاتے اور فنکاروں کو سمجھاتے کہ کوئی سین کیسے کرنا ہے۔ لیکن ان کی اچھی بات یہ تھی کہ اپنی بات کہہ کر وہ ایک طرف ہو جاتے اور کہتے کہ یہ اسکرپٹ اب میرا نہیں، تمھارا ہے۔ اشفاق صاحب کے ڈرامے میں آپ اس وقت تک صحیح طور پر کام نہیں کر سکتے، جب تک اس بات کی تہہ تک نہیں پہنچ جاتے، جو وہ اصل میں کہلوانا چاہتے ہیں۔ مثلاً ایک ڈرامے میں انہوں نے مجھے پیر بابا کا کردار دیا۔ کہنے لگے: یہ اصل والا پیر ہے، اور اس کردار کی شرط یہ ہے کہ تم نیچے بیٹھے ہوئے ہو، اور تمھارے سامنے کھڑے ہو کر کوئی بات کر رہا ہے تو اوپر دیکھتے ہوئے تمھارے ماتھے پر بل نہیں پڑنے چاہئیں۔''

''ایک واقعے نے دولت کی محبت ختم کر دی''
میرے ساتھ بزرگوںکی دعائیں شامل ہیں، جب بھی مشکل وقت آتا ہے وہ ہاتھ تھام لیتے ہیں۔ ایک واقعہ ایسا بھی پیش آیا جس نے دل سے پیسوں کی محبت نکال دی۔1979ء میں والدہ بیمار ہوئیں۔ ایک دن کہنے لگیں: مجھے افسوس ہے کہ میری بیماری کی وجہ سے تمھیں پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں، جو تم بڑی محنت سے کماتے ہو۔ میں نے کہا، آپ کو توخوش ہونا چاہیے کہ اللہ نے توفیق دی اور مجھے کسی سے مانگنا نہیں پڑتا۔ پھر میں نے ازراہ مذاق کہا، اب فوت نہ ہو جائیے گا کیونکہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ کچھ برس بعد جب ان کا انتقال ہوا تو مجھے مختلف پروگراموں سے بہت پیسے آ رہے تھے۔ اس وقت میں نے سوچا: یا اللہ ، ضرورت کے مطابق پیسے ضرور دے تاکہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے ، زیادہ دینا ہے تو بھی دے لیکن خوشی کے لیے دے، غم کے لیے نہ دے۔
Load Next Story