وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو الیکشن کا کیا فائدہ وزیراطلاعات

اگر صرف بیوروکریٹس کے ذریعے ہی حکومت چلانی ہے تو پھر الیکشن نہ کراتے، فواد چوہدری


ویب ڈیسک October 30, 2018
اگر صرف بیوروکریٹس کے ذریعے ہی حکومت چلانی ہے تو پھر الیکشن نہ کرائے جاتے، فواد چوہدری فوٹو:فائل

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو پھر وزیراعظم منتخب کرنے اور الیکشن کرانے کا کیا فائدہ ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک آئی جی کس طرح یہ کرسکتا ہے کہ وفاقی وزیر کا فون نہ سنے اور واپس فون کرنے کی زحمت بھی نہ کرے، اگر صرف بیوروکریٹس کے ذریعے ہی حکومت چلانی ہے تو پھر الیکشن نہ کراتے، اگر وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو پھر وزیراعظم منتخب کرنے اور الیکشن کرانے کا کیا فائدہ، بیورو کریٹس کے ذریعے ہی حکومت چلالیتے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے وزیراعظم کے زبانی حکم پر کیا گیا آئی جی کا تبادلہ روک دیا

فواد چوہدری نے کہا کہ اگر سرکاری افسر حکومت یا اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کے فون نہیں اٹھائے گا تو سیاسی نگرانی کیسے ہوگی، پھر جمہوریت نہیں بلکہ اشرافیہ کی حکومت ہوگی، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو آئی جی جوابدہ ہوتا ہے، بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ سرکاری افسر فون نہ اٹھائے تو ہیرو بن جائے گا، لیکن اس سے ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔

وزیر اطلاعات نے بتایا کہ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے پہلے بھی وزیراعظم سے شکایت کی تھی کہ اسلام آباد پولیس تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کے خلاف کارروائی نہیں کررہی اور آئی جی اسلام آباد اس سلسلے میں نہ تعاون کررہے ہیں اور نہ ہی فون اٹھاتے ہیں، شہریار آفریدی نے وزیراعظم سے یہ بھی شکایت بھی کی تھی کہ اسلام آباد پولیس کے تھانوں اور ناکوں پر رشوت وصول کی جاتی ہے، جسے ختم کرنے کےلیے بھی آئی جی تعاون نہیں کررہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم نے خیبرپختون خوا میں بھی حکومت کی ہے وہاں اس طرح کی کوئی شکایت نہیں، صرف پنجاب اور اسلام آباد میں ایسا کیوں ہورہا ہے، ن لیگ اتنا زیادہ عرصہ یہاں حکومت میں رہی ہے کہ پھر جمہوریت نہیں رہتی بلکہ بادشاہت بن گئی ہے، بیوروکریسی بعض معاملات میں حکومتی پالیسی پر عملدرآمد نہیں کررہی، جو ہماری پالیسی پر عمل نہیں کرے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ اپنے اختیارات استعمال کریں گے، سپریم کورٹ قابل احترام ادارہ ہے جہاں حکومت اپنا موقف پیش کرے گی، یہ ممکن نہیں کہ وزرا اور وزیراعظم کو آئی جی ، ڈی سی اور ایس پی گھاس نہ ڈالے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا جب بنی گالا میں گھر بنا تو اسلام آباد کی حدود میں نہیں آتا تھا، موڑا نور یونین کونسل کا حصہ تھا، انہوں نے گھر بنانے کی اجازت دی، 30 سال بعد سی ڈی اے نے گھر کو اپنی حدود میں شامل کیا، لیکن وہاں پرانے گھر پچھلے قانون کے تحت بنے ہوئے ہیں جو غیر قانونی نہیں ہیں۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی سیاست اتنی ہی رہ گئی ہے کہ وہ دوسروں کو ملنے کےلیے پارلیمنٹ ہاؤس آسکتے ہیں، شہباز شریف اور آصف زرداری میں جھگڑا اس بات کا ہے کہ دونوں میں بڑا کون ہے، این آر او لینے کے لیے اے پی سی ہورہی ہے، فضل الرحمن اور آصف زرداری وزیراعظم سے یقین دہانی چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف مقدمات ختم کردیے جائیں تو جمہوریت بحال ہوجائے گی، لیکن کچھ بھی ہوجائے این آر او نہیں ہوگا۔

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ شہباز شریف کو پی اے سی کا چیرمین نہیں بناسکتے، وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا اجلاس کیا جیل میں بلائیں گے، اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) صرف این آر او کے لیے ہورہی ہے، حکومت کہہ رہی ہے نہ رو جب کہ اپوزیشن کہہ رہی ہے این آر او۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں