اور اب میرا بجٹ بھی منظور فرمائیں

وفاق اور صوبوں کی بجٹ کہانی تمام ہوئی۔ بجٹ زدگان کی کہانی سال بھر قسطوں میں تمام ہو گی۔ اس سالانہ سرکاری دستاویز۔۔۔


Abdul Qadir Hassan June 18, 2013
[email protected]

وفاق اور صوبوں کی بجٹ کہانی تمام ہوئی۔ بجٹ زدگان کی کہانی سال بھر قسطوں میں تمام ہو گی۔ اس سالانہ سرکاری دستاویز میں جس کو جو ملنا تھا وہ مل گیا۔ غریب کو مزید غربت اور امیر کو مزید امارت مل گئی۔ ہمارا پہلا بجٹ مجھے یاد آ رہا ہے جو میں نے پرانی کتابوں میں پڑھا ہے۔ پہلی بار جب کسی کو نئی ریاست کا سربراہ مقرر کیا گیا تو سوال یہ پیدا ہوا کہ بجٹ میں اس حکمران کی تنخواہ یعنی اس کی شایان شان مراعات کیا مقرر کی جائیں۔ اگر آج کے مسلمان کہلانے والے اور اسلامی جمہوریہ کہلانے والے ملک کے حکمران ناراض نہ ہوں یا انھیں شرم محسوس نہ ہو جس کا کوئی امکان نہیں تو میں عرض کروں کہ اس حکمران کو پہلے تو یہ ہدایت کی گئی یا مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنا کاروبار ترک کر دیں اور بازار میں اپنی کپڑے کی دکان بند کر دیں کیونکہ جس بازار میں حکمران کی دکان ہو گی وہاں اور کس کی دکان چل سکے گی۔ یہ معقول بات فوراً تسلیم کر لی گئی۔

اب یہاں سے یہ سوال پیدا ہوا کہ جب ذاتی آمدن کا یہ راستہ بند ہو گا تو حکمران کا گزر بسر کیسے ہو گا۔ اس سلسلے میں مناسب سمجھا گیا کہ حکمران سے ہی پوچھ لیا جائے۔ پوچھا گیا تو جواب ملا کہ ان دنوں دارالحکومت مدینہ کے مزدور کی جو روزانہ مزدوری ہے، اس کے برابر میری تنخواہ کافی ہو گی۔ ساتھیوں نے کہا کہ اب آپ کے جو اخراجات ہوں گے وہ اس بہت کم آمدنی سے پورے نہیں ہو سکیں گے۔ اس کا آسان جواب بھی موجود تھا کہ پھر میں مدینہ کے عام مزدور کی دیہاڑی بھی بڑھا دوں گا۔ اس بات کو آسان اور عام فہم زبان میں یوں بیاں کریں کہ ہماری پہلی اسلامی ریاست مدینہ کا حکمران اپنے لیے ایک عام شہری سے زیادہ آمدن نہیں چاہتا تھا، وہ ایک عام آدمی بن کر رہنا چاہتا تھا، اسے یہی پسند تھا چنانچہ خلیفہ اول صدیق اکبرؓ کو جن کے مقام و مرتبے کا ذکر قرآن تک میں بھی موجود ہے ان کے حال اور مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔ اس ریاست کے ایک برگزیدہ اور نامور سخت جان آدمی عمر بن خطابؓ نے یہ سن کر کہا کہ اس نے تو اپنے بعد آنے والوں کے لیے زندگی مشکل کر دی۔

تو عرض یہ ہے کہ ایک حقیقی عوامی ریاست کا یہ پہلا بجٹ تھا جو آنے والے کئی حکمرانوں تک ایک معیار اور قانون بن کر زیر عمل اور زندہ رہا۔ اسی سلسلے کا ایک حکمران جو بہت بعد میں آیا، اپنی بیوی کے اصرار پر عید کے موقعے کی وجہ سے بچیوں کو نئے کپڑے دینے کا بندوبست کرتا رہا۔ بیوی جو ایک شہزادی تھی' اس نے بتا دیا کہ اس کے پاس تو اب کچھ نہیں ہے چنانچہ مجبور ہو کر وقت کا حکمران اپنے مہتمم خزانہ یعنی بیت المال میں یہ درخواست لے کر پہنچا کہ اسے تنخواہ ایڈوانس دے دی جائے۔ خزانے کے انچارج نے عرض کیا کہ آپ مالک ہیں جو آپ کا حکم لیکن کیا آیندہ ماہ کی تنخواہ تک آپ زندہ رہیں گے کہ ہم اس پیشگی کو وصول کر سکیں۔ یہ سن کر خلیفہ وقت نے سر جھکا دیا اور گھر آ کر بیوی سے کہا کہ بچیوں کے پرانے کپڑوں کو دھو دھا کر ذرا بہتر کر کے ان کا دل بہلا دو۔ نئے تو نہیں مل سکتے۔ عمر بن عبدالعزیز نے خلافت کا حلف اٹھاتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ حلف کے بعد مسجد میں بیٹھے رہے، اپنے شاہی خاندان کی جائیداد کی دستاویزات طلب کیں اور رات گئے تک انھیں قینچی کے ساتھ کترتے رہے اور جو بچ گئیں انھیں اگلی صبح تک رکھوا دیا۔ یہ دستاویزات شاہی خاندان کی ناجائز جائیداد کی تھیں جو انھوں نے اپنے اقتدار میں لوٹ مار کر کے بنائی تھی اور ناجائز تھی یعنی پاکستانی اشرافیہ کی تھی،کرپشن والی۔

میں نے بجٹ کے حوالے سے یہ کچھ عرض تو کر دیا لیکن میں اپنے حکمرانوں سے دلی معذرت چاہتا ہوں اگر ان کی دل شکنی ہوئی ہے یا بچے کھچے ضمیر نے کچھ ملامت کی ہے۔ وقت کے تقاضے اور روایات آج بالکل مختلف ہیں، وفاق اور چاروں صوبوں کے بجٹ ہمارے سامنے ہیں جن کے مطابق ہم نے آنے والا سال بسر کرنا ہے، یہی ہمارا زمانہ ہے اور یہی ہماری آج کی زندگی ہے۔ ہم غریبوں امیروں سب کو اللہ تعالیٰ صبر و شکر کی توفیق دے اور ساز و سامان والے دشمنوں کے مقابلے کی توفیق بھی دے۔ یہ بھی لازم ہے۔

جن لوگوں نے ہماری اسلامی ریاست کے ابتدائی بجٹ بنائے تھے، وہ بھی ہماری طرح کے انسان تھے، کسی کے چار ہاتھ نہیں تھے اور کوئی پیٹ کے بغیر نہیں تھا لیکن دل و دماغ میں جن نظریات نے گھر کر رکھا تھا وہ ہاتھ بھی روکتے تھے اور پیٹ کی خواہش کو بھی، اس لیے کہ وہ جن لوگوں کی نمایندگی کرتے تھے، ان میں غریب زیادہ تھے اور یہ حکمران با اثر امیروں سے زیادہ غریبوں کے نمایندے تھے کیونکہ ان کا کوئی نہیں تھا۔ ان کی جوان بیٹیاں اہل خانہ کی بھوک مٹانے کے لیے اجنبی مسافروں سے بھری بس میں سوار لوگوں کی خدمت کرتی اور تھپڑ کھاتی تھیں، پھر حوالات میں بھی جاتی تھیں۔ میں نے یہ کالم اپنا بجٹ پیش کرنے کے حوالے سے لکھنا شروع کیا تھا مگر بات بہت زیادہ دور چلی گئی۔ بہر کیف میں اپنے بجٹ کے بارے میں اب صرف ایک دو اشارے ہی کر سکتا ہوں۔ پہلا اشارہ یہ ہے کہ زندگی کو آسان اور بڑے لوگوں کے بجٹ کی دست درازیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام آلائشیں اتار دو اور اپنی غریبی اور بے سرو سامانی کی طاقت سے بجٹ سازوں کو عبرت ناک شکست دے دو جن لوگوں کی جمع پونجی اور اصل دولت ملک سے باہر ہے جن کی آل اولاد ملک سے باہر ہے، انھیں آپ کی کیا پروا اور آپ کا کیا دکھ درد۔ مثلاً سونا مہنگا ہوتا ہے یا ڈالر لیکن مجھے کیا پروا نہ مجھے ایک رتی سونا درکار ہے نہ ایک سینٹ ڈالر۔ میں تو بازار سے گزرنے والا وہ روایتی تماش بین ہوں جو خریدار نہیں ہے۔ مجھ پر ان دنوں فارسی کی شاعری سوار ہے طالب آملی کا ایک شعر بصد معذرت عرض کرتا ہوں

بے نیازانہ ز ارباب کرم می گزرم

چوں سیاہ چشم بر سرمہ فروشاں گزرد

میں دولت مندوں اور انعام و اکرام دینے والوں کے سامنے سے بے نیازی میں گزر جاتا ہوں، بالکل اسی طرح جیسے کوئی سیسہ چشم سرمہ فروشوں کی دکان کے سامنے سے بے نیازانہ گزر جاتا ہے۔ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ زندگی کی آلائشیں اور ضرورتیں اتنی کم کر دو کہ تمہیں کسی کی پروا نہ رہے۔ میری طرح آپ بھی اپنی زندگی کو کم کر دیں یعنی اسے سادہ کر دیں۔ زندہ رہنے کے لیے کھانا اور کام کرنے کے لیے وقت اور بس اسی زندگی کو بجٹ سازوں کے حوالے کر کے ان کو پریشان کر دیں۔ ویسے اپنی نالائقی اور کم ہمتی کی وجہ سے میں نے زندگی میں بہت اونچا اڑنے کے باوجود آشیانہ اتفاقاً زمین کے قریب کی شاخ پر ہی بنایا۔ اب جب گوناگوں ٹیکسوں کا پڑھتا ہوں تو لمبی تان کر سو جاتا ہوں اور اپنی اس حالت پر فخر نہیں کرتا بلکہ میں اسے انجوائے کرتا ہوں۔ یوں سمجھیں کہ

میری ہمتوں کی پستی میرے شوق کی بلندی

غم آرزو کا حسرت سبب اور کیا بتائوں

شاید زندگی کے بارے میں میرا یہ رویہ درست نہیں رہا۔ مال و اسباب کی دنیا میں دامن بچا کر مگر ڈٹ کر رہو اور خوشحال زندگی سے اپنے ساتھ والوں کو بھی خوش کرو خود بھی مست رہو۔ ہر کوئی اقبال تو نہیں ہوتا کہ

یہ مال و دولت دنیا' یہ رشتہ و پیوند

بتان وہم و گماں' لا الہ اللہ

یہ بتاں وہم و گماں بھی جب حقیقت بن کر زندگی میں آتے ہیں تو نئی بہار دکھا جاتے ہیں اور انھی سے ہی کسی وزیر خزانہ کا بجٹ بنتا ہے اور ٹیکس زندہ رہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں