طالب بلوچ کا تیار کردہ بجٹ
طالب بلوچ کی طاقت ہر دور میں حکومتی سطح پر طاقتور مانے جانے والے لوگوں سے گہرے تعلقات بنا لینے کے ہنر میں مضمر نہیں۔۔۔
ایک طویل عرصے کے بعد اپنے چند بے تکلف دوستوں کے ساتھ بڑی لمبی بیٹھک ہو گئی۔ ایک مہمان نواز سیاستدان کے کشادہ اور راحت افزاء گھر میں سجی اس محفل میں ایک بڑے ہی پڑھے لکھے صاحب بھی مدعو تھے۔ ریاستی معیشت کو چلانے اور اس کی نگہبانی کرنے والے کارخانے سے ان کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ مشرف دور کی چند کامیاب سمجھی جانی والی پالیسیوں کو متعارف کرانے کا اکثر انھیں کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ مشرف حکومت سے اس تعلق کے باوجود ان کے آج کل کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار سے بھی بڑے ذاتی مراسم ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق انتخابات کے فوری بعد جن لوگوں سے پاکستان مسلم لیگ نون نے اپنی حکومت کی معاشی ترجیحات طے کرنے کے سلسلے میں رابطے کیے، ان میں یہ صاحب بھی شامل تھے۔ بہرحال جب وہ اپنی نشست سنبھال چکے تو اس محفل میں موجود صحافیوں نے ان سے ڈار صاحب کے تیار کردہ بجٹ پر رائے مانگ لی۔ جواباََ بجائے کوئی تفصیلی تجزیہ کرنے کے انھوں نے ایک فقرے میں بات ختم کر ڈالی۔ ''یہ اسحاق ڈار کا نہیں طالب بلوچ کا بنایا ہوا بجٹ ہے''۔
ان کا یہ فقرہ سن کر وہاں موجود ہم چار صحافی ہکا بکا رہ گئے۔ طالب بلوچ کون ہیں؟ ہم میں سے کسی کو ان کے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا۔ ہماری حیرانی کو بھانپتے ہوئے اس ماہر اقتصادیات نے انکشاف کیا کہ یہ صاحب پاکستان کی وزارتِ خزانہ کے سب سے پرانے اور کلیدی افسر مانے جاتے ہیں۔ راویوں کا دعویٰ ہے کہ طالب بلوچ ایک جونیئر کلرک کے طور پر اس وزارت سے وابستہ ہوئے تھے۔ اس انتہائی نچلی سطح سے ترقی کرتے ہوئے بالآخر وزارتِ خزانہ کے بجٹ بنانے والے شعبے کے انچارج جوائنٹ سیکریٹری بن گئے۔ اگرچہ ان کی عمر اب سرکاری نوکری سے ریٹائرڈ کر دیے جانے والی حد سے تجاوز کر چکی ہے مگر خزانے کا ہر وزیر اور اس وزارت کا سیکریٹری انھیں کنٹریکٹ پر ملازمت میں توسیع دینے پر خود کو مجبور محسوس کرتا ہے۔
طالب بلوچ کی طاقت ہر دور میں حکومتی سطح پر طاقتور مانے جانے والے لوگوں سے گہرے تعلقات بنا لینے کے ہنر میں مضمر نہیں، ان کا اصل کمال سالانہ بجٹ کو، جس سے متعلقہ دستاویزات کافی دقیق اور بھاری بھر کم ہوتی ہیں، اعداد و شمار سمیت بڑا جاذب نظر بنا کر پیش کرنا ہے۔ ملک کی معیشت کا حال کتنا ہی پتلا کیوں نہ ہو ، طالب بلوچ اس میں سے خیر کی خبریں نکال کر بظاہر ٹھوس نظر آنے والے اعداد و شمار سمیت پیش کرنے کی قابلِ رشک صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا کے ساتھ دفاعی تعلقات استوار کرنے کے بعد پاکستان کی ریاست بتدریج اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے محاصل جمع کرنے کی صلاحیت سے کلی طور پر محروم ہو چکی ہے۔ یہ خسارے کا بجٹ بناتی ہے۔ جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہوتا ہے کہ محاصل اور اخراجات کے درمیان فرق کو غیر ملکی امداد یا قرضوں کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔ یہ ممکن نہ ہوا تو ملکی اور غیر ملکی بینکوں سے قرض لے کر کام چلایا جائے گا۔ ویسے بھی ہماری ریاست جب چاہیے جتنے مرضی نئے نوٹ چھاپ کر اپنا ''ڈنگ ٹپا'' سکتی ہے۔
یہ تلخ حقائق مگر سالانہ بجٹ کو متعارف کرانے والے دن پیش کی جانے والی دقیق اور بھاری بھر کم دستاویزات میں کھل کر بیان نہیں کیے جاتے۔ میرے اور آپ جیسے لوگوں کے علاوہ اچھے بھلے معاشی ماہرین کو بھی بجٹ دستاویزات میں دیے گئے اعداد و شمار میں چھپے تلخ حقائق کو دریافت کرنے کے بعد وضاحت اور سادگی سے بیان کرنے کے لیے کافی مغز ماری کرنا پڑتی ہے۔ ماہرینِ معاشیات ابھی اس مغز ماری میں مصروف ہوتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں بیٹھے لوگ عامیانہ تقاریر کرنے کے بعد سالانہ بجٹ کو منظور کر لیتے ہیں۔ پھر بجٹ میں دیے گئے اہداف نہ انھیں یاد رہتے ہیں نہ چسکہ فروش صحافیوں کو اور حکومت اپنے پرانے ڈھب سے وقت گزارنے میں لگی رہتی ہے۔ جنرل ضیاء کے مارشل لائی دور میں ڈنگ ٹپائو پالیسیاں بنانے اور انھیں چلانے کی ساری ذمے داری غلام اسحاق خان نے اپنے کندھوں پر اُٹھائے رکھی۔
طالب بلوچ کی طرح غلام اسحاق خان بھی ایک جونیئر کلرک سے ترقی کرتے ہوئے بالآخر پاکستان کے صدر بن گئے تھے جنھیں ایک نہیں دو وزیر اعظموں کی حکومتوں کو کرپشن اور معاشی پالیسیوں کو ڈھنگ سے چلا نہ سکنے کے الزام لگا کر فارغ کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کے چلے جانے کے بعد پہلے بے نظیر، پھر نواز شریف بالآخر ایک اور مارشل لاء اور پھر جمالی اور بعد ازاں شوکت عزیز کی حکومتیں آئیں۔ پانچ سال یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی نذر ہو گئے۔ اب نواز شریف تیسری مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ اس دوران کئی وزیر خزانہ آئے اور گھر لوٹ گئے۔ مگر وزارتِ خزانہ پاکستان کے سالانہ بجٹ ''طالب بلوچوں'' سے ہی بنواتی رہی۔ اسحاق ڈار بھی تیسری مرتبہ وزیر خزانہ بن جانے کے بعد اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر مجبور ہوئے۔ عطار کے ان لونڈوں کا ذکر کرتے ہوئے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا جس کا میں عینی شاہد ہوں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو 1988 میں پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو انھوں نے وزارتِ خزانہ اپنے پاس رکھی مگر ایک بڑے ہی سینئر بیوروکریٹ جناب وی اے جعفری کو مشیر کے طور پر ریاست کے معاشی معاملات کا پردھان بنا دیا۔ ایک سرکاری دعوت میں وہ تشریف لائیں تو میں ایک کونے میں جنرل ضیاء کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق اور جعفری صاحب کے ساتھ کھڑا تھا۔ محترمہ ہمارے پاس آئیں تو ڈاکٹر محبوب الحق نے بڑی شستہ انگریزی میں جعفری صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جنابِ وزیر اعظم یہ وی اے جعفری ہیں۔ انھوں نے اس ملک کی معیشت کو تباہ کرنے میں برسوں میری معاونت کی ہے۔ آج کل یہ اس معیشت کو سنوارنے کے لیے بڑے جانفشانی سے آپ کی معاونت کر رہے ہیں۔ محترمہ بغیر کوئی لفظ کہے چہرے پر ناخوش گوار تاثرات لیے آگے بڑھ گئیں اور میں ہکا بکا رہ گیا۔ طالب بلوچ کا ذکر سنتے ہوئے بھی میرا معاملہ کچھ اسی طرح کا رہا۔ اس کے بعد سے مسلسل سوچ رہا ہوں کہ آخر کب تک ہمارے منتخب کردہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ ''طالب بلوچوں'' کے بنائے سالانہ میزانیوں پر تکیہ کرتے ہوئے عوام کو مایوس کرتے اور ان سے گالیاں سنتے ہوئے، اپنے اپنے گھروں کو ذلت و رسوا ہوتے ہوئے لوٹتے رہیں گے۔
ان کا یہ فقرہ سن کر وہاں موجود ہم چار صحافی ہکا بکا رہ گئے۔ طالب بلوچ کون ہیں؟ ہم میں سے کسی کو ان کے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا۔ ہماری حیرانی کو بھانپتے ہوئے اس ماہر اقتصادیات نے انکشاف کیا کہ یہ صاحب پاکستان کی وزارتِ خزانہ کے سب سے پرانے اور کلیدی افسر مانے جاتے ہیں۔ راویوں کا دعویٰ ہے کہ طالب بلوچ ایک جونیئر کلرک کے طور پر اس وزارت سے وابستہ ہوئے تھے۔ اس انتہائی نچلی سطح سے ترقی کرتے ہوئے بالآخر وزارتِ خزانہ کے بجٹ بنانے والے شعبے کے انچارج جوائنٹ سیکریٹری بن گئے۔ اگرچہ ان کی عمر اب سرکاری نوکری سے ریٹائرڈ کر دیے جانے والی حد سے تجاوز کر چکی ہے مگر خزانے کا ہر وزیر اور اس وزارت کا سیکریٹری انھیں کنٹریکٹ پر ملازمت میں توسیع دینے پر خود کو مجبور محسوس کرتا ہے۔
طالب بلوچ کی طاقت ہر دور میں حکومتی سطح پر طاقتور مانے جانے والے لوگوں سے گہرے تعلقات بنا لینے کے ہنر میں مضمر نہیں، ان کا اصل کمال سالانہ بجٹ کو، جس سے متعلقہ دستاویزات کافی دقیق اور بھاری بھر کم ہوتی ہیں، اعداد و شمار سمیت بڑا جاذب نظر بنا کر پیش کرنا ہے۔ ملک کی معیشت کا حال کتنا ہی پتلا کیوں نہ ہو ، طالب بلوچ اس میں سے خیر کی خبریں نکال کر بظاہر ٹھوس نظر آنے والے اعداد و شمار سمیت پیش کرنے کی قابلِ رشک صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا کے ساتھ دفاعی تعلقات استوار کرنے کے بعد پاکستان کی ریاست بتدریج اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے محاصل جمع کرنے کی صلاحیت سے کلی طور پر محروم ہو چکی ہے۔ یہ خسارے کا بجٹ بناتی ہے۔ جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہوتا ہے کہ محاصل اور اخراجات کے درمیان فرق کو غیر ملکی امداد یا قرضوں کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔ یہ ممکن نہ ہوا تو ملکی اور غیر ملکی بینکوں سے قرض لے کر کام چلایا جائے گا۔ ویسے بھی ہماری ریاست جب چاہیے جتنے مرضی نئے نوٹ چھاپ کر اپنا ''ڈنگ ٹپا'' سکتی ہے۔
یہ تلخ حقائق مگر سالانہ بجٹ کو متعارف کرانے والے دن پیش کی جانے والی دقیق اور بھاری بھر کم دستاویزات میں کھل کر بیان نہیں کیے جاتے۔ میرے اور آپ جیسے لوگوں کے علاوہ اچھے بھلے معاشی ماہرین کو بھی بجٹ دستاویزات میں دیے گئے اعداد و شمار میں چھپے تلخ حقائق کو دریافت کرنے کے بعد وضاحت اور سادگی سے بیان کرنے کے لیے کافی مغز ماری کرنا پڑتی ہے۔ ماہرینِ معاشیات ابھی اس مغز ماری میں مصروف ہوتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں بیٹھے لوگ عامیانہ تقاریر کرنے کے بعد سالانہ بجٹ کو منظور کر لیتے ہیں۔ پھر بجٹ میں دیے گئے اہداف نہ انھیں یاد رہتے ہیں نہ چسکہ فروش صحافیوں کو اور حکومت اپنے پرانے ڈھب سے وقت گزارنے میں لگی رہتی ہے۔ جنرل ضیاء کے مارشل لائی دور میں ڈنگ ٹپائو پالیسیاں بنانے اور انھیں چلانے کی ساری ذمے داری غلام اسحاق خان نے اپنے کندھوں پر اُٹھائے رکھی۔
طالب بلوچ کی طرح غلام اسحاق خان بھی ایک جونیئر کلرک سے ترقی کرتے ہوئے بالآخر پاکستان کے صدر بن گئے تھے جنھیں ایک نہیں دو وزیر اعظموں کی حکومتوں کو کرپشن اور معاشی پالیسیوں کو ڈھنگ سے چلا نہ سکنے کے الزام لگا کر فارغ کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کے چلے جانے کے بعد پہلے بے نظیر، پھر نواز شریف بالآخر ایک اور مارشل لاء اور پھر جمالی اور بعد ازاں شوکت عزیز کی حکومتیں آئیں۔ پانچ سال یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی نذر ہو گئے۔ اب نواز شریف تیسری مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ اس دوران کئی وزیر خزانہ آئے اور گھر لوٹ گئے۔ مگر وزارتِ خزانہ پاکستان کے سالانہ بجٹ ''طالب بلوچوں'' سے ہی بنواتی رہی۔ اسحاق ڈار بھی تیسری مرتبہ وزیر خزانہ بن جانے کے بعد اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر مجبور ہوئے۔ عطار کے ان لونڈوں کا ذکر کرتے ہوئے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا جس کا میں عینی شاہد ہوں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو 1988 میں پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو انھوں نے وزارتِ خزانہ اپنے پاس رکھی مگر ایک بڑے ہی سینئر بیوروکریٹ جناب وی اے جعفری کو مشیر کے طور پر ریاست کے معاشی معاملات کا پردھان بنا دیا۔ ایک سرکاری دعوت میں وہ تشریف لائیں تو میں ایک کونے میں جنرل ضیاء کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق اور جعفری صاحب کے ساتھ کھڑا تھا۔ محترمہ ہمارے پاس آئیں تو ڈاکٹر محبوب الحق نے بڑی شستہ انگریزی میں جعفری صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جنابِ وزیر اعظم یہ وی اے جعفری ہیں۔ انھوں نے اس ملک کی معیشت کو تباہ کرنے میں برسوں میری معاونت کی ہے۔ آج کل یہ اس معیشت کو سنوارنے کے لیے بڑے جانفشانی سے آپ کی معاونت کر رہے ہیں۔ محترمہ بغیر کوئی لفظ کہے چہرے پر ناخوش گوار تاثرات لیے آگے بڑھ گئیں اور میں ہکا بکا رہ گیا۔ طالب بلوچ کا ذکر سنتے ہوئے بھی میرا معاملہ کچھ اسی طرح کا رہا۔ اس کے بعد سے مسلسل سوچ رہا ہوں کہ آخر کب تک ہمارے منتخب کردہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ ''طالب بلوچوں'' کے بنائے سالانہ میزانیوں پر تکیہ کرتے ہوئے عوام کو مایوس کرتے اور ان سے گالیاں سنتے ہوئے، اپنے اپنے گھروں کو ذلت و رسوا ہوتے ہوئے لوٹتے رہیں گے۔