محکمہ اطلاعات کا خفیہ فنڈ
غالب کی یاد آج بری طرح ستا رہی ہے انھوں نے کہا تھا کہ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔۔۔
ISLAMABAD:
غالب کی یاد آج بری طرح ستا رہی ہے انھوں نے کہا تھا کہ
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
وہی مسئلہ ہمارا بھی ہے مقدور تو ہے نہیں کہ کرائے کا کوئی نوحہ گر یا نوحہ گراں رکھ لیں چنانچہ خود ہی اپنی مدد آپ کے اصول پر کرنا ہو گا لیکن غالب سے ہماری پرابلم بہت زیادہ بڑی ہے، ان کو تو صرف دل اور جگر یعنی دو جگہوں کا پرابلم تھا جو انسان کے دو ہاتھ اور دو آنکھیں کر سکتے ہیں لیکن ہمیں تو دل و جگر کے ساتھ ساتھ اپنے سر اور منہ کو بھی پیٹنا ہے بلکہ وقفے وقفے سے دو چار ہاتھ گردے اور تلی کو مارنا پڑیں گے کیونکہ ان سب ناہنجاروں کے ہوتے ہوئے ہمیں آج تک پتہ نہیں چلا تھا کہ وزارت اطلاعات کے پاس خفیہ فنڈ بھی ہوتا ہے۔ کیا بدنصیبی ہے، ہمیں کسی چیز کی اطلاع ہی اس وقت پہنچتی ہے، جب اس کا تمت بالخیر ہو جاتا ہے اور یہ کوئی آج کل کی نہیں ہماری بہت ہی پرانی بدنصیبی ہے، کافی پہلے کی بات ہے سوات کے والی صاحب ہر سال غالباً جون کے مہینے میں ایک مشاعرہ برپا کراتے تھے، اس مشاعرے میں کچھ خاص خاص دانے ہی مدعو کیے جاتے تھے اور سننے میں آتا تھا کہ وہاں خوب خوب مرغن کھانوں کے علاوہ کچھ ''دان دکھشنا'' بھی ہوتا تھا ۔
کچھ خاص شاعروں کے بارے میں تو سنا تھا کہ تگڑی رقومات کے علاوہ گھی اور شہد کے کنستر بھی ان کے ساتھ کر دیے جاتے تھے، اس سلسلے میں بے شمار لطیفے بھی مشہور ہو گئے تھے جو زیادہ تر حقیقے ہوتے تھے۔ ان میں سب سے بڑا لطیفہ تو صبح ایک خاص کھڑکی سے نذرانہ وصول کرنے کا عمل تھا جس میں شعراء صاحبان سینما کے ٹکٹ گھر کی صورت حال سے دو چار ہوتے تھے، لیکن سب سے دل چسپ لطیفہ اس سلسلے کا آخری لطیفہ ہے جو خاص الخاص شاعروں میں سے ایک سے متعلق مشہور ہے۔
ریاست کا انضمام ٹھیک اسی مشاعرے کے دنوں میں ہوا تھا، غالباً آٹھ دس روز پہلے انضمام کا اعلان ہوا تھا، ظاہر ہے کہ جب ریاست ہی نہیں رہی تو کہاں کا مشاعرہ، لیکن مذکورہ شاعر کو علم تھا کہ گوشت جل بھی جائے تو دال سے اچھا ہوتا ہے اور اونٹ پیاسا بھی ہو تو اس کے پیٹ میں گھٹنوں گھٹنوں پانی ہوتا ہے، چنانچہ موصوف ٹھیک اسی تاریخ کو پہنچ گئے، صرف ریاست چھن گئی تھی، والی صاحب اپنے اسی محل میں تھے، وہی مہمان خانہ اور ویسا ہی سلسلہ تھا، شاعر صاحب کو بھی مہمان خانے میں ٹھہرایا گیا چونکہ حالات نازک تھے اور پہلے بھی ایسا ہوتا تھا چنانچہ شاعر صاحب کی نگرانی پر آدمی مامور تھے اور اس بات کا شاعر صاحب کو بھی علم تھا چنانچہ صبح سویرے جب اٹھ گئے تو اچھی کھڑ بڑ کر کے اور کھانس کھنکار کر اٹھے تاکہ نگران اگر سویا ہو تو جاگ جائے پھر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے شاعر صاحب مسجد گئے۔
مسجد میں نماز پڑھی اور پھر والی صاحب کے جد امجد کے مزار پر چلے گئے، نگرانی کرنے والے سب دیکھ رہے تھے اور شاعر بھی یہی چاہتا تھا کہ اسے دیکھا جائے، چنانچہ روتے ہوئے جد امجد کے مزار پر گر پڑے اور اچھی طرح رونے اور سسکنے کے بعد اچانک جلال میں آگئے اور جد امجد کے مزار کو پیٹنے لگے اور ساتھ ہی اونچی آواز سے بولنے بھی لگے، نہیں مانتا میں آپ کی کرامت کو، ہر گز نہیں مانتا، اگر آپ میں کچھ زور ہوتا، کرامت ہوتی تو آج آپ کے خانوادے کے ساتھ یہ ظلم ہوتا جو پاکستان نے کیا ہے، یہ کتنا بڑا ظلم ہے، آپ کی قبر کی چھاتی کیوں نہ پھٹ گئی، سرہانے چشمہ کیوں نہیں ابل پڑا ، پاکستان کے حکمرانوں پر آگ کیوں نہیں برسی اور اسی عمل میں عروج پر جا کر بے ہوش ہو گئے، نگرانی کرنے والے ملازمین اسے ڈھو کر مہمان خانے لائے اور والی صاحب کو ساری رپورٹ پیش کی۔
چنانچہ راویان خوش بیان کے مطابق اس مرتبہ ریاست کے نہ ہوتے ہوئے بھی پہلے سے زیادہ بھاری لفافہ اور شہد گھی کے کنستر لے کر لوٹے، لیکن اصل قصہ تو ہم آپ کو اپنی جدی پشتی بدنصیبی کا سنا رہے تھے جو محکمہ اطلاعات کے خفیہ فنڈ کے ختم ہونے پر ہمیں یاد آیا، ہمارے نزدیک ہی گنگا بہہ رہی تھی اور ہمارے ہاتھ میلے کے میلے رہے بلکہ اب تو ہمیں اور بھی بہت کچھ یاد آرہا ہے کہ ہمارے سابق صوبائی وزیر اطلاعات دیکھتے ہی دیکھتے کالم نگاروں، شاعروں، ادیبوں اور فن کاروں میں اتنے زیادہ پاپولر کیسے ہو گئے تھے اور اس نے بے شمار و قطار اہل قلم کا ساتھ پا کر ہم سے اپنا ہر ناتا ہر رشتہ توڑ کیوں دیا تھا حالانکہ جب وہ صرف میاں افتخار تھے تو ساری اہل قلم برادری میں اس کے صرف دو دوست تھے، ایک مرحوم سہیل قلندر اور دوسرے ہم ۔۔۔ سہیل قلندر تو چلے گئے اور ہمیں جیتے جی ایسا بھلایا ایسا بھلایا جسے کبھی پہچان ہی نہ رہی ہو، لیکن وہ والی سوات کے حوالے سے اپنی بدنصیبی کا قصہ تو ابھی باقی ہے، ایک دن جب ہم بانگ حرم میں تھے، ہمارے نام سوات کے سرکاری مونو گرام والا لفافہ آیا۔
مشاعرے کا دن قریب آرہا تھا، ہمارا دل بلیوں اچھلنے لگا کہ شاید اس مرتبہ قرعہ فال بنام من دیوانہ بھی نکل آیا، دل ہی دل میں لفافے اور شہد و گھی کے کنستروں کے گھومتے ہوئے خیالات کے ساتھ لفافہ کھولا تو پہلے اپنے آپ پر غصہ آیا پھر اپنے نصیب پر اور پھر والی صاحب کے منشیوں پر ۔۔۔ لکھا تھا اس سال ریاست کا سالانہ مشاعرہ کچھ وجوہات کی بناء پر ملتوی ہو گیا ہے، اس لیے آپ سے تشریف نہ لانے کی استدعا کی جاتی ہے، ریاست کے یہ منشی لوگ ہماری دسترس میں ہوتے تو اسی وقت 302 کر کے پھانسی پر چڑھ جاتے ، کم بختوں نے مشاعرہ بازوں کی لسٹ تو دیکھی ہوتی ہم کب کسی مشاعرے میں ''تشریف'' لے گئے جو اس مرتبہ تشریف نہ لانے کی استدعا کی جارہی تھی۔ کیا یہ ہمارے ساتھ کوئی مذاق کیا گیا تھا لیکن مذاق نہیں تھا کیونکہ دوسرے دن مشاعرے کے ملتوی ہونے کی خبر بھی آگئی اور آج تک ہم اس راز کا پتہ نہیں لگا پائے کہ جب گنگا میں ہم نے اشنان کیا ہی نہ تھا تو دریا کے خشک ہونے کی اطلاع کیوں دی گئی تھی اور اب ایک مرتبہ پھر ہمارے دل پر آرے چلا گئے ہیں، ''اختتام'' کی خبر سے علم ہو رہا ہے کہ محکمہ اطلاعات کے پاس خفیہ فنڈ بھی ہوا کرتا تھا نہ جانے کہاں ہوتا تھا ،کیسے ہوتا تھا ،کتنا ہوتا تھا اور کن کن خوش نصیبوں کو ملتا تھا۔
اب دیکھنے کو جن کی آنکھیں ترستیاں ہیں
وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج اس خبر کے ساتھ ہی ہم پر وہ لفافوں کا راز بھی کھلا جس کا ہم اکثر ذکر سنا کرتے تھے اور اکثر سوچتے تھے کہ کاش ہمیں بھی کوئی بھولا بھٹکا لفافہ مل جاتا، لیکن ہماری قسمت ہی ایسی ہے کہ ''خبر'' ملتی بھی ہے اور بھولا بھٹکا لفافہ آتا بھی ہے تو نحوست لیے ہوئے آتا ہے، کاش کاش اور پھر کاش۔
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل دکان اپنی بڑھا گئے