پنجاب دستیاب وسائل میں اس سے بہتر بجٹ پیش کیا جاسکتا تھا
پنجاب کے وزیر خزانہ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے مالی سال 2013-14 کے لئے 897 ارب56کروڑ93 لاکھ11ہزارروپے...
پنجاب کے وزیر خزانہ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے مالی سال 2013-14 کے لئے 897 ارب56کروڑ93 لاکھ11ہزارروپے مالیت کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔
بجٹ میں سادگی اور بچت پالیسی کے تحت پنجاب میں تعلیم ، صحت اور عدلیہ کے سوا تمام سرکاری اداروں میں بھرتیوں اور سرکاری گاڑیوں پر پابندی برقرار رکھی گئی ہے جبکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے اخراجات میں 30 فیصد کمی کر دی گئی ہے۔ وزراء کے صوابدیدی فنڈز ختم کر دئیے گئے ہیں اور ان کی رہائش گاہوں کی تزئین وآرائش پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے ۔ بجٹ میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے 20 ارب 43 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مالی سال 2012-13 ء میں توانائی کے شعبے کے لئے 10 ارب روپے مختص کئے گئے تھے مگر اس حوالے سے کوئی عملی پیش رفت سامنے نہیں آسکی تھی ۔
رواں مالی سال کے دوران صوبے کو وفاقی ٹیکسوں کے پول سے حصہ 702ارب 12کروڑ6 لاکھ46 ہزار روپے ، رائلٹی و گیس ڈیوٹی میں صوبائی حصہ 6ارب 60کروڑ62 لاکھ 42ہزار روپے اور وفاقی گرانٹس سے 7ارب 81کروڑ62 لاکھ44 ہزار روپے ملیں گے۔ صوبائی سطح پر انتظامی اخراجات میں امن و امان کے لئے سب سے زیادہ فنڈز رکھے گئے ہیں، اس مد میں 93ارب 71کروڑ 88لاکھ 58ہزار روپے خرچ ہوں گے ۔ پنجاب حکومت نے رواں مالی سال میں ترقیاتی پروگرام کے لئے 290ارب روپے مختص کئے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلہ میں16 فیصد یعنی 40ارب روپے زائد ہیں۔
رواں مالی سا ل کے لئے250 ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔ صوبائی بجٹ میں شاہرات کے لئے 29 ارب 22 کروڑ رکھے گئے ہیں جبکہ 2012-13 ء میں اس اہم شعبہ کے لئے33 ارب اور 2011-12 ء میں 35 ارب 65 کروڑ روپے رکھے گئے تھے ۔ آشیانہ اور دانش سکولوں جیسے منصوبے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے رواں مالی سال کے لئے 3 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، علاوہ ازیں دانش سکولوں کے قیام کیلئے بھی 3 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس سے 6 نئے دانش سکول تعمیر کئے جائیں گے۔ زرعی شعبے کیلئے گرین ٹریکٹر سکیم ختم کر دی گئی ہے اور آئندہ بجٹ میں کسانوں کے لئے بائیو گیس اور سولر ٹیوب ویل سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور اس کے لئے 7 ارب 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ ہیلتھ انشورنش کے لئے 4 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔
بجٹ میں فیصل آباد ، ملتان اور راولپنڈی میں میٹرو بس منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے مگر ان منصوبوں کے لئے بجٹ میں فنڈز مختص نہیں کئے گئے ۔ بجٹ میں رنگ روڈ سدرن لوپ کے لئے 2 ارب 86 کروڑ ، سندر رائے ونڈ روڈ 10، مانگا رائے ونڈ روڈ 10 کروڑ اور شاہ پور کانجراں دریائے راوی پر پل کی تعمیر کے لئے 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ میٹرو بس منصوبے کے لئے دریائے راوی پر 77 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ بجٹ میں نئی سکیموں کی بہت کم نشاندہی کی گئی ہے اور ہر شعبے میں بلاک ایلوکیشن کے تحت فنڈز رکھے گئے ہیں۔
پنجاب میں پانچ سال سے صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ کا اعلان نہیں کیا گیا جس سے اضلاع کو مشرف دور کے فارمولے پر عبوری ایوارڈ کے تحت وسائل فراہم کئے جارہے ہیں، اس سے کئی اضلاع کو شدید مالی مسائل کا سامنا ہے، گزشتہ مالی سال کے دوران بھی صوبائی حکومت کو کئی اضلاع میں تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے ہنگامی فنڈز فراہم کرنے پڑے ہیں ۔ اس صورتحال سے ضلعی حکومتوں کے ترقیاتی منصوبے متاثر ہوئے ہیں ۔اب آئندہ بلدیاتی الیکشن کے بعد شاید نئے پراونشل فنانس ایوارڈ کا اعلان ہوسکے۔ رواں مالی سال کیلئے 82 ارب روپے سے زائد مالیت کا ضمنی بجٹ بھی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے اس میں سے 24 ارب روپے کے فنڈز میٹرو بس منصوبے کو فراہم کئے گئے اب ان اخراجات کی منظوری دی جائے گی۔
سرکاری ملازمین نے صوبائی حکومت کی طرف سے تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ کو مسترد کرتے ہوئے تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے جس کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ کیا ہے اور پنجاب نے سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود 10فیصد اضافہ کیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے پنجاب کے بجٹ 2013-14 کو ایک روائتی اور مایوس کن بجٹ قرار دیا ہے، ان کے مطابق یہ روایتی اعداد و شمار اور خالی نعروں کی دستاویز ہے، بجٹ میںعام آدمی کی بات نہیں کی گئی اور تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ مہنگائی کے حساب سے بہت کم ہے۔
آشیانہ ،دانش سکول اور لیپ ٹاپ جیسی ناکام سکیمیں دوبارہ شروع کی گئیں ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے اپنے منشور سے ہٹ کر بجٹ پیش کیا ہے، منشور میں مزدور کی تنخواہ 15 ہزار روپے تک بڑھانے کا وعدہ کیا گیا تھا اور اب بجٹ میں مزدور کی تنخواہ صرف ایک ہزار کے اضافے سے 10 ہزار کی گئی ہے ۔ بہرحال پنجاب حکومت نے اپنے دستیاب وسائل کے مطابق خاصی حد تک بہتر بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
بجٹ میں سادگی اور بچت پالیسی کے تحت پنجاب میں تعلیم ، صحت اور عدلیہ کے سوا تمام سرکاری اداروں میں بھرتیوں اور سرکاری گاڑیوں پر پابندی برقرار رکھی گئی ہے جبکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے اخراجات میں 30 فیصد کمی کر دی گئی ہے۔ وزراء کے صوابدیدی فنڈز ختم کر دئیے گئے ہیں اور ان کی رہائش گاہوں کی تزئین وآرائش پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے ۔ بجٹ میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے 20 ارب 43 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مالی سال 2012-13 ء میں توانائی کے شعبے کے لئے 10 ارب روپے مختص کئے گئے تھے مگر اس حوالے سے کوئی عملی پیش رفت سامنے نہیں آسکی تھی ۔
رواں مالی سال کے دوران صوبے کو وفاقی ٹیکسوں کے پول سے حصہ 702ارب 12کروڑ6 لاکھ46 ہزار روپے ، رائلٹی و گیس ڈیوٹی میں صوبائی حصہ 6ارب 60کروڑ62 لاکھ 42ہزار روپے اور وفاقی گرانٹس سے 7ارب 81کروڑ62 لاکھ44 ہزار روپے ملیں گے۔ صوبائی سطح پر انتظامی اخراجات میں امن و امان کے لئے سب سے زیادہ فنڈز رکھے گئے ہیں، اس مد میں 93ارب 71کروڑ 88لاکھ 58ہزار روپے خرچ ہوں گے ۔ پنجاب حکومت نے رواں مالی سال میں ترقیاتی پروگرام کے لئے 290ارب روپے مختص کئے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلہ میں16 فیصد یعنی 40ارب روپے زائد ہیں۔
رواں مالی سا ل کے لئے250 ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔ صوبائی بجٹ میں شاہرات کے لئے 29 ارب 22 کروڑ رکھے گئے ہیں جبکہ 2012-13 ء میں اس اہم شعبہ کے لئے33 ارب اور 2011-12 ء میں 35 ارب 65 کروڑ روپے رکھے گئے تھے ۔ آشیانہ اور دانش سکولوں جیسے منصوبے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے رواں مالی سال کے لئے 3 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، علاوہ ازیں دانش سکولوں کے قیام کیلئے بھی 3 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس سے 6 نئے دانش سکول تعمیر کئے جائیں گے۔ زرعی شعبے کیلئے گرین ٹریکٹر سکیم ختم کر دی گئی ہے اور آئندہ بجٹ میں کسانوں کے لئے بائیو گیس اور سولر ٹیوب ویل سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور اس کے لئے 7 ارب 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ ہیلتھ انشورنش کے لئے 4 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔
بجٹ میں فیصل آباد ، ملتان اور راولپنڈی میں میٹرو بس منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے مگر ان منصوبوں کے لئے بجٹ میں فنڈز مختص نہیں کئے گئے ۔ بجٹ میں رنگ روڈ سدرن لوپ کے لئے 2 ارب 86 کروڑ ، سندر رائے ونڈ روڈ 10، مانگا رائے ونڈ روڈ 10 کروڑ اور شاہ پور کانجراں دریائے راوی پر پل کی تعمیر کے لئے 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ میٹرو بس منصوبے کے لئے دریائے راوی پر 77 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ بجٹ میں نئی سکیموں کی بہت کم نشاندہی کی گئی ہے اور ہر شعبے میں بلاک ایلوکیشن کے تحت فنڈز رکھے گئے ہیں۔
پنجاب میں پانچ سال سے صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ کا اعلان نہیں کیا گیا جس سے اضلاع کو مشرف دور کے فارمولے پر عبوری ایوارڈ کے تحت وسائل فراہم کئے جارہے ہیں، اس سے کئی اضلاع کو شدید مالی مسائل کا سامنا ہے، گزشتہ مالی سال کے دوران بھی صوبائی حکومت کو کئی اضلاع میں تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے ہنگامی فنڈز فراہم کرنے پڑے ہیں ۔ اس صورتحال سے ضلعی حکومتوں کے ترقیاتی منصوبے متاثر ہوئے ہیں ۔اب آئندہ بلدیاتی الیکشن کے بعد شاید نئے پراونشل فنانس ایوارڈ کا اعلان ہوسکے۔ رواں مالی سال کیلئے 82 ارب روپے سے زائد مالیت کا ضمنی بجٹ بھی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے اس میں سے 24 ارب روپے کے فنڈز میٹرو بس منصوبے کو فراہم کئے گئے اب ان اخراجات کی منظوری دی جائے گی۔
سرکاری ملازمین نے صوبائی حکومت کی طرف سے تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ کو مسترد کرتے ہوئے تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے جس کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ کیا ہے اور پنجاب نے سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود 10فیصد اضافہ کیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے پنجاب کے بجٹ 2013-14 کو ایک روائتی اور مایوس کن بجٹ قرار دیا ہے، ان کے مطابق یہ روایتی اعداد و شمار اور خالی نعروں کی دستاویز ہے، بجٹ میںعام آدمی کی بات نہیں کی گئی اور تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ مہنگائی کے حساب سے بہت کم ہے۔
آشیانہ ،دانش سکول اور لیپ ٹاپ جیسی ناکام سکیمیں دوبارہ شروع کی گئیں ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے اپنے منشور سے ہٹ کر بجٹ پیش کیا ہے، منشور میں مزدور کی تنخواہ 15 ہزار روپے تک بڑھانے کا وعدہ کیا گیا تھا اور اب بجٹ میں مزدور کی تنخواہ صرف ایک ہزار کے اضافے سے 10 ہزار کی گئی ہے ۔ بہرحال پنجاب حکومت نے اپنے دستیاب وسائل کے مطابق خاصی حد تک بہتر بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔