پانی سر تک آ چکا ہے
اس قوم کا بس ایک قائد تھا، وہ جو کہتا تھا اسے منوانا بھی جانتا تھا، قوم بھی ایک تھی اور ایک ہی قائد کی دیوانی بھی۔
اس قوم کا بس ایک قائد تھا، وہ جو کہتا تھا اسے منوانا بھی جانتا تھا، قوم بھی ایک تھی اور ایک ہی قائد کی دیوانی بھی۔ قائد کی قیادت میں ایک پکتا ہوا لاوا تھا جو بس پھٹنا ہی چاہتا تھا، ابلنے کو تیار تھا۔ چاہے اس کی حدت و گرمی جو بھی ہو، جسموں کو جھلسا ہی کیوں نہ دے، ارادے تو کسی لاوے سے نہیں پگھلا کرتے پھر جسموں کا کیا، جھلسیں یا پگھلیں، کسی کو فکر نہیں تھی، کوئی اضطراب نہیں تھا، لوگ ایک دوسرے کے لیے مرنا چاہتے تھے، قائد کی آنکھ کے اشارے کے منتظر تھے۔ یہ وقت، جسے دنیا نے ایک خواب سے تعبیر میں ڈھلتے دیکھا، خونریز سہی مگر سہانا تھا۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی، لوگ ہی لوگ تھے، جوش و جذبات سے لبریز، منزل پا لینے کا جنون ہر ایک کے لہو میں دوڑ رہا تھا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی، قائد کے جھنڈے تلے کھڑے لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں تھا، پھر بھی وہ سب احساس کی ایک ہی مالا میں پروئے ہوئے لوگ تھے۔ ان سب کے دل ایک تھے اور زبانیں جیسے صرف ایک ہی فلک شگاف نعرے کا ورد کر رہی تھیں۔ بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان۔
وہاں موجود لوگوں کی اپنی کوئی زمین نہیں تھی۔ جہاں صدیاں گزاری تھیں، وہاں اب اجنبی اجنبی سے احساس کے ساتھ دن گزار رہے تھے، تب نہ کوئی سندھی تھا، نہ کوئی بلوچی اور نہ کوئی پنجابی یا پختون، سب بس کلمہ گو تھے، سب ہی صرف مسلمان تھے۔ ایک اﷲ کو ماننے والے۔ علیحدہ ریاست کے حصول کی خاطر مجمع لگائے ہوئے لوگ۔ سب کا خواب ایک، ایک ایسی قطعہ ارضی کا حصول، جہاں شریعت کے احکامات کے مطابق، اسلامی قوانین و ضابطوں کے تحت اپنی زندگیاں دین کے سانچے میں ڈھال سکیں۔ دنیا کے نقشے پر پاکستان نام کی زمین کو ابھارا گیا۔ لوگ آزادی کی خوشی میں سب کچھ بیچ کر، جانیں گنوا کر، عصمتیں لٹا کر جب اس زمین پر پہنچے تو دنیا نے انصار و مہاجرین کی ایک اور مثال رقم طراز ہوتے دیکھی۔ پھر پاکستان قائم ہوا تو شاید لوگوں کے ساتھ ساتھ قائد نے بھی یہی سوچا ہو گا کہ جنگ کسی حد تک ختم ہو گئی، خطرات ٹل گئے، لوگ آزاد ہو گئے، جان و مال، عزت و آبرو محفوظ ہو گئی۔
اب ہر طرف اسلام کا بول بالا ہو گا، ہر طرف ایک ہی آواز ہو گی، کہ ہم پاکستانی ہیں۔ لیکن ان لمحات میں شاید آسمان ہنسا ہو گا اور اس کی ہنسی آج زیارت ریذیڈنسی کے در و دیوار سے ٹکراتی محسوس ہو رہی ہے۔ کل جو لوگ پاکستان کے لیے مر رہے تھے، وہ آج پاکستان کے حصول کو غلط ٹھہرا رہے ہیں۔ جو کل صرف پاکستانی تھے، وہ آج سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھان ہیں۔ آج پنجاب کی حکومت بس پنجاب کی حکومت ہے۔ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے ہم نہیں جانتے۔ صوبوں میں اور قومیتوں میں ٹکرائو کی کیفیت ہے۔ آزاد ملک میں رہ کر بھی لوگ خود مختاری کا سوال کر رہے ہیں۔ ہم نے ایک بازو کھو دیا پھر بھی ہماری آنکھیں نہیں کھل سکیں۔ آج ہم ایک دوسرے کے لیے مر نہیں رہے بلکہ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ مرنے والے ہمارے ہیں، لاشیں بھی ہماری ہیں۔ ہر طرف جلوس اور خوف و اشتعال بھی ہمارا ہے۔ اشتعال میں جلنے والی گاڑیاں بھی ہماری اور لٹنے والی دکانیں بھی ہماری اپنی ہی ہیں۔ آج ہم خود ہی تماشا اور خود ہی تماشائی ہیں۔ اس درمیان میں بانی پاکستان کا کیا قصور ہے؟ ہم اپنے ملک اور اپنی پہچان کو کیوں برا بھلا کہہ رہے ہیں؟ آخر پاکستان صرف پاکستانیوں کا کیوں نہیں ہے؟
آج پاکستان کو تمام اقوام عالم میں دہشت گردی کا لیبل دیا جا رہا ہے مگر ہم پھر بھی بیرونی ممالک کی امداد اور اس کی ملازمتوں کے حصول کے لیے مر رہے ہیں۔ ہم پاکستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں کہ ہماری اپنی دانست میں اس ملک نے ہمیں کچھ نہیں دیا، مگر ہم نے اس ملک کو کیا دیا یہ ہم جاننا نہیں چاہتے یا اس کا ادراک ہی نہیں کرنا چاہتے۔ کل پاکستان کے حصول کے لیے زمین تقسیم ہوئی تھی لیکن آج خود پاکستانیوں کے لیے زمین قومیتوں میں بٹ گئی ہے۔
قوموں کی زندگی میں بعض ایسے دن بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں جو تاریخ عالم میں سنہری حروف سے رقم کیے جاتے ہیں، انسانی عظمت و سرخروئی کے ایسے عہد و پیماں وابستہ ہوتے ہیں جو مستقبل میں کسی بھی ملک اور قوم کے لیے تشخص کی علامت بن جاتے ہیں۔ ان ایام کی یاد منا کر قومیں نہ صرف اپنے آبائو اجداد کے کارہائے نمایاں کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں بلکہ ان کی دور اندیشی، صداقت پسندی، ثابت قدمی اور طریق عمل سے تابش و نور حاصل کر کے اپنے حال کا دامن عدل و انصاف، امن و آشتی، اخوت و محبت، قانون کی حکمرانی اور فلاح و بہبود کے رنگین پھولوں سے مہکاتی ہیں اور اپنے مستقبل کو ترقی و خوشحالی کا گہوارا بنانے کے لیے بہترین حکمت عملی اور بامقصد منصوبہ بندی عمل میں لاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے اسلاف کے کارناموں اور قربانیوں کو فراموش کر چکے ہیں۔ ٹکڑوں اور مختلف قومیتوں میں بٹے ہوئے عوام کو ایک آزاد و خود مختار مملکت لے کر دینے والے قائد اعظم نے، ایک جھنڈے اور ایک مقصد کی خاطر انتھک جدوجہد کرنے کے بعد اپنے آخری ایام گزارنے کے لیے جس گھر میں اپنا مسکن بنایا، دہشت گردوں نے آج اسی گھر کو راکٹوں سے نشانہ بنایا ہے۔ یہ قائد اور قائد کے نظریے سے انحراف کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ یہ وطن سے غداری کے کھاتے میں آتا ہے۔ حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
زیارت ریذیڈنسی پر حملہ کھلم کھلا پاکستان اور پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہے۔ دہشت گردوں نے اس حملے کے ذریعے واضح پیغام دیا ہے کہ انھیں اس ملک کے قیام اور نظریہ پاکستان سے کتنی نفرت ہے۔ اس افسوسناک سانحے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ آج دہشت گردوں کے ہاتھ اور ان کی مذموم کارروائیوں کی پہنچ سیاسی و مذہبی رہنمائوں، مخصوص طبقہ فکر کے لوگ، عوام سے ہوتی ہوئی تحریک پاکستان کے رہنمائوں اور ہمارے قومی و ثقافتی ورثہ تک ہو گئی ہے تو اس میں کچھ قصور ہمارا اپنا بھی ہے۔ ہم بطور قوم اپنا تشخص دنیا کے سامنے مثبت انداز میں پیش کر ہی نہ سکے۔ باہمی اختلافات اور رنگ و نسل کے تفرقات نے ہمیں دہشت گردی سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ہماری قومی و اقتصادی پالیسیوں کی مسلسل ناکامیوں نے وطن عزیز کو پے در پے بحرانوں میں مبتلا رکھا جس کے باعث ہم دہشت گردوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
ہمارا کلچر، ہماری ثقافت ہم سے چھن چکی ہے، ہمارا آج کا نوجوان تحریک پاکستان کے رہنمائوں کو نہیں غیر ملکی فلمی ہیروز کو پہچانتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ نظریہ پاکستان تک کو متنازعہ قرار دیتے آ رہے ہیں۔ یہ اب کسی کو یاد نہیں کہ ہم نے من حیث القوم یہ عہد کیا تھا کہ اس مملکت میں سماجی مساوات ہو گی، معاشی عدل ہو گا، اسلامی اخوت ہو گی، انسانی حقوق کا تحفظ ہو گا، ظلم اور استحصال کا ہر صورت خاتمہ کر دیا جائے گا۔ ہم نے عہد کیا تھا کہ ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنا ملک چلائیں گے، ہماری اپنی سیاست اور اپنی معیشت ہو گی۔ لیکن ہم نے یہ سارے عہد پس پشت ڈال دیے۔ آج کڑوی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں معاشی لوٹ کھسوٹ کا دور دورہ ہے، آج ہمارے ملک میں رشوت اور سفارش کے بغیر عوام اپنے جائز کام کے لیے بھی دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔
آج ہماری اجتماعیت ختم ہو چکی ہے، ہر شخص اپنی ذات کے غم میں مبتلا ہے، ہر شخص کا قبلہ الگ اور ہر جماعت کا منشور جدا ہے، آج ہمارے حکمران اپنے وی آئی پی ٹھاٹ باٹ کے لیے ساری دنیا کے سامنے کشکول گدائی لیے پھر رہے ہیں اور غریب، غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری سیاست ہو یا معیشت، کچھ بھی تو آج آزاد نہیں ہے۔ کیا ہم نے نظریہ پاکستان کے مطابق وہ آزادی حاصل کر لی ہے جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں؟ ہمارے باہمی اختلافات اور ایک قومی منشور سے دوری دہشت گردوں کے لیے آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔ قائد اعظم کی آخری رہائش گاہ پر برسنے والے راکٹ شہر شہر گھر گھر برسنے کا انتظار کرنے سے بہتر ہے کہ دہشت گردوں کو لگام دینے کے لیے ہم سب ایک قومی تشخص اپنائیں اور اپنے ظاہری و باطنی اعمال و اتحاد کے ذریعے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ حکومت اور قومی سلامتی کے ادارے اپنا حقیقی کردار نبھائیں کیونہ اب پانی سر تک آ چکا ہے۔
وہاں موجود لوگوں کی اپنی کوئی زمین نہیں تھی۔ جہاں صدیاں گزاری تھیں، وہاں اب اجنبی اجنبی سے احساس کے ساتھ دن گزار رہے تھے، تب نہ کوئی سندھی تھا، نہ کوئی بلوچی اور نہ کوئی پنجابی یا پختون، سب بس کلمہ گو تھے، سب ہی صرف مسلمان تھے۔ ایک اﷲ کو ماننے والے۔ علیحدہ ریاست کے حصول کی خاطر مجمع لگائے ہوئے لوگ۔ سب کا خواب ایک، ایک ایسی قطعہ ارضی کا حصول، جہاں شریعت کے احکامات کے مطابق، اسلامی قوانین و ضابطوں کے تحت اپنی زندگیاں دین کے سانچے میں ڈھال سکیں۔ دنیا کے نقشے پر پاکستان نام کی زمین کو ابھارا گیا۔ لوگ آزادی کی خوشی میں سب کچھ بیچ کر، جانیں گنوا کر، عصمتیں لٹا کر جب اس زمین پر پہنچے تو دنیا نے انصار و مہاجرین کی ایک اور مثال رقم طراز ہوتے دیکھی۔ پھر پاکستان قائم ہوا تو شاید لوگوں کے ساتھ ساتھ قائد نے بھی یہی سوچا ہو گا کہ جنگ کسی حد تک ختم ہو گئی، خطرات ٹل گئے، لوگ آزاد ہو گئے، جان و مال، عزت و آبرو محفوظ ہو گئی۔
اب ہر طرف اسلام کا بول بالا ہو گا، ہر طرف ایک ہی آواز ہو گی، کہ ہم پاکستانی ہیں۔ لیکن ان لمحات میں شاید آسمان ہنسا ہو گا اور اس کی ہنسی آج زیارت ریذیڈنسی کے در و دیوار سے ٹکراتی محسوس ہو رہی ہے۔ کل جو لوگ پاکستان کے لیے مر رہے تھے، وہ آج پاکستان کے حصول کو غلط ٹھہرا رہے ہیں۔ جو کل صرف پاکستانی تھے، وہ آج سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھان ہیں۔ آج پنجاب کی حکومت بس پنجاب کی حکومت ہے۔ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے ہم نہیں جانتے۔ صوبوں میں اور قومیتوں میں ٹکرائو کی کیفیت ہے۔ آزاد ملک میں رہ کر بھی لوگ خود مختاری کا سوال کر رہے ہیں۔ ہم نے ایک بازو کھو دیا پھر بھی ہماری آنکھیں نہیں کھل سکیں۔ آج ہم ایک دوسرے کے لیے مر نہیں رہے بلکہ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ مرنے والے ہمارے ہیں، لاشیں بھی ہماری ہیں۔ ہر طرف جلوس اور خوف و اشتعال بھی ہمارا ہے۔ اشتعال میں جلنے والی گاڑیاں بھی ہماری اور لٹنے والی دکانیں بھی ہماری اپنی ہی ہیں۔ آج ہم خود ہی تماشا اور خود ہی تماشائی ہیں۔ اس درمیان میں بانی پاکستان کا کیا قصور ہے؟ ہم اپنے ملک اور اپنی پہچان کو کیوں برا بھلا کہہ رہے ہیں؟ آخر پاکستان صرف پاکستانیوں کا کیوں نہیں ہے؟
آج پاکستان کو تمام اقوام عالم میں دہشت گردی کا لیبل دیا جا رہا ہے مگر ہم پھر بھی بیرونی ممالک کی امداد اور اس کی ملازمتوں کے حصول کے لیے مر رہے ہیں۔ ہم پاکستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں کہ ہماری اپنی دانست میں اس ملک نے ہمیں کچھ نہیں دیا، مگر ہم نے اس ملک کو کیا دیا یہ ہم جاننا نہیں چاہتے یا اس کا ادراک ہی نہیں کرنا چاہتے۔ کل پاکستان کے حصول کے لیے زمین تقسیم ہوئی تھی لیکن آج خود پاکستانیوں کے لیے زمین قومیتوں میں بٹ گئی ہے۔
قوموں کی زندگی میں بعض ایسے دن بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں جو تاریخ عالم میں سنہری حروف سے رقم کیے جاتے ہیں، انسانی عظمت و سرخروئی کے ایسے عہد و پیماں وابستہ ہوتے ہیں جو مستقبل میں کسی بھی ملک اور قوم کے لیے تشخص کی علامت بن جاتے ہیں۔ ان ایام کی یاد منا کر قومیں نہ صرف اپنے آبائو اجداد کے کارہائے نمایاں کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں بلکہ ان کی دور اندیشی، صداقت پسندی، ثابت قدمی اور طریق عمل سے تابش و نور حاصل کر کے اپنے حال کا دامن عدل و انصاف، امن و آشتی، اخوت و محبت، قانون کی حکمرانی اور فلاح و بہبود کے رنگین پھولوں سے مہکاتی ہیں اور اپنے مستقبل کو ترقی و خوشحالی کا گہوارا بنانے کے لیے بہترین حکمت عملی اور بامقصد منصوبہ بندی عمل میں لاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے اسلاف کے کارناموں اور قربانیوں کو فراموش کر چکے ہیں۔ ٹکڑوں اور مختلف قومیتوں میں بٹے ہوئے عوام کو ایک آزاد و خود مختار مملکت لے کر دینے والے قائد اعظم نے، ایک جھنڈے اور ایک مقصد کی خاطر انتھک جدوجہد کرنے کے بعد اپنے آخری ایام گزارنے کے لیے جس گھر میں اپنا مسکن بنایا، دہشت گردوں نے آج اسی گھر کو راکٹوں سے نشانہ بنایا ہے۔ یہ قائد اور قائد کے نظریے سے انحراف کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ یہ وطن سے غداری کے کھاتے میں آتا ہے۔ حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
زیارت ریذیڈنسی پر حملہ کھلم کھلا پاکستان اور پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہے۔ دہشت گردوں نے اس حملے کے ذریعے واضح پیغام دیا ہے کہ انھیں اس ملک کے قیام اور نظریہ پاکستان سے کتنی نفرت ہے۔ اس افسوسناک سانحے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ آج دہشت گردوں کے ہاتھ اور ان کی مذموم کارروائیوں کی پہنچ سیاسی و مذہبی رہنمائوں، مخصوص طبقہ فکر کے لوگ، عوام سے ہوتی ہوئی تحریک پاکستان کے رہنمائوں اور ہمارے قومی و ثقافتی ورثہ تک ہو گئی ہے تو اس میں کچھ قصور ہمارا اپنا بھی ہے۔ ہم بطور قوم اپنا تشخص دنیا کے سامنے مثبت انداز میں پیش کر ہی نہ سکے۔ باہمی اختلافات اور رنگ و نسل کے تفرقات نے ہمیں دہشت گردی سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ہماری قومی و اقتصادی پالیسیوں کی مسلسل ناکامیوں نے وطن عزیز کو پے در پے بحرانوں میں مبتلا رکھا جس کے باعث ہم دہشت گردوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
ہمارا کلچر، ہماری ثقافت ہم سے چھن چکی ہے، ہمارا آج کا نوجوان تحریک پاکستان کے رہنمائوں کو نہیں غیر ملکی فلمی ہیروز کو پہچانتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ نظریہ پاکستان تک کو متنازعہ قرار دیتے آ رہے ہیں۔ یہ اب کسی کو یاد نہیں کہ ہم نے من حیث القوم یہ عہد کیا تھا کہ اس مملکت میں سماجی مساوات ہو گی، معاشی عدل ہو گا، اسلامی اخوت ہو گی، انسانی حقوق کا تحفظ ہو گا، ظلم اور استحصال کا ہر صورت خاتمہ کر دیا جائے گا۔ ہم نے عہد کیا تھا کہ ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنا ملک چلائیں گے، ہماری اپنی سیاست اور اپنی معیشت ہو گی۔ لیکن ہم نے یہ سارے عہد پس پشت ڈال دیے۔ آج کڑوی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں معاشی لوٹ کھسوٹ کا دور دورہ ہے، آج ہمارے ملک میں رشوت اور سفارش کے بغیر عوام اپنے جائز کام کے لیے بھی دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔
آج ہماری اجتماعیت ختم ہو چکی ہے، ہر شخص اپنی ذات کے غم میں مبتلا ہے، ہر شخص کا قبلہ الگ اور ہر جماعت کا منشور جدا ہے، آج ہمارے حکمران اپنے وی آئی پی ٹھاٹ باٹ کے لیے ساری دنیا کے سامنے کشکول گدائی لیے پھر رہے ہیں اور غریب، غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری سیاست ہو یا معیشت، کچھ بھی تو آج آزاد نہیں ہے۔ کیا ہم نے نظریہ پاکستان کے مطابق وہ آزادی حاصل کر لی ہے جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں؟ ہمارے باہمی اختلافات اور ایک قومی منشور سے دوری دہشت گردوں کے لیے آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔ قائد اعظم کی آخری رہائش گاہ پر برسنے والے راکٹ شہر شہر گھر گھر برسنے کا انتظار کرنے سے بہتر ہے کہ دہشت گردوں کو لگام دینے کے لیے ہم سب ایک قومی تشخص اپنائیں اور اپنے ظاہری و باطنی اعمال و اتحاد کے ذریعے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ حکومت اور قومی سلامتی کے ادارے اپنا حقیقی کردار نبھائیں کیونہ اب پانی سر تک آ چکا ہے۔