ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت

سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بجٹ پیش کردیا ہے جسے ’’ عوامی بجٹ‘‘ کہا جاسکتا ہے...


G M Jamali June 19, 2013
فوٹو : فائل

سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بجٹ پیش کردیا ہے جسے '' عوامی بجٹ'' کہا جاسکتا ہے تاکہ صوبے کے لوگوں کو یہ احساس دلایا جاسکے کہ وفاقی حکومت نے ملک کے معاشی استحکام کے نام پر سارا بوجھ جس طرح عوام پر ڈال دیا ہے۔

پیپلز پارٹی اس طرح کے اقدامات کی مخالف ہے اور پیپلز پارٹی ہر حال میں عوام کو ریلیف دینے کے اپنے فلسفے پر کاربند ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنی سابقہ اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) کو سندھ حکومت میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت دے دی ہے اور صوبے میں اپنے مخالف مخصوص سیاسی حلقے کو ایک ایشو دے دیا ہے لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت مطمئن ہے کہ اس نے یہ اقدام صوبے کے عظیم تر مفاد میں کیا ہے۔

مالی سال 2013-14 کے لئے سندھ حکومت کے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے لئے کئی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔ گریڈ 1 سے گریڈ 15 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اور گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ معاشی مشکلات کے باوجود حکومت سندھ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اس وقت ہی اضافہ کا فیصلہ کرلیا تھا، جب وفاقی حکومت نے اضافے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اگرچہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت نے پیپلز پارٹی کی سابقہ وفاقی حکومت کے شہید بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس کے باوجود سندھ حکومت نے اسی طرز پر صوبے میں اپنا پروگرام بھی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ سندھ کے لوگوں میں یہ خوف ختم ہوجائے کہ وفاقی حکومت نے یہ پروگرام ختم کیا تو ان کا کیا ہوگا۔ سندھ کے بجٹ میں اس مد میں 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ آہستہ آہستہ اس پروگرام کو وسعت دی جائے گی اور سندھ میں اس کے لئے ایک مستقل فنڈ قائم کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس کا مقصد انتہائی غریب خاندانوں کو ماہانہ بنیاد پر نقد رقم کی صورت میں امداد فراہم کرنا ہے۔

غریب عوام کے لئے دوسرا بڑا پروگرام '' وسیلہ حق '' کے نام سے شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت صوبے کے 34 ہزار غریب افراد کو فی کس 3، لاکھ روپے بلا سود قرضہ فراہم کیا جائے گا۔ اس پروگرام کے لئے 10 ارب روپے بجٹ سے ہٹ کر مختص کئے گئے ہیں اور یہ رقم حکومت سندھ اپنے وسائل سے پورے کرے گی۔ غربت میں کمی کے لئے مزید کئی پروگرامز میں بڑی رقوم مختص کی گئی ہیں۔ غریب افراد کو 50 ہزار پلاٹس اور 10 ہزار مکانات فراہم کرنے کا بھی اعلان ہوا ہے۔ یونین کونسل کی سطح پر غربت کے خاتمے کے پروگرام کا دائرہ مزید تین اضلاع تک وسیع کردیا گیا ہے۔ یہ انتہائی کامیاب پروگرام ہے جسے ڈونر ایجنسیز نے سراہا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لئے جتنی توجہ سندھ میں دی گئی ہے شاید اور کہیں نہیں دی گئی۔

سماجی شعبوں خصوصاً تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے بھی بجٹ میں بہت زیادہ رقوم رکھی گئی ہیں۔ 617 ارب روپے کے بجٹ میں سے صرف تعلیم کے شعبے کے لئے 132 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے۔ اس طرح کل بجٹ کا 21 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔

اسی طرح صحت کے شعبے کے لیے 53 ارب روپے سے زیادہ مختص کئے گئے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے لئے مختص بجٹ 185 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ سندھ بجا طور پر اس بات پر فخر کرسکتا ہے۔ بجٹ میں امن وامان کے لئے 48 ارب روپے سے زیادہ رکھے گئے ہیں۔ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں خصوصاً تھرکول کو ترقی دینے کے منصوبوں کے لئے بھی خطیر رقم رکھی گئی ہے، جس سے سندھ حکومت کی اس خواہش کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ آئین کے تحت دیئے ہوئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے صوبے میں زیادہ سے زیادہ پاور پلانٹس لگانا چاہتی ہے۔ زرعی شعبے کی سبسڈیز کو بھی بجٹ میں جاری رکھا گیا ہے۔

سندھ بینک کے قیام کے بعد سندھ نے اپنی مضاربہ، لیزنگ اور انشورنس کمپنیاں قائم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس سے سندھ نہ صرف مالیاتی شعبے میں اپنی خدمات فراہم کرے گا بلکہ مقابلے کی فضا سے لوگوں کو بہتر خدمات میسر آئیں گے۔ سندھ حکومت ایک اور کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے اپنی ٹیکس مینجمنٹ بھی بہتر ہونے کا ثبوت دے دیا ہے۔ مالی سال 2012-13 کے دوران نہ صرف صوبائی ٹیکسوں کا ایک کھرب روپے سے زائد کا ہدف حاصل کرلیاگیا ہے ۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کی رہنمائی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگرصوبوں کو زیادہ سے زیادہ معاشی خودمختاری دی جائے تو وہ وفاق سے زیادہ لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں اور ان کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ اس لئے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور ان کی ٹیم کا یہ مؤقف ہے کہ مزید ٹیکس خصوصاً اشیاء پر جی ایس ٹی بھی صوبوں کو دیاجائے اور وفاق پر صوبوں کا مالیاتی انحصار کم کیا جائے کیونکہ اس انحصار کی وجہ سے صوبوں کے لئے اپنا مالیاتی انتظام چلانا مشکل ہوتا ہے۔ وفاقی حکومت اپنے ٹیکسوں کا ہدف حاصل نہیں کرسکی ہے۔

جس کی وجہ سے صوبوں کو ان کے حصے کی رقم نہیں ملی اور اس کا سندھ میں نقصان یہ ہوا ہے کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام ( اے ڈی پی) میں 84ارب روپے کی کٹوتی کرنا پڑی۔ اس صورت حال کے پیش نظر صوبوں کو زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری دینے کے معاملے پر اب پہلے سے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ تعلیم، صحت اور امن وامان سمیت لوگوں کی تمام ضرورتیں صوبے پوری کرتے ہیں۔

ادھر پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایک بار پھر سندھ میں اپنی مفاہمت کی پالیسی کے تحت ایم کیو ایم کو صوبائی حکومت میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت دے دی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے قبل ازیں پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کی قیادت سے بھی رابطہ کیا تھا اور اسے شمولیت کی دعوت دی تھی لیکن مسلم لیگ (فنکشنل) نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اپنا سیاسی اتحاد برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور وفاقی حکومت میں شامل ہونے کو ترجیح دی لیکن ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دینے پر سندھ قوم پرست حلقے پیپلز پارٹی پر بہت زیادہ تنقید کررہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر ایم کیو ایم کو کراچی میں قیام امن کی ضرورت کے تحت حکومت میں شامل کیا جارہا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایم کیو ایم کی حکومت میں شامل ہونے کے باوجود کراچی میں امن قائم نہیں ہوتا۔ قوم پرست حلقوں کا یہ بھی مؤقف ہے کہ ایم کیو ایم سندھ میں سابق صدر پرویز مشرف والا ضلعی حکومتوں کا نظام بحال کرانا چاہتی ہے جس کا پورا سندھ مخالف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف آپریشن بھی کرانا چاہتی ہے تاکہ کراچی میں اس کی سیاسی اجارہ داری کو کوئی چیلنج نہ کرسکے۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کی قیادت کا مؤقف ہے کہ سندھ میں رہنے والے لوگوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے یہ اقدام کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے حکومت میں شامل ہونے یا نہ ہونے پررابطہ کمیٹی کو تین روز میں ریفرنڈم کرانے کی ہدایت کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں