سیاست اور طاقت…
سیاست کے حوالے سے بہت سے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ ہمیں سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں،
سیاست کے حوالے سے بہت سے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ ہمیں سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں، لیکن بد قسمتی سے یہ ایک حقیقت ہے کہ عوام کو سیاست سے دلچسپی ہو یا نا ہو، مگر سیاست کو عوام ہی سے دلچسپی ہے، عوام سیاست کو پسند کریں یا نہ کریں سیاست ان کی زندگیوں پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس کو عوام نہ بھی کھیلنا چاہیں تو بھی اس کا لازمی جزو ہوتے ہیں۔
یہ سمجھنا کہ سیاست کا کھیل صرف پارلیمنٹ تک محدود ہے جس کو چند غالب طبقات ہی کھیل سکتے ہیں یہ ہماری قومی و عوامی بنیادی غلطی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے عوام ہر طرح کے مصائب کا شکار ہیں۔ یہ سیاست ہی ہے جو عوام کو سماج میں آگے بڑھنے یا آگے بڑھنے سے روک دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر صرف تعلیم کے شعبے پر ہی نظر ڈالی جائے تو بہت سے ایسے حقائق سامنے آئیں گے جو اس بات کا ثبوت ہیں ہماری درسگاہیں نہ تو خود یکساں معیارِ تعلیم فراہم کرتی ہیں اور نہ ہی ان میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو یکساں حصولِ علم کے مواقعے ملتے ہیں۔ اور آج کے جدید دور میں ماہرین کی طاقت سیاست پر قابض ہے۔ ماہرین کم از کم ہمارے ملک میں پسے ہوئے طبقات سے کبھی پیدا نہیں ہوئے، بلکہ ہمارے ملک میں پبلک اور پرائیویٹ دو سطح پر درسگاہیں بر سر اقتدار طبقات کی پیداوار کے لیے ایک صنعت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جس میں استحصالی طبقات کی پیداوار ممکن ہو سکے۔
ساخت شکنی اور ساخت سازی کا عمل طاقت کا متقاضی ہوتا ہے۔ کیونکہ طاقت کی بھی سیاست ہی کی طرح اپنی ساختیں ہیں، طاقت اور سیاست ایک دوسرے کی معاون ہوتی ہیں طاقت اپنے اظہار کے لیے جائز سیاسی ساختوں کو استعمال کرتی ہے اور سیاست طاقت کے ذریعے ناجائز کو جائز بناتی ہے۔
کیونکہ اس دور میں طاقت کے بلاواسطہ اظہار کی راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔ طاقت کا بلاواسطہ اظہار سیاسی اور بر سرِ اقتدار طبقات کے لیے کسی بھی سطح پر آج کے دور میں مفید نہیں رہا اس لیے ناجائز طاقت کو جائز قرار دینے کے لیے لوگوں کے اذہان کو مختلف طریقوں اور ذریعوں سے قائل کیا جاتا ہے اور اصل سماجی، معاشی اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی بجائے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں سائنسدانوں کو بین الاقوامی صنعتی سرمایہ داروں نے ملازم کے طور پر خرید کر اپنی پیداوار کی منڈی میں فروخت کی ضمانت بنایا ہوا ہے، مثلاََ اکثر سائنسی میگزین میں ایسے انٹرویو اور سرویز نظر سے گزرتے ہیں جن میں اکثر کھانے پینے کی اشیاء کے فائدے اور نقصان کی سائنسی وجوہات کو بیان کیا گیا ہوتا ہے، او ر یہ بیانات عموماََ سائنسدانوں کے اقوال سے وابستہ ہوتے ہیں یا انٹرویو کا حصہ ہوتے ہیں۔
ان میں بہت سے ایسے انٹرویو اور سرویز معاشی سیاست کا حصہ ہوتے ہیں، کیونکہ جس جنس کو انسانی صحت کے لیے کوئی سائنسی نتیجے کے طور پر یا سائنسدان کے قول کے مطابق اچھا کہہ دیا جاتا ہے لوگ اس کو اندھا دھند خریدنا شروع کر دیتے ہیں اسی طرح جن اجناس کے بارے میں سائنسی بنیادوں پر کہہ دیا جائے کہ مضرِ صحت ہیں ان کی منڈی میں قدر کم ہو جاتی ہے۔ لہذا جس طرح علم اور سائنس کی طاقت کسی جنس کی قدر متعین کرتی ہے اسی طرح سیاسی فیصلے معاشی طاقت کے ذریعے عوامی زندگی کی ساختیں متعین کرتے ہیں۔ لہذا کسی بھی قسم کی طاقت کو جائز قرار دینے کے لیے ایسی ساختیں بہت ضروری ہوتی ہیں جو عوام کے لیے قابلِ قبول ہوں۔
طاقت کا کوئی مخصوص مرکز نہیں ہوتا اگرچہ مختلف مراکز کو قائم کرنے میں معیشت بنیادی کردار ادا کرتی ہے، اسی لیے طاقت کبھی کبھی کسی فرد کو اپنا مسکن بناتی ہے تو کبھی کسی ادارے کو، جیسے ایک جج، منسٹر، کرنل جرنیل، وکیل، ڈاکٹر، بیوروکریٹ یا جرنلسٹ یہ سب افراد اپنے اپنے اداروں کی طرف سے دی گئی طاقت کے مرہونِ منت ہوتے ہیں، اسی طرح وزیر اعظم کی طاقت پارلیمنٹ کی دین ہوتی ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی غریب شخص طاقت کے ان مراکز تک اس لیے نہیں پہنچ پاتا، کیونکہ پرائمری کی تعلیم سے لے کر کسی بھی شعبے کی مہارت حاصل کرنے کے لیے جو پالیسیاں بنائی گئی ہوتی ہیں وہ سیاسی فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
اس لیے سیاست میں دلچسپی لینا ازحد ضروری ہے کیونکہ سیاست در حقیقت طاقت کا دوسرا نام ہے جو کسی بھی انسان کے معاشی حالات پر منحصر ہوتی ہے، کیونکہ معیشت ہی اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن بناتی ہے اور اعلیٰ تعلیم ہی کے ذریعے کسی شعبے میں مہارت کا حصول ممکن ہے، اور کسی بھی سطح پر کسی بھی عہدے تک جانے کے لیے مختلف مراحل میں دولت کا کردار اہم ہوتا ہے، حتیٰ کہ افرادی قوت بھی معاشی قوت کے تحت حاصل ہوتی ہے۔ اور معیشت ہی بنیادی اکائی اور طاقت ہے جس کے لیے اور جس کے ذریعے ماضی میں بھی مختلف اقوام ایک دوسرے پر غلبہ پاتی رہی ہیں اور آج بھی معاشی سطح پر مضبوط اقوام کی طاقت کے نمونے پوری دنیا میں جنگ و جدل اور قبضوں کی صورت میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
سیاست میں طاقت کو کسی بھی سطح پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ سیاسی عمارت کی بنیادی اینٹ طاقت ہوتی ہے۔ اس کے مختلف روپ اور سمتیں سماج میں مختلف سطح پر ہر لمحہ عمل آراء ہو کر ہماری زندگیوں میں معنی خیز تبدیلیوں کا سبب ہوتی ہیں، اس لیے طاقت اور سیاست سے بچنا ممکن نہیں، کیونکہ ہر سماج میں مختلف طبقات کی نہ صرف مختلف اقدار، آراء، رسم و رواج ، روایات ہوتی ہیں بلکہ مختلف مفادات بھی ہوتے ہیں اور مختلف مفادات پر مبنی اختلافات کو طاقت کے استعمال کے بغیر حل کرنا ممکن نہیں ہوتا، یہ طاقت چاہے عقل کسی بھی قسم کی ہو۔ جس نوع کا اختلاف ہوتا ہے اسی طرح کی طاقت کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ہم طاقت کو کسی ایک جملے یا ساخت میں بیان نہیں کر سکتے، کیونکہ اس کی جڑیں ہماری زندگیوں میں بہت گہری اور غیر واضح ہوتے ہوئے بھی واضح اثرات مرتب کر رہی ہوتی ہیں۔
ان کے اثرات کا اندازہ اس انسان کو ہوتا ہے جو ذاتی سطح پر ان سے دوچار ہوتا ہے کسی درسگاہ میں، کسی بینک میں کسی گورنمنٹ کے ادارے میں کسی اسپتال میں یا قانونی معاملات میں، حتی کہ جب منڈی میں روز مرہ اشیاء خریدی جاتی ہیں تو اس وقت معمولی سوچ رکھنے والا ذہن بھی سمجھ سکتا ہے کہ سیاسی فیصلوں میں چھپی طاقت کس طرح سے ہمیں جکڑے ہوتی ہے۔
اس وقت پاکستان کی منڈی میں بین الاقوامی اجناس کی بھر مار ہے، جو بین الاقوامی قیمتوں میں ہی فروخت ہو رہی ہیں۔ ہمارے عوام جن کو سیاست سے دلچسپی نہیں وہ سوچیں کہ وہ یہ مہنگی اشیاء بے روزگاری کے باوجود خریدنے پر کیوں مجبور ہیں؟ کیونکہ ان کے پاس دوسری کوئی چوائس نہیں اور کم از کم خورد و نوش کی اشیاء کو خریدنا ان کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔ ہماری ملکی منڈی میں غیر ملکی اجناس کے مقابل ملکی اجناس موجود ہی نہیں، ملکی اجناس کی عدم دستیابی کی وجہ سے غریب عوام ان مہنگی اشیاء کو خریدنے پر مجبور ہیں اور بہت سے فاقوں سے تنگ آ کر خود کشی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ملکی اجناس جو کہ کم قیمت پر دستیاب ہو سکتی تھیں ان کی عدم دستیابی قدرتی نہیں یا وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی فیصلوں کے تحت بجلی و گیس کی ہونے والی مصنوعی قلت کا نتیجہ ہے۔ بجلی و گیس کی موجودگی ہماری صنعت اور زراعت کی زندگی کی ضمانت ہوتی، مگر بجلی و گیس کی عدم دستیابی ایک بین الاقوامی آزاد منڈی کا سیاسی فیصلہ ہے جس کو ہمارے ملکی سیاستدانوں نے اپنے آقائوں کے کہنے پر ہماری عوام پر لاگو کیا ہوا ہے۔
بین الاقوامی سیاسی ساختیں معاشی طاقت سے لبریز ہیں اور اسی طاقت کے ذریعے بین الاقوامی سیاسی سرمایہ داروں نے ہمارے ملکی سیاستدانوں کو اقتدار کا لالچ دے کر اور کچھ کمزور ملکی معیشت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہماری منڈی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بجلی و گیس پیدا کرنے کے ہر طرح کے وسائل موجود ہونے کے باوجود مصنوعی قلت پیدا کی گئی ہے، تا کہ ہماری صنعت اور زراعت کا پیداواری ڈھانچہ ناکارہ کر دیا جائے، جس کے نتیجے میں بین الاقوامی مہنگی اجناس کے مقابل ہماری ملکی، مگر کم قیمت اجناس منڈی میں دستیاب نہیں ہو سکتیں، کیونکہ ان کی موجودگی میں ہمارے ملک کے غریب عوام بین الاقوامی منڈی کی قیمتوں پر دستیاب اشیاء ہر گز نہ خریدتے۔
اس بات سے عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ کس طرح سے بین الاقوامی سیاسی طاقتوں نے ہمارے ملک کی منڈی کو اپنے قبضے میں لے کر عوام کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ وہی اشیاء خریدیں جو بر سرِ اقتدار استحصالی طبقات کے سیاسی فیصلوں نے ان کے لیے پسند کی ہیں۔ اس مثال سے ہمارے عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ کس طرح سیاسی ساختوں کے ذریعے ناجائز طاقت کو جائز بنا کر عوام کی روز مرہ زندگی پر فیصلہ کن اثرات مرتب کیے جاتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ بین الاقوامی طاقتوں کا مقصد پاکستان کے معاشی بم (منڈی) کو کنٹرول کرنا تھا جس کے بعد ایٹم بم کی حیثیت ایک پٹاخے سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے ملک کا بچہ بچہ سیاست میں دلچسپی لے، جس کے ذریعے طاقت اپنا اظہار کرتی ہے اور آزاد قوموں کو غلام بناتی ہے، سیاست میں دلچسپی لینا در حقیقت اپنی زندگی میں دلچسپی لینے کے مترادف ہے۔
یہ سمجھنا کہ سیاست کا کھیل صرف پارلیمنٹ تک محدود ہے جس کو چند غالب طبقات ہی کھیل سکتے ہیں یہ ہماری قومی و عوامی بنیادی غلطی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے عوام ہر طرح کے مصائب کا شکار ہیں۔ یہ سیاست ہی ہے جو عوام کو سماج میں آگے بڑھنے یا آگے بڑھنے سے روک دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر صرف تعلیم کے شعبے پر ہی نظر ڈالی جائے تو بہت سے ایسے حقائق سامنے آئیں گے جو اس بات کا ثبوت ہیں ہماری درسگاہیں نہ تو خود یکساں معیارِ تعلیم فراہم کرتی ہیں اور نہ ہی ان میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو یکساں حصولِ علم کے مواقعے ملتے ہیں۔ اور آج کے جدید دور میں ماہرین کی طاقت سیاست پر قابض ہے۔ ماہرین کم از کم ہمارے ملک میں پسے ہوئے طبقات سے کبھی پیدا نہیں ہوئے، بلکہ ہمارے ملک میں پبلک اور پرائیویٹ دو سطح پر درسگاہیں بر سر اقتدار طبقات کی پیداوار کے لیے ایک صنعت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جس میں استحصالی طبقات کی پیداوار ممکن ہو سکے۔
ساخت شکنی اور ساخت سازی کا عمل طاقت کا متقاضی ہوتا ہے۔ کیونکہ طاقت کی بھی سیاست ہی کی طرح اپنی ساختیں ہیں، طاقت اور سیاست ایک دوسرے کی معاون ہوتی ہیں طاقت اپنے اظہار کے لیے جائز سیاسی ساختوں کو استعمال کرتی ہے اور سیاست طاقت کے ذریعے ناجائز کو جائز بناتی ہے۔
کیونکہ اس دور میں طاقت کے بلاواسطہ اظہار کی راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔ طاقت کا بلاواسطہ اظہار سیاسی اور بر سرِ اقتدار طبقات کے لیے کسی بھی سطح پر آج کے دور میں مفید نہیں رہا اس لیے ناجائز طاقت کو جائز قرار دینے کے لیے لوگوں کے اذہان کو مختلف طریقوں اور ذریعوں سے قائل کیا جاتا ہے اور اصل سماجی، معاشی اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی بجائے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں سائنسدانوں کو بین الاقوامی صنعتی سرمایہ داروں نے ملازم کے طور پر خرید کر اپنی پیداوار کی منڈی میں فروخت کی ضمانت بنایا ہوا ہے، مثلاََ اکثر سائنسی میگزین میں ایسے انٹرویو اور سرویز نظر سے گزرتے ہیں جن میں اکثر کھانے پینے کی اشیاء کے فائدے اور نقصان کی سائنسی وجوہات کو بیان کیا گیا ہوتا ہے، او ر یہ بیانات عموماََ سائنسدانوں کے اقوال سے وابستہ ہوتے ہیں یا انٹرویو کا حصہ ہوتے ہیں۔
ان میں بہت سے ایسے انٹرویو اور سرویز معاشی سیاست کا حصہ ہوتے ہیں، کیونکہ جس جنس کو انسانی صحت کے لیے کوئی سائنسی نتیجے کے طور پر یا سائنسدان کے قول کے مطابق اچھا کہہ دیا جاتا ہے لوگ اس کو اندھا دھند خریدنا شروع کر دیتے ہیں اسی طرح جن اجناس کے بارے میں سائنسی بنیادوں پر کہہ دیا جائے کہ مضرِ صحت ہیں ان کی منڈی میں قدر کم ہو جاتی ہے۔ لہذا جس طرح علم اور سائنس کی طاقت کسی جنس کی قدر متعین کرتی ہے اسی طرح سیاسی فیصلے معاشی طاقت کے ذریعے عوامی زندگی کی ساختیں متعین کرتے ہیں۔ لہذا کسی بھی قسم کی طاقت کو جائز قرار دینے کے لیے ایسی ساختیں بہت ضروری ہوتی ہیں جو عوام کے لیے قابلِ قبول ہوں۔
طاقت کا کوئی مخصوص مرکز نہیں ہوتا اگرچہ مختلف مراکز کو قائم کرنے میں معیشت بنیادی کردار ادا کرتی ہے، اسی لیے طاقت کبھی کبھی کسی فرد کو اپنا مسکن بناتی ہے تو کبھی کسی ادارے کو، جیسے ایک جج، منسٹر، کرنل جرنیل، وکیل، ڈاکٹر، بیوروکریٹ یا جرنلسٹ یہ سب افراد اپنے اپنے اداروں کی طرف سے دی گئی طاقت کے مرہونِ منت ہوتے ہیں، اسی طرح وزیر اعظم کی طاقت پارلیمنٹ کی دین ہوتی ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی غریب شخص طاقت کے ان مراکز تک اس لیے نہیں پہنچ پاتا، کیونکہ پرائمری کی تعلیم سے لے کر کسی بھی شعبے کی مہارت حاصل کرنے کے لیے جو پالیسیاں بنائی گئی ہوتی ہیں وہ سیاسی فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
اس لیے سیاست میں دلچسپی لینا ازحد ضروری ہے کیونکہ سیاست در حقیقت طاقت کا دوسرا نام ہے جو کسی بھی انسان کے معاشی حالات پر منحصر ہوتی ہے، کیونکہ معیشت ہی اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن بناتی ہے اور اعلیٰ تعلیم ہی کے ذریعے کسی شعبے میں مہارت کا حصول ممکن ہے، اور کسی بھی سطح پر کسی بھی عہدے تک جانے کے لیے مختلف مراحل میں دولت کا کردار اہم ہوتا ہے، حتیٰ کہ افرادی قوت بھی معاشی قوت کے تحت حاصل ہوتی ہے۔ اور معیشت ہی بنیادی اکائی اور طاقت ہے جس کے لیے اور جس کے ذریعے ماضی میں بھی مختلف اقوام ایک دوسرے پر غلبہ پاتی رہی ہیں اور آج بھی معاشی سطح پر مضبوط اقوام کی طاقت کے نمونے پوری دنیا میں جنگ و جدل اور قبضوں کی صورت میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
سیاست میں طاقت کو کسی بھی سطح پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ سیاسی عمارت کی بنیادی اینٹ طاقت ہوتی ہے۔ اس کے مختلف روپ اور سمتیں سماج میں مختلف سطح پر ہر لمحہ عمل آراء ہو کر ہماری زندگیوں میں معنی خیز تبدیلیوں کا سبب ہوتی ہیں، اس لیے طاقت اور سیاست سے بچنا ممکن نہیں، کیونکہ ہر سماج میں مختلف طبقات کی نہ صرف مختلف اقدار، آراء، رسم و رواج ، روایات ہوتی ہیں بلکہ مختلف مفادات بھی ہوتے ہیں اور مختلف مفادات پر مبنی اختلافات کو طاقت کے استعمال کے بغیر حل کرنا ممکن نہیں ہوتا، یہ طاقت چاہے عقل کسی بھی قسم کی ہو۔ جس نوع کا اختلاف ہوتا ہے اسی طرح کی طاقت کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ہم طاقت کو کسی ایک جملے یا ساخت میں بیان نہیں کر سکتے، کیونکہ اس کی جڑیں ہماری زندگیوں میں بہت گہری اور غیر واضح ہوتے ہوئے بھی واضح اثرات مرتب کر رہی ہوتی ہیں۔
ان کے اثرات کا اندازہ اس انسان کو ہوتا ہے جو ذاتی سطح پر ان سے دوچار ہوتا ہے کسی درسگاہ میں، کسی بینک میں کسی گورنمنٹ کے ادارے میں کسی اسپتال میں یا قانونی معاملات میں، حتی کہ جب منڈی میں روز مرہ اشیاء خریدی جاتی ہیں تو اس وقت معمولی سوچ رکھنے والا ذہن بھی سمجھ سکتا ہے کہ سیاسی فیصلوں میں چھپی طاقت کس طرح سے ہمیں جکڑے ہوتی ہے۔
اس وقت پاکستان کی منڈی میں بین الاقوامی اجناس کی بھر مار ہے، جو بین الاقوامی قیمتوں میں ہی فروخت ہو رہی ہیں۔ ہمارے عوام جن کو سیاست سے دلچسپی نہیں وہ سوچیں کہ وہ یہ مہنگی اشیاء بے روزگاری کے باوجود خریدنے پر کیوں مجبور ہیں؟ کیونکہ ان کے پاس دوسری کوئی چوائس نہیں اور کم از کم خورد و نوش کی اشیاء کو خریدنا ان کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔ ہماری ملکی منڈی میں غیر ملکی اجناس کے مقابل ملکی اجناس موجود ہی نہیں، ملکی اجناس کی عدم دستیابی کی وجہ سے غریب عوام ان مہنگی اشیاء کو خریدنے پر مجبور ہیں اور بہت سے فاقوں سے تنگ آ کر خود کشی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ملکی اجناس جو کہ کم قیمت پر دستیاب ہو سکتی تھیں ان کی عدم دستیابی قدرتی نہیں یا وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی فیصلوں کے تحت بجلی و گیس کی ہونے والی مصنوعی قلت کا نتیجہ ہے۔ بجلی و گیس کی موجودگی ہماری صنعت اور زراعت کی زندگی کی ضمانت ہوتی، مگر بجلی و گیس کی عدم دستیابی ایک بین الاقوامی آزاد منڈی کا سیاسی فیصلہ ہے جس کو ہمارے ملکی سیاستدانوں نے اپنے آقائوں کے کہنے پر ہماری عوام پر لاگو کیا ہوا ہے۔
بین الاقوامی سیاسی ساختیں معاشی طاقت سے لبریز ہیں اور اسی طاقت کے ذریعے بین الاقوامی سیاسی سرمایہ داروں نے ہمارے ملکی سیاستدانوں کو اقتدار کا لالچ دے کر اور کچھ کمزور ملکی معیشت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہماری منڈی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بجلی و گیس پیدا کرنے کے ہر طرح کے وسائل موجود ہونے کے باوجود مصنوعی قلت پیدا کی گئی ہے، تا کہ ہماری صنعت اور زراعت کا پیداواری ڈھانچہ ناکارہ کر دیا جائے، جس کے نتیجے میں بین الاقوامی مہنگی اجناس کے مقابل ہماری ملکی، مگر کم قیمت اجناس منڈی میں دستیاب نہیں ہو سکتیں، کیونکہ ان کی موجودگی میں ہمارے ملک کے غریب عوام بین الاقوامی منڈی کی قیمتوں پر دستیاب اشیاء ہر گز نہ خریدتے۔
اس بات سے عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ کس طرح سے بین الاقوامی سیاسی طاقتوں نے ہمارے ملک کی منڈی کو اپنے قبضے میں لے کر عوام کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ وہی اشیاء خریدیں جو بر سرِ اقتدار استحصالی طبقات کے سیاسی فیصلوں نے ان کے لیے پسند کی ہیں۔ اس مثال سے ہمارے عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ کس طرح سیاسی ساختوں کے ذریعے ناجائز طاقت کو جائز بنا کر عوام کی روز مرہ زندگی پر فیصلہ کن اثرات مرتب کیے جاتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ بین الاقوامی طاقتوں کا مقصد پاکستان کے معاشی بم (منڈی) کو کنٹرول کرنا تھا جس کے بعد ایٹم بم کی حیثیت ایک پٹاخے سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے ملک کا بچہ بچہ سیاست میں دلچسپی لے، جس کے ذریعے طاقت اپنا اظہار کرتی ہے اور آزاد قوموں کو غلام بناتی ہے، سیاست میں دلچسپی لینا در حقیقت اپنی زندگی میں دلچسپی لینے کے مترادف ہے۔