عمان کے بعد اسرائیل کا یو اے ای سے رابطہ

خلیجی عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے روابط اب راز داری سے نکل کر طشت ازبام ہو رہے ہیں۔

خلیجی عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے روابط اب راز داری سے نکل کر طشت ازبام ہو رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

اسرائیلی کابینہ کی ایک خاتون وزیرگزشتہ روز ابوظہبی کے دورے پر پہنچی ہیں جہاں ان کی ریاست کی سب سے بڑی مسجد میں مقامی حکام کے ہمراہ گھومتے ہوئے تصویر بھی اخبارات میں شایع ہوئی ہے۔ یہ دورہ اسرائیلی وزیر ثقافت و کھیل میری رگیو نے کیا ہے جب کہ مسجد کا نام شیخ زاید گرینڈ موسق ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ خلیج عرب کے ممالک کو ایران کے مقابلے میں اپنا فطری اتحادی محسوس کرتا ہے۔ اسرائیل کی جوڈو کراٹے ٹیم نے ابوظہبی میں کھیلتے ہوئے سونے کا تمغہ جیتا۔ اس جیت کی خوشی میں ابوظہبی میں اسرائیل کا قومی ترانہ بھی بجایا گیا حالانکہ اس ملک کے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ طور پر سفارتی تعلقات بھی قائم نہیں ہیں۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دونوں ملکوں میں طویل عرصہ سے غیراعلانیہ روابط قائم ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اسرائیل کے وزیر مواصلات ایوب کارا مواصلات کے عالمی دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے جلد دبئی آ رہے ہیں۔

واضح رہے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی اسی ہفتے سلطنت عمان کا دورہ کیا ہے۔ اسرائیل کے کسی وزیراعظم کا یہ دورہ 22 سال بعد ہوا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کئی مواقع پر خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ذکر کیا ہے۔


قبل ازیں اسرائیل کے صرف دو عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں وہ دو ممالک مصر اور اردن ہیں۔ مصر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے نتیجے میں امریکا نے مصر کے تمام غیر ملکی قرضے معاف کر دیے تھے۔

خلیجی عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے روابط اب راز داری سے نکل کر طشت ازبام ہو رہے ہیں' اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کا حالیہ دورہ عمان خفیہ تھا لیکن بعد میں دونوں ملکوں نے اس کی تصدیق کر دی' اب ابوظہبی میں اسرائیلی وزیر ثقافت کی آمد سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ عرب ممالک بتدریج اسرائیل کے نزدیک آ رہے ہیں' اسرائیل کو سفارتی سطح پر تسلیم کرنے والے دو عرب ملکوں مصر اور اردن کے علاوہ ترکی بھی شامل ہے۔

اب خلیجی عرب ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے جو رابطے منظرعام پر آئے ہیں' ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کم ہو گی اور ممکن ہے کہ ان روابط کے بطن سے فلسطین کا تنازعہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طے ہو جائے اور دنیا کے نقشے پر آزاد فلسطینی ریاست کا ظہور ہو جائے۔

 
Load Next Story